کہو مآل آرزو ہو کیا اگر گھٹے نہ دم
کہو مآل آرزو ہو کیا اگر گھٹے نہ دم
کہ اپنے اختیار میں نہ عرض غم نہ ضبط غم
ترا کہیں پتہ نہیں اٹھیں تو کس طرف قدم
ادھر بڑھوں تو بت کدہ ادھر چلوں تو ہے حرم
ملے تھے شیخ و برہمن فریب ہیں تری قسم
اسے ہی دھن خدا خدا اسے لگن صنم صنم
ہزار کاوشوں پہ بھی ہے زندگی رہین غم
نفس نفس نظر نظر روش روش قدم قدم
خرد کی بات پہ نہ جا جنوں کے مے کدہ میں آ
یہاں نہ رسم پیش و پس نہ کوئی فکر بیش و کم
اٹھا نہ بار بندگی کہ محترم ہے زندگی
دھڑک رہا ہے دل اگر کھنک رہا ہے جام جم
ہوائے شوق تھم گئی ہوس کی میل جم گئی
کہاں وہ حشر آرزو نہ دل تپاں نہ آنکھ نم
یہی خلش ہے متصل سر چمن حدیث دل
کٹیں ہزار انگلیاں کریں گے ہم یوں ہی رقم
ہے ان سے بے تعلقی نہ دوستی نہ دشمنی
بتاؤ ہوشؔ کیا کریں کہیں کے اب رہے نہ ہم