انقلاب

زمانے کی ہوا بدلی ادھر رنگ چمن بدلا
گلوں نے جب روش بدلی عنادل نے وطن بدلا
طریقہ آشنائی کا کبھی ایسا نہ بدلا تھا
کہ چال عشاق نے بدلی حسینوں نے چلن بدلا
بدلتے آئے ہیں یوں تو ہمیشہ دور گردوں کے
نہ ایسا بھی کہ ہم بدلے ہمارا کل جتن بدلا
مقاصد مذہب و ملت کے بدلے دور عالم نے
صحائف کی شرح بدلی کتابوں کا متن بدلا
بدل ڈالا ہے ایسا مغربی تہذیب نے ہم کو
مذاق خوان نعمت اور طرز پیرہن بدلا
پرانی چال بے ڈھنگی ہماری دیکھیں کب بدلے
ابھی تک جگ ہی بدلے تھے غضب یہ ہے قرن بدلا
نہ بدلا پر نہ بدلا ہائے طرز معشرت قومی
اگرچہ ساری دنیا کا ہنر اور علم و فن بدلا
نظام شاعری میں ہائے آیا انقلاب ایسا
کہ شان نظم بدلی اور انداز سخن بدلا
سلیقہ انتقاد جنس حرفت کا نہیں ہم کو
زر خالص سے ابریشم نما یورپ نے سن بدلا
نہ بدلا ہے نہ بدلے گا فقط قانون اسلامی
قمرؔ جب تک کہ قدرت نے نہ یہ چرخ کہن بدلا