جوہری ہتھیاروں پر پابندی

جوہری ہتھیاروں پر پابندی کا معاہدہ، 22 جنوری 2021 کو نافذ ہوا اور بہت سے لوگ اسے ایک نئے جوہری آرڈر کے آغاز کے طور پر  دیکھ رہے ہیں۔  یہ معاہدہ اپنی نوعیت کا پہلا معاہدہ ہے جس میں جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور قبضے پر مکمل پابندی عائد کی گئی ہے اور یہ ایسے ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے 50 سال  کے  جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ جوہری ہتھیار رکھنے والی ریاستوں کی بالادستی اور اخلاقی استثنیٰ کو چیلنج کرتا ہے۔ اس معاہدے کا تجزیہ کرنے اور یہ دیکھنے سے پہلے کہ یہ کتنا نافذالعمل ہے،  ہم  جوہری ہتھیاروں کے خلاف عالمی قوانین کا ارتقا دیکھ لیتے ہیں۔

جوہری قانون کا ارتقاء: PTBT سے TPNW تک

ہیروشیما اور ناگاساکی  پر پہلی اور واحد بار جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے بعد، بین الاقوامی برادری میں اس طرح کے ہتھیاروں سے تباہی کے پیمانے کے بارے میں خدشات پیدا ہوئے اور ساتھ ہی یہ خدشات بھی کہ وہ ایک اور عالمی جنگ کا آغاز کر سکتے ہیں۔   اس خدشے کی بنیاد پر عالمی فورمز  مثلاً  اقوام متحدہ میں اس مہلک ہتھیار کے خلاف قانون سازی کا  آغاز ہوا۔   جوہری ہتھیاروں کے خلاف قانون سازی ایک ایسا شعبہ ہے جس میں گزشتہ سات دہائیوں کے دوران نمایاں ارتقاء ہوا ہے۔ نیوکلیئر ریگولیشن شروع کرنے کی کوششیں 1963 میں جزوی نیوکلیئر ٹیسٹ بین ٹریٹی (PTBT) کے ساتھ شروع ہوئیں جس نے فضا، بیرونی خلا اور پانی کے اندر جوہری ہتھیاروں کے ٹیسٹ پر پابندی لگا دی۔گو کہ اس معاہدے کو عالمی لیول پر قبولیت ملی لیکن کچھ ریاستیں جیسا کہ فرانس اور چین اس کے فریق نہیں بنے۔

           

اس قانون سازی کے ضمن میں ایک اہم اور بنیادی معاہدہ 1970 کا جوہری عدم پھیلاؤ معاہدہ (NPT) تھا جس کا مقصد جوہری ہتھیاروں اور جوہری ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ کو روکنا تھا۔معاہدے کے تحت، غیر جوہری ریاستوں کو جوہری ہتھیار تیار یا حاصل نہیں کرنا تھے اور جوہری ہتھیار رکھنے والی ریاستوں کو نیک نیتی کے ساتھ مذاکرات کو آگے بڑھانا تھا،  تاکہ وہ بالآخر مکمل جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کا باعث بنیں۔  191 عالمی دستخط کنندگان ہونے کے باوجود، یہ معاہدہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے کیونکہ جوہری ہتھیار رکھنے والی ریاستوں  نے ان کے خاتمے کی سمت میں کبھی پیش رفت نہیں کی۔ مزید برآں، جوہری ہتھیار رکھنے والی ریاستوں، جیسے کہ بھارت اور پاکستان نے کبھی بھی اس پر دستخط نہیں کیے۔ دونوں ممالک کا موقف ہے کہ یہ  معاہدہ ان ممالک کی قیمت پر جو اپنے جوہری ہتھیار تیار نہیں کر سکے، ان ممالک تک اس ٹیکنالوجی کو محدود رکھنے کا ذریعہ ہیں جو  اسے حاصل کر چکے ہیں۔ اسی طرح اسرائیل جس نے کبھی جوہری ہتھیار رکھنے کا باضابطہ طور پر اعلان نہیں کیا وہ بھی اس کا فریق نہیں ہے جبکہ شمالی کوریا نے غیر قانونی جوہری ہتھیاروں کا پروگرام شروع کرکے معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پکڑے جانے کے بعد اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔

PTBT اور NPT کے علاوہ، دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کے لیے دوسرے معاہدات بھی   کیے گئے ہیں۔ ان میں جامع نیوکلیئر ٹیسٹ بین ٹریٹی (CTBT) اور فسائل میٹریل کٹ آف ٹریٹی (FMCT) شامل ہیں۔ CTBT تمام  عالم میں جوہری ٹیسٹنگ پر پابندی لگا کر PTBT کے دائرہ کار کو بڑھاتا ہے۔تاہم،  یہ اب تک لاگو نہیں کیا جا سکا۔ کیونکہ اس معاہدے پر 44 ریاستوں کے دستخط کرنے کی شرط پوری نہیں کی گئی ۔ مزید برآں دیگر ایٹمی طاقتوں جیسے امریکہ، چین اور اسرائیل نے اس کی توثیق نہیں کی۔ دوسری طرف ایف ایم سی ٹی نے جوہری ہتھیاروں میں استعمال کے لیے فِسائل مواد کی تیاری پر پابندی کی تجویز پیش کی ہے۔ یہ معاہدہ کبھی بھی مذاکرات کے مرحلے سے آگے نہیں بڑھ سکا کیونکہ پاکستان نے  اس میں امتیازی نوعیت کا حوالہ  دیتے ہوئے اس پر ہونے والی کانفرنس کو بار بار روک دیا ہے۔

سابقہ  معاہدوں  کی ان سب کمیوں اور پچھلے معاہدوں کے جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور عدم پھیلاؤ کے  سلسلے میں   نا کافی پاتے ہوئے، 2017 میں  جوہری ہتھیاروں کو مکمل بین کرنے کا معاہدہ TPNW  کو 2017 میں  دستخط اور منظور کرنے کے لیے دیا گیا۔ تاہم جوہری ہتھیار رکھنے والی کسی بھی ریاست نے ابھی تک اس پر دستخط یا توثیق نہیں کی ہے اور نہ ہی ایسا کرنے کا امکان ہے۔

TPNW کے نافذ العمل ہونے کے امکانات:

نیوکلیئر ہتھیاروں  کے مخالف  افراد اس معاہدے کے حق میں دلائل دیتے ہوئے امید کرتے ہیں کہ جیسے جیسے زیادہ سے زیادہ ممالک معاہدے کے فریق بنتے جائیں گے، اس کی دفعات روایتی بین الاقوامی قانون کا حصہ بن جائیں گی۔ نتیجے کے طور  پر وہ مقام آئے گا جہاں ایٹمی ہتھیار رکھنے والی ریاستیں بھی اپنے جوہری ہتھیاروں کے پروگراموں کو ترک کرنے کی پابند  ہو جائیں  گی۔ یہ نظریہ حد سے زیادہ یوٹوپیائی ہے کیونکہ روایتی بین الاقوامی قانون،  اجازت پر  منحصر ہے۔ یعنی، عالمی معاہدات کے ذریے نافذ ہونے والا قانون، اس وقت تک ریاست پر نافذ نہیں ہوتا جب تک وہ اس معاہدہ کا حصہ بن کر اس قانون  کے خود پر اطلاق کی اجازت نہ دے دے۔ مزید براں ریاستوں کے پاس کسی عالمی روایت کے خلاف مستقل اعتراض کا حق بھی موجود ہوتا ہے۔  اس اصول کے تحت اگر کوئی ریاست کسی عالمی روایت پر  اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس پر مستقل اعتراض کرے تو یہ روایت اس ملک پر نافذ نہیں سمجھی جاتی۔

جوہری ہتھیار رکھنے والی ریاستوں کے بیانات اور یہ حقیقت کہ ان میں سے کسی نے بھی اس کے مذاکراتی مرحلے میں حصہ نہیں لیا ، ظاہر کرتا ہے کہ TPNW کے حوالے سے ان پر مستقل اعتراض کرنے والا اصول لاگو ہوتا ہے۔

 

پاکستان کی پوزیشن

اس آرٹیکل میں جن تمام جوہری معاہدوں کا حوالہ دیا گیا ہے، ان میں سے پاکستان صرف پی ٹی بی ٹی پر دستخط کنندہ ہے۔ پاکستان نے مبینہ طور پر امتیازی نوعیت کا حوالہ دیتے ہوئے NPT سے انکار کر دیا ہے۔ پاکستان این پی ٹی پر دستخط نہ کرنے کی وجہ اپنے دفاع کے حق کو بھی بتاتا ہے۔ این پی ٹی کے برعکس، سی ٹی بی ٹی کے حوالے سے پاکستان کا موقف زیادہ سازگار ہے۔ دستخط کنندہ نہ ہونے کے باوجود، پاکستان نے ہمیشہ ٹیسٹ پر پابندی کے حق میں بات کی ہے اور ٹیسٹنگ پر یکطرفہ موقوف قائم کیا ہے۔پاکستان نے ہمیشہ کہا ہے کہ وہ سی ٹی بی ٹی پر اس وقت تک دستخط کرے گا جب تک بھارت ایسا کرتا ہے۔ حالیہ دنوں میں پاکستان نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ اس موقف کو ہندوستان کے ساتھ دو طرفہ معاہدے میں تبدیل کرنے پر غور کرے گا۔

جہاں تک TPNW کا تعلق ہے، جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے، پاکستان اس معاہدے کا فریق نہیں ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے حال ہی میں کہا ہے کہ پاکستان معاہدے کی شرائط کا پابند نہیں ہے۔ اس معاہدے کے حوالے سے پاکستان کے تحفظات یہ ہیں کہ جوہری ہتھیار رکھنے والی کوئی بھی ریاست اس کے مذاکرات میں شامل نہیں تھی، اور یہ کہ یہ معاہدہ "ہر ریاست کے اہم تحفظات کا  احاطہ کرنے میں ناکام ہے۔"

روایتی بین الاقوامی قانون کی ممکنہ ترقی کے حوالے سے، دفتر خارجہ نے زور دے کر کہا کہ "پاکستان اس بات پر زور دیتا ہے کہ یہ معاہدہ نہ تو کسی بھی طرح سے روایتی بین الاقوامی قانون کا حصہ بنتا ہے اور نہ ہی اس میں تعاون کرتا  ہے"

 

اس لیے، یہاں تک کہ اگر TPNW اپنی مرضی کے مطابق ہو، پاکستان کو ایک مستقل اعتراض کرنے والا سمجھا جائے گا، اور TPNW سے وابستہ توقعات اور ذمہ داریاں اس پر لاگو نہیں ہوں گی۔

پابندی کی طرف ایک قدم؟

TPNW کے بارے میں یہ اعتراض کیا جا رہا ہے کہ یہ زمینی حقائق اور ریاستوںخاص طور پر نو جوہری ہتھیاروں والی ریاستوں کی سیکورٹی کے تحفظات کا احاطہ کرنے میں ناکام ہے۔ اس اعتراض کا اظہار تمام جوہری ہتھیار رکھنے والی ریاستوں کے ساتھ ساتھ نیٹو جیسی بین الاقوامی  تنظیم  نے بھی کیا ہے       

TPNW کے حامی اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں کہ جوہری تاریخ، ریاستوں کی قائم کردہ بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی کرنے کی مثالوں سے بھری ہے۔ مثال کے طور پر، 1998 میں، روس نے، NPT کا ایک فریق ہونے کے باوجود، جوہری ری ایکٹر بھارت کو منتقل کر دیا، حالانکہ مؤخر الذکر NPT کا فریق نہیں ہے۔اسی طرح، حالیہ برسوں میں، امریکہ بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کر رہا ہے کیونکہ وہ بھارت کو چین کی ترقی پر قابو پانے کے لیے ایک متوازن اتحاد کا حصہ سمجھتا ہے۔ اس کی ایک واضح مثال 2008 میں امریکہ بھارت نیوکلیئر ڈیل تھی جس کے تحت امریکہ نے بھارت کے این پی ٹی کا رکن نہ ہونے کے باوجود دوہری استعمال کی جوہری ٹیکنالوجی بھارت کو منتقل کی تھی۔ اسی طرح امریکہ بھی نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت حاصل کرنے کے سلسلے میں ہندوستان کی حمایت کر رہا ہے، جو  قائم کردہ جوہری اصولوں کے مطابق، NPT کا فریق بننے پر بھی مستعد ہے۔ یہ مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ انصاف اور   اخلاقیات اور مفادات کی جنگ میں ،  اقوام کے مفادات ہی فتح مند رہے ہیں۔

 تاہم ، کوئی بھی اس حقیقت کو رد نہیں کر سکتا کہ TPNW نے، پہلی بار، جوہری ہتھیاروں اور تخفیف اسلحہ سے متعلق بات چیت میں عالمگیریت کا احساس دلایا ہے۔ یہ جوہری ریاستوں کے ساتھ تجارت، سرمایہ کاری اور سیاحتی بات چیت کے ذریعے تخفیف اسلحہ کی بات چیت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے تاکہ انہیں معاہدے کی توثیق پر آمادہ کیا جا سکے۔ یہ ایک مشکل (اور شاید ناممکن) کام ہوگا لیکن  اس کے لیے سول سوسائٹی اور سیاسی اداروں کے درمیان تعاون کے ساتھ ساتھ سیاسی عزم کی ضرورت ہوگی تاکہ جوہری ہتھیار  روکنے کے مطالبات کو آگے بڑھایا جاسکے۔