جھوٹ میں سچ

’’قصہ ٔ گل بکاؤلی‘‘ بھی کوئی کتابوں میں کتاب ہے؟ عجب نہیں، کہ ایک سنجیدہ پرچہ میں اس کا نام دیکھتے ہی بہت سے ہونٹوں پر تبسم آ جائے۔ لیکن کیا ہرج ہے، اگر کبھی کبھار، خلاف وضع و خلاف عادت صحبتوں کا بھی تحمل کر لیا جائے۔ اور پھر دنیا میں یوں بھی بارہا ہوا ہے، کہ پھٹی پرانی گڈریوں کے اندر سے لعل و جواہر نکل آئے ہیں۔


بادشاہ زین الملوک کے چار لڑکے پہلے سے ہی موجود ہیں۔ پانچواں تاج الملوک پیدا ہوتا ہے، اس پر نظر پڑتے ہی بادشاہ اندھا ہو جاتا ہے۔ اطبا نے کہا کہ شفا صرف اس پھول سے ممکن ہے جو بکاؤلی پری کے چمن میں ہے۔ چاروں نوجوان شہزادے اس کی تلاش میں روانہ ہوتے ہیں، اور سفر کرتے کرتے ایک بازاری عورت کے دروازہ پر پہنچتے ہیں۔ مکان کے اندر داخلہ کی فیس ایک لاکھ زر نقد ہے۔ دولت کے نشہ میں اندھے، شہزادے اس کے مکان پر پہنچ کر، اطلاع کے نقارے پر چوب لگاتے ہیں۔ کتاب کوئی اخلاق کا پند نامہ نہیں، عشق و عاشقی کا افسانہ ہے، چاہئے تھا کہ مصنف اس بیسوا کے ذکر میں خوب کھل کھیلتا، اور اس ’’پری جمال‘‘ کے حسن و شباب کی مصوری اس انداز سے کرتا کہ پڑھنے والے نوجوانوں کے دل میں شوق و اشتیاق کی آگ بھڑک اٹھتی، لیکن بر عکس اس کے، نظر الفاظ ذیل سے دو چار ہوتی ہے،


’’سنتے ہی اس مکارہ دوراں نے دل میں کہا کہ الحمد اللہ مدت مدید کے بعد۔۔۔ ایسے موٹے تازے شکار نے میرے جال میں آنے کا ارادہ کیا۔ اغلب ہے کہ دام میں پھنسے، پھڑک پھڑک کر مرے۔ نقل مشہور ہے کہ یہ طائفہ اسی تردد میں رہتا ہے کہ کوئی عقل کا اندھا گانٹھ کا پورا ملے سو خدا نے ایسے ہی شخص بھیج دیئے۔‘‘


ان الفاظ کو، خصوصاً جو عبارتیں زیر خط کر دی گئی ہیں، انہیں پڑھنے کے بعد فرمائیے کہ شوق و اشتیاق کی آگ کچھ بھڑکی، یا جو تھی، وہ بھی ٹھنڈی ہو کر خاکستر بن گئی؟ کتاب دور یا جوجی سے بہت قبل کی تصنیف ہے۔ مصنف تاریکی کو روشنی، عیب کو ہنر، زہر کے پیالہ کو شربت کا گلاس کہہ کر پیش کرنے کے ’’آرٹ‘‘ سے نا واقف ہے۔ وہ بدی کے چہرہ پر حسن و زینت کا نقاب ڈال کر اسے پیش نہیں کرتا، وہ بدی کی جب مصوری کرتا ہے تو ہانک پکار کر کہہ بھی دیتا ہے کہ یہ بدی ہے، للہ اس کے فریب میں نہ آ جاتا۔


وہ بیسوا، ایک خاص چالاکی کے ساتھ، شطرنج کا کھیل کھیل کر اپنے ہاں آنے والے امیر زادوں کو ہرا دیتی تھی، اور پھر ان کی جائداد لے لوا، انہیں قید میں ڈال دیتی تھی۔ ان چاروں شہزادوں کو بھی یہی ماجرا پیش آیا۔ بالآخر پانچویں شہزادے تاج الملوک نے جا کر انہیں چھڑایا۔ اوریہ ابھی معلوم ہو چکا ہے کہ یہ سب کے سب شہزادے اپنے نابینا والد کی آنکھ کے علاج کے لئے تلاش گل بکاولی میں گھر سے نکلے تھے۔ مشرق کی بازاری کتاب کے مصنف کا قلم ان واقعات سے نتائج یہ نکالتا ہے،


’’اے عزیز تو نے معلوم کیا کہ یہ میں نے کیا کہا۔ اس بات کا حاصل یہ ہے کہ دل عرش منزل تیرا جو رونق بخش تخت بادشاہی کا اور دیکھنے والامادہ اور مجرد کا تھا، جب اس کی آنکھ اس خلقت ناپاک پر پڑی، اس کی بصارت کو زنگ لگا اور دیدہ روشن تاریک ہو گیا، اب اٹھ اور سرمہ بینائی ڈھونڈھ۔ یعنی گل مراد کی تلاش میں کوشش کر لیکن راہ میں دنیا سے عیارہ کی بازی بن کر تختہ فریب کا دھرا ہوا ہے، مشغول نہ ہونا۔ مبادا وہ فاحشہ تجھ کو پہلے فریفتہ کر کے بتا دے، اور بعد اس کے مکر کی بلی اور فریب کے چوہے کی مدد سے اچھا پانسہ اپنے حسب مرضی پھینکے۔ اچانک تیرے توکل کا سرمایہ آخر ہو جائے، تب تجھ کو دائم لاحبس کر رکھے۔ اگر تو صبر کے نیولے کی اعانت سے اس مکارہ کی بازی طلسم کو درہم کر دے تووہ فاحشہ جو بادشاہوں اور گردن کشوں کی ہمنشیں ہے، تیری فرماں بردار لونڈی ہو کر چاہے کہ تجھ کواپنے حسن و جمال پر لبھائے پھر اگر تو اس کے منہ پر الفت سے نگاہ نہ کرے تو یقین ہے کہ گل مراد کے دامن تک تیرا دسترس ہو۔‘‘


ضمناً ایک حکایت ایک سادہ لوح برہمن کی آ جاتی ہے، جس نے ایک بندھے اور جکڑے ہوئے شیر کی زنجیریں کھول دی تھیں۔ اور شیر نے خود اسی پر حملہ کر دیا تھا۔ تاج الملوک اس حکایت کو اس بیسوا سے بیان کرتا ہے اور معاً بعد ایک ناصح مشفق بن جاتا ہے،


’’اے عزیز، سچ ہے جو کوئی بے صبری اور فریاد اپنے نفس کی جو مثل شیر جسم کے پنجرہ میں ہے، سنے اور اس کے حال پر رحم کر کے صبر و توکل کی رسی اس کے ہاتھ پانوں سے بے محابا کھول دے توبہر صورت آپ کواس کا لقمہ بناے مگر خضر راہنما دستگیری سے بچے تو بچے۔ اے بیسوا یہ ذکر میں نے اس واسطے کیا جو تو جانے کہ طاقت جسمانی، طاقت روحانی پر زیادتی نہیں رکھتی، اب تجھے یہ لازم ہے کہ پورب پچھم کے شہزادوں کو جو تونے اپنے مکر و فریب سے قید کیا ہے، چھوڑ دے۔ حق تعالیٰ تجھ کو بھی دوزخ کی قید سے نجات دے گا۔‘‘


یہ آپ کوئی متبذل و عامیانہ افسانہ پڑھ رہے ہیں، یا کسی عارف کے حلقہ موعظت و معرفت میں بیٹھے ہوئے ہیں؟ یہ مشرق کی گری ہوئی تصنیفوں میں ہے، مغرب کی بلند پایہ تصانیف کو اس کے مقابلہ میں لا کر دیکھئے!


تاج الملوک جب آگے بڑھنا چاہتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ گل بکاؤلی قلعہ بکاؤ لی میں ہے جس کے پہرے پر 18 ہزار دیو متعین ہیں۔ شہزادہ اس سے ہراساں اور بے آس نہیں ہوتا۔ رفتہ رفتہ دیوؤں کو رام کرتا ہے اور دیووں کی ایک بوڑھی سردارنی حمالہ کا دل اس حد تک اپنی مٹھی میں لاتا ہے کہ وہ اپنی پروردہ شہزادی محمودہ کا نکاح اس کے ساتھ کر دیتی ہے۔ افسانہ نگار کا ذہن اس مجاز سے حقیقت کی جانب منتقل ہوتا ہے،


’’اے عزیز روشنی چشم ظاہر میں کہ سات پردوں میں ہےاور تجلی باری تعالیٰ کہ نور دیدہ اولیا ہے، ستر ہزار پردے میں ہے۔ اگر یہ ارادہ ہو کہ وہ پردے درمیان سے اٹھیں تو پہلے اس بڑے نگہبان دیو نفس کا حجاب بیچ سے اٹھا کر اس کو بس میں کر کہ وہ لعین اپنی کج روی کو چھوڑ کر محمودہ کے مقام میں پہنچا دے۔(1) لیکن یہ بات یاد رکھ کہ اگر دل سے الٹا لیجئے، تو سیدھا پڑے۔‘‘


بکاؤلی بیدار ہوتی ہے اور اس عزیز و عزیز الوجود پھول کو اپنے باغ سے غائب پا کر سخت پریشان اور ملول ہوتی ہے۔ لونڈیاں، باندیاں، ماما، اصیلیں صدہا کی تعداد میں ہیں، سب کی تلاش وسعی بے کار ثابت ہوتی ہے۔ بالآخر بکاؤلی خود اس ’’چور‘‘ کی جستجو میں نکلتی ہے۔ اپنے کو نوجوان مرد کی ہیئت میں تبدیل کرتی ہے، اور تلاش و جستجو میں طرح طرح کی تکلیفیں اور ہر قسم کی صعوبتیں برداشت کرتی ہے۔ افسانہ نگار اس موقع کو بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتا، اور آئین افسانہ نگاری کو بھول بھال یوں درس معرفت شروع کر دیتا ہے،


’’سبحان اللہ کیا الٹی بات ہے کہ معشوق طالب عاشق کا ہو اور عاشق اس کا مطلوب۔ لیکن نظر تحقیق سے جو غور کرے تو سیدھی لگے، کیونکہ جب تک معشوق کو خواہش عاشق کی نہ ہو، اس کی چاہت اکارت ہے اور کوشش بے فائدہ۔ آتش طلب کی جوعاشق کے گریبان سے مشتعل ہے، فی الحقیقت لگائی ہوئی معشوق کی ہے۔


عشق اول در دل معشوق پیدا می شود
گر نہ سوز و شمع کے پروانہ شیدا می شود


بات بڑھ گئی۔ قلم کہتا ہے اے شخص بس کر میں نے لکھنے میں بہت سی کوشش کی اور ہاتھ اپنی سعی کا دعویٰ کرتے ہیں کہ قلم سے کیا کیا ہم نے لکھا۔ بازو اپنے تردد کا دم مارتا ہے کہ دست و قلم سے کیا ہوا جو کچھ کیا سو میں نے کیا۔ غرض اس طرح اسباب تحریر کے بڑھے اور ایک پر ایک کو فوقیت ہوتی گئی، دفعتاً ایک ایسا سبب پایا گیا کہ وہ محتاج کسی کا نہ تھا، پس اے عزیز اگر تو بتا دے کہ فی الحقیقت لکھنے میں کس کی سعی ہے اور ظاہر میں کس کی تو میں بھی عاشق و معشوق کی سعی کا جواب دوں۔‘‘


کیا اب بھی آپ کی یہ رائے قائم ہے کہ اس عامیانہ قصہ کا ذکر سنجیدہ پرچہ میں لانا نا زیبا اور بے محل تھا۔


بادشاہ، شہزادہ تاج الملوک کی صورت سے بے زار ہو چکا تھا، اسے ملک بدر کر چکا تھا، پر اس نے اپنی خدمت اور سعادت مندی میں کوئی فرق نہیں آنے دیا۔ مہینوں اور برسوں کی تکالیف شاقہ اٹھا کر گل بکاؤلی لے کر آیا، راہ میں چاروں بڑے بھائیوں نے اس سے چھین کر اس کا رنامہ کو اپنی جانب منسوب کیا۔ بادشاہ عارضی طور پر ان چاروں سے بہت خوش ہو گیا۔ کچھ مدت کے بعد تاج الملوک بھی پایہ تخت کے قریب پہنچا اور دیوؤں کی مدد سے اس کے مقابل ایک دوسرا شہر نہایت ہی پر رونق آباد کیا، اور پورے شہانہ کرو فر کے ساتھ وہاں حکومت شروع کی۔ بادشاہ کو خبر پہنچی۔ قاصد اور وزیر سلطنت کو دریافت حال کے لئے بھیجا۔ انہوں نے واپس ہو کر بہتر سے بہتر رپورٹیں پہنچائیں۔ آخر بادشاہ خود ملنے آیا، اور یہ پہچان کر کہ اپنا ہی لخت جگر ہے بے حد مسرور ہوا، گلے سے لگا لیا ہر طرح کے اعزاز سے سر فراز کیا، اور وہ چاروں بھائی مقہور و مردود قرار پائے۔ قصہ کے اس جھوٹ میں اب سچ کا پیوند ملاحظہ ہو،


’’اے عزیز، تیری عزت بادشاہ کے دربار میں تیری خدمت کے موافق ہوگی۔ چاہئے کہ شہزادے کے مانند کار شائستہ کرے تو تیری محبت شاہ کےدل میں موثر ہو اور پیغام اپنی ملاقات کا تجھے بھیجے بلکہ بے باکانہ آپ ہی تیرے پاس چلا آئے، اور بے اختیار تیرا سر اپنی چھاتی سے لگا لے اگر چہ پہلے دیدار کے لائق نہ ہو لیکن آخر کار اسی مقام میں آپ کو پہنچائے کہ وہاں کوئی تیرا شریک نہ ہو سکے۔ پھر ایسا کام نہ کیجیو کہ شاہزادوں کے مانند داغ لعنت اٹھائے اور کس و ناکس کے روبرو رسوا ہو۔‘‘


رینالڈز، اور میری کاریلی اور اڈگرویلس اور آسکر وایلڈ کو چھوڑئے، اسکاٹ اور جارج ایلیٹ، ڈکنس اور تھیکرے، برناڈشا اور ایچ، جی، ویلز کے ہاں بھی اسی انداز کے مواعظ و معارف ملیں گے؟


تاج الملوک ایک بار پھر مصائب و آفات کا شکار بنا۔ طلسمی عصا اور ٹوپی کو الگ رکھ کر سو گیا۔ سو کر اٹھا اور ایک حوض شفاف میں نہانے کو اترا تو مرد سے عورت بن گیا۔ طرح طرح کے مصائب جھیلے۔ مدت کے بعد پھرایک حوض میں غوطہ لگایا۔ اب جو سر نکالا تو از سر نو اپنی اصلی ہیئت پر آ گیا۔ یہ طلسماتی کارخانہ، دستان نویس کی زبان سے ایک گنجینہ حقائق و معارف بن جاتا ہے،


’’اے یاران دہر، حق تعالیٰ نے بنی آدم کے سر پر کرامت کی ٹوپی پہنا کر اور عصمت کا عصا ہاتھم یں دے کر طلسم گاہ دنیا میں کہ مزرعہ آخرت ہے، عافیت کی تکمیل کے لئے بھیجا ہے۔ پس انسان کو چاہئے کہ گل اور خار اور آب و سراب خوب پہچانے۔ ہر ایک باغ کے پھول کو نہ سونگھے، ہر ایک نہر سے گھڑا نہ بھرے کہ یہاں کانٹے گل سے رنگیں اکثر اور شراب یہ صورت آب ادھر ادھر ہے۔ اے عزیز اگر گوہر دنیا کے لینے کو چشمہ جہاں میں غوطہ مارے گا، مقرر اپنا کلاہ اور عصا کھو دے گا۔ یہ حکم اس بات پر ہے کہ طالب دنیا مونث ہیں اور طالب مولیٰ مرد ہیں۔ تیرا پیکر معانی جو مانند مرد کامل ہے بہ صورت زنان ناقص العقل ہو جائے گا۔ پس اس وقت شکیبائی کے سوا کچھ چارہ نہیں۔ چاہئے کہ دم بخود ہو کر پھر دریائے ذکر الہی میں غوطہ مارے۔ اس کے بعد جو سر اٹھائے گا وہی عصا ہاتھ میں اور وہی ٹوپی سر پر رکھے گا۔‘‘


یہ وہی کتاب ہے جسے آپ اب تک سر بسر بازاری اور متبذل سمجھے ہوئے تھے؟ اور جس کا ذکرتک سنجیدہ صحبتوں میں آپ کو گوارا نہ تھا؟


تاج الملوک اور بکاؤلی دونوں ایک دوسرے پر فریفتہ اور باہم عقد کے خواہاں ہیں لیکن کہاں پری اور کہاں آدم زاد، بکاؤلی کی ماں بگڑی ہوئی ہے کہ خاکی کے ساتھ اپنی نور نظر کا پیوند کر کے پرستان بھر کی عزت کیسے ڈبو دی جائے۔ بکاؤلی کی ایک خالہ تاج الملوک پر مہربان ہو جاتی ہے۔ اس کی سفارشی بن کر اپنی بہن کے پاس جاتی ہے۔ گفتگو بھی چھڑتی ہے اور اس وقت یہ پری، رومی و غزالی کی زبان میں حقیقت انسانی پریوں ایک مقالہ سنا جاتی ہے،


’’سچ کہتی ہے لطیف کو ہم صحبت کثیف کرنا البتہ دانائی سے بعید ہے۔ لیکن تو حضرت انسان کے کمالوں سے اگر واقف ہوتی تو ایسے ایسے خیال فاسد دل میں ہرگز نہ لاتی۔ سن اے نادان، بشر خلیفہ یزداں ہے اور اس کی صفت بے پایاں، مخلوقات میں اشرف اور افضل ہے۔ اس کے رتبوں اور درجوں کی انتہا نہیں۔ وہ ایک نہنگ ہے دریا کا بہنے والا، اور ایک قطرہ ہے حقیقت میں دریا۔ جامع کمالات، علم کونی و الہی کا یعنی مادیات اور مجردات کا اور مجمع ہے مراتب بند کی اور بادشاہی کا۔


انساں کی ذات برزخ جامع ہے بے گماں
ظل خدا و صورت خلق اس میں ہے عیاں


جان کہ صوفیہ ہر ایک کو عالم ارواح کے نوعوں میں سے باری تعالیٰ کا ایک ایک اسم اور صفت کا مظہر خاص جانتے ہیں اور اس عالم صورت کو کہ حواس ظاہری اور باطنی سے نسبت رکھتا ہے۔ اس عالم کا سایہ پس ہر ایک ذرہ فرد کائنات سے روشن ایک تجلی ابدی اور سیراب ایک قطرہ سرمدی سے ہے۔


برگ درختاں سبز در نظر ہو شیار
ہر ورقے دفتر یست معرفت کردگار


اس عالم میں انسان کہ سارے افراد کون و فساد کے لازمی ہیں، خدا کے سارے اسموں اور صفتوں کا مصدر ہے اور اس کی تجلیات خاص کا مقام۔ کلام فضیلت انسان میں دریائے بے پایاں ہے اس قدر پر اکتفا کیا۔‘‘


مغربی افسانوں اور ناولوں، ڈراموں اور ناٹکوں، تھیٹروں اور سنیما گھروں پر اس تعلیم کا کوئی سایہ بھی پڑنے پایا ہے؟


تاج الملوک ایک بار پھر آوارۂ وطن ہو کر فقیرانہ لباس میں پردیس میں گھوم رہا ہے، گردش سوار ہے۔ اس ملک کا وزیر ایک سازش کر کے اس بے گناہ کو گرفتار کراتا ہے۔ فسانہ نگار اس بات سے بھی ایک بات پیدا کر لیتا ہے،


’’سچ ہے کہ جو کوئی حکمت حکیم مطلق کی گوناگوں تامل کی نظر سے دیکھے تو کسی چیز کو خالی شر سے نہ پاوے۔ اور ہر ایک شر کے بعد خیر ملاحظہ کرے۔ اے عزیز حق تعالیٰ نے عالم ارواح کو بدن سے رخصت دی ہے۔ پس جو حرکت کہ بظاہر بدن سے ہو حقیقت میں روح سے ہے۔ غرض کہ جو فساد کہ اس عالم کون و فساد میں ہو تو اس کی طرف سے جان، لیکن شر نہ سمجھ کہ در پردہ وہ خیر ہے کیونکہ وہاں شر کی گنجائش نہیں۔‘‘


تاج الملوک پر ایک اور شہزادی فریفتہ ہوتی ہے اور وہ اور اس کی سہیلیاں خوب بن ٹھن کر اپنے تئیں اس کے سامنے پیش کرتی ہیں۔ تاج الملوک کی نظر میں بکاؤلی سمائی ہوئی تھی۔ وہ کسی کے بھی حسن و جمال زیب و زینت سے متاثر نہ ہوا۔ شہزادی غش کھا کر گر پڑی اور تڑپنے لگی۔ تاج الملوک پر یہ آتش باطنی اثر کر گئی۔ مشرق کا افسانہ نگار اس کا نتیجہ یہ نکالتا ہے کہ اپنے کو بالکل مٹا کر رکھ دینا چاہئے۔ کہتا ہے،


’’سن اے عزیز، رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عبادت کو بادشاہ حقیقی کی نذر کے لائق نہ دیکھا۔ عجز سے کہا کہ عبادت تری میں نے جیسی چاہئے نہیں کی، پھر کس کا منہ ہے کہ اپنی عبادرت پر نازاں ہو۔ بہتر یہی ہے کہ آپ کو اس کی محبت کی گھر یا میں یہاں تک پگھلائے کہ اکسیر کے مانند خاک ہو جائے تا شاہان اکسیر پسند کی آنکھوں میں سونے سےزیادہ نظر آئے۔‘‘


تاج الملوک کی شادی اس شہزادی کے ساتھ ہو گئی لیکن دل اس کی جانب مطلق ملتفت نہ ہوا۔ دماغ میں ہر وقت وہی بکاؤلی بسی رہتی تھی۔ قلم حقیقت رقم بات کا رخ معاً یوں پھیر دیتا ہے،


’’اے عزیز، جب تک تیرےدل کی آنکھیں، اغیار کے حسن کو دیکھنے والی ہیں، تجھے یار کی صورت نظر نہیں آتی، ہر چند بے پردہ ہو۔ پہلے خار رغبت اغیار کو دل کی سر زمین سے اکھاڑ کر پھینک دے، پھر گل رخسار یار کو آئینہ دل میں دیکھ لے۔ اگر تو اپنے گلش وجود کو بنظر تامل دیکھے تو ان میں رنگ و بو کے سوا کچھ نہ پاوے۔‘‘


کتاب کوئی ضخیم نہیں۔ دیباچہ اور تصویریں ملا کر بھی حجم 90-92 صفحے کا ہے۔ اتنی مختصر ضخامت کے اندر حکمت و معرفت، پندو موعظت کے کتنے جواہر پارے آپ کی نظر سے گزر چکے۔ اب کتاب ختم ہونے کوآ گئی۔ دو ایک نمونے اور ملاحظہ فرما لئے جائیں۔ تاج الملوک کا وزیر زادہ بہرام، بکاؤلی کی ایک عزیزہ روح افزا پر عاشق و شیدا ہو جاتا ہے۔ باریابی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ عورت کا بھیس بدل کر کسی تدبیر وحکمت سے خلوت تک جا پہنچتا ہے۔ اس عشق فانی میں عشق باقی کا رنگ ملاحظہ ہو،


’’اے عزیز، اگر بہرام زنانہ لباس نہ پہنتا تو ہرگز اپنی معشوقہ سے اتنا جلد نہ ملتا، اور اپنے مطلب کو نہ پہنچتا۔ فی الواقع جو عاشق کہ معشوق کا رنگ پکڑتا ہے، معشوق خود عاشق اس کا ہو جاتا ہے۔ چنانچہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس وضع کا کلام فرمایا ہے۔ حاصل اس کا یہ ہے کہ خصائل خدا کی پیروی کرو تاکہ قربت اس سے حاصل ہو۔‘‘


بہرام اپنی محبوبہ کی خلوت گاہ تک دو بارہ رسائی حاصل کرتا ہے۔ مگر اس کے ظاہری غصہ اور ناگواری کو دیکھ کر سہم جاتا ہے، ڈر سے غش کھا کر گر پڑتا ہے، یہ دیکھ جو دل پتھر تھا، موم ہو جاتا ہے۔ خود اسے ہوش میں لانے کی تدبیریں شروع ہو جاتی ہیں، نگاہ عبرت اس میں بھی ایک منظر معرفت دیکھتی ہے۔


’’اے عزیز اگر اپنے نور عقل کو حکمتوں سے زیادہ نہ چمکائے گا تو تجلی یار سے فائدہ نہ پائے گا۔ اگر تو یہ ہستی موہوم نہ چھوڑے تو حیات ابدی کب تیرے پاس آئے۔ جو راہ عشق میں آپ سے نہ گزرا وہ منزل مقصود میں کب پہنچا۔‘‘


روح افزا نے گھر والوں کے ڈر سے بہرام کو سحر کے اثر سے پرندہ بنا کر ایک پنجرہ میں بند کر کے لٹکا لیا ہے کہ ہر وقت آنکھوں کے سامنے رہے۔ ماں کو کچھ سن گن ملتی ہے، چور کے ڈھونڈنے کوآتی ہے، اور گھر کا کونا کونا ڈھونڈھ مارتی ہے، چڑیا کے پنجرے کی طرف خیال بھی نہیں جاتا۔ حالانکہ وہ بالکل نظر کے سامنے ہے۔ فسانہ نگار یہاں بھی پتہ کی بات سے نہیں چوکتا،


’’اے عزیز تو عرش پر کس کے ڈھونڈنے کا ارادہ رکھتا ہے جو تیرے خانہ دل میں ہے، اس کی تو تجھے خبر نہیں۔ واہ واہ دور کا دھیان اور نزدیک آپ سے انجان۔‘‘


دو سطریں آگے بڑھ کر اسی پرند اور قفس کی کہانی کو ایک پورا مقالہ حکمت بنا دیتا ہے۔ اور اسی پر کہنا چاہئے کہ افسانہ کی معرفت آموزیوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے،


’’اس کہ کنہ سمجھ لے اے نادان، بہ سبب علاقہ، روح سبزہ زار دنیا کی سیر کو آتی ہے۔ جب تک یہ مربع طلسم عناصر اس کے گلے میں پڑا ہے اور قفس وجود میں طوق بندگی اس کا گلو گیر ہے۔ چشم ظاہر میں مشت خاک کے سوا کچھ نہیں دیکھتی۔ جس دن یہ طلسم ٹوٹ گیا کیفیت اس کی کھل جائے گی کہ وہ کون ہے اور یہ نیرنگ کیا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے جب لوگ آویں گے اس حال سےہوں گے۔ وجود مطلق ایک دریا ہے اور ہر موجود مثل حباب ہے۔ جب حباب سے ہوا نکل گئی، دریا کے سوا کچھ نہیں۔ پس تامل سے دیکھ کہ اصلی ہستی دریا کی ہے۔ لیکن فرق مرتبہ کا البتہ ہے۔ حباب کو کوئی دریا نہ کہے گا اور دریا کوحباب۔ اور کعبہ کو قبلہ کہتے ہیں اور بت خانہ کو کنشت، جہنم کو دوزخ اور جنت کو بہشت۔


ہر مرتبہ میں اور ہی حکم وجود ہے
زندیق ہے جو فرق مراتب کرے نہ تو


واقعی مسئلہ وحدت وجود کا مشکل ترین مسئلہ ہے اور بہتیرے اس بحر عمیق میں گر کے مذہب جبری کے بھنور میں جا پڑے اور اکثر مسلک دہری کے گرداب میں ڈوبے۔ ہادی یہاں فضل الٰہی اور کرم رسالت پناہی کے سوا کوئی نہیں۔‘‘


جو تصنیف ننگ مشرق تھی، اس کا جائزہ آپ لے چکے۔ جو تصانیف فخر مغرب ہیں کیا انہیں اس کے مقابلہ میں لایا جا سکتا ہے؟ ہمارے ہاں کی جو سچی کتابیں، سچوں پر اتری ہوئی یا سچوں کی لکھی ہوئی ہیں، انہیں چھوڑیے، ان کی سچی شرحوں کو بھی جانے دیجئے۔ جو کتابیں کھلم کھلا جھوٹی لکھی گئی ہیں جنہوں نے اپنے جھوٹ کو چھپایا نہیں، چمکایا ہے، ان کے اندر بھی اتنی سچائیاں اورگہری سچائیاں آپ نے دیکھ لیں؟ جس قوم کے جھوٹ میں اتنی سچائیاں ہوں، جس قوم کے جھوٹے بھی اتنے سچے ہوں، کیا خدا کی شان ہے کہ اسے درس اخلاق دینے وہ قوم آئی ہے جس کا ہر سچ اندر سے جھوٹ ہی ہے۔