جلتا ہے کوہ طور تو جل جانے دیجئے

جلتا ہے کوہ طور تو جل جانے دیجئے
موسیٰ کی آرزو تو نکل جانے دیجئے


اچھے نہیں جبیں پہ یہ بل جانے دیجئے
دل میں بھرا ہے کچھ تو نکل جانے دیجئے


روئیں گے یاد کر کے بہت ہم کو اہل حسن
تھوڑی سی دھوپ حسن کی ڈھل جانے دیجئے


بدلیں اگر نہ آپ تو پھر کوئی غم نہیں
دنیا بدل گئی تو بدل جانے دیجئے


دشمن کا جھوٹ آئے گا خود کھل کے سامنے
فی الحال ان کے غصے کو ٹل جانے دیجئے


غم شمع کو رہے گا سحر اس کی موت پر
پروانے کو بھی ساتھ ہی جل جانے دیجئے