جینے کا لطف زیست کا حاصل نہیں رہا
جینے کا لطف زیست کا حاصل نہیں رہا
وہ ولولے نہیں رہے وہ دل نہیں رہا
ہنگامہ زار شوق ہے یا محشر الم
طوفان اضطراب ہے وہ دل نہیں رہا
ساقی کی ایک ہی نگہ التفات میں
مشکل ہمارا عقدۂ مشکل نہیں رہا
یادش بخیر حاصل کونین تھا جو دل
چھٹ کر کسی سے اب کسی قابل نہیں رہا
محفل سے اٹھ گئے مری حیرت کے آئنے
اب آئنے کے کوئی مقابل نہیں رہا
مخفیؔ قضا نے راہ میں ہم کو مٹا دیا
اندیشۂ درازیٔ منزل نہیں رہا