کہہ چکے حال راز باقی ہے

کہہ چکے حال راز باقی ہے
ناز اٹھائے نیاز باقی ہے


منزل عشق طے ہوئی پھر بھی
راہ دور و دراز باقی ہے


تو نے نغمے بھی دل سے چھین لیے
تار ٹوٹے ہیں ساز باقی ہے


سجدوں سے بندگی نہیں ہوتی
سر جھکا ہے نماز باقی ہے


دل تو تیروں سے ہو گیا چھلنی
اور ابھی مشق ناز باقی ہے


صحبت شب تو ہو گئی آخر
ایک غم جاں گداز باقی ہے


ترک الفت کے باوجود حبیبؔ
دل میں ایک فتنہ ساز باقی ہے