کبھی کبھی کوئی چہرہ یہ کام کرتا ہے
کبھی کبھی کوئی چہرہ یہ کام کرتا ہے
مرے بدن میں لہو تیز گام کرتا ہے
ہر ایک لفظ کو ماہ تمام کرتا ہے
مری زبان سے جب وہ کلام کرتا ہے
کئی دنوں کے سفر سے میں جب پلٹتا ہوں
وہ اپنے پورے بدن سے کلام کرتا ہے
بہت عزیز ہیں اس کو بھی چھٹیاں میری
وہ روز کوئی نیا اہتمام کرتا ہے
شکایتوں کی ادا بھی بڑی نرالی ہے
وہ جب بھی ملتا ہے جھک کر سلام کرتا ہے
میں مشتہر ہوں ستم گر کی مہربانی سے
وہ اپنے سارے ستم میرے نام کرتا ہے
کسی کے ہاتھ میں خنجر کسی کے ہاتھ میں پھول
قلم ہے ایک مگر کتنے کام کرتا ہے
جب اس سے ملتا ہوں دفتر کو بھول جاتا ہوں
ظفرؔ وہ باتوں ہی باتوں میں شام کرتا ہے