جسم دیوار ہے دیوار میں در کرنا ہے

جسم دیوار ہے دیوار میں در کرنا ہے
روح اک غار ہے اس غار میں گھر کرنا ہے


ایک ہی قطرہ تو ہے اشک ندامت کا بہت
کون سے دشت و بیابان کو تر کرنا ہے


جلتے رہنا بھی ہے دیوار پہ فانوس کے بن
بے زرہ معرکۂ باد بھی سر کرنا ہے


خاک ہو جانے پہ اے خاک بسر کیوں ہو بضد
کیا تمہیں دوش ہوا پر بھی سفر کرنا ہے


اب ان آنکھوں میں وہ دریا کہاں وہ چشمے کہاں
چند قطرے ہیں جنہیں لعل و گہر کرنا ہے


فتح گلزار مبارک ہو مگر یاد رہے
ابھی نا دیدہ بیابان بھی سر کرنا ہے


کچھ تو ہے رنگ سا احساس کے پردے میں نہاں
جس کو منظر کی طرح وقف نظر کرنا ہے


گل نوخیز کو تیشہ بھی بنا دے یارب
سنگ لب بستہ کے سینے میں اثر کرنا ہے


ایک نیزے پہ لگانے ہیں کئی میوۂ سر
ایک ٹہنی کو ثمر دار شجر کرنا ہے