جھرنوں کے درمیاں سے گزرنے لگی ہے شام

جھرنوں کے درمیاں سے گزرنے لگی ہے شام
بھیگی ہوئی فضا سے نکھرنے لگی ہے شام


کمرے میں بد گمان جو رکھا تھا آئینہ
ہاتھوں میں اس کو لے کے سنورنے لگی ہے شام


اب صبح گل فشاں کا زمانہ قریب ہے
صحن چمن میں آ کے ٹھہرنے لگی ہے شام


سونے نہ دے گی چین سے پھر رات بھر مجھے
آنکھوں میں دھیرے دھیرے اترنے لگی ہے شام


بوسیدہ سی سواد کی چادر کو اوڑھ کر
سونیؔ گلی گلی سے گزرنے لگی ہے شام