عشق صادق جو اسیر طمع خام نہ تھا
عشق صادق جو اسیر طمع خام نہ تھا
سعیٔ ناکام کے غم سے مجھے کچھ کام نہ تھا
طور کے لطف خصوصی کی قسم پہلے بھی
میرے دل پر اثر جلوہ گہ عام نہ تھا
دوست کے حسن توجہ سے نہیں شاداب تک
نگہ غم زدہ میں کیا کوئی پیغام نہ تھا
حسرت خوں شدہ ہر آن نئی شان میں تھی
رنگ جو صبح کو دیکھا وہ سر شام نہ تھا
دل لگی ہم سے کئے جاتے ہیں کیوں عیش پسند
کیا یہاں سوختہ کاموں کا کوئی کام نہ تھا
جانتا تھا جسے اپنی اسی محفل میں گیا
جا کے غیروں کی طرح منتظر جام نہ تھا
مے گساری کے لئے مل گئے ہم ذوق بہت
غم گساری کے لئے کوئی بھی ہم کام نہ تھا
اس زمانے میں بھی الہام ہے منظورؔ کا شعر
میں کسی دور میں حسرت کش الہام نہ تھا