کبھی طویل کبھی مختصر بھی ہوتی ہے
کبھی طویل کبھی مختصر بھی ہوتی ہے
ہر ایک رات کی لیکن سحر بھی ہوتی ہے
مجھے ازل سے ملا ایک تو مزاج جنوں
اور اک ادا تری دیوانہ گر بھی ہوتی ہے
نگاہ یار نے کیا کیا کھلا دئے ہیں گل
وہی رلاتی وہی چارہ گر بھی ہوتی ہے
عتاب دوست بھی کیوں کر عزیز ہو نہ مجھے
کرم کی اس میں چھپی اک نظر بھی ہوتی ہے
حبیبؔ آنکھ سے ٹپکی ہوئی یہ اشک کی بوند
جگر کا خون کبھی یہ گہر بھی ہوتی ہے