اسی طرح اگا تھا اور اسی طرح سے ڈھل گیا
اسی طرح اگا تھا اور اسی طرح سے ڈھل گیا
یہ آج بھی یوں ہی گیا کی جس طرح سے کل گیا
جو محو فکر زیست ہیں انہیں بھلا یہ کیا خبر
طلوع ماہ کب ہوا کب آفتاب ڈھل گیا
تمام اہل بزم لب کشا سے ہو گیا ہیں کیوں
یہ آخر ایسا کیا مری زبان سے نکل گیا
جو کر رہا تھا آفتاب کو نچوڑنے کی بات
بس اک شعاع کے لمس سے وہ موم سے پگھل گیا
جو پوچھا اک فقیر سے سفر کا آخری مقام
قدم کی خاک اٹھا کے وہ مری جبیں پہ مل گیا
کسی کی آہ ذہن پر اثر کچھ ایسا کر گئی
مرا تمام درد دل سخن میں ہی بدل گیا
تو ترک نسبتیں نصیب سے کر رہا ہے پر
بلندیوں سے پاؤں گر کبھی ترا پھسل گیا
ہے کس قدر مزاج اداس پتھروں کا دیکھیے
کوئی تو ہے جو راستے پہ گر کے پھر سنبھل گیا
ملال کی تو دور تک امید مجھ کو کیا رہے
جب اس کے ذہن سے مرا خیال ہی نکل گیا