عشق اس کو مجھ سے ہے یا تھا کبھی
عشق اس کو مجھ سے ہے یا تھا کبھی
مر کے بھی میں جان نہ پایا کبھی
فکر مجھ سے پوچھتی ہے رات دن
نیند ہے پھر کیوں نہیں سوتا کبھی
دائروں کے دائرے ہے سب جگہ
دائرہ بھی خوش نہیں ہوگا کبھی
کاٹنے پر سانپ کے کچھ نہ ہوا
ڈانٹنے پر اس کے میں رویا کبھی
وقت مجھ کو ہر دفعہ پکڑے رکھا
وقت کو میں نہ پکڑ پایا کبھی
بوند ہی باقی بچی ہے عشق کی
بہہ رہا ہوتا تھا اک جھرنا کبھی
آج بھی آنندؔ ہنس کر ہی ملا
درد اس کا کم نہیں ہوگا کبھی