انسان
انسان اور اطاعت ماحول افترا
آیا ہے اپنی آپ یہ دنیا لیے ہوئے
ہے دیکھنے میں ذرہ پہ صد مہر در بغل
وحدت ہے اس کی کثرت اشیا لیے ہوئے
ظاہر میں ایک پھول پہ صد گلستاں یہ جیب
بالفعل قطرہ بالقوۃ دریا لیے ہوئے
معماریٔ جہان نو اس کی ہے زندگی
موت اس کی ہے حیات کا چشمہ لیے ہوئے
کس کی مجال ہے کہ اسے دیکھ کر کہے
آیا ہے اپنے ساتھ یہ کیا کیا لیے ہوئے