جانے کیا کچھ سن کر لوٹا

جانے کیا کچھ سن کر لوٹا
چپ ہے وہ جب سے گھر لوٹا


بچپن کا ہر ننھا سپنا
تھک کر بوڑھا ہو کر لوٹا


وہ بھی آگ بجھانے نکلا
وہ بھی ہاتھ جلا کر لوٹا


جانے کیا ساحل سے کہہ کر
الٹے پاؤں سمندر لوٹا