اقبال کی داڑھی اور مولانا کا ہاتھ

علامہ اقبال تمام عمر اسلام کی شان اور مسلمانوں کے بارے میں شاعری کرتے رہے لیکن اسلامی رواج کے مطابق داڑھی نہیں رکھتے تھے۔ ایک مولانا اپنے ایک مقدمے میں مشورے کے لیے ان کے پاس آتے رہتے تھے ۔ وہ اپنی بہن کو جائیداد کے حصے سے محروم کرنا چاہتے تھے ۔ علامہ کو اس مقدمہ میں کوئی دلچسپی نہ تھی ، لیکن مولانا پھر بھی کسی نہ کسی سلسلے میں مشورہ کے لیے آدھمکتے اور ساتھ ہی اقبال کو نصیحت بھی کرتے رہتے کہ مسلمان ہونے کے ناطے انہیں کیا کیا فرائض انجام دینے چاہئیں ۔ ایک دن بولے کہ آپ عالم دین ہیں اور شریعت کے حامی، لیکن آپ داڑھی نہیں رکھتے جو اسلامی شعار ہے ۔ علامہ ان روز روز کی نصیحتوں سے تنگ آکر بولے ’’ مولانا آپ کی تلقین کا مجھ پر بہت اچھا اثر ہوا ہے اور میں نے عہد کیا ہے کہ آپ کے ساتھ ایک معاہدہ کروں یہ بجا ہے کہ مسلمان کے منہ پر داڑھی نہ ہونا غلط ہے ، لیکن اسلام کے مطابق بہن کو وراثت سے محروم کرنا بھی تو شریعت کے خلاف ہے ۔ لائیے ہاتھ ،میں داڑھی بڑھا لیتا ہوں، آپ اپنی بہن کو وراثت میں حصہ دے دیجئے۔‘‘یہ سن کر نہ تو مولانا کا ہاتھ آگے بڑھا، نہ علامہ اقبالؔ کی داڑھی ہی بڑھی۔