جس رہ گزر سے گزرے وہی خار دار تھی

جس رہ گزر سے گزرے وہی خار دار تھی
یہ زندگی سکون کا اک انتظار تھی


ہیں اب جہاں عروج پہ نفرت کی آندھیاں
اس شہر کی فضا بھی کبھی سازگار تھی


گر میرے لوٹنے کا تجھے کچھ گلہ نہ تھا
کیوں روکتی نگاہ تری بار بار تھی


پلٹے ہیں جاں جو شہر وفا سے بچا کے ہم
کچھ ساتھ اپنے رحمت پروردگار تھی


کس طرح کرتا یاد کو سوچوں سے تو جدا
فرخؔ تری تو فکر بھی بے اختیار تھی