جن کی تعبیر نہ ہو خواب وہ آنے سے رہے
جن کی تعبیر نہ ہو خواب وہ آنے سے رہے
یہ عذاب اب تو ہم آنکھوں میں بسانے سے رہے
کھول ہی لیں گے فصیلوں میں نئے در ہم لوگ
لاکھ محبوس سہی وقت گنوانے سے رہے
اہل پندار ہیں دریوزہ گری کب ہے قبول
بھیک لینے کو کسی در پہ تو جانے سے رہے
ایک دن قید قفس توڑ کے اڑ جائیں گے
قید میں رہ کے عبث شور مچانے سے رہے
جاگ اٹھے ہیں تو اب جاگتے رہنا ہے ہمیں
جاگتی آنکھوں میں اب خواب سجانے سے رہے
دور ماضی کے کئی زخم ابھی تازہ ہیں
اب کوئی دریا نیا دل میں بسانے سے رہے
اس تلاطم میں بھی دھاروں کو نیا رخ دیں گے
لہر کے دوش پہ ہم خود کو بہانے سے رہے
کچھ عیاںؔ ہم بھی تو پندار وفا رکھتے ہیں
بے سبب روٹھنے والوں کو منانے سے رہے