جب اپنے دل پہ اپنا کچھ اختیار دیکھا
جب اپنے دل پہ اپنا کچھ اختیار دیکھا
بیگانہ خو حسیں کو بیگانہ وار دیکھا
پیہم تجلیوں کی مجھ میں سکت کہاں تھی
نظریں چرا چرا کر سوئے نگار دیکھا
آج اپنی بے خودی کو عرفاں کی روشنی میں
اس ماہ سیم تن کا آئینہ دار دیکھا
تیری عنایتوں سے انجام بیں نظر میں
آغاز عشق ہی میں انجام کار دیکھا
یہ بھولی بھولی صورت اے چاند پھر بھی تو نے
میری طرف سے اپنے دل میں غبار دیکھا
حسن شباب پرور کس درجے سحر زا ہے
دیکھا ترا زمانہ اے گل عذار دیکھا
اس شوخ کی گلی میں منظور تفتہ جاں کو
پھر بے قرار پایا پھر اشک بار دیکھا