کیسی یہ روشنی ہے بکھرتی نہیں کبھی

کیسی یہ روشنی ہے بکھرتی نہیں کبھی
تاریک راستوں پہ تو پڑتی نہیں کبھی


کیسا یہ چھا گیا ہے مری زندگی پہ زنگ
کوشش ہزار پہ بھی اترتی نہیں کبھی


یکسانیت کا ہو گئی عنوان زندگی
بگڑی ہے ایسی بات سنورتی نہیں کبھی


رہتا ہے زندگی کو بہاروں کا انتظار
حرکات کج رواں سے تو ڈرتی نہیں کبھی


ہے عزم بھی بلند مصائب کے ساتھ ساتھ
چاہت مری مقام سے گرتی نہیں کبھی


حیراں اس حوصلے پہ بھی دل کے ہوں میں خلش
خواہش بھی ان کے پانے کی مرتی نہیں کبھی