جل پری

مُلا کی شادی کی خبر کسی بڑے لطیفے کی طرح دوستوں پر نازل ہوئی جو اس وقت جمعے کی نماز کے بعد ایک چائے خانے میں بیٹھے جی بہلا رہے تھے۔ ’’یقین نہیں آتا ملا جل پری سے کیسے شادی کر سکتا ہے!‘‘ واجد نے کہا جو بچپن سے اس کادوست تھا۔
’’ٹھیک کہہ رہے ہو، اتنی ڈینگیں مارتا تھا وہ، کہتا تھا ، اس شہر گناہ میں رہتا ضرور ہوں مگر بہت بچ بچا کے، میں ایسا کوئی کام نہیں کر سکتا جو دین کے خلاف ہو!‘‘ تنویر بولا، ’’عرصے تک و ہ میرے کمرے میں میرے ساتھ رہا اور مجھے پتہ ہے کتنا مشکل ہے اس کے ساتھ رہنا، پیزا تک آدمی اپنی مرضی سے نہیں منگا سکتا، وہ تو بسکٹوں اور ٹافیوں کے پیکٹ بھی اتنی دیر تک غورغور سے پڑھتا تھا کہ انہیں کھانے کی خواہش دم توڑ دیتی تھی۔ مگر وہ کہتا ، ’’یہ چھان بین ضروری ہے کہیں اس میں سور کی چربی نہ ملی ہو!‘‘
’’ہاںیار‘‘، مسعود نے کہا، ’’اتفاق سے رئیس اللہ کچھ دن میرے ساتھ بھی سیزرس پیلس کے ایک کونے میں واقع برطانویں ریستوران کے کیش کاؤنٹر پرکام کرتارہاجہاں صرف مچھلی اورآلو کے قتلے چائے اور کافی کے ساتھ گاہکوں کو پیش کئے جاتے تھے۔ اسے اپنا کام پسند تھا مگر اسے وہاں آتے ہوئے بڑی الجھن ہوتی تھی۔ وہ کہتا تھا ریستوران تک پہنچنے کے لیے اسے روزانہ کاسینو کے جوئے خانوں کی طرف سے منہ پھیر کے گزرنا پڑتا تھا جس سے گردن ٹیڑھی ہو گئی!‘‘
واجد ہنسنے لگا۔ ’’شروع سے وہ ایسا ہی ہے اسی لیے اس کا نام رئیس اللہ سے ملا پڑ گیا اور ہمارے ایک دوست نے جو شاعر تھے ایک نظم کہی جو ایسے شروع ہوتی تھی کہ : اک ہمارا دوست ملا ہے: نام اس کا رئیس اللہ ہے!‘‘
نادر نے کہا، ’’مجھے تو اس کی پتلون دیکھ کے ہنسی آتی ہے ، ٹخنوں سے اونچی پتلون کون پہنتا ہے، کہتا ہے ہم شلواریں بھی ایسی ہی پہنتے ہیں تا کہ زمین کی گندگی دور رہے!‘‘
’’ہاں اس کی گواہی میں دے سکتا ہوں‘‘۔ واجد بولا۔ ’’پہلے وہ ایسی ہی اٹنگی شلواریں پہنتا تھا پھر جب اس نے ایک اسکول میں ملازمت شروع کی تواپنا لباس تبدیل کرنا پڑا کیونکہ اسکول میں نہ صرف طلبہ کو اسکول کا یونیفارم پہننے کی پابندی تھی بلکہ اساتذہ اور دیگر عملے کو بھی پتلون قمیض پہننے کو کہا گیا تھا، پھر اسے پہلی بار پتلون سلوانی پڑی اور ہمارے شاعر دوست کو ایک اورنظم کہنی پڑی جس کاایک شعر تھا: ایک پتلون اس نے سلوائی: جو کہ ٹخنے تک اس کے فٹ آئی!‘‘
نادر نے کہا، ’’یعنی وہ پتلون بھی ایسی ہی تھی جیسی وہ آج کل پہنتا ہے، شرعی پتلون!‘‘
واجد نے کہا، ’’وہ شرعی آدمی نہ ہوتا تو پھر مرغ مسلِم کی تلاش میں یہاں گلی گلی گھومتا!‘‘
’’یار مرغ مسلّم تو سنا تھا مگر یہ مرغ مسلِم کیاہوتا ہے؟‘‘ نادر نے پوچھا۔
’’جو ذبح ہونے پر احتجاج نہ کرے اور چھری کے کند ہو نے پر کوئی حرف شکایت زبان پرنہ لائے!‘‘ واجد مسکرایا۔
مسعود نے کہا، ’’مگر اسے کھانے کے لیے مرغ مسلِم ملے یا نہ ملے، بمبئی ہوٹل کی بھنڈی بڑے شوق سے کھاتاہے، کہتا ہے بھنڈی کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اسے ذبح کرنے کی ضرورت نہیں!‘‘
واجد نے کہا، ’’کھانے میں اسے بس تین چیزیں پسندہیں، بھنڈی، بھٹا اور بریانی، بریانی کے لیے بھی اس نے ایک ہوٹل ڈھونڈ لیا ہے جہاں حلال مرغ کی بریانی کے بجائے بڑے مزے کی مچھلی بریانی ملتی ہے۔ بھٹے کی تلاش میں اسے کچھ زیادہ دور نہیں جاناپڑتا کیونکہ جس پارک میں وہ اپنی شامیں گزارتا ہے اس کے اندر ایک فاسٹ فوڈ اسٹال سے اسے بھنا ہوا بھٹا بھی مل جاتاہے اور پاپ کارن بھی!‘‘
مسعود نے کہا، ’’اسی پارک میں تواس کاپہلا غیر شرعی رومان شروع ہوا تھا، یاد ہے؟‘‘
’’ہاں، میں نے ایک بار مذاقاً اس سے کہا بھی کہ یار تم حلال چکن کی تلاش میں تو بہت رہتے ہو مگرحلال عورت کی فکر نہیں کرتے ورنہ اس غیر شرعی رومان کی ضرورت پیش نہ آتی!‘‘ واجد بولا: ’’کہنے لگا ، شروع میں سارے رومان غیرشرعی ہوتے ہیں، قید شریعت میں آکے ساری عورتیں حلال ہوجاتی ہیں!‘‘
مسعود نے ہنس کے پوچھا ، ’’تواس نے کل کتنے غیرشرعی رمان نبھائے؟‘‘
’’پتہ نہیں یار‘‘، واجد نے جواب دیا، میں نے صرف دو حسیناؤں کو اس پارک میں اس کے ساتھ پاپ کارن کھاتے دیکھا، ایک لال بالوں والی لڑکی تھی جو کسی جوئے خانے میں کام کرتی تھی اور دوسری نشیلی آنکھوں اور گدازرخساروں والی ساحرہ جو ایک نائٹ کلب میں ملازم تھی، ملا دونوں کو بہت پسند کرتا تھا اوراپنے ہاتھ سے انہیں تلی مچھلی کے قتلے اور پاپ کارن کھلاتا تھا۔ میں نے ایک بار اسے چھیڑنے کو کہا، تمہیں پتہ ہوگا کہ غیر لڑکیوں کو چھونا اور ہاتھ لگانا شرعاً منع ہے، اس نے کہا، اسی لیے میں ہمیشہ دستانہ پہن کے ان سے ہاتھ ملاتا ہوں یا چھوتا ہوں!‘‘
’’اگر اسے ان لڑکیوں سے اتنی محبت تھی تواس نے کسی ایک سے شادی کیوں نہیں کر لی؟‘‘ مسعود نے پوچھا۔
واجد نے کہا، میں نے بھی اس سے یہی سوال کیا تھا مگر اس نے کہا، لال بالوں والی کوجوئے خانے کی ملازمت بہت پسند ہے اور وہ اسے چھوڑنا نہیں چاہتی، البتہ میں دوسری والی پر محنت کررہا ہوں، مجھے امید ہے کہ وہ مجھ سے شادی کرنے کو راضی ہوجائے گی،بس اسے میری داڑھی سے مسئلہ ہے!‘‘
’’داڑھی سے، بھلا وہ کیوں؟‘‘ مسعود حیران ہوا۔
واجد نے کہا، ’’وہ چاہتی ہے کہ رئیس اللہ اپنی داڑھی کااسٹائل بدلے، لمبی داڑھی اسے بری نہیں لگتی مگر بچپن میں پھوڑا نکلنے کی وجہ سے ٹھوڑی کے نیچے بالوں کے نہ اگنے سے اس کی داڑھی میں جوایک کھڑکی سی بن گئی ہے بڑی بدنما لگتی ہے جسے بند کرنا بہتر ہوگا، مگرشاید اب تک بے چارے کو اپنی داڑھی کی کھڑکی بندکرنے کاکوئی طریقہ نہیں سوجھا!‘‘
واجد نے کہا، ’’ایک لڑکی اسے کھڑکی والی داڑھی سمیت قبول کرنے کو تیار ہوگئی تھی اور وہ تھی بھی اس کی خواہش کے مطابق بڑی خوبصورت مگروہ ایک نائٹ کلب میں برہنہ رقص یعنی اسٹرپ ٹیزکا مظاہرہ کرنے پر مامور تھی۔ بھلا ہمارادوست کیونکر اس پرراضی ہوتا اس نے بڑی کوشش کی کہ محترمہ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کو آنکھوں کے میلے میں لٹ جانے سے بچائیں مگرکچھ بات نہیں بنی!‘‘
مسعود نے کہا: ’’اس کا مطلب توہوا کہ موصوف ایک ایسی شریک حیات کی تلاش میں ہیں جسے وہ اپنی مرضی سے حلال کرسکیں، تم توان کے پرانے دوست ہو آخر تم نے انہیں یہ مشورہ کیوں نہیں دیا کہ وہ ایک بار وطن عزیز کاچکر لگا کے وہاں اپنی مرضی کی گھر والی تلاش کیوں نہیں کرتے، وہاں یقیناًان کی دلی مراد برآئے گی‘‘۔
’’میں نے دیا تھا یہ مشورہ‘‘ واجد بولا، ’’مگر حضرت نے فرمایا وہاں حلال چکن تو باآسانی دستیاب ہے مگر گرم مسالوں کی بہتات انہیں اتنا زہریلا بنادیتی ہے کہ فوڈ پوائزنگ کا خطرہ رہتا ہے ، کون اس مصیبت میں پڑے!‘‘
’’اچھا توگویاوہ حضرت کولمبس کی طرح اپنے لیے نئی دنیا کی تلاش جاری رکھنا چاہتے تھے!‘‘ مسعود نے کہا، خیر چلو ان کی یہ تلاش اب ختم ہوئی، مگریہ جل پری انہیں کہاں سے ملی؟‘‘
واجد نے کہا، ’’وہ نئے سال کی رات تھی جب ہم سارے دوست ایک پارٹی میں مدعو تھے جو فیشن مال میں دی گئی تھی۔ رئیس اللہ اگرچہ ساری غیر شرعی مشروبات اورماکولات سے دور رہتا تھا مگر وہ فیشن مال کے اس اسٹور کا ملازم تھا جس کی طرف سے اس تقریب کااہتمام کیاگیا تھا لہٰذا اسے وہاں موجود رہناپڑا جس کا فائدہ یہ ہوا کہ جل پری کے آبی تماشوں نے اسے بھی مسحورکیا!‘‘
’’مگر فیشن مال میں جل پری کہاں سے آگئی؟‘‘ مسعود نے پوچھا۔
واجد نے کہا، ’’جل پری کے تماشوں کا بندوبست بھی اسی اسٹور نے کیا تھا جس میں ہمارا دوست کام کرتا ہے۔ اس اسٹور میں جل پری برانڈکے زنانے ملبوسات فروخت کیے جاتے ہیں۔ اسٹور کی جانب سے مال کے بیچوں بیچ چھت سے فرش تک شیشے کا بڑا سا حوض بنایا گیا تھا جس میں جل پری اوپر سے نیچے تک تیر سکتی تھی‘‘۔
’’اوہ، بھلا فیشن مال والوں کو کہاں پتہ ہوگا کہ جل پری تماشہ شروع ہونے پر اوپر سے نیچے آئے گی اور تیرتے ہوئے سیدھی ہمارے دوست کے دل میں اترجائے گی!‘‘ مسعود ہنسا۔
’’بالکل یہی ہوا‘‘، واجد نے کہا، ’’جیسے ہی رات کے بارہ بجے، ایک دھماکے کے ساتھ نئے سال کی خوش خبری آئی اور رنگ برنگے غبارے رنگین قمقموں کے ساتھ ہال میں جگمگائے، شیشے کے تالاب میں پانی میں ہلچل ہوئی اورپری چہرہ جل پری شفاف لہروں کوچیرتی ہوئی اوپر سے نیچے کی طرف سفر کرتی نظرآئی۔ سنہرے بالوں نے جھلملاتے تاج کی صورت میں اس کے سرکو ڈھانپ رکھا تھا اورچھاتی سے پیروں تک سبز مخملیں غلاف نے جل پری کے دلکش روپ کو مکمل کردیا تھا۔ گورے گورے ہاتھ اسے تیرنے میں مدد دے رہے تھے اور چہرے، گردن اور سینے کے بالائی حصے پر جیسے صبح کی روشنی پھیلی ہوئی تھی‘‘۔
مسعود نے گہرا سانس لیا۔ ’’یا ر تم نے ایسا بھرپور نقش کھینچا ہے جل پری کا کہ مجھے افسوس ہورہا ہے کہ میں اس آبی حسینہ کی زیارت سے محروم رہا مگرسوچنے کی بات یہ ہے کہ اسے رئیس اللہ کی کون سی خوبی پسند آئی جو وہ اس مسخرے کے ساتھ شادی کرنے پر تیار ہو گئی‘‘۔
’’اب یہ بات ایسی ہے جس کا جواب وہ خود دے سکتا ہے، ویسے اطلاع کے لیے عرض ہے کہ موصوف تھوڑی دیر میں ہم لوگوں سے شادی کی مبارکباد وصول کرنے یہاں آنے والے ہیں‘‘۔ واجد نے کہا۔
اچانک تنویر نے جو پورے وقت ان کے پاس بیٹھا خاموشی سے انکی باتیں سن رہاتھا کھڑکی سے باہر جھانک کے کہا ’’آنے والے نہیں، وہ آگئے ہیں، باہر اپنی کار پارک کررہے ہیں!‘‘
چند لمحوں بعد رئیس اللہ اسی شان سے اندر داخل ہوئے۔ اٹنگی پتلون اوردائیں ہاتھ میں لال دستانہ۔ تنویر اور مسعود نے کھڑے ہوکے ہاتھ ملایا مگر واجد نے کہا، ’’پہلے یہ منحوس دستانہ اتارو جو نامحرم لڑکیوں کے پنجوں کی پیمائش میں تمہارے کام آتا ہے‘‘۔
رئیس اللہ نے زور دار قہقہہ لگایا’’ مجھے نہیں پتہ تھا کہ تم بھی خود کو نامحرم لڑکیوں میں شمار کرتے ہو، خیر یہ اب کسی کام کا نہیں!‘‘ اس نے دستانہ اتار کے قریب رکھے کوڑے کے ڈبے میں اچھال دیا۔
’’ارے یہ کیا غضب کیامیرے ہیرو، ابھی تو نجانے کتنی اور حسینائیں تمہاری پنجہ آزمائی کی منتظر ہوں گی!‘‘ واجد بولا۔
’’نہیںیار وہ اب بدل گیا ہے، اسے جل پری مل گئی باقی اسے کیا چاہیے، پرانے سب کھیل ختم، کیوں؟‘‘ مسعود نے سوالیہ نظروں سے رئیس اللہ کو دیکھا۔ ’’اورہاں آج تم مسجد میں نہیں آئے‘‘۔
سب اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ گئے تو رئیس اللہ نے کہا، ’’سچ کہتے ہو، مصروفیت کچھ بڑھ گئی ہے اورجل پری نے تومیرے دن رات اپنے قبضے میں کرلیے ہیں!‘‘
’’مگریار ہم سب حیران ہیں کہ وہ تمہارے قبضہ قدرت میں کیسے آئی‘‘۔ تنویر بولا۔
’’محبت، صرف محبت‘‘، رئیس اللہ نے کہا، ’’میری محبت اور اس کی عقیدت دونوں نے کا م دکھایا!‘‘
’’اس کی عقیدت ، اس کا کیا مطلب؟‘‘ مسعود نے پوچھا۔
’’بھئی اسے میرے خیالا ت پسند ہیں اوریہ داڑھی اور پتلون بھی‘‘، رئیس اللہ نے جواب دیا، ’’وہ فیشن مال میں میرے اسٹور سے جس کا نام ’آج کے فیشن‘ ہے، اپنے کپڑے خریدتی ہے اور مجھے تو وہ نئے فیشنوں کا اشتہار سمجھتی ہے!‘‘
واجد ہنس پڑا۔ ’’اچھا، وہ کیسے ؟‘‘
’’بھئی وہ سمجھتی ہے کہ میری ٹخنوں تک اونچی پتلون جدید فیشن کے مطابق ہے اور ایک ہاتھ کادستانہ بھی، ’’رئیس اللہ نے کہا، ’’وہ تو میری داڑھی کی بھی عاشق ہے جسے تم لوگ کھڑکی والی داڑھی کہتے ہو بلکہ اس نے مشورہ دیا ہے کہ داڑھی کو اس طرح تراشوں کہ اس کے دونوں سرے نیچے تک لٹکتے نظرآئیں اور لمبی مونچھ دونوں سروں سے مل کے چہرے پرانگریزی لفظ ایچ کی تصویر بنادے۔ وہ کہتی ہے اس سے دیکھنے والوں کو پتہ چل سکے گا کہ یہ کوئی عام قسم کی داڑھی نہیں بلکہ ریش مقدس ہے، یعنی ہولی بیرڈ!‘‘
سب دوست زور سے ہنسے۔ ’’یار بڑے تخلیقی ذہن کی خاتون ہیں محترمہ، خوب نبھے گی تم سے‘‘، واجد نے کہا، ’’ہم لوگوں کاخیال ہے کہ تم لوگوں کو رسمی طور پر شادی کی مبارکباد دینے کے لیے ایک استقبالیہ تقریب منعقد کی جائے جس میں بھابھی صاحبہ کی باتیں سنی جائیں اور سردھناجائے‘‘۔
’’مگر ایک شرط یہ ہے کہ تم تقریب میں اپنے چہرے پر بھابھی جان کی فرمائش کے مطابق ریش مقدس سجاکے آؤگے!‘‘ مسعود نے کہا۔ ’’مجھے یقین ہے کہ تمہارے نئے فیشن کی داڑھی کچھ ہی دنوں میں شہر کے سب نوجوانوں کوپاگل کردے گی اور ہرطرف مقدس داڑھیاں دیکھنے کو ملیں گی!‘‘
’’مگر ہر مقدس داڑھی کے مقدر میں جل پری تو نہیں‘‘، تنویر بولا، ’’یہ اعزاز تو صرف ہمارے دوست کے حصے میں آیا ہے!‘‘
واجد نے پوچھا، ’’ویسے یار تمہاری جل پری کو جل پری بننے کا خیال کیسے آیا، وہ تواتنی خوبصورت ہیں کہ بڑے اطمینان سے ایک ہوش ربا ماڈل بن سکتی تھیں یا پھر کوئی فلیمنگو رقاصہ اور بیلے ڈانسر؟‘‘
رئیس اللہ نے کہا، ’’وہ پہلے کسی فوٹو اسٹوڈیو کے استقبالی ڈیسک پرکام کرتی تھی مگر وہاں آنے والا ہر شخص اس کے ساتھ سلفی ضرور بنانا چاہتا تھا، پھر اس نے ایک مصور کے یہاں ماڈل کی حیثیت سے کام شروع کیا لیکن کچھ دنوں بعد مصور صاحب حسن برہنہ کی نقاشی پراصرار کرنے لگے۔ انہیں دنوں اس نے ایک مشہور تفریحی پارک کااشتہار پڑھا جسے تیراکی کی ماہر ایسی لڑکی کی ضرورت تھی جو جل پری بن کے شیشے کے تالاب میں تیرتے ہوئے پارک آنے والے لوگوں کادل لبھا سکے، اس نے موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا اور اسے وہ کام پسند ہے!‘‘ واجد نے ہاتھ کے اشارے سے بیرے کو سب کے لیے چائے لانے کا آرڈر دیا۔
’’اب جل پری کی کہانی ایسے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے کہ گرما گرم چائے کا ایک دور بہت ضروری ہو گیا ہے!‘‘ اس نے کہا۔
چائے آنے تک ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ چائے پیتے ہوئے اچانک تنویر کے ذہن میں ایک عجیب سا سوال کلبلایا۔ ’’یار ایک بات سمجھ میں نہیں آئی‘‘۔ وہ بولا، ’’تمہیں وہ لڑکی بھی تو بہت پسند تھی جو نائٹ کلب میں کام کرتی تھی، تم نے اسے کیوں جانے دیا؟‘‘
’’وہ؟‘‘ رئیس اللہ ، ’’یار میں پہلے بھی بتا چکا ہوں وہ نائٹ کلب کی نوکری چھوڑنے کو تیار نہیں تھی، میں کیسے برداشت کرتا، توبہ ، توبہ، برہنہ رقص، کچھ بھی ڈھکاچھپا نہیں!‘‘ ’’مگر میرے بھائی‘‘، واجد نے چائے کا ایک گھونٹ لے کرکہا، ’’کیاجل پری؟‘‘ وہ چپ ہوگیا۔ ’’وہ مختلف ہے، تیرتے ہوئے اس کا آدھے سے زیادہ بدن جل پری کے کاسٹیوم میں چھپارہتا ہے!‘‘ رئیس اللہ نے جواب دیا۔