جیون رت کا زرد سفر

جسم
شکن آلود
تھکن کی چادر اوڑھے
رات کو چپ کی
نرم مسہری
پر سویا ہے
گم سم ہے
کھویا کھویا ہے
نیند کے ململ جیسے
نیلے ہالے میں
تیری یادیں
رقص کی صورت
کھوئے ہوئے سندر
دیسوں کا
قریہ قریہ گھوم رہی ہیں
جیون کے ست رنگ پہنتے
گیت کی لے پر
ہولے ہولے جھوم رہی ہیں
جیون رت کے زرد سفر میں
آنکھوں کے دروازوں سے
داخل ہوتے دلہن جیسے
کورے خواب
تیرے پیکر کی خوشبو
سے اجلی اجلی باتیں کرتے
ریشم ہاتھ
میری اپنی گردن کی
رویوں سے کھیل رہے ہیں
تنہائی کے بھور سموں میں
کھلنے والا
ہجر کا موسم جھیل رہے ہیں
صبح جب ہوگی
ٹوٹے بدن کی ٹھیکریوں کو
کن کا مالک جوڑ کے
پھر سے سیدھا کر دے گا
ہڈیوں کے گودے میں
ایک نئے دن کے جیون کی
سبز امیدیں بھر بھر دے گا
یوں جیون کے
گودام میں جلتی سانسوں کا
ایک اور سہانا دن
شام کی چکی میں
دانہ دانہ ہو کر پس جائے گا
اور جسم یوں ہی دھیرے دھیرے
اک روز شکن آلود تھکن کی
چادر اوڑھے
مرن برت کی
نرم مسہری پر سو جائے گا