جگنوؤں کا حرف میری آنکھ میں اترا نہ تھا

جگنوؤں کا حرف میری آنکھ میں اترا نہ تھا
رات کا اندھا سفر تھا پاؤں میں رستہ نہ تھا


زرد لمحوں کی تھکن میں آنگنوں کی آس تھی
رات تھی جنگل کی سر پر چاند بھی نکلا نہ تھا


آج تنہائی کے اجڑے موڑ پر ٹھٹکا ہوا
سوچتا ہوں میں نے اس کو ٹوٹ کر چاہا نہ تھا


اس کے آئینے سے جس دم رات کا پہرہ اٹھا
بے نشاں آواز تھی جس میں کوئی لہجہ نہ تھا


رات کا پچھلا پہر تھا جب شجر کاٹا گیا
نیند ایسی تھی کہ پنچھی کوئی بھی چیخا نہ تھا