اسرائیل کے مظالم پر دنیا خاموش کیوں

 

 محترمہ رونی،

 میں ایک فلسطینی ،جنوبی افریقی  استاد ہوں اور غزہ کی الاقصیٰ یونیورسٹی میں لٹریچر   پڑھاتا ہوں۔ میں آپ کو سلام پیش کرنا چاہتا ہوں کہ  آپ نے اسرائیلی پبلشر Modan  کو  اپنے ناول Beautiful World, Where Are You  کے  (عبرانی زبان میں)ترجمے کا  حق نہ دینے کا اصولی موقف  اپنایا اور اسرائیل کے ثقافتی بائیکاٹ کی خلاف ورزی نہیں کی۔  (یہ ثقافتی بائیکاٹ) اس  عمومی بائیکاٹ  کی تحریک بی ڈی ایس   کا  اہم پہلو ہے جو فلسطینی سول سوسائٹی  کی جانب سے  اسرائیل کا کیا گیا ہے۔ 

جس لمحے ہمیں غزہ میں آپ کے فیصلے کے بارے میں معلوم ہوا، ہم  نے بڑے اطمنان کے ساتھ جشن منایا۔  اس حقیقت  کا ادراک کہ آپ  جیسی اہلیت  رکھنے والی شخصیات میں سے کوئی ہماری آوازیں سن رہا ہے، بہت اطمنان بخش تھا۔   یہ اطمنان  تو تب سے ہمارے لیے معدوم ہے جب سے اسرائیل نے ایک دہائی قبل ہماری چھوٹی سی  پٹی کی ناکہ  بندی کی  ہوئی ہے۔

ہر ایک دن ہمیں اس  کھلے قید خانے میں  نئی مشکلات اور بڑھتی ہوئی  تکالیف کا  سامنا ہے جو کبھی اپنی خوبصورتی، تاریخی مقامات، ثقافتی   مراکز اور متحرک تجارت کے لیے جانا جاتا تھا۔

جب میں آپ کو یہ خط لکھ رہا ہوں، غزہ ایک بار پھر تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس محصور شہر میں روزانہ ، گھنٹوں طویل بجلی کی  بندش اب ہماری زندگی کا ایک عام حصہ ہے۔

2009 سے اب تک اسرائیل غزہ میں چار قتل عام کر چکا ہے۔ تازہ ترین، مئی میں، 67 بچوں سمیت 260 افراد کی موت ہوئی تھی۔

ہم پریشان، مایوس اور  بپھرے ہوئے ہیں۔

لیکن آپ کے  اظہار یک جہتی نے ہمیں کچھ امید دی ہے۔ اس نے ہمیں یہ احساس دلایا ہے کہ اس دنیا میں اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو ہمارے دکھ کو تسلیم کرتے ہیں ۔ جو انصاف کے لیے ہماری پکار  پر منہ موڑنے سے انکاری ہیں۔

امن پر نوبل انعام یافتہ اور نسل پرستی کے خلاف سرگرم  رہنے والے آرچ بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹو  کا مشہور قول ہے: "اگر آپ ناانصافی کے حالات میں غیر جانبدار ہیں، تو آپ نے ظالم کا ساتھ دیا ہے۔ اگر ہاتھی کا پاؤں چوہے کی دم پر ہے اور آپ کہتے ہیں کہ آپ غیر جانبدار ہیں تو چوہا آپ کی غیر جانبداری کی تعریف نہیں کرے گا۔"

 آپ  نے اسرائیلی مظالم کو بے نقاب کرنے کے لیے ہمارے بائیکاٹ کی پکار کا ساتھ دے کر یہ   واضح کر دیا  ہے کہ آپ نے مظلوموں کا ساتھ دینے کا انتخاب کیا ہے۔ اور ہم، فلسطینی،  آپ کے، ہمیشہ کے لیے شکر گزار ہیں۔

سات دہائیوں سے زائد بے دخلی، نسلی تفاوت، قتل عام اور اسرائیل کے دیگر جرائم کے بارے میں خاموشی کی بین الاقوامی سازش کے  باوجود ہم  ظالموں کے خلاف ہر ممکن طریقے سے مزاحمت کر رہے ہیں۔ لیکن ہمیں حمایت کی ضرورت ہے، ہمیں بین الاقوامی برادری کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو تسلیم کرے ، تاکہ وہ ہمارے خلاف ہونے والے جرائم کے خلاف  مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہوں۔

ہمارے مطالبات سادہ ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اسرائیل بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرے اور فلسطینیوں کے بنیادی انسانی حقوق کا احترام کرے۔

ہمارے مطالبات سادہ ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اسرائیل بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرے اور فلسطینیوں کے بنیادی انسانی حقوق کا احترام کرے۔

یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ بین الاقوامی قانون کا احترام کرتاہے

مشرقی یروشلم سمیت غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے پر قبضہ ختم  کرے ،اس کے 1.2 ملین فلسطینی شہریوں کی زندگیوں میں رکاوٹ بننے والے امتیازی قوانین اور پالیسیوں کو منسوخ  کرے۔

اقوام متحدہ کی قرارداد 194 پر عمل درآمد  کرے جس میں فلسطینی پناہ گزینوں کو  ان کی آبائی زمینوں پر واپسی کا مطالبہ کیا  گیا ہے۔

فلسطینی سول سوسائٹی نے BDS کال کی تھی تاکہ  آپ جیسے، دنیا بھر کے باضمیر لوگوں  کو ، آواز اٹھانے اور انصاف کے لیے فلسطینی جدوجہد میں موثر کردار ادا کرنے کی ترغیب دی جائے۔ یہ ہمارے لیے بہت معنی رکھتا ہے کہ آپ نے ہماری کال پر دھیان دیا۔

اپنی کلاسوں میں، میں اکثر غسان کنافانی Ghassan Kanafani کے ناول اور مختصر کہانیاں پڑھاتا ہوں۔ Ghassan Kanafani  ایک مشہور فلسطینی مصنف ہے جسے موساد نے 1972 میں ایسا ادب لکھنے پر قتل کر دیا تھا جس نے فلسطینیوں کو ظالموں کے خلاف مزاحمت کرنے کی ترغیب دی۔

اتفاق سے جب ہم نے آپ کے اصولی فیصلے کی خبر سنی تو میں اپنے طالب علموں کے ساتھ کنافانی کے معروف  ناول Man In the Sun پر گفتگو کر رہا تھا۔

1948 کے نقبہ سے صرف ایک دہائی کے بعد لکھا گیا یہ ناول عراق میں تین فلسطینیوں کی کہانی بیان کرتا ہے جو روزگار کی تلاش کے لیے خود کو کویت میں اسمگل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آخر میں،  اسمگل کرنے والی لاری کے ٹینک میں  ان کا دم گھٹنے  لگتا ہے ۔اور اس خوبصورت دنیا  میں، ایک بھی شخص ان کی مرتی ہوئی چیخ نہیں سنتا۔

کنافانی کے ناول کا بھیانک اختتام   ضرورت مند کی آواز سننے اور مظلوم کے ساتھ یکجہتی کی اہمیت کی یاد دہانی ہے۔  ، اگر  مظلوموں اور ضرورت مندوں کی چیخیں صرف بہرے کانوں پر  پڑنے لگیں تو ہم سب ناپید ہو جائیں ۔

چنانچہ جب میں نے آپ کے فیصلے کے بارے میں سنا ، اس وقت میں اپنے طلباء کے ساتھ اس کہانی پر گفتگو کر رہا تھا۔ میں نے اسے تدریسی مرحلے کے طور پر دیکھا۔

میں نے اپنے طالب علموں ، جو غزہ کے کیمپوں میں رہنے والے تمام پناہ گزین ہیں اور اسرائیل کے قبضے میں مصائب کا شکار ہیں، سے کہا کہ دنیا بدل رہی ہے۔ ایک مشہور، با صلاحیت اور بااثر آئرش ناول نگار ان مردوں کے پوتے اور پوتیوں کی چیخیں سن رہا ہے جن کا کرافانی کے  ناول کے اختتام کی مانند   بے آباد  گلف میں دم گھٹ  چکا ہے۔

ایسا لگا جیسے آپ ہمارے ساتھ اسی غزہ کے کلاس روم میں موجود ہیں، کنفانی کے الفاظ پڑھ رہے ہیں، اور جواب دے رہے ہیں، "میں آپ کو سن رہا ہوں!"

ہماری پکار پر دھیان دیتے ہوئے، ہماری حالت زار کو سن کر، اسرائیل کے جرائم کو   چھپانے کی  کوششوں کا حصہ بننے سے بہادری سے انکار کرتے ہوئے، آپ ان فنکاروں کی ایک طویل فہرست میں شامل ہو گئے جو فوری ذاتی فائدے پر اپنے اصولوں اور انسانی حقوق کے عزم کو ترجیح دیتے یں۔

اور اس کے لیے ہم آپ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں۔

 

 

نوٹ:     سالی رونی آئر لینڈ سے تعلق رکھنے والی  دور حاضر کی مشہور ناول نگار ہیں۔  انہوں  نے ناول

Beautiful World, Where Are you

لکھا۔ یہ ناول بے حد مشہور ہوا۔ ان کے ناول کی شہرت دیکھتے ہوئے ایک اسرائیلی ناشر  نے اسے عبرانی زبان میں ترجمہ  کرنے کے حقوق سالی رونی سے خریدنا چاہے۔ سالی رونی نے مظلوم فلسطینیوں  کی جانب سے  جاری بی ڈی ایس تحریک، اسرائیل سے بائیکاٹ جس کا حصہ ہے، کا  ساتھ  دیتے ہوئے ناشر کو انکار کر دیا۔ اس پر  جامع الاقصیٰ کے ایک استاد نے   ان سے اظہار تشکر کا کھلا خط تحریر کیا۔ یہ خط، الجزیرہ اخبار میں  دس اکتوبر، 2021 کو شائع ہوا۔ یہاں اس خط کا اردو ترجمہ دیا جا رہا ہے۔ 

 

مترجم: فرقان احمد