کرب فرقت روح سے جاتا نہیں

کرب فرقت روح سے جاتا نہیں
حل کوئی غم کا نظر آتا نہیں


کاش ہوتا علم یہ انسان کو
جو گزر جاتا ہے پل آتا نہیں


مٹ گیا شکوے سے لطف انتظار
اب ہمیں وہ راہ دکھلاتا نہیں


ہم وفائیں کر کے بھی ہیں شرمسار
وہ جفائیں کر کے شرماتا نہیں


درد وہ انعام ہے ساحلؔ کہ جو
ہر کسی انساں کو راس آتا نہیں