اسلامی انقلابی فکر کی تجدید و تعمیل

پھر یہ تو ہماری تاریخ کا نہایت شاندار اور قابل فخر باب‘ اور نبی اکرم ﷺ کی تعلیم وتربیت کا عظیم مظہر ہے کہ خلافت کے ملوکیت میں تبدیل ہونے کے تدریجی عمل کے ہر مرحلے پر اصحابِ ہمت وعزیمت اس زوال اور انحطاط کو روکنے کے لیے اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے رہے۔

 

چنانچہ اولین مرحلے پر سیدنا حسین بن علی اور سیدنا عبد اللہ بن زبیر (رضی اللہ عنہم اجمعین) اور درمیانی اور آخری مراحل میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے حضرت زید بن علی اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے محمدبن عبد اللہ المعروف بہ نفس زکیہ اور ان کے بھائی ابراہیم بن عبد اللہ (رحمۃ اللہ علیہم اجمعین) نے اس زوال کو اپنی جانوں کی قربانی کے ذریعے روکنے کی کوشش کی _

 

 اور اگر ان تمام حضرات کی مساعی دنیوی اور فوری اعتبار سے نا کام ہو گئیں تو اس سے ان پر ہرگز کوئی حرف نہیں آتا، اس لیے کہ دنیوی اور فوری اعتبار سے تو ان سے پہلے بے شمار انبیاء کرام علیہم السلام ھی دنیا سے ’’نا کام‘‘ ہی گزر گئے تھے!

 

افسوس ہے کہ آج کے دور میں بعض کم ظرف اور کم ہمت بلکہ بد باطن لوگ ان نفوسِ قدسیہ کا ذکر توہین آمیز انداز میں کر کے اور ان کے عظیم کارناموں کو خود ساختہ فقہی اور قانونی معیار پر پرکھنے کی کوشش کر کے اپنے خبث ِباطن کا اظہار کرتے ہیں۔

 

 اپنی کور چشمی کے باعث وہ اس تاریخی حقیقت کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں کہ فقہ اسلامی کے دونوں اولین ائمہ‘ یعنی فقہاء اسلام کے سید الطائفہ اور ’’امام اعظم‘‘ حضرت ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ اور حدیث نبویؐ کا پہلا مجموعہ مرتب کرنے والے امام دار الہجرت حضرت مالک ابن انس رحمہ اللہ علیہ نے حضرت نفس زکیہ رحمہ اللہ علیہ سے دامے درمے سخنے تعاون کیا تھا.، جس سے بآسانی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اگر ان حضرات کو حسین بن علی اور عبد اللہ بن زیبر رضوان اللہ علیہم اجمعین کا زمانہ ملا ہوتا تو ان کا طرزِ عمل کیا ہوتا!

 

چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ جیسے ’’ایمان‘‘ کے لطیف اور ماورائی حقائق کو ارسطو کی منطق کی محدود میزان میں تولنا نا ممکن ہے‘ اسی طرح ان حضرات کی منوں ہی نہیں ٹنوں وزنی عزیمت کو ملوکیت کے ’’نازک مزاجِ شاہاں تابِ سخن نہ دارد‘‘ والے دور میں پروان چڑھنے والی ’’فقہ‘‘ کی سناروں والی نازک ترازو میں تولنے کی کوشش کرنا حماقت ِمحض ہے !

 

بہر حال جب عالم اسلام میں حدیث نبویؐ کے الفاظ میں ’’کاٹ کھانے والی ملوکیت‘‘ اور ’’جابرانہ بادشاہت‘‘ کا نظام مستحکم اور متمکن ہو گیا اور اس کی پہلوٹھی کی بیٹی بھی جوان ہو گئی‘یعنی جاگیرداری بھی پوری طرح رائج ہو گئی‘ اور عوام کو اس ظالمانہ استبدادی نظام کو ایک امر واقعی کی حیثیت سے عملاً قبول کرنا پڑا تو اس کے لازمی اور منطقی نتیجے کے طور پر مسلمانوں کے دینی تصورات میں بھی تنزل کا عمل شروع ہو گیا۔

 

یوں اسلام رفتہ رفتہ ’’دین‘‘ کی بجائے صرف ایک ’’مذہب‘‘ کی صورت اختیار کرتا چلا گیا جس کا اصل موضوع ’’عبادات اور رسومات‘‘ ہوتی ہیں نہ کہ ریاست و سیاست! ہوتے ہوتے یہ بات تقریباً اصولِ موضوعہ کی حیثیت سے تسلیم اور قبول کر لی گئی کہ حکومت کا معاملہ تو علامہ ابن خلدونؒ کی اصطلاح کے مطابق صرف ’’عصبیت‘‘ ہی کی بنیاد پر چل سکتا ہے اور اس میدان میں تو لا محالہ ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ ہی کے اصول پر عمل ممکن ہے۔

 

 رہے ’’علماءِ دین‘‘ تو ان کا کام اوّل تو ان امراء وسلاطین کی ’’سول سروس‘‘ میں خطیبوں‘ مفتیوں اور قاضیوں کی خدمات سر انجام دینا ہے۔

 جو لوگ اس سے آگے بڑھ کر ’’دین کی خدمت‘‘ کی ہمت اور حوصلہ رکھتے ہوں وہ علوم اسلامی یعنی تفسیر‘ حدیث‘ فقہ اور علم کلام کو اپنی جولاں گاہ بنائیں ‘یا اگر اس کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں تو عوام کو وعظ ونصیحت اور تعلیم وتلقین کے ذریعے محبت ِالٰہی‘ اتباعِ رسولؐ اور ترجیح آخرت کی ’’دعوت‘‘ دیں اور ’’تذکیر‘‘ کا فریضہ ادا کرتے رہیں_

 

اور جو اس سے بھی زیادہ ہمت اور عزیمت کے مالک ہوں وہ تزکیہ نفس اور سلوک کے مراحل خود بھی طے کریں اور دوسروں کو بھی کرائیں اور اس مقصد کے لیے خانقاہیں آباد کر کے بیٹھ رہیں۔ اللہ اللہ خیر سلا !

رہی سیاست اور حکومت تو یہ ’’دنیا داروں‘‘ کا کام ہے‘ اور اس سے بھی آگے بڑھ کر ’’نظام‘‘ کو بدلنے کی کوشش تو ’’خروج‘‘ اور بغاوت ہے‘ جو کفر اور ارتداد سے بس کچھ ہی کم تر ہے !

 

اس تصور کے تحت ایک جانب ؎

 

ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی

ہوس کی امیری‘ ہوس کی وزیری

 

کے مطابق سلاطین وامراء اور منصب داروں اور سپہ سالاروں میں عیاشی وسفاکی اور ہوسِ ملک گیری بڑھتی چلی گئی‘ اور دوسری جانب مذہب صرف ایک ’’پیشہ‘‘ بن کر رہ گیا۔

اس کے ضمن مین معاصرانہ چشمک اور پیشہ ورانہ رقابت اور پھر مدرسہ وخانقاہ کی تقسیم اور ان کی باہمی منافرت کے باعث اخلاقی زوال کا عمل جس قدر جلد شروع ہوا اور جتنی تیزی سے بڑھا اس کا اندازہ طبقہ تبع تابعین سے تعلق رکھنے والے حضرت عبد اللہ بن مبارکؒ کے اس شعر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ؎

 

وما افسد الدّین الا الملوک

واحبارُ سوئٍ و رُھبانھا

 

جس کی بہترین ترجمانی کی ہے ترجمانِ حقیقت علامہ

 

 اقبال نے اپنے اس شعر میں کہ ؎

 

باقی نہ رہی تیری وہ آئینہ ضمیری

اے کُشتۂ سُلطانی و مُلّائی و پیری!

 

یہ امر یقینا بہت قابل غور ہے کہ اگر یہ مرض تبع تابعین کے دور ہی میں شروع ہو گیا تھا‘ جس کا شمار ’’خیر القرون‘‘ میں ہوتا ہے ‘تو ع

 ’’قیاس کن زگلستانِ من بہار مرا!‘

 

‘ کے مصداق بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مزید ایک ہزار برس کا عرصہ گزر جانے کے بعد نوبت کہاں تک پہنچ گئی ہو گی !

 

الغرض‘ اب سے لگ بھگ تین سو برس قبل اِدھر عالم اسلام میں تو دینی و اخلاقی زوال اور قومی وسیاسی اختلال کی تاریکیاں ؏ ’’ زینہ زینہ اتر رہی تھی رات‘‘ کے مانند شدید سے شدید تر ہوتی چلی جا رہی تھیں اور فی الجملہ وہ صورت پیدا ہو چکی تھی جس کا نقشہ علامہ اقبال نے ان الفاظ میں کھینچا ہے کہ ؎

 

پیش ما یک عالم فرسودہ است

ملت اندر خاکِ او آسودہ است !

 

لیکن اُدھر وسطی یورپ میں ہسپانیہ کے ان مسلمانوں کے زیر اثر جو قرطبہ اور غرناطہ کی یونیورسٹیوں کے ذریعے یورپ کو بیدار کر کے خود خوابِ خرگوش کے مزے لوٹنے کے باعث ؏ ’’ تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں!‘‘ کی عبرتناک مثال بن چکے تھے‘ اصلاحِ مذہب اور احیاء العلوم کا غلغلہ بلند ہوا‘ جس کے نتیجے میں ایک جانب سائنس اور ٹیکنالوجی نے تیزی سے ترقی کرنی شروع کی اور دوسری جانب انسانی حقوق بالخصوص حریت کا تصور اجاگر ہونا شروع ہوا۔

 

سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے جو ’’قوت کا دباؤ ‘‘ بڑھا اس نے مغربی استعمار کی صورت میں افریقہ اور ایشیا کا رخ کر لیا اور اب سے تقریباً ڈھائی سو برس قبل سوائے سلطنت ِعثمانیہ کے تقریباً پورا عالم اسلام اس کے زیر نگیں آ گیا۔ لیکن عجیب اور دلچسپ تضاد یہ ہے کہ گھر سے باہر بد ترین نو آبادیاتی نظام کے قیام کے ساتھ ساتھ اہل یورپ نے خود اپنے گھر کے اندر انسانی حقوق کی بازیافت اور ظلم وجبر اور استبداد واستحصال کے خاتمے کی بھر پور جدو جہد شروع کر دی۔

 

اس انقلابی جد وجہد کا پہلا نتیجہ اب سے دو سو سال قبل انقلاب فرانس کی صورت میں ظاہر ہوا ‘جس سے دنیا میں بادشاہت اور جاگیرداری کے خاتمے اور جمہوریت کی مختلف صورتوں کے رواج کا آغاز ہوا۔ لیکن چونکہ اس کے ساتھ ہی سائنسی ترقی کے نتیجے میں ’’صنعتی انقلاب‘‘ بھی رونما ہو چکا تھا لہٰذا اس جمہوریت نے عملی اعتبار سے ’’سرمایہ داروں کی آمریت‘‘ اور ؏ ’’ دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب‘‘ کی صورت اختیار کر لی‘ جس کا شدید ردّ عمل اس صدی کے آغاز میں ’’انقلابِ روس‘‘ کی صورت میں ظاہر ہوا۔

 

یہ وہ وقت تھا جب بر ِعظیم پاک و ہند کے اس منظر پر علامہ اقبال فکر ِاسلامی کی تجدید اور ’’الٰہیاتِ اسلامیہ کی تشکیل ِجدید‘‘ کے دعوے اور اسلامی انقلاب کی زور دار دعوت کے ساتھ نمودار ہوئے‘ جس کے پس منظر میں تصوفِ اسلامی اور الف ِثانی کے مجدد شیخ احمد سر ہندی‘ علوم اسلامی کے مجددِ اعظم شاہ ولی اللہ دہلوی اور جہادِ اسلامی کے مجدد سید احمد بریلوی رحمہم اللہ کی تین سو سالہ تجدیدی مساعی کے اثرات موجود تھے