کام اب آتی نہیں ہے کوئی تدبیر کہ بس

کام اب آتی نہیں ہے کوئی تدبیر کہ بس
اس طرح روٹھی ہے مجھ سے مری تقدیر کہ بس


دشمن جاں بھی چلا آئے کھنچا آپ کے پاس
کیجئے آہوں میں پیدا کوئی تاثیر کہ بس


بعد مرنے کے کھلی رہ گئیں آنکھیں میری
اس قدر آپ نے کی آنے میں تاخیر کہ بس


ٹوٹ کر چور ہوا آئنۂ دل میرا
ہائے کچھ ایسی ملی خوابوں کی تعبیر کہ بس


رنج و غم درد و الم دیدۂ نم یار صنم
اور کچھ اس کے سوا ہے کوئی جاگیر کہ بس


جس کو فردوس زمیں کہتی تھی دنیا نازاںؔ
کیا وہی آج بھی ہے وادئ کشمیر کہ بس