جدائی کے عذاب کا پہلا دن

گئی رتوں کے اداس لمحوں
قریب آؤ قریب آؤ
اتر کے میری اجاڑ آنکھوں میں اشک آسا ٹپکتے جاؤ
میرے بدن کی پرانی پگڈنڈیوں پہ چلتے
کسی مسافر کی پرانی پگڈنڈیوں پہ چلتے
کسی مسافر کی تیز قدمی سے ریزہ ریزہ بکھرتے پتو
یہ یاد رکھنا کہ اب ابد تک
تمہارے بیمار زرد چہروں پہ پائمالی کی بے نشاں مہر لگ چکی ہے
ہوائے سرما کی چیرہ دستی سے بے نیاز و بے لباس شاخو
میں جانتا ہوں
کہ تم کو آتی رتوں کی خاطر
ہرے لبادوں کی جستجو ہے
نئے نگینوں کی آرزو ہے
مگر ابھی تو عقاب جیسی خزاں کے پنجے لہو میں غلطاں بدن زمیں میں گڑے ہوئے ہیں
ابھی شگوفوں کی گھنٹیوں کی صدائیں کانوں کو نارسا ہیں
کہاں ہو تم میری خواہشوں کے بے بال و پر بے گنہ فرشتو
قریب آؤ قریب آؤ
قریب اتنا کہ میری سانسیں
تمہارے اجلے فراخ ہاتھوں پہ نم کا اک جال سا بچھا دیں
خود اپنی آنکھوں سے دیکھ جاؤ
کہ کب سے میرے لبوں پہ خاموشیوں کے جالے تنے ہوئے ہیں
میں کب سے پھیلائے ہاتھ اپنے بھکاریوں کی طرح کھڑا ہوں
مرے لیے یہ جدائیوں کے عذاب چکھنے کا پہلا دن ہے
طلوع ہوتے ہوئے اندھیرو
غروب ہوتے ہوئے سویرو
بس آج سب مجھ سے منہ نہ پھیرو