ان صحبتوں میں آخر۔۔۔

ان صحبتوں میں آخر جانیں ہی جاتیاں ہیں
نے عشق کو ہے صرفہ نے حسن کو محابا
(میر، دیوان اول)


گھر سے نکلے آج لبیبہ خانم کو پانچواں ہفتہ تھا۔ اس کے گھرانے کے لیے خانہ بدری کا یہ پہلا موقع نہ تھا۔ اس کے دادا افراہیم جودت بیگووچ نے صدی کے آغاز میں بلقان کو چھوڑ کرارمن کے شہر نخجوان میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ اور اس سے بھی کئی صدیاں پہلے جب (۱۴۹۲ء میں، مرتب) فلپ پنجم نے غرناطہ بلکہ سارے اندلس ہی کے مسلمانوں اور یہودیوں کے سامنے شرط رکھی تھی کہ یا مذہب ترک کریں یاملک چھوڑیں، یا جان سے ہاتھ دھوئیں، تو لبیبہ خانم کے یہودی النسل اور یہودی المذہب جد اعلیٰ، شاعر، فقیہ اور کاہن اعظم ذئب بن صالح نے جلاوطنی کو گلے لگاکر چارسو برس کے بسے بسائے گھر، کتب خانے اور دنیاوی املاک، سب کو اپنے ہاتھوں سے آگ دے کر سربیہ (Serbia) کے مشہور شہر غراد (موجودہ بلغراد، یا Belgrade مرتب) میں پناہ لی تھی۔ وہاں ان دنوں عثمانیوں کی حکومت تھی اور مسلمان، یہودی، عیسائی، زرتشتی، سب کے سروں اور گھروں پر سلطان بایزید ثانی کا سایۂ عاطفت و عطوفت یکساں مستمر اور مستنیر تھا۔


اس زمانے کے اندلس میں متوطن اکثر یہودیوں کی طرح ذئب بن صالح کی بھی زبان عربی تھی۔ اس کے مذہبی عقائد اور تصورات دنیاوی و دینی پر موسیٰ بن میمون (۱۱۳۵ء تا ۱۲۰۴ء۔ مرتب) کے فلسفے کا گہرا اثر تھا۔ موسیٰ بن میمون کی تعلیم یہ تھی کہ جہاں تک حق کا سوال ہے، تمام مذاہب اپنے اپنے طور پر حق کی ہی طرف لے جاتے ہیں لیکن روز مرہ کی بود و باش اور معیشت کے لیے عبرانیت ہی سب سے اچھا مسلک ہے۔


ذئب بن صالح کو بنوامیہ کے دور حکومت کا اندلس اور عثمانیوں کے زمانے کا بلقان یکساں راس آئے۔ فرق صرف یہ تھا کہ وہ خود تو آخر عمر تک عربی ہی بولتا لکھتا رہا تھا لیکن اس کے اخلاف نے عربی ترک کردی تھی، کہ گھر سے باہر اس کا رواج نہ تھا۔ ذئب کی موت کے بعد اس کے اخلاف نرینہ میں سے اکثر نے بیو غرادمیں مروج سربیائی/بوسنیائی زبان کے علاوہ ترکی، چرکسی اور فارسی میں بھی مہارت حاصل کر لی تھی۔ مؤخر الذکر دو زبانیں تو در اصل شادی بیاہ کے تعلقات قائم ہونے کے بعد گویا جہیز میں آئی تھیں۔ فارسی بولنے والے یہودیوں کی خاصی تعدادتجارت اور نوکری سلطانی کی غرض سے تبریز اور یاروان سے بیو غرادتک آمد و رفت رکھتی تھی۔ کوہ قاف کے جنوبی دامن میں بسنے والے چرکسی تقریباً سب کے سب سنی مسلمان تھے لیکن ان میں اکا دکا یہودی خاندان، جن کا پیشہ دبیری تھا، بیو غراد میں عرصۂ دراز سے آباد تھے، اور اپنے حسن صورت کے لیے بھی سماج میں اتنے ہی نمایاں و ممتاز تھے جتنی ان کی کارکردگی باب حکومت میں ضرب المثل تھی۔


دوڈھائی سو برس آرام سے گزرے۔ ذئب بن صالح کی خاندانی شکل و شباہت کے نقوش مقامی یہودی اور بعض ترکی یا عیسائی گھرانوں کے رنگوں سے مل کر دھندلے پڑنے لگے تھے۔ ذئب بن صالح کی براہ راست اولادمیں کوئی نہ بچا تھا، لیکن اس کا نام باقی تھا۔ موسیٰ بن میمون کی تعلیمات کا بھی اثر باقی تھا۔ اور کئی گھرانے ایسے تھے جو اپنا رشتۂ نسب ذئب بن صالح سے باندھتے تھے۔ انہیں میں لبیبہ خانم کے جداعلیٰ بھی تھے۔ یہ انہیں ایرانیوں میں سے تھے جن کی آمدبیو غراد میں ۱۴۰۰ء کے بعد شروع ہوئی تھی، یعنی اس وقت جب عثمانیوں کا تسلط بلقان پر اچھی طرح جم چکا تھا اور یہودیوں کو وہاں عیسائی حکومتوں کے ہاتھوں کسی قسم کا خدشہ نہ رہا تھا۔


یہ لوگ، جو حضرت موسیٰ کے وقت میں مصر سے آکر بحر روم کے شمالی اور مشرقی سواحل پر آباد ہوئے تھے، زمانے اور خاص کر رومائی شہنشاہوں اور پھر عیسائیت کے ہاتھوں بار بار تباہ و تاراج کیے جانے کے باعث اپنی اصل اور آغاز سے اس قدر دور ہوچکے تھے کہ اب وہ خود کو عرب یا ایرانی سمجھنے لگے تھے۔ یوں تو سرزمین عرب، خاص کر نجد میں ایسے بھی لوگ کم تعداد میں نہ تھے جن کے چہروں کی صباحت اور آنکھوں کی نیلگونی کوہ قاف کی اقوام کومات کرتی تھی، لیکن بحرروم کے شمال اور مشرقی ساحلوں کے اصل باشندوں میں عراق عرب کے عرب خون کی آمیزش کا لطیف سانولاپن تھا۔ لبیبہ خانم کے اجداد کی شکلوں پر اب ایرانی صباحت کے تیکھے پن کی بھی جلوہ ریزی تھی۔ لیکن گھنے سیاہ بال کچھ یونانی بہار بھی دکھا دیتے تھے۔


لبیبہ خانم کے پردادا اور پردادی کے گھرانے باہم قرابت قریبہ رکھتے تھے اور ان کا زمانہ آتے آتے ذئب بن صالح، خاور بحر روم، ایران اور بلقانی رنگ روپ کی یکجائی اور یک جانی نے ان کے افراد خاندان کی صورتوں پر انسانی حسن کی وہ شفق روشن کردی تھی کہ لوگ ان کی خوبصورتی کی قسم کھاتے اور کہتے کہ یہ لوگ ازدواج اور مباشرت کے لیے نہیں، پرستش کے لیے بنائے گئے ہیں۔


سترہویں صدی کے اختتام پذیر ہوتے ہوتے عثمانیوں کی طاقت مشرقی یورپ میں کمزور پڑنے لگی۔ حکومت اگرچہ اب بھی ان کے ہاتھ میں تھی، لیکن اب ان کا وہ دبدبہ نہ رہا تھا۔ شمالی یورپ اور برطانیہ تک پھیلے ہوئے مسلمان ترک خاندان ایک ایک کرکے ممالک محروسۂ دولت عثمانیہ کے چتر تلے واپس آنے لگے تھے۔ وی آنا کے ترکی محاصرے (۱۶۸۳ء مرتب) کی ناکامی نے اقوام یورپ کے دل سے ترکوں کا خوف کچھ کم کردیا تھا۔ محاصرے کی ناکامی کی یادگار کے طور پر ہلالی شکل کا جو کلچہ اہل وی آنا نے ایجاد کیا تھا، اور جس کا نام سارے یورپ میں croissant (ہلال، مرتب) ہی مشہور ہوگیا تھا، اہل یورپ کو ہر صبح ناشتے پر عثمانیوں کی ہزیمت پذیری کی یاد تازہ کراتا تھا۔ دور اندیش لوگ، خاص کر یہودی، اس دن کے خیال سے خوف زدہ رہنے لگے جب ان زمینوں پر دوبارہ عیسائیوں کا قبضہ ہوگا اور دنیا ہر غیرعیسائی کے لیے تنگ ہوجائے گی۔


بیت المقدس پر صلیبی جنگ کے سورماؤں کی فتح (۱۰۹۹ء، مرتب) کے موقعے پر مسلمان اور یہودی جس طرح بے دریغ قتل کیے گئے، ان کے زن بچے جس بے دردی سے غلام بنائے گئے، ان کی عمارات و آثار جس غلو کے ساتھ زمیں بوس کی گئیں، وہ سب باتیں اب بھی لوگوں کے دلوں پر اجتماعی کابوس کی طرح مسلط تھیں۔ قوم کے بزرگ دانش مند یہ بھی کہتے تھے کہ اب اگر ہم اہل فرنگ کے غلام ہوئے تو پھر کوئی صلاح الدین ایوبی ہمیں رہائی دلانے کو نہ پیدا ہوگا۔


سترہویں صدی کے آخری برس میں لبیبہ خانم کے دادا افراہیم جودت بیگووچ کو غیر متوقع طور پر خاور بحر روم کی زمین مالوف کو مراجعت کا موقع ہاتھ لگا اور کچھ ایسے حالات میں، کہ اسے بیوغراد کی سکونت ترک ہی کرنی پڑی۔ ہوا یوں کہ ارمن کے شہر نخجوان میں بے سان و گمان ایسا زبردست زلزلہ آیا کہ شہر کا بڑا حصہ اور خاص کر اس کا بڑا بازار، منہدم ہوکر رہ گیا۔ شہر کی کثیر آبادی میں سے کچھ کو زمین ہی نے کھالیا، اور کچھ کو زلزلے نے عمارتوں کے تلے کچل کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔


جودت بیگوچ کے ایک ماموں شہرام یا فع بھی مرگ مفاجات کا شکار ہوئے۔ وہ جودت بیگووچ کے سگے ماموں نہ تھے لیکن ان کے آگے پیچھے کوئی نہ تھا۔ شادی انہوں نے کی نہ تھی۔ انہوں نے اپنی ساری دولت اور ساری تجارت کا وارث افراہیم جودت بیگووچ کو قرار دے دیا تھا۔ چونکہ ابھی ان کی عمر بہت نہ تھی، بمشکل چالیس کے رہے ہوں گے، اس لیے سب کو توقع تھی کہ انہوں نے دور دراز رہنے والے افراہیم جودت بیگووچ کو محض رسماً اپنا وارث اور جانشین ٹھہرالیا ہے، اور مناسب موقع آنے پر وہ اپنا گھر بھی آباد کریں گے، ان کے وارث اور والی بھی پیدا ہوں گے اور ان کے کام سب ٹھیک چلتے جائیں گے۔


لیکن زلزلے نے وہ تمام باتیں، سارے مفروضے اور عزائم چشم زدن میں خاک کردیے۔ اب شہرام یا فع کی دولت کا وارث تو کیا، اس کی لاش کو ڈھونڈ کر سپرد خاک کرنے والا بھی کوئی نہ تھا۔ افراہیم جودت بیگووچ نے مجبوراً بیو غراد کی جمی جمائی گرہستی، باب سلطانی کی ملازمت، دوست احباب کی محفلیں سب ترک کرکے اپنی بیوی، اکلوتے بیٹے اور بہو کے ساتھ نخجوان کی راہ لی۔ زبان اور طرز معاشرت کا کوئی مسئلہ البتہ نہ تھا، کہ ارمنی زبان پر فارسی کا اتنا گہرا اثر تھا، اور ہے، کہ فارسی جاننے والا تھوری سی مشق کے بعد ارمنی پر قدرت حاصل کرسکتا تھا۔ خود فارسی بھی اس زمانے میں ارمنی کے بعد سارے ارمنستان میں مقبول ترین زبان تھی اور افراہیم اس زبان سے بخوبی واقف تھا۔


توقع تھی بلکہ توقع کیا، سب کو تقریباً یقین تھا کہ شہرام یافع کی تجارت اور دولت کا وارث اپنے حسن کارکردگی، وہبی صلاحیت اورتجربے کی بناپر کچھ ہی برس میں زلزلے کے نقصانات کی تلافی کرلے گا اور ماموں کی تجارت مزید ترقی کی شاہ راہ پر گام زن ہوگی۔ لیکن افراہیم کو نخجوان میں آئے پانچ مہینے بھی نہ ہوئے تھے کہ شہر کو دوسرے زلزلے نے آلیا۔ اور اس بار شہر ہی نہیں، بحرماژندران کے تمام مغربی ساحل کو بھی بھونچال نے کچھ اس بے طرح لپیٹ میں لے لیا کہ کوئی سو میل تک کے سمندر کا پانی امڈ کر بیس اور پچیس ہاتھ بلند لہروں کی شکل میں، چالیس پچاس میل فی ساعت کی رفتار سے غراتا اور بڑھتا ہوا، ساحل بحر پردس بارہ پرسنگ تک چڑھ آیا۔ ساحل پر کھڑے تمام جہاز غرق ہوگئے، تاجروں کی کوٹھیاں، دومنزلہ اور سہ منزلہ عمارتوں کی کوٹھریاں اور چھوٹے موٹے بازاری پیشہ وروں کے ٹھکانے، سب ملیا میٹ ہوگئے۔ حکومت کے نمائندوں، شحنۂ سواحل بحر اور کروڑ گیریوں کے دفاتر، مٹی اور پتھر اور کیچڑ کا ڈھیر ہوگئے۔


جب ساحل کی چڑھائیاں چڑھتے چڑھتے پانی کی غضب ناکی کچھ تھکی اور تھمی، تو جہاں جہاں زمین نے شق ہوکر اسے قبول کرلیا تھا، وہاں کئی کئی ہاتھی ڈباؤ جھیلیں وجود میں آگئیں۔ اور وہ پانی جو کہ ان جھیلوں میں نہ سماسکا تھا، واپسی کی راہ ڈھونڈنے لگا۔ بحرماژندران میں ا ترانے والے ننھے منے دریاؤں میں اتنا ظرف کہاں تھا کہ کروڑوں مکعب گزپانی کو سہار سکتے۔ تھوڑی ہی دیر میں جل تھل ایک ہوگئے تو پانی نے واپسی کی ٹھانی۔


ساحل پر چڑھائی کے ساتھ ساتھ سمندر کے ہزاروں مردہ، نیم مردہ جانور، مرغابیاں، کچھوے، گھونگھے، سانپ، خونخوار شارک اور بام، سمندر کی گہرائیوں میں دیر سے گلتی سڑتی لاشیں، ہڈیوں کے ڈھانچے، پرانے غرقاب جہازوں کے تختے، پانی ہی کی رفتار کے ساتھ ساحل اور عمارتوں اور عمارتوں میں پھنسے ہوئے لوگوں کے درمیان آکر سروں کو قلم کرتے، ران اور کمرکی ہڈیوں کو توڑتے، چہروں کو مسخ کرتے، انسانوں اور جانوروں کے حلق اور پیٹ کے اندر دور تک سرایت کرتے ہوئے، زمین کی اونچ نیچ میں پھنس کر رہ گئے تھے۔


اس شکست و تاخت نے جگہ جگہ ملبے کے اونچے نیچے ڈھیر بناکر انسانوں کی آمد و رفت اور بھی مشکل کر دی تھی۔ تھکے ماندے، خوف اور بھوک سے ادھ مرے لوگ بہزار خرابی اس اونچی نیچی اوبڑ کھابڑ زمین اور ملبے کے تلے دبی اشیا کو یوں کریدتے اور اپنے زندوں یا مردوں کو یوں تلاش کرتے تھے جس طرح چیونٹیاں دھیرے دھیرے محنت کرکے ایک لمبی مدت میں زمین میں ننھے منے سوراخ بناتی ہیں۔ اور یوں بھی، اس ملک گیر تباہی کے پس منظر میں انسان کی ہستی چیونٹی سے بڑھ کر حقیر محسوس ہوتی تھی۔


اب جوپانی واپس ہوا تو بہت سارے ملبے، کوڑے کچرے کے ساتھ کئی زندہ اور مردہ انسانوں کو بھی بہا کرلیتا گیا، اور بہت ساری سمندری چیزیں اپنی یادگار کے طور پر چھوڑتا گیا۔ اور ان میں سب سے بڑھ کر خوف انگیز اور کراہیت افزا وہ سیاہ، چکنی، چپچپاہٹ سے بھری کیچڑ تھی جو کیچڑ سے زیادہ کسی شیطانی اژدہے کا لعاب دہن معلوم ہوتی تھی۔ اس لعاب نما کیچڑ کی موٹی تہہ کہیں بالشت بھر، کہیں پرانگشت بھر، ہر جگہ تھی۔


سارے ملک میں بھی اتنے کوے اور چیلیں اور گدھ نہ تھے جو ایک دو ہفتے کی مدت میں مل جل کر زمین کی صفائی کرسکتے۔ قسطنطنیہ کے باب عالی کی طرف سے ابتدائی راحت رسانی، مجروحین کے ضروری علاج اور اموات کے کفن و دفن کا انتظام تو تھا لیکن شہروں اور گھروں کی صفائی، تعمیر نو، اور مالی و جانی نقصان کی تلافی کو کوئی سبیل نہ تھی۔ سڑتی ہوئی لاشوں اور غلاظتوں کے ملبے میں پلتے ہوئے کیڑے مکوڑوں کے باعث جگہ جگہ وبائیں پھوٹ پڑیں۔ وہ تو خیریت گزری کہ حاجیوں کے قافلے اپنے وقت پر رمضان کے اواخر اور شوال کے آغاز میں بغداد و دمشق سے روانہ ہونے کے لیے ارمن چھوڑچکے تھے، نہیں تو نہ جانے کیا قیامت ٹوٹتی۔ اور باب عالی کی طرف سے جو خطیر رقم ہرسال قافلۂ حج پر صرف ہونے کے لیے منظور ہوتی تھی، وہ ساری کی ساری نہیں تو اس کا بڑا حصہ بھونچال سے متاثر علاقوں کی راحت رسانی میں لگ جاتا۔


زلزلے اور اس کے بعد کی آفات و بلیات نے افراہیم کی ساری تجارت، ساری املاک غیر منقولہ اور زیادہ تر عمارات کو پامال کرکے برابر خاک کردیا۔ جہاز ڈوب گئے، گوداموں میں رکھا ہوا مال زمیں دوز ہو گیا، یا غرق آب ہوا، یا سڑگیا۔ خزائن، دفائن میں بدل گئے۔ صرف چند کان اور ان میں تھوڑا بہت سامان محفوظ رہ گیا جس نے جسم و جان میں ایک کمزور سا رشتہ بنائے رکھا۔ آہستہ آہستہ جب حالات روبہ اعتدال ہوئے تو افراہیم جودت بیگووچ کے سارے بال سفید تھے اور کمر خمیدہ ہوچکی تھی۔ نود میدہ بال طیر چمن زاد کواڑ نے کی فرصت ہی نہ ملی۔ سال کا چراغ بجھتے بجھتے اس کی بھی شمع حیات گل ہوگئی۔ وہ اردی بہشت ۱۰۸۰ (مطابق اپریل ۱۷۰۱ء، مرتب) کے وسطی ایام تھے، اور سال بھر میں دو قیامتوں کو اپنی کمر پر لاد لینے اور پھر کشاں کشاں اتارلینے والی بستی پر ازسرنو بہار آرہی تھی لیکن شہرام یافع اور افراہیم جودت بیگووچ کی نوبت آخری بار بج چکی تھی۔ اب وہاں کسی نئی ابتدا کا امکان نہ تھا۔


اس وقت سارے گھرانے میں صرف لبیبہ کا باپ عمانوئیل بن افراہیم، اس کی ایک دور کی بہن نعومیہ اور لبیبہ کے سواکوئی نہ رہ گیا تھا۔ لبیبہ کوئی چار برس کی تھی اور نعومیہ کی عمر کا کسی کو پتا نہ تھا۔ وہ مدت دراز سے ایک سی لگتی تھی، گویا اس کی صورت اور اس کا بدن زمانۂ گزشتہ کے کسی لمحے میں کسی طرح محجر ہوگئے ہوں۔ پیدائشی بہری ہونے کے باعث اس کی زبان بھی رہ گئی تھی۔ وہ گھر کا معمولی کام کاج کردیتی اور جو روکھا سوکھا مل جاتا اسے کھاکر کسی کوٹھری میں پڑ رہتی۔ اور اب تو روکھے سوکھے کا بھی ٹوٹا پڑگیا تھا۔


پے درپے جھٹکوں نے عمانوئیل کو ذہنی طور پر شکست خوردہ اور عملی طور پر ناکارہ بنادیا تھا۔ وہ اپنے باپ سے چھپاکر افیون کا نشہ کرتا تھا۔ اب کوئی روک ٹوک نہ تھی لیکن وسائل بھی نہ تھے۔ عمانوئیل نے بے تکلف لبیبہ کے چھوٹے موٹے زیوروں اور پھر نعومیہ کے چھپ چھپاکر رکھے ہوئے ان گھڑچاندی کے پازیب اور طوق، چھلے، رہن رکھ کر قرض لینا شروع کیا۔ جب وہ سب بھی تھڑ گیا تو مکان کا ایک ایک کمرہ رہن رکھ رکھ کر عمانوئیل اپنی لت اور بیٹی کی جان کی پرورش کرتا رہا۔ نعومیہ اکثر بے کھائے ہی رہ جاتی۔ دبلی پتلی بلکہ سوکھی اور زندگی کے رس جس سے بالکل عاری، اس کے بدن میں گھلنے کے لیے بھی کچھ نہ تھا۔ ارمن کی سخت سردی اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی۔ ہڈیوں کے بخار نے اسے ایندھن کی طرح جلا ڈالا۔ اسفندیار ۱۰۸۰ کے آغاز میں اس کی مدت عمر پوری ہوئی۔ اس کے کچھ ہی دن بعد عمانوئیل بھی سردی سے اکڑ کر مرگیا۔ جن لوگوں کے پاس املاک رہن تھی، انہوں نے تو اتنی مروت برتی کہ املاک مرہونہ پر قبضہ لے لیا اور سود کی رقم پر اصرار نہ کیا۔ لیکن ایک شخص ایسا تھا جس کا زرنقد نکلتا تھا۔ اس نے پانچ برس کی لبیبہ کو ایک رقاصہ زہرۂ مصری کے ہاتھ فروخت کرکے حساب برابر کیا۔


وہ زمانہ ایسا نہ تھا جب ننھے لاوارث بچوں اور خاص کر لاوارث نادار بچیوں کے ساتھ مروت یار عایت کا سلوک کیا جاتا۔ خریدے ہوئے انسانی بچے اور خریدے ہوئے جانور میں صرف یہ فرق تھا کہ جانور کو کبھی کبھی اگلے پاؤں میں رسی ڈال کر چراگاہ یا اوسر زمین میں کھلا چھوڑدیتے تھے کہ جس طرح چاہے اپنا پیٹ بھر لے۔ لیکن انسانی بچوں کو گھر کی دیوار کے باہر جھانکنے کی بھی اجازت نہ ہوتی تھی۔


لبیبہ خانم پر بچپن میں کیا کیا ظلم ٹوٹے، اس کی تفصیل بے فائدہ ہے۔ گھر کے اندر جھاڑو برتن کا کام کرنے اور راتوں کو زہرۂ مصری کے پاؤں دبانے کے ساتھ ساتھ وہ صبح شام ناچ اور گانے کی تعلیم بھی حاصل کرتی۔ ضرورت پڑنے پر اسے نیچے کی دکانوں سے سوداسلف لانے اور بازار کے لفنگوں کی گندی باتیں سہنے کے لیے بھی بھیج دیا جاتا۔ لیکن حسن ایسی دولت ہے جو اپنے وقت پر بہار لاتی ہی ہے۔ بنفشہ ہو کہ گل مشکی یا لالۂ صحرا، جب انہیں کھلنا ہوتا ہے تو خزاں کے قدم شل ہوجاتے ہیں۔ بارہ تیرہ برس کی ہوتے ہوتے لبیبہ خانم نخجوان کے لیے شہر آشوب بن چکی تھی۔ کہنے والے کبھی اس کا دل موہنے کو لاڈ اور چھیڑ کے لہجے میں، کبھی ہاتھ جوڑ کر رحم طلب لہجے میں کہتے،


فرماں دہی کشور دل کار بزرگ است
نودولت حسنی ز تو ایں کار نیاید


لیکن لبیبہ خانم نے بھی کوئی دقیقہ اٹھانہ اٹھا رکھا۔ ایسی دھوم دھام کی معشوقی کسی نے کاہے کو کی ہوگی۔ حسن پرستوں، عاشق مزاجوں میں کوئی ایسا نہ تھا جس نے اس سے توقع نہ باندھی ہو، اور جس کی توقع پوری ہوئی ہو۔ لبیبہ خانم نے وہ سارے انداز دلربائی، وہ سارے طرز ستم آرائی ازخود حاصل کرلیے تھے جن کے لیے دوسرے حسینوں کو مشق کرنی پڑتی ہے،


یکیست معنی اگر لفظ بے شمار بود
یکیست یوسف اگر صدہزار پیرہن است


کیا پہناوا، کیا لب و لہجہ، کیا آواز، کیا نگاہ غلط انداز کی خفیف سی چشمک، کیا چال ڈھال، کیا طرز نشست و برخواست، لبیبہ خانم کی بوٹی بوٹی روئیں روئیں سے تمنا اور لگاوٹ تراوش کرتی تھی۔ اس کی ایک جھلک بھی دیکھ لینے والے کو گمان گزرتا، اور بہت جلد ہی یہ گمان عقیدے اور یقین محکم میں بدل جاتا کہ بس ذرا سی کوشش کی دیر ہے، یہ مرغ بہشتی میرے ہی دام میں آئے گا۔ واللہ اس کی آنکھیں کہے دیتی ہیں کہ ہم تمہارے منتظر ہیں۔ ایک بوے گل ہے جس کی سلسلہ جنبانی کوئی نسیم دلی کرتی ہے۔ یہ ایسا چمن ہے جس میں ہر ایک کی آمد و شد نہیں، لیکن میرے لیے اس کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ ہر شخص اسی امید میں اس کے دروازے پر قبل ازوقت پہنچتا کہ ہجوم کے باعث مجھ پر اس کی نگاہ ابھی تک ٹھیک سے پڑی نہیں، آج بس دیکھ لینے بھر کی دیر ہے پھر تو ہم ہی ہم ہیں۔ لیکن وہاں تخلیہ تو کبھی ہوتا ہی نہ تھا۔ اور پھر بھی ہر شخص سمجھتا تھا کہ لبیبہ خانم مجھے اور صرف مجھے د یکھنا چاہتی ہے۔


اپنی مالکہ نائکہ زہرۂ مصری سے بھی اس نے خوب گن گن کر بدلے لیے۔ وہ ہزار گڑگڑاتی کہ فلاں رئیس یا فلاں ملک التجار کے ساتھ ذرا لگاوٹ کی بات ہی کرلے لیکن لبیبہ خانم نے وہ گن سیکھے ہی نہ تھے۔ ایک دن ایک آذری رئیس زادے نے اس کے دروازے پر کھڑے کھڑے یہ کہہ کر اپنے گلے پر چھری پھیرلی،


رفتم از کوے تو اے خوبہ جفاکردہ بگو
صرف اوقات بہ آزار کہ خواہی کردن


اور لبیبہ خانم نے جھروکے سے جھانکا تک نہیں۔ زہرۂ مصری چپ چاپ دیکھا کی۔ کرتی بھی کیا، لبیبہ کے شائقین اور تماش بین تانتا لگائے رہتے تھے۔ ان کی بدولت گھر میں ہن برس رہا تھا۔ عثمانی دینار اور ایرانی تومان سے لے کر ہندوستانی روپے تک کون سا سکہ تھا جس کی بدریاں روز لبیبہ خانم پر پر چڑھاوے میں نہ چڑھتی ہوں۔ وہ صرف وقت مقررہ پر دن میں دوبار اپنے حجرے سے نکل کر دیوان خانے میں رونق افروز ہوتی، ایک بار سہ پہر ڈھلنے کے بعد گانے کے لیے، اور دوسری بار رات گئے رقص کے لیے۔ سردی ہو یا گرمی، اس معمول میں فرق نہ آتا۔ گھر سے باہر وہ کبھی نکلتی نہ تھی۔ بعض دفعہ کسی بگڑے دل حاکم یا رئیس نے دھمکی دی کہ لبیبہ خانم فلاں وقت محل سرا میں حاضر نہ ہوئی تو اٹھوا منگوالوں گا، تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وقت مقررہ کے بہت پہلے بار برداری کے اونٹوں اور سواری کے ناقے زہرۂ مصری کے بلند و بالا پھاٹک کے اندر اور باہر ہجوم کیے نظر آئے۔ معلوم ہوا کہ سارا گھرانہ اٹھ کریار وان، یا کہیں اور جارہا ہے۔ اب جابر سے بھی جابر حاکم کی یہ مجال نہ تھی کہ قافلے کو روک لیتا، یا پوچھ دیتا کہ تمہارا پرچۂ راہداری کہاں ہے۔


ایک بار ایک امیر نے ارادہ کیا بھی تو کوتوال شہر نے اس سے صاف کہہ دیا کہ میں زہرۂ مصری کو روک کر لبیبہ خانم کواٹھواتو لاؤں گا، لیکن انجام کے ذمہ دار جناب ہوں گے۔ شہر بھر میں کسی کو ان کی مفارقت گوارا نہیں۔ اور نہ یہ ممکن ہے کہ ان لوگوں پر کوئی جور یا زور زبردستی ہو، اور اہل شہر چپ دیکھتے رہیں۔ مجبوراً زہرۂ مصری کو شہر والوں کی طرف سے درخواست گزرتی کہ آپ کہیں نہ جائیں، مرضی آپ کی، شہر آپ کا، شہر والے آپ کے۔ پھر سارا سامان، فرش فروش، پالتو جانور، شیشہ آلات، واپس گھر میں لائے جاتے اور روز کا نقشہ پھر قائم ہوجاتا۔


زہرۂ مصری خود تو قبطی عیسائی تھی لیکن اس نے لبیبہ خانم کے مذہب سے کچھ تعرض نہ کیا تھا اور نہ اسے دین موسوی کی کوئی تعلیم ہی دلوائی تھی۔ اپنے بعض یہودی چاہنے والوں کی بدولت لبیبہ خانم کو اپنے مذہب کی کچھ شدبد ہوگئی تھی۔ اپنی شریعت کے اعتبار سے آغاز سال میں وہ یوم کفارہ کا روزہ ضرور رکھتی لیکن اس سے زیادہ اس نے اپنے اور اپنے دین، یا مذہب، یالائحۂ حیات کے بارے میں سوچا نہ تھا۔ اس کے حسابوں اس کا مذہب اپنے چاہنے والوں کے ساتھ کج دار و مریز کا کھیل کھیلنا تھا، یعنی یہ کہ ان کے ساتھ ایسا برتاؤ ہو کہ ہر ایک کو یقین رہے کہ کامگار وہی ہوگا، لیکن کوئی اس پر قابض بھی نہ ہوسکے۔


اس نے کبھی ٹھہر کر سوچا نہ تھا کہ کیا اس کا یہ رویہ کسی فطری ذہانت یا چالاکی پر مبنی تھا، کہ اس کے لیے سب سے اچھی راہ یہی تھی کہ اپنے بہترین اثاثے، یعنی اپنے حسن اور اپنے بدن کی اس طرح حفاظت کرے کہ لوگ مایوس بھی نہ ہوں اور گوہر مراد کسی کے ہاتھ بھی نہ لگے، اور اس طرح یہ نقد گرانما یہ کسی کے پاس عاریتاً بھی نہ جائے، اس کی قدر گھر بیٹھے بڑھتی رہے اور اس کا کیسہ کبھی ایک لمحے کو بھی خالی نہ ہو؟ نہ اس نے کبھی رک کر یہ سوچا کہ کیا اس کے دل کی گہرائی میں کہیں دنیا اور ارباب قضا و قدر سے انتقام لینے کا جذبہ موجزن تھا، اور وہ اس طرح حساب برابر کر رہی تھی کہ جس طرح دنیا نے اسے محفوظ گھر، محبت کے گوشے اور عام انسانی توقیر سے محروم رکھا تھا، اسی طرح وہ زہرۂ مصری سے لے کر اپنے گاہکوں، چاہنے والوں (جن میں عورتیں بھی شامل تھیں)، صاحب ثروت، باحیثیت لوگوں، یعنی کل کے سب اقتدار دار لوگوں کو آج اپنے اقتدار تلے رکھنا چاہتی تھی؟


سچ تو یہ ہے کہ اپنے بدن کی حفاظت، اس کی ظاہر اور پنہاں لطافتوں اور نزاکتوں کو اپنی ہی آنکھ تلے کھلتے پھلتے معطر اور مطلی ہوتے دیکھنا، یہ اس کی زندگی کا مرکزی سروکار خودبخود ہی بن گیا تھا۔ بچپن اور جوانی کے درمیان کی فصل اس پر گزری تھی، لیکن وہ گھر کے کاموں کو مرمر کر پورا کرنے، اپنی مالکہ نائکہ کے حکم بجا لانے اور تعلیم لینے میں اس طرح خود کو کھپا چکی تھی کہ اسے اپنے بدن کی تبدیلیوں کا پتا ہی نہ چل سکا تھا اور نہ وہ یہی سمجھ پائی تھی کہ وہ اچھی ہیں یا بری ہیں۔ اسے صرف یہ محسوس ہوتا تھا کہ لوگوں کی آنکھیں اب اس پر کسی اجنبی زاویے سے پڑتی ہیں اور وہ آنکھیں جو پہلے اس کے منھ پر آکر رک جاتی تھیں، اب گردن اور اس کے نیچے اور پھر کمر اور اس کے بھی نیچے کچھ ڈھونڈتی ہوئی سی لگتی ہیں۔ اور اس احساس کے بالیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی رفتار، اس کی چتون، اس کی آواز کی موسیقی، کمر جھکاکر کوئی چیز اٹھانے، اور سر اونچا کرکے کوئی چیز پھینکنے کے طور، اس کا شرماکر منھ پھیرلینا، ان سب باتوں میں ازخود کوئی ایسی تبدیلی بھی آگئی تھی جس سے اسے ڈر بھی لگتا تھا اور جو اسے اچھی بھی لگتی تھی، کیوں کہ وہ اتنا تو دیکھ ہی سکتی تھی کہ گھر میں یا گھر کے باہر، کسی بھی لڑکی میں وہ بات نہیں جو اس میں ہے۔


پھر اسے جلد ہی اور خود بخود یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ وہ، جو اپنی چھوٹی سی زندگی میں دوسروں کی تابع رہ کر اتنے دکھ بھوگ چکی تھی جو کئی عمروں کے لیے کافی ہوتے، اب اس کے پاس بھی ایک ایسی چیز تھی، جس کے ذریعے وہ بہت کچھ اقتدار حاصل کرسکتی تھی۔ پھر اسے تنہائی میں اپنے جسم کو بغور دیکھنے اور اس میں شگفتگی کے آثار کی دھندلی نمود کو، اپنی چشم تصور اور قوت تخیل کے ذریعے نمایاں کرنے میں ایک لطف آنے لگا۔ اب اسے زہرۂ مصری کی زدوکوب بھی نہ اٹھانی پڑتی۔


اس کی مالکہ اس بات کا خاص خیال رکھتی کہ لبیبہ خانم کے بدن پر، خاص کر منھ یا سینے یا کولھے پر چوٹ کا کوئی نشان یا داغ نہ پڑجائے۔ اب اسے منھ دھونے اور نہانے کے لیے خوشبودار صابن اور نہاکر بدن پونچھنے کے لیے تولیہ بھی ملنے لگا۔ ورنہ پہلے اول تو نہانے کی ہی فرصت اور اجازت نہ تھی اور اگر وہ کبھی نہالیتی تو سخت سردی ہوتی یا بارشوں کے دن ہوتے، اسے بدن خشک کیے بغیر وہی اتارے ہوئے کپڑے پہننے پڑتے تھے۔ بالوں میں ڈالنے کے لیے روغن یا سمن کی ایک چھوٹی سی کپی، او ربال کاڑھنے کے لیے لکڑی کی ایک پرانی سی کنگھی جس دن اسے ملی، اس دن اس نے پہلی بار خود کو انسان محسوس کیا۔


زہرۂ مصری کو اس وقت کا بڑا انتظار تھا جب لبیبہ خانم کو چھوٹے کپڑوں اور عمر کے دیگر لوازم کی ضرورت پڑے گی۔ لیکن لبیبہ نے اسے اس فتح مندی کا بھی موقع نہ دیا۔ احساس حسن کے ساتھ اس میں کچھ ایسی فطری نخوت آگئی تھی کہ نائکہ زہرہ کو اب اس سے کچھ ڈر لگنے لگا تھا، وہ اسے بلوغت کے گر بتانے یا ان معاملات کے بارے میں پوچھنے سے گریز کرتی تھی۔ ایام گل سے پہلی بار سابقہ پڑنے پر لبیبہ خانم گھبرائی نہ روئی، نہ اس نے زہرۂ مصری سے کچھ پوچھا۔ جسمانی اور روحانی دونوں طرح کی صعوبتوں کی خوگر تیرہ برس کی جان نے کسی نہ کسی طور پر سمجھ لیا تھا کہ یہ کوئی بیماری نہیں ہے۔ اور اسے کسی نہ کسی طرح یہ بھی پتا چل گیا تھا کہ اس بات نے اس کی دولت مندی میں کچھ محسوس، کچھ نامحسوس اضافہ بھی کیا ہے۔


لبیبہ خانم نے اپنی انہیں نو یافتہ رعنائیوں اور نخوتوں کے ساتھ نوسال گزاردیے۔ ’نے عشق کو ہے صرفہ نے حسن کو محابا‘ کے مصداق دونوں جانب روزاول کی سی چہل پہل رہی۔ کہتے ہیں اکیس بائیس برس کی عمر میں کسی کے حسن پر شباب آتا ہے۔ یہ بات کوئی ا ن تماش بینوں کے دل سے پوچھتا جو بارہ تیرہ سال کی لبیبہ خانم کے طلبگار تھے، اور جنہیں یہ محسوس ہی نہ ہوا تھا کہ گردش ماہ و سال بھی اس پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔ ایسا نہیں کہ اس کے سارے چاہنے والے روزاول سے وہی تھے۔ ’ایک اگر جی لے بھی گیا تو آتے ہیں مرجانے دو‘ کا قصہ یہاں بھی تھا اور لبیبہ کے بھی طور طریقے وہی تھے۔ بعض بعض نئے آنے والے ایسے بھی تھے جن کو دیکھ کر تصور بھی نہ ہوتا تھا کہ وہ اس یوسف کشور خوبی اور گل گلزار محبوبی کی خواہانی کا دماغ بھی رکھتے ہوں گے۔ انہیں میں ایک نیم ایرانی، نیم چرکسی نوجوان شاعر اور مطرب تھا جسے لوگ بایزید شوقی کے نام سے جانتے تھے۔ وہ ایک سمرقندی طائفے کے ساتھ شہر شہر گھومتا اور حافظ یا مولوی کی غزلیں گایا کرتا تھا۔


کشیدہ قامت، چھریرے بدن، نیلی آنکھوں، گھونگھر والے بالوں، قیامت کی رسیلی آواز والا بایزید شوقی ناک نقشے کے اعتبار سے اس قدر نازک تھا کہ اگر زنانہ لباس پہن لیتا، جیسا کہ اس کے طائفے والے اسے کبھی کبھی پہنا بھی دیا کرتے تھے، تو اچھی خوبصورت عورت معلوم ہوتا۔ اس کی عمر اور اس کے دیگر حالات کا کسی کو پتا نہ تھا۔ بس ایک دن اس کا طائفہ نخجوان میں وارد ہوا اور بایزید شوقی کی آواز کی دھوم مچ گئی۔ یہاں آنے کے دوسرے ہی تیسرے دن صبح بہت سویرے خداجانے اس کے جی میں کیا آئی کہ زہرۂ مصری کے سامنے والے بازار کے چوک پر جابیٹھا۔ اسے شاید اس وقت معلوم بھی نہ تھا کہ وہ کس کے دروازے پر ہے اور یہاں کس قسم کے لوگ رہتے ہیں۔ ابھی اتنی روشنی نہ ہوئی تھی کہ سگان کوچہ کے بھی خال و خد نمایاں نظر آسکتے۔ ایک دو گھروں کے آگے چراغ ٹمٹما رہے تھے لیکن زہرۂ مصری کے جھروکے میں شمعی رنگوں کی قندیلوں سے منور بارہ فانوسوں کے شمعدان سے اب بھی لویں پھوٹ رہی تھیں۔ ادھر اکادکا مزدور، کچھ انسان کے اور کچھ اللہ کے، اور اکادکا سپاہی، کچھ انسان کے اور کچھ اللہ کے، اپنے کاروبار کو جارہے تھے یا جانے کو تیار ہو رہے تھے۔ اور ادھر بایزید شوقی نے سہ تار پر خواجۂ شیراز کی غزل شروع کی،


اے شاہد قدسی کہ کشد بند نقابت
وے مرغ بہشتی کہ دہد دانہ و آبت


ساری فضا پر سناٹا سا چھا گیا۔ ایسا لگا کہ لبیبہ خانم کے گلزار کے طائر بھی جو کسی دور افتادہ گل خودرنگ کی یاد میں زمزمہ کناں تھے، کان دھرکر سن رہے ہیں کہ یہ کون ہے جس کی لے شہر تاباغ ایک آواز ہے کہ دلوں میں اتری چلی آتی ہے۔ فجر کی نماز کو جانے والے بھی ٹھٹک کر رک گئے۔ اکثروں نے گمان کیا کہ یہ اجنبی مغنی اپنی میٹھی آواز سناکر اور موہنی صورت دکھاکر لبیبہ خانم کو متوجہ کرنا چاہتا ہے۔ بعض نے دل میں افسوس کیا کہ اس خوش رو جوان کی بھی یہیں مٹی خراب ہونی تھی، اس بچارے کو کیا خبر کہ یہاں تماش بینوں کی آرزوؤں کے مزاروں کے سوا چار طرف کچھ نہیں۔ لیکن بایزید ایک بے چین، آسماں بوس، متلاطم وجد میں گم، اپنے آپ میں تنہا، گردوپیش سے بے خبر تھا۔ بعض اوقات وہ ایک ایک مصرع ایک ایک گھڑی تک طرح طرح سے دہراتا اور نئی سے نئی ادائیگیاں دکھاتا،


رفتی بہ کنار من دل خستہ و ناکام
خوابم بشد ازدیدہ دریں فکر جگر سوز
تاجاے کہ شد منزل وماواے کہ خوابت
راہ دل عشاق زد آں چشم خماری
یارب نہ کناد آفت ایام خرابت


یہاں تک کہ جب وہ مقطع پر پہنچا تو سننے والوں کو لگا کہ اب ان کے ساتھ ساتھ بایزید کی بھی جان چلی جائے گی،


حافظ نہ غلامے ست کہ از خواجہ گریزد
لطفے کن و باز آکہ خرابم بہ عتابت


دیکھنے والوں نے دیکھا کہ زہرۂ مصری کی حویلی کے پٹ کھلے، ایک بوڑھا دربان باہرآ یا اور بایزید شوقی کو اندر بلالے گیا۔ وہاں بایزید نے کیا دیکھا، کیا سنا، یہ کسی کو نہیں معلوم، لیکن جب اس کا طائفہ شہر نخجوان سے کوچ کرنے لگا تو بایزید اس میں نہ تھا۔ وہ رہتا کہاں تھا، یہ بھی کسی کو نہ معلوم ہوا۔ اتنا ضرور تھا کہ ہر صبح زہرۂ مصری کی حویلی کا پھاٹک کھلنے کے پہلے ہی وہ سامنے کے چوک پر پہنچ کر کبھی مولوی اور کبھی حافظ کی غزل گاتا، تاآنکہ اس کی طلبی اندر سے نہ آجاتی۔ دوتین برس یوں ہی گزرگئے۔ بایزید نے کسی اور طائفے کی سنگت بھی نہ اختیار کی تھی اور نہ وہ کہیں کسی کے گھر میں یا کسی تقریب کے موقعے پر گانے ہی کے لیے جاتا تھا۔ شروع شروع میں اس کی طلبیاں بہت تھیں، لیکن پھر سب ہی نے سمجھ لیا کہ اب وہ صرف اپنے لیے اور لبیبہ خانم کے لیے گاتا ہے۔


پھر ایک دن یہ خبر بچے بچے کی زبان پر تھی کہ لبیبہ خانم نے بایزید شوقی سے نکاح کرلیا، زہرۂ مصری کی حویلی راتوں رات چپکے سے چھوڑدی اور صبح ہوتے ہوتے شہر بھی چھوڑدیا۔ زہرۂ مصری نے کیا کیا فیل نہ مچائے، کیا کیا کوششیں نہ کیں کہ کچھ پتا ہی چل جائے کہ دونوں گئے تو کہاں گئے۔ یقیناً کسی ساربان یا قافلے سے سازباز بہت پہلے سے کر رکھی ہوگی۔ مگر ان دنوں شہر میں کوئی قافلہ آیا گیا نہ تھا۔ زہرۂ مصری نے حکام کو متوجہ کرنے کے لیے یہ بہانہ بھی تراشا کہ لبیبہ نے بایزید کے اغوا سے یہ قدم اٹھایا ہے، ورنہ وہ خود تو اس سے چڑتی اور دور بھاگتی تھی۔ مگر یہ بات کسی کے بھی حلق سے نہ اتری۔ زہرہ کو لبیبہ سے محبت تو خاک نہ تھی، لیکن سونے کی چڑیا کو ہاتھ سے دے کر کسے افسوس نہیں ہوتا۔


زہرہ اور لبیبہ کے درمیان اقتدار کی مساوات تو مدت العمر ہوئی بدل چکی تھی۔ اب پلڑا لبیبہ کے حق میں بھاری تھا۔ زہرۂ مصری ابھی لبیبہ کی محکوم نہ تھی تو اس پر کسی قسم کا اختیار بھی نہ رکھتی تھی۔ قانون کی رو سے لبیبہ خانم اس کی زرخرید ضرور تھی، لیکن عثمانیوں بلکہ عام مسلمان حکومتوں میں بھی، مفرور لونڈی غلام کی تلاش اور بازیافت کا کوئی نظام نہ تھا۔ یہ معاملہ مالک اور غلام کے درمیان تھا اور لبیبہ خانم کے معاملے میں کسی کو بھی زہرۂ مصری سے ہمدردی نہ تھی۔ نہ ہی کوئی شخص لبیبہ خانم کو صحیح معنی میں زہرۂ مصری کی مملوک سمجھتا تھا۔


زہرۂ مصری کے گھر میں لبیبہ خانم کے قید ہونے، مشقتیں اٹھانے اور پھر وہیں ایک طرح سے حکومت کرنے کا زمانہ پچیس برس سے کچھ اوپر کو محیط تھا۔ اس طرح وہ اب عمر کی تیس منزلیں طے کرچکی تھی، کوئی بھولی بھالی بچی نہ تھی۔ لہٰذا زہرۂ مصری کی فریادیں، کہ بایزید شوقی میری بچی کو بھگاکرلے گیا ہے، کسی کے لیے وثوق انگیز نہ تھیں۔


بایزید شوقی کی عمر کیا تھی، یہ بات کسی کو معلوم نہ تھی۔ نہ یہ بات کسی کو معلوم تھی کہ اس کے چہرے کا ہلکا سنہرا چمپئی رنگ جسے حسن پرستوں کی اصطلاح میں ’’رنگ مہتابی‘‘ کہا جاتا تھا، دراصل رنج باریک (عرف عام میں تپ دق، مرتب) کی زردی تھی۔ اسے کھانسی بالکل نہ آتی تھی، اس لیے لبیبہ خانم کو بھی شک نہ گزرا کہ اسے ہڈی کا بخار ہے۔ وہ اکثر طوطی ہند امیر یمین الدین خسرو کا شعر پڑھتا، اور لوگ گمان کرتے کہ وہ یوں ہی رسمی سی بات کر رہا ہے،


درونم آتش اندیشہ بند از بند می سوزد
عفاء اللہ گر کس راتپ اندر استخواں باشد


نخجوان چھوڑتے وقت بھی اسے بخار تھا، لیکن اس نے کسی کو کچھ شک نہ ہونے دیا۔ بیماری اور اس پر طرہ یہ کہ اس نے راہ دشوار اختیار کی جو سیدھی ان کی منزل کو نہ جاتی تھی۔ اس میں لبیبہ خانم کی مرضی اور اجازت شامل تھی، کیوں کہ دونوں کا ہی مدعا یہ تھا کہ منزل کو فی الوقت خفیہ رکھاجائے۔


یہ مہر کا مہینہ اور ۱۱۰۶کا سال تھا (مطابق ستمبر ۱۷۲۷ء، سنہ ہجری کے اعتبار سے صفر ۱۱۴۰، مرتب) مشرق میں بحرماژندران (جسے بعض لوگ بحر خزر بھی کہتے تھے) اور مغرب میں بحراسود، دونوں طرف سے سرد اور بارش بھری ہواؤں کا جوش تھا۔ مرطوب ہوا، بارش کی وجہ سے سڑک پر کیچڑ اور گڈھے، جگہ جگہ سفر کو اور بھی مشکل بنارہے تھے۔ لبیبہ خانم اور بایزید شوقی کی اصل منزل تو تبریز تھی، لیکن ممکن متعاقبوں کو دھوکے میں ڈالنے کے لیے انہوں نے شمال مغرب کی سمت اختیارکی۔ اصفہان سے شروع ہوکر ہمدان اور کرمان شاہ سے گزرتی ہوئی عظیم الشان عباسی شاہراہ جو ارومیہ جھیل کے کنارے پہنچتی تھی، یاروان ہوکر دور شمال میں طبلیسی کو نکل جاتی تھی۔ لبیبہ اور بایزید نے شروع میں اپنی سمت ایسی رکھی گویا وہ کسی مقام پر اس شاہراہ کو جالیں گے۔ ظاہر ہے کہ ان کی راہ اس طرح بہت لمبی ہوگئی اور انہیں کئی جگہ غیراہم بستیوں اور کم چلتی ہوئی سڑکوں سے گزرنا پڑا، جہاں پڑاؤ کے لیے مناسب سرائیں بھی نہ تھیں۔ ورنہ تبریز تو نخجوان سے بمشکل تیس کوس کے فاصلے پر تقریباً سیدھی جنوب کی سمت تھا۔


دوسری بات یہ تھی کہ نخجوان کے شمال مشرق اور شمال مغرب میں سارا ملک اقالیم عثمانیہ میں پڑتا تھا، جب کہ جنوب میں کوئی بیس ہی پچیس کوس چل کر ایران کی سرحد شروع ہوجاتی تھی اور اس سمت میں ایران کاپہلا بڑا شہر تبریز ہی تھا۔ زبان ان دونوں کے لیے کوئی مسئلہ نہ تھی، سیاسی پناہ ضرور ان کے لیے اہم تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایران میں خطبہ اور سکہ تو شاہ طہماسپ صفوی کا چلتا تھا، لیکن زمام کار نادر قلی خان کے ہاتھ میں تھی۔ نادر قلی خان نے غالباً شاہ طہماسپ صفوی سے اپنی وفاداری اور تعلق خاطر کے ثبوت کی غرض سے اپنا نام طہماسپ قلی خان رکھ لیا تھا، اور شاہ عباس صفوی سوئم کی موت (۱۷۳۶ء، مرتب) کے بعد اس نے نادر شاہ کا لقب اختیار کرکے ایران کا تاج و تخت بھی سنبھال لیا تھا۔ اس بات کو ابھی کوئی دس برس باقی تھے لیکن اپنے حسن انتظام، تدبر ملکی اور لیاقت عسکری کی بدولت طہماسپ قلی خان نے سارے ایران میں اپنے جھنڈے گاڑ دیے تھے۔


عثمانیوں اور ایرانیوں میں گاڑھی کبھی نہ چھنی تھی اور ان دنوں تو کٹا چھنی تھی۔ عثمانیوں کو نادر قلی خان کی قوت اور ہردل عزیز ی ایک آنکھ نہ بھاتے تھے۔ وہ اسے ایک معمولی خراسانی چرواہے کی اولاد سمجھتے تھے اور اس سے کسی قسم کی سیاسی گفت و شنید کرنا یا اس کے ساتھ کسی صلح نامے پر دستخط کرنا دون مرتبہ جانتے تھے۔ لیکن دونوں حکومتوں کے درمیان اس کشیدگی کے باعث ممالک عثمانیہ سے بھاگ کر مملکت ایران میں پناہ لینے والوں کو توقع ہوتی تھی کہ انہیں واپس عثمانی حکام کے سپرد نہ کردیا جائے گا۔


پیچ دار راہیں اختیار کرنے اور ٹھہر ٹھہر کر سفر کرنے کی وجہ سے لبیبہ خانم اور بایزید شوقی نے تین دن کا سفر تین ہفتے میں طے کیا۔ تبریز میں انہیں کوئی جانتا نہ تھا، عافیت ہی عافیت تھی۔ لبیبہ خانم اپنے ساتھ ا تنا زرنقد اور زیور لائی تھی کہ کئی سال تک انہیں فکر معاش نہ ہوتی۔ پھر بھی، بایزید نے فوراً چند تبریزی امیرزادوں کی اتالیقی حاصل کرلی۔ لبیبہ خانم دوبارہ گھر میں بند ہوگئی لیکن یہ محرومی آشیاں بندی کی تھی اور ہزاروں نام نہاد آزادیوں سے بڑھ کر تھی۔


یکم رجب ۱۱۴۳ہجری (یعنی ۱۰جنوری ۱۷۳۱ء، مرتب) کولبیبہ خانم ایک بچی کی ماں بنی۔ بچی کا نام نورالسعادۃ رکھا گیا۔ بچی کی پیدائش کے تیسرے دن بایزید کو سردی لگ کر کھانسی شروع ہوئی۔ وہ بمشکل ایک ہفتہ بستر پر رہا اور اس عرصے میں بھی اس نے طبیب کا منھ نہ دیکھا۔


’’میں اب موت ہی کا منھ دیکھوں گا لبیبہ خانم۔‘‘ اس نے رک رک کر بھرائی ہوئی آواز میں کہا، ’’میں تمہارا قصوروار ہوں، جب تم نے مجھے پہلی بار بلایا تھا تو مجھے انکار کردینا چاہیے تھا۔ نہیں تو مجھے چاہیے تھا کہ کسی موقعے پر تمہیں بتاہی دیتا کہ میرے چہرے کی گلابی سرخی دراصل عارضی ہے۔ موت ایک عرصے سے میری تلاش میں ہے اور یہ تلاش بہت جلد ختم ہوجائے گی۔‘‘


’’تم کیوں قصوروار ٹھہرو؟‘‘ لبیبہ نے چیں برجبیں ہوکر کہا، ’’یہ کون سی منصفی ہے کہ جان بھی تمہاری جائے اور قصوروار بھی تم ہی ٹھہرائے جاؤ۔ مجرم اگر کوئی ہے تو وہ ہے جسے کوئی تقدیر کہتا ہے، کوئی۔۔۔‘‘


’’چپ، ایسی بات منھ سے نہ نکالو جس پر بعد میں پشیمانی ہو۔ ہم لوگ اس لیے بنائے گئے تھے کہ اپنی حد کمال کو پہنچیں۔ میری، اور سچ کہو تو کسی کی بھی حدکمال اس سے بڑھ کر کیا ہوگی کہ تم تک پہنچ جائے۔ میں تمہارے لائق تھا بھی نہیں۔ کہاں میرا کثیف سینہ، کہاں تمہارے جمال بے مثال کا عکس۔ اس کے بعد مجھے جینے کی ضرورت بھی نہ تھی۔ اتنے دن تو تمہاری محبت مجھ مردہ کو یمن زندگی کی بدولت اٹھائے رہی۔‘‘ یہ کہتے کہتے وہ اچانک پلنگ پر اٹھ کر بیٹھ گیا۔ نہ جانے کہاں سے اس کے بدن میں نئی جان آگئی تھی کہ اس نے پورے لحن کے ساتھ شعر پڑھا،


چورسی بہ کوے دلبر بہ سپار جان مضطر
کہ مباد بار دیگر نہ رسی بدیں تمنا


پلنگ کے سرہانے کا سہارا لے کر بایزید نے ایک بار پھر سرگوشی کے لہجے میں یہی شعر دہرایا اور آنکھیں بند کرلیں۔


وہ پہلی سردی نورالسعادۃ کے لیے بڑی سخت تھی بلکہ سب ہی کے لیے سخت تھی، کہ بوڑھے لوگ بتاتے تھے ایسی بے مہر سردی تبریز میں نصف صدی سے نہ پڑی تھی۔ نورالسعادۃ کو ہر پانچ سات دن پر کھانسی یا نزلہ ہوجاتا، پھر اس کا سینہ جکڑ جاتا اور سانس اس قدر تیز چلنے لگتی کہ اس کا پھول سا چہرہ نیلا پڑنے لگتا۔ اطبا کی رائے تھی کہ اسے پیدائشی دمہ ہے، یا پھر باپ کے اثر سے اس کے بھی پھیپھڑے کمزور ہیں۔ آج کے ڈاکٹر ہوتے تو شاید الرجی تشخیص کرتے۔ ان دنوں یہ تصور ہی نہ تھا۔ لیکن ایک دو حکیموں نے یہ ضرور کہا کہ تبریز کی سرد، مرطوب ہوا بچی کے لیے مناسب نہیں، چند مہینے کسی طرح سہارلے تو اسے کسی نسبتاً معتدل جگہ لے جاؤ۔ مثلاً اصفہان میں ہوا یہاں کی بہ نسبت خشک ہے اور سردی بھی وہاں کم پڑتی ہے۔ اصفہان کا قیام اس بچی کے لیے مفید ہوگا۔


لیکن چھتیس برس کی عمر میں بیوہ ہوجانے والی، دنیا میں تن تنہا، لبیبہ خانم کس کے سہارے نئی جگہ منتقل ہوتی؟ نخجوان واپس جانے کا سوال تھا ہی نہیں اور وہاں کا موسم بھی بہرحال تبریز ہی کی طرح سخت اور سرد تھا۔ اصفہان میں، بلکہ تبریز کے باہر سارے ایران کبیر میں کوئی بھی ان ماں بیٹی کا جاننے والا نہ تھا۔ تبریز میں تو لبیبہ خا نم کو بیوگی کے چند ہی ہفتوں کے اندر بعض بااثر اور بعض رنگین مزاج عمر رسیدہ لوگوں کی طرف سے شادی یا پھر داشتہ بن کر رہنے کے لیے کنایے بھی آنا شروع ہوگئے تھے۔ یہ سلسلہ جنبانیاں لبیبہ خانم پر بے حد شاق تھیں لیکن ان میں امید کی ایک گدلی دھندلی سی کرن بھی تھی کہ تبریز میں رہے گی تو بالکل سبزۂ بے گا نہ بن کر نہ رہے گی۔ خیاباں میں گل بے خارنہ سہی تو سبزۂ لب جو کی طرح روندی اجڑی پجڑی بھی نہ رہے گی۔ اب لبیبہ میں وہ نخوت، وہ تمکنت، وہ خوداعتمادی نہ تھی۔ اب اسے خود پر وہ اطمینان نہ تھا جو اپنے حسن کے عالم میں ایک انتخاب اور سارے جہاں میں اپنی محبوبی کی دھوم کے تیقن سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کے مزاج میں تنک اب بھی تھی، لیکن اب ان نازوں کے اٹھانے والے اٹھ گئے تھے۔ اس کے باوجود اتنا تو تھا ہی کہ جس اعتماد کے ساتھ اہل محبت نے لبیبہ خانم کے تنہا رہ جانے میں دروبام دوستی کے ازسرنو کھلنے کی نشانیاں دیکھی تھیں، اس سے زیادہ اعتماد اور پر رمزتمکنت کے ساتھ لبیبہ خانم نے رواق و منظر آشنائی کے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سیاہ پڑجانے کے اشارے بھی اپنے طلب گاروں کو بھجوادیے۔


چھ سات مہینے کی عمر ہوتے ہوتے نورالسعادۃ دوتین بار مرتے مرتے بچی۔ سردیاں جاچکی تھیں لیکن تبریز کی ہوا میں رطوبت ابھی باقی تھی۔ نورالسعادۃ کے لیے اب بھی عافیت نہ تھی۔ وہ اس قدر دبلی تھی کہ اس کے ہاتھ پاؤں گڑیوں کے جیسے معلوم ہوتے تھے۔ چہرے پر بس دو آنکھیں ہی دکھائی دیتی تھیں، گہری اور سبز آنکھیں جن میں بیماری کی نقاہت کے باوجود آگاہی کی عجب روشنی تھی، گویا وہ دنیا اور اہل دنیا کو پرکھ رہی ہوں۔ سنہرے گھونگروالے بالوں کا ہالہ اس کے چہرے کی زردی کو اگر ایک حدتک زائل کرتا معلوم ہوتا تھا تو اس کی آنکھوں کے سبز نگینوں کی جھمک میں اس کے بالوں کا بھی عکس روشن نظر آتا تھا۔


موسم بدلا تو دنیا نورالسعادۃ پر کچھ آسان ہوئی، لیکن عارضی طور پر، ورنہ اس کی بیماری اس دھاگے کی طرح تھی جو مرغ نو گرفتار کے پاؤں میں باندھ دیتے ہیں۔ وہ اڑ تو سکتا ہے لیکن بہت دور نہیں جاسکتا۔ اٹھارہ مہینے کی عمر میں نورالسعادۃ ایک بار شدید کھانسی، زکام اور ضیق النفس میں مبتلا ہوئی تو اس کی بیماری طول کھینچ گئی۔ وہ اتنے دن بیمار رہی کہ معالجوں کو خوف پیدا ہوا کہ اگر سردیوں تک مرض کے یہی لیل و نہار رہے تو لڑکی زندہ نہ بچے گی۔ اب لبیبہ خانم مجبور ہوئی کہ بچی کی طبیعت کے تھوڑا سنبھلتے ہی تبریز کو خیرباد کہہ کر اصفہان کو ہجرت کرجائے۔ اس نے دومعتبر سار بانوں کے ذریعے رہنمائی، سواری کے لیے سانڈنیوں اور بار برادری کے لیے اونٹوں کا انتظام کیا، گھر کا غیر ضروری سامان گھر کے ساتھ فروخت کردیا اور ۱۱۴۵ کے ربیع الثانی (مطابق ستمبر ۱۷۳۲ء، یا آبان ۱۱۱۱، مرتب) میں اصفہان کے لیے روانہ ہوگئی۔ قبرستان شہر سے ذرا باہر لیکن اصفہانی شاہراہ ہی پر تھا۔ اس نے خشک آنکھوں اور ویران دل کے ساتھ بایزید کے مزار پر رک کراسے الوداع کہی اور وعدہ کیا کہ زندگی رہی تو پھر تیرے مزار پر آؤں گی اور اس کی زیارت کرکے ہی مروں گی،


گر بمانیم زندہ بر دوزیم
دامنے کز فراق چاک شدست


ار بمیریم عذر ما بپذیر
اے بسا آرزو کہ خاک شدست


اصفہان کی شاہراہ ان دنوں میانہ، زنجان، قزوین، قم، طہران، اور کاشان ہوکر جاتی تھی۔ یہ راستہ ذرا لمبا تھا لیکن محفوظ ہونے کے ساتھ اس میں ایک اور خوبی یہ تھی کہ کوئی بڑا دریا حائل نہ تھا۔ ورنہ بارشوں کے موسم میں ایسی کسی بڑی ندی کو عبور کرنا جس پر پل نہ ہو، خطرے سے خالی نہ تھا۔ قزوین سے طہران تک کوہ البرز کی چڑھائیاں اور وادیاں، اور پھر اصفہان کے بالکل پاس کوہ کر گس کی چڑھائی اور اتار ضرور تھے لیکن وہاں رفتار کے سست تر ہوجانے کے سوا کوئی صعب نہ تھا۔ ان کی سواری کے ناقے عراقی النسل، انتہائی خوبصورت، سبک گام اور ہرنوں کی سی بڑی بڑی آنکھوں والے تھے۔ ان کے سارے جسم پر سرخی مائل سنہرے بال تھے، اس قدر باریک اور نرم کہ معلوم ہوتا تھا یہ بال نہیں ہیں بلکہ ریشمی چادریں ہیں جو انہیں الگ سے اڑھادی گئی ہیں۔ عام اونٹوں کے برخلاف ان میں بدمزاجی اور ضد بالکل نہ تھی۔


نورالسعادۃ اپنی ننھی سی زندگی میں پہلی بار ایسے لطف سے دوچار ہوئی تھی، کہ ہوا تازہ اور رطوبت سے عاری ہو۔ کھلے آسمان پر چڑیوں کی چہچہاہٹ اس کی قلقاریوں سے یک آہنگ ہوجائے، اور سواری بھی صبا رفتار ہو، لیکن جھٹکے قطعی نہ ہوں۔ لبیبہ خانم کی پیشانی پر بھی بایزید کی موت کے بعد پہلی بار شگفتگی کی پھیکی سی لہر آئی۔ اسے امید ہونے لگی کہ بیٹی کی صحت اور زندگی، جن کی خاطر اس نے اپنے بایزید کو گورستان میں تنہا چھوڑ دیا تھا، اب ناقابل حصول تمنائیں نہ ٹھہریں گی، پوری ہوسکیں گی۔


وہ دو ہفتے میں اصفہان پہنچے۔ لبیبہ خانم نے ساربانوں کو معاوضہ اور انعام و اکرام کے ساتھ رخصت کیا، شاہی سراے میں ایک کوٹھری اپنے رہنے کے لیے اور ایک اپنا سامان محفوظ کرنے کے لیے کرائے پر لی اور اطمینان کا سانس لیا۔


دوسرے دن وہ رہنے کے لیے مناسب مکان کی تلاش میں نکلی۔ لیکن اسے جلد ہی معلوم ہوگیا کہ دوسروں کے لیے اصفہان نصف جہان ہو تو ہو، اس کے لیے وہ ایک تاریک جنگل سے بدتر تھا، کہ اسے اس کی وسعتوں میں کوئی بھی گوشۂ عافیت نہ مل سکتا تھا۔ کسی مرد، یا کم سے کم کسی بوڑھی خاتون سرپرست کے بغیر اسے کسی گھر میں بار نہ تھا۔ کہیں کہیں مکانوں کے مالک اسے دزیدہ للچائی نظروں سے دیکھتے اور یوں گفتگو کرتے کہ وہ ماں بیٹی کو بے قیمت یا بے کرایہ بھی گھر دے سکتے ہیں بشرطیکہ اس کی طرف سے بھی کچھ مزید انتظام کا وعدہ ہو۔ اگر کوئی عورت صاحب مکان ہوتی تو وہ اشاروں اشاروں میں، یا اپنے طرز گفتگو سے، ظاہر کردیتی کہ اس کے خیال میں لبیبہ خانم نہ بیوہ ہے، اور نہ کبھی اس کی شادی ہوئی تھی۔


اکثر عورتوں کے خیال میں لبیبہ ایک ’’گری ہوئی‘‘ یا بے آبرو عورت تھی، جس کے عاشق نے اسے چھوڑ دیا تھا۔ رہا یہ قصہ کہ وہ اپنی بیٹی کی صحت کی خاطر تبریز چھوڑ کر اصفہان آئی ہے، تو صاحب توبہ کیجیے، کہیں شہر بدلنے سے صحتیں حاصل ہوتی ہیں، اور بھلا کوئی دوردراز کے شہر میں ایسی کسی غرض سے آباد ہوتا ہے؟ مانا کہ لڑکی واقعی مریل سی تھی لیکن اس سے کچھ ثابت نہیں ہوتا۔ ہمیں تو ان بی بی کی چال ڈھال، لب و لہجہ اور طور طریقے کی تمکنت سے صاف لگتا ہے کہ وہ ایک نہیں بلکہ کئی مردوں کی معشوق رہ چکی ہیں، نکاحی تو کہیں سے لگتیں نہیں۔ عورتوں نے تو اسے یوں مسترد کیا، اور مردوں نے کچھ امید اور کچھ ناامیدی کے ساتھ یہ نتیجہ اخذ کیا کہ لبیبہ خانم کا تعلق قریب کے کسی شہر کے ارباب نشاط سے رہا ہوگا، اور جس شخص کی ملازم وہ اب تک تھی، اس سے ان بن ہوجانے کے بعد قسمت آزمائی کے لیے وہ اصفہان آگئی ہے۔


بالآخر لبیبہ خانم کو جگہ ملی، لیکن محلہ باغات میں، یعنی اس علاقے میں جہاں اصفہان کے ارباب حسن اور اصحاب طرب رہتے تھے۔ لبیبہ خانم نے چھ سال کی ازدواجی زندگی میں پرانے طور طریقے بھلائے نہ تھے۔ اسے یہ بات بھی قبول نہ تھی کہ وہ کسی گھر میں نوکرانی بن کر عورتوں کی گالیاں کھائے اور ہر بوڑھے جوان مرد کی شہوت کا تختۂ مشق بنے۔ اور کسی کی داشتہ بن کر رہنے سے تو بدرجہا بہتر یہی تھا کہ وہ اپنی مالک آپ بن کر رہے، دوسروں کی پابند بننے کی جگہ انہیں اپنا محکوم بنائے۔ عورتیں اور خاص کر خوبصورت اور کمزور طبقوں کی عورتیں اس زمانے میں گاجر مولی کی طرح خریدی اور بیچی جاتی تھیں اور گاجر مولی ہی کی طرح کٹتی اور مزبلے پر پھینک بھی دی جاتی تھیں۔ ان ذلتوں کے اٹھانے سے تو بہتر یہی تھا کہ وہ اہل طائفہ بن کر رہے۔ یہ فیصلہ اس نے ہزار کراہت اور ناپسندیدگی کے ساتھ کیا،


حال آں مرغ چہ باشد کہ پس ازگل ناچار
غنچۂ دل بہ خس و خارگلستاں بندد


لیکن تھوڑی بہت توقیر جو ممکن تھی وہ اسی طرز زندگی میں ممکن تھی اور اسے اعتماد تھا کہ تبریز کی طرح یہاں بھی وہ اپنا وقار قائم رکھ سکے گی۔


جہاں تک سوال اس بات کا تھا کہ اس کا حسن کب تک قائم رہے گا، اور اب وہ حسن اس کے کیا کام آسکتا تھا، تو یہ کہنا کافی ہے کہ کئی اعتبار سے لبیبہ خانم پرمکمل شباب تو اب آیا تھا۔ ماں بننے کے بعد اس کے چہرے مہرے، چال ڈھال، نشست و برخاست کے انداز میں اس اعتماد اور تمکنت کا اضافہ ہوگیا تھا جو عورت کو اپنا مقصد حیات حاصل کرنے کے بعد محسوس ہوتا ہے۔


زندہ خون کی سرخی اب اس کے لب و رخسار، انگلیوں کی پوروں، پاؤں کے ناخنوں تک سے چھلکتی تھی۔ گویا خون اس کے بدن میں صرف رواں نہیں بلکہ مدمقابل سے ہم کلام بھی ہو۔ اس کا بدن جو پہلے ذرا چھریرے پن کی طرف مائل تھا، اب کچھ کچھ بھر گیا تھا۔ کولھے، پیڑ واور چھاتیاں ایک عجب دلفریب انداز میں نمایاں تر ہوگئی تھیں۔ بوٹے سے قد کے باوجود جب لبیبہ خانم سروقد کھڑی ہوکر سلام کرتی یا کسی کا سلام لیتی تو اچھے اچھے لوگ اس کی شخصیت کی کرشمہ جاتی کشش کی تاب نہ لاسکتے اور اضطراری طور پر اس کے پاؤں کی جوتیوں یا اگر وہ ننگے پیر ہوتی تو اس کے پاؤں کے انگوٹھوں کی طرف دیکھتے، گویا اس کے قدموں میں سرڈال دینے کا موقع تلاش کر رہے ہوں۔


باغات میں گھر بسنے کی دیر تھی کہ رندان باغاتی کا ہجوم لبیبہ خانم کے دروازے پر صبح تا شام امڈنا شروع ہوگیا۔ لیکن باریابی کی اجازت سب کو نہ ملتی، اور کسی کو ملتی بھی تو مقررہ وقت پر، اس کے بعد یا پہلے نہیں۔ ایسے حالات میں کبھی کبھی بدمزگی کا بھی امکان نکل آتا۔ یہ نخجوان تو تھا نہیں، جہاں کا بچہ بچہ سدس مصری کی معجز نما مغنیہ رقاصہ کا غلام تھا۔ یہاں تھوڑی بہت حفاظتی تدابیر ضروری تھیں۔ کردستانیوں کی وفاداری اور جاں فروشی کے قصے اس نے بہت سنے تھے۔ لہٰذا چار تنومند اور جسیم کردستانی دربان ناجنس اور ناخواستہ آئند و روند کی روک ٹوک کے لیے مقرر کرلیے گئے تھے۔ لیکن صدر دروازے کے باہر تو کسی پر قدغن نہ تھی۔ لبیبہ خانم کبھی کبھی سوار ہوکر ہواخوری کو نکلتی، کبھی نورالسعادۃ کو سیر کرانے لے جاتی۔ لوگ اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے گھڑیوں انتظار کرتے،


یاراں ہمہ پر خوں کہ مبادا روی از بزم
جمعے بہ سر رہ کہ کے از انجمن آئی


نخجوان میں اس کی مجلس دووقت ہوتی تھی مگر یہاں اس نے صرف ایک وقت کی رسم رکھی۔ رقص کرنا اس نے ترک کردیا تھا۔ اس کی مجلس زیادہ سے زیادہ دوساعت کی ہوتی۔ بایزید سے اپنی روحانی یگانگت کی ذاتی یاد آوری کے طور پر وہ مولوی اور حافظ کا کلام بیش از بیش گاتی تھی۔ لیکن تبریز کی محبت کے اظہاراور اس شہر کو اپنے دل میں خراج عقیدت پیش کرنے کی غرض سے وہ محمد علی صائب کا کلام بھی گاہے ماہے سنا دیا کرتی۔ کبھی کبھی اہل اصفہان کے لحاظ سے وہ کمال اسمٰعیل یا محسن تاثیر کے بھی شعر پڑھ دیتی۔


ایک بار جب اس نے کمال اسمٰعیل کی رباعی سے محفل کا آغاز کیا اور مقام عشاق میں اس کی لے اٹھائی تو حضار محفل کا کیا مذکور، باہر سے کان لگاکر سننے والوں کی بھی چیخیں نکل گئیں، لیکن وہ خود یوں گاتی رہی گویا سمجھتی ہی نہ ہو کہ یہ رباعی اس سے بھی کچھ کہہ رہی ہے،


بگذشت و مرا اشک رواں بود ہنوز
و اندر تن من باقی جاں بود ہنوز


می گفت و مرا گوش بر آں بود ہنوز
بے چارہ فلانیست جواں بود ہنوز


ماہ و سال یوں ہی گزرتے گئے۔ لبیبہ خانم کی عمر ڈھل رہی تھی لیکن اس کے رکھ رکھاؤ اور ادب آداب میں کوئی فرق نہ آیا۔ اس کے کمال حسن اور حسن کمال کی شہرت اور چند برس بعد اس کے ساتھ ساتھ نورالسعادۃ کی فرشتہ صورتی کے چرچے ملک بھر میں پھیلنے لگے۔ لبیبہ خانم کو علم مجلسی اور علم رقص و موسیقی کے سوا کچھ سکھایا نہ گیا تھا۔ علوم رسمیہ سے وہ بے بہرہ تھی، لیکن اپنی قوت حافظہ اور قوت آخذہ کے بل بوتے پر اس نے اتنا کچھ سیکھ سمجھ لیا تھا کہ پڑھے لکھوں کی محفل میں وہ کسی سے ہیٹی نہ رہتی۔ سخنور ان پیشیں کا کلام نظم و نثر بھی اسے لایحصیٰ یاد تھا۔ محفلوں میں جو کچھ بھی وہ سناتی، حافظے کے بل بوتے پر اور بے ضغطہ زبان سناتی تھی۔


اصفہان کی معتدل آب و ہوا نے نورالسعادۃ کی صحت پر واقعی اچھا اثر ڈالا۔ اب اسے تنفس اور کھانسی کے دورے بہت کم پڑتے تھے اور اگر پڑتے بھی تو کم مدت کے لیے۔ اس کی تعلیم اور تربیت اور تدریب کی راہ میں اب کوئی رکاوٹ نہ تھی۔ نورالسعادۃ کو ماں باپ کے حسن کے ساتھ ساتھ ان کی وہبی صلاحیتوں سے بھی حصۂ وافر ملا تھا۔ اس کی اپنی دماغی قابلیت اس پر مستزاد تھی۔ علم موسیقی تو اس نے گویا ماں کے پیٹ ہی میں سیکھ لیا تھا۔ اس کی موزونی طبع بھی بہت بچپن میں نمایاں ہونے لگی تھی، اور دس گیارہ سال کی عمر سے اس نے شعر کہنا آغاز کردیا تھا۔ خلوت و جلوت میں گفتگو، نشست و برخاست کے آداب کے لیے بھی اسے ماں کی گود سے آگے نہ جانا پڑا تھا۔ لبیبہ خانم نے نورالسعادۃ کے لیے علوم رسمیہ کی بھی تعلیم میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر اس نے بیٹی کو خطاطی، شہسواری اور تیرا فگنی کی بھی تعلیم دلائی۔


حسن کا اس کے یہ عالم تھا کہ جن لوگوں نے لبیبہ خانم کو نخجوان میں دیکھاتھا، اب نور السعادۃ کو اصفہان میں دیکھتے تو ایک دولمحے کے لیے فرق نہ کرسکتے اور گمان کرتے کہ لبیبہ خانم نے کسی جادو کے زور سے اپنی عمر کم کرلی ہے۔ ان کے مزاج میں اتنا فرق البتہ تھا کہ نورالسعادۃ کی نخوت میں رعونت کا رنگ تھا۔ پھر وہ کچھ ضدی بھی تھی اور کم گفتار بھی۔ اس وجہ سے اس کے دل کی بات یا اس کی ضد کی وجہ بھی، مشکل ہی سے جانی جاسکتی تھی۔


ایک بات یہ بھی تھی کہ ماں نے بیٹی کے لیے کس قسم کے مستقبل کے منصوبے بنائے ہیں اور بیٹی اپنی موجودہ اور آئندہ زندگی کے بارے میں کیا سوچتی یا محسوس کرتی ہے ان معاملات پر ماں بیٹی میں کبھی گفتگو نہ ہوئی تھی۔ دونوں کے دل میں چور تھا، اور ایسا چور کہ نہ دبائے دبتا تھا اور نہ روزروشن میں کھلنا چا ہتا تھا۔ جیسی تعلیم نورالسعادۃ کو ملی تھی، وہ تو امیرزادیوں اور شہزادیوں کو ہی مل سکتی تھی لیکن نورالسعادۃ کی ہتھیلی میں امیرزادیوں اور شاہزادیوں تو کیا، اوسط درجے کی گھریلو خانم جیسی لکیر بھی شاید تھی ہی نہیں۔ اور کیا یہ ممکن تھا (مناسب ہونا تو دور کی بات تھی) کہ ماں کے بعد بیٹی اصفہان کے رندان باغاتی کے تفرج اور دل بستگی کا سامان مہیا کرسکے گی، اور اسی شان اور تمکنت کے ساتھ جو اس کی ماں کے حصے میں آئی تھی؟


بیٹی کے مزاج میں رعونت اور ضد تھی، ماں کے یہاں تمکین اور وقار۔ لیکن عزت نفس کو ہاتھ سے دیے بغیر وہ حالات سے سمجھوتا بھی کرنا جانتی تھی۔ اور ماں میں جو کرشمہ جاتی صفت تھی، کہ اس کی طرف عورت مرد سب کے دل خود بخود کھینچتے تھے، کیا بیٹی کو بھی اس میں سے حصہ ملا ہوگا؟ یہ بات تو کچھ دن کے بیوہار اور برتاوے کے بعد ہی کھل سکتی تھی۔


پھر یہ بھی تھا کہ ماں نے تو ایک بیٹی کو جنم بھی دیا تھا، اور چند سال سہی، لیکن اس نے معشوقی اور عورت پن، دونوں کے مناصب حیات بھی پورے کیے تھے، اور بڑی حدتک من مانی کرکے اپنے دن گزارے تھے۔ زندگی کے سارے نشیب و فراز کے باوجود لبیبہ خانم بہت خوش قسمت بھی رہی تھی۔ کیا ایسی قسمت بیٹی کو بھی مل سکے گی؟ ورنہ یہ کیا بات ہوئی کہ سفینۂ حیات میں وہ سوار تو شہزادیوں کے رنگ ڈھنگ سے ہو، اور ساحل مراد پر ٹھہرنے کے بجائے اس کی کشتی دور دور قعرمذلت میں غوطے کھاتی پھرے؟


اور نہیں تو کیا کوئی جنوں پر یوں کے دیس کا شہزادہ آکر نورالسعادۃ سے بیاہ رچا کر اسے کوہ قاف پر لے جائے گا؟ علی قلی والہ داغستانی کی معشوقہ خدیجہ سلطان تو اس کی بنت عم تھی۔ دونوں اعلیٰ خاندان سے تھے اور دونوں ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے۔ کوئی دن جاتا تھا کہ ان کی شادی ہوجاتی اور ان کی زندگی ایک طویل بہار یہ کی مثال بنتی۔ لیکن تقدیر کے ایک پلٹے نے سب کچھ پلٹ دیا۔ پہلے تو شیطان صفت افغان سردار نے اصفہان پر قبضہ کیا اور شاہ طہماسپ کو تخت سے اتار کر شہر میں لوٹ شروع کی۔ اس داروگیر میں والہ اور خدیجہ کے گھر والے بھی آگئے۔ خدیجہ کو افغان سردار نے بزور اپنے محل میں ڈال لیا۔ پھر جب نادر قلی خاں نے افغانیوں کو تہ تیغ کرکے شاہ طہماسپ کو ملک واپس دلایا تو خدیجہ سلطان بھی شاہ طہماسپ کے تصرف میں آگئی۔ علی قلی والہ بچارا جان کے خوف سے بھاگ کر ہندوستان جارہا تھا۔


خدیجہ سلطان کبھی کبھی چوری چھپے اسے خط لکھتی لیکن دونوں ہی دعا کے علاوہ کچھ بھی کرنے سے معذور تھے۔ پھر جب ۱۱۴۸ (۱۷۳۶ء، مرتب) میں نادر قلی خاں نے طہماسپ صفوی کو معزول کرکے اس کے خورد سال بیٹے عباس کو عباس صفوی سوئم کے نام سے تخت نشین کیا تو بے زبان خدیجہ سلطان نادر قلی خان کے ہتھے چڑھی اور اب بھی اس کے حرم کے کسی کونے میں پڑی وہ زندگی کی گھڑیاں سسک رہی ہے۔ نادر شاہ کے حملہ دہلی اور قتل عام کے دوران علی قلی والہ چھپتا پھرا کہ ایرانی سپاہیوں کا سامنا ہوا تو نادر شاہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے وہ فوراً اس کی تکابوٹی کردیں گے۔


ایسی دنیا اور ایسے زمانے میں نورالسعادۃ جیسی لڑکی کو شوہر یا مربی کے بغیر کون سا کنج عافیت مل سکتا تھا؟ یقین ہے کہ لبیبہ خانم نے بھی ان باتوں پر اسی انداز میں غور کیا ہوگا جس طرح نورالسعادۃ راتیں جاگ جاگ کر غور کرتی تھی۔ لیکن اپنی تمام مضبوطی کردار کے باوجود اس میں ہمت نہ تھی کہ اس معاملے پر بیٹی کے ساتھ باب سخن واکرے۔ نورالسعادۃ تیرہواں برس پور کر رہی تھی اور اب اس کے مستقبل کے بارے میں منصوبہ بندی بہرحال ضروری تھی، اس کا انجام جو بھی ہوتا۔


ایک دن اچانک دونوں کے دلوں کا پھوڑا ایک ساتھ ہی پھوٹ بہا۔ دوپہر کا وقت تھا، نورالسعادۃ اپنے اتالیق سے ’سیاست نامہ‘ کا سبق لے کر دیوان خانے سے آئی تو اس کا چہرہ تمتما رہاتھا۔ خلاف عادت وہ اپنی ماں کے کمرے میں جاکر اس سے پہلو ملاکر بیٹھ گئی اور بولی، ’’اماں، آج آخوند آغا کہہ رہے تھے کہ میں نے ’سیاست نامہ‘ اتنی اچھی طرح پڑھ لیا ہے جتنی اچھی طرح ان کے کسی مردشاگرد نے بھی نہیں پڑھا۔‘‘


’’ماشاءاللہ۔‘‘ اس کی ماں نے مسکراکر کہا، ’’میری بیٹی ہے ہی ہزاروں میں ایک۔ کسی کے بیٹا بھی ایسا نہ ہوگا جیسی میری یہ پیاری سی بیٹی ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے لبیبہ خانم نے نورالسعادۃ کی ٹھوڑی اٹھائی کہ اس کی پیشانی کو چوم لے۔


’’مگر یہ کیا؟‘‘ وہ گھبراکر بولی، ’’تم تو رورہی ہو۔ کیا ہوا، جی تو نہیں ماندہ ہے؟ بھوک لگی ہے؟ کیا بات ہے؟‘‘


نورالسعادۃ نے بمشکل خود کو ضبط کیا اور بولی، ’’آخوند آغا بھی مجھے لڑکوں سے بڑھ کر سمجھتے ہیں۔ اماں بھی یہی کہتی ہیں لیکن کیا واقعی میں لڑکوں سے بڑھ کر ہوں؟‘‘


’’مجھے تو اس میں کوئی شک نہیں۔ اور یہ میں اس لیے نہیں کہہ رہی ہوں کہ تم میری بیٹی ہو۔‘‘


’’تو پھر۔۔۔ تو پھر۔۔۔‘‘ وہ رکتے رکتے اچانک بکھر گئی۔ ’’پھر میں کس بادشاہ کی وزیر، کس مدرسے کی صدر اعلیٰ بنوں گی؟ اور کچھ نہیں تو وہ کون سا گھر ہے جو میرے قدموں سے روشن ہوگا؟ میں لڑکا نہیں ہوں۔ اور ہوں گی میں آپ کی پیاری بیٹی، لیکن دنیا مجھے کسی اور نام سے جاننا چاہتی ہے۔‘‘


ایک مدت کے بعد، باغات میں آباد ہونے کے بعد شاید پہلی بار، لبیبہ خانم نے خود کو جواب سے قاصر پایا۔ وہ ہمت کرکے کچھ کہنے کے لیے منھ کھول ہی رہی تھی کہ نورالسعادۃ نے کتابوں کا بستہ ایک طرف پھینکا، زبرجد کے قلم دان کو اس زور سے دیوار پر پٹکا کہ اس کے ٹکڑے ہوگئے، روشنائی کی چھینٹیں دیوار کے پردے اور قالین پر بکھرگئیں۔


’’میں لڑکا نہیں ہوں۔‘‘ وہ رو بھی رہی تھی اور غصے میں اپنی مٹھیاں بھی بھینچے ہوئے تھی۔ ’’لڑکا ہوتی تو سب عیب چھپ جاتے۔ اور لڑکیوں کا تقابل لڑکوں سے کیا ہی کیوں جائے؟ بولیے، میرے لیے کہاں کہاں سے پیغام آئے ہیں؟ اگر میں لڑکا ہوتی۔۔۔‘‘


’’تو بھی مجھے تمہاری فکر ہوتی، لیکن اس طرح کی نہیں، جیسی اب ہے۔‘‘ بالآخر لبیبہ خانم کو لب کشائی کا یارا ہوا، ’’دستور دنیا کو تم نہیں بدل سکتیں۔ انہیں دستوروں کے درمیان ہم عورتوں کو اپنے جینے کے ڈھنگ حاصل کرنے پڑتے ہیں۔‘‘


’’تف ہے دستور زمانہ پر!‘‘ نورالسعادۃ اب بھی روئے جارہی تھی، ’’میں نے اتنا سب پڑھ کر کیا سیکھا، کیا پایا؟ جب مجھے ناچ گانے ہی والی بن کر جینا تھا تو یہ سب ڈھونگ کیوں رچائے گئے؟ جب میری جگہ جہنم میں ہے تو مجھے جنت کی جھلک کیوں دکھائی گئی؟‘‘


لبیبہ خانم نے بڑی مشکل سے ضبط کیا، بولی، ’’تو کیا میں تمہاری دشمن تھی؟‘‘


’’تھیں، تھیں، بالکل تھیں۔ اور اب بھی ہیں۔‘‘ نورالسعادۃ نے نرم پروں سے بھرے تکیے کو چیر کر سفید سفید پروں کو ساری خواب گاہ میں برف کے گالوں کی طرح بکھیرتے ہوئے کہا، ’’اگر دشمن نہ ہوتیں تو مجھے اپنی ہی طرح کا کچھ بننے کی تربیت دیتیں۔ مجھے اس دھوکے میں نہ ڈالتیں کہ۔۔۔‘‘


’’تم ایک رقاصہ کی بیٹی نہیں، شریف زادی ہو؟‘‘ لبیبہ نے زندگی میں پہلی بار بیٹی پر اپنی آواز بلند کی، ’’لیکن میں رقاصہ تو نہیں پیدا ہوئی تھی۔ تقدیر۔۔۔‘‘


’’تقدیر، تقدیر، اللہ کی مرضی، دنیا کا دستور، یہ سب بھی ڈھکوسلے ہیں۔ آپ کو رقاصہ کی زندگی منظور نہ تھی تو آپ نے خود کشی کیوں نہ کرلی؟‘‘


یہ کہتے کہتے نورالسعادۃ کو خیال ہوا کہ میں حد سے بہت آگے بڑھ گئی ہوں۔ بچے انجانے میں والدین پر کس طرح ظلم کرسکتے ہیں، اسے آج اس کا احساس ہوا۔ اس نے اپنے آنسو خشک کیے، پلنگ کے کپڑے، تکیے برابر کرنے کی ناکام کوشش کی اور ماں کی گردن میں باہیں ڈال کر بولی، ’’اماں میں نے بہت براکیا ہے۔ مجھے یہ سب کچھ نہ کہنا چاہیے تھا۔ لیکن میں کیا کروں، مجھے راتوں کو نیند نہیں آتی کہ میرا کیا ہوگا۔‘‘ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی، ’’اور آپ کے سوا کون ہے جو میری یہ باتیں سن سکے؟‘‘


لبیبہ خانم کی سبزی مائل نیلگوں سحر گوں آنکھوں نے اتنے آنسو کبھی نہ بہائے تھے۔ اس نے کچھ کہا نہیں، نور السعادۃ کا ہاتھ اپنے ٹھنڈے ہاتھوں میں لے لیا اور آنسو اس کے رخساروں سے بہہ کر بیٹی کے تپتے ہوئے ہاتھوں پر ٹپکتے رہے۔ ماں بیٹی میں اس معاملے پر یہ پہلی اور آخری گفتگو تھی (اگر اسے گفتگو کہا جائے۔) لیکن شاید دونوں نے اپنے اپنے دل میں سمجھ لیا تھا کہ فیصلہ ہوچکا ہے۔ اور دونوں کا فیصلہ ایک ہی تھا، یہ بھی شاید ان دونوں کو معلوم تھا۔ تقدیر بھی شاید اسی کانام ہے۔


لیکن تقدیر نے چند ہی دن بعد ایک اور پانسہ ان کے سامنے ڈالا۔ اس کے معنی بظاہر کچھ خاص نہ تھے لیکن اس کے ساتھ بعض مضمرات ضرور وابستہ ہوسکتے تھے۔ ہوا یوں کہ ایک شام حاجب نے محافظ خانے کی اردابیگنی کو اطلاع دی کہ اعتماد الدولہ نواب قمرالدین خان بہادر نصرت جنگ، وزیر شہنشاہ ہند کا ایلچی دہلی سے آیا ہے۔ خانم بزرگ کی اجازت ہو تو کل بوقت شام آداب اور نامۂ وزیر ہند پیش کرنے کے لیے حاضر ہونا چاہتا ہے۔ لبیبہ خانم کچھ حیرت اور کچھ الجھن میں پڑی۔ وزیر الممالک ہند کا ایلچی اور میرے نام وزیر کا شقہ، یہ کیا اسرار ہے؟ لیکن ایلچی سے ملاقات کیے بغیر اسرار کا حل بھی ممکن نہ تھا۔


اگلے دن وقت مقررہ پر لبیبہ خانم دیوان خانے میں آکر بیٹھی۔ سارے کمرے میں، دیوار سے دیوار تک کاشان کے یک رنگ قالین کا فرش تھا۔ اس پر جگہ جگہ نائین، کرمان اور بخارا کے چھوٹے مگر بھاری قالین پڑے ہوئے تھے، گویا بے پروائی میں یوں ہی ڈال دیے گئے ہوں، حالانکہ دراصل ان کی جگہیں بہت سوچ سمجھ کر چنی گئی تھیں۔ چاروں کونوں پر پیتل کے بھاری جگمگاتے ہوئے میرفرش، ان کے سامنے خاصدان میں عطر پھول الائچیاں، بیچ میں ایک بہت بڑے کشتی نما تانبے کے گلدان میں موسم کے پھول، دیواروں پر کہیں کہیں وصلیاں آویزاں۔ اوپر زربفت کی چھت گیری، بیچ میں ایک سرخ پھول دے کر اس طرح چنٹیں دے کر کھینچی ہوئی، کہ لگتا تھا سرخ رنگ کے ستارے سے شعاعیں نکل رہی ہیں۔ چھت گیری سے تعبیہ کیا ہوا چھتیس شمعوں کا جھاڑ، جس کے فانوس مختلف ہلکے رنگوں کے تھے۔ سب میں کافوری شمعیں روشن تھیں۔


لبیبہ خانم کی نشست گاہ دیوان خانے کی مغربی دیوار سے ملاکر بچھائی ہوئی کوئی بالشت بھر اونچی آبنوسی چوکی نما صندلی تھی۔ صندلی پر دبیز ہندوستانی قالین، پھر اس پر طیلساں کے طرز کی چھوٹی یمنی چادر۔ لیکن قالین اور چادر دونوں اس طرح بچھائے گئے تھے کہ آبنوسی چوکی کے حاشیوں اور پایوں کی نیلی روپہلی میناکاری صاف دکھائی دیتی تھی۔ لبیبہ خانم ترکی انداز کی گہرے سبز سنہرے حریر کی پیشواز پہنے ہوئے تھی۔ یعنی پیشواز ٹخنوں سے بس کچھ اوپر تک، اور وہاں نہایت تنگ تھی۔ اس کے بعد وہ کسی طوفان کی سی تیزی سے چاروں طرف اٹھتی اور پھیلتی نظر آتی۔ چنٹوں کے ذریعہ کپڑے کی قاشیں سی بن جانے کی وجہ گھیر غیر ضروری طور پر زیادہ نہ معلوم ہوتا تھا۔ کمر پر پیشواز پھر بہت تنگ ہوجاتی، اس قدر تنگ کہ کمر کی تنگی نمایاں ہوجاتی۔ کمر میں سونے کے باریک تاروں سے بنا ہوا چوڑا پٹکا جس کا کھٹکا سرمئی پکھراج کے ایک بڑے سے ڈلے کا تھا۔


بدن پر بہت لطیف نیلگونی مائل کا شانی مخمل کا پوری آستینوں والی سیاہ مخمل کی مرصع کار صدری۔ صدری میں کوئی بٹن نہ تھے لیکن اس کے گریبان پر ننھے ننھے یاقوت اور سفید نیلم ٹکے ہوئے تھے۔ اس کی بینی و بناگوش زیور سے معرا تھے، لیکن گلے میں ایک ڈال کے سرمئی ہشت پہلو پکھراجوں کا ہار تھا اور ہر پکھراج کے چاروں طرف سفید ہیرے جڑے ہوئے تھے۔


صندلی کے سامنے لبیبہ خانم کی جوتیاں تھیں، سفید ہرن کے بچے کی کھال کی بنی ہوئی، جن پر نقش و نگار ہاتھ سے بنائے گئے تھے۔ جوتیاں دیکھنے میں اتنی ہلکی تھیں کہ ان پر کاغذ کا گمان ہوتا تھا۔ وہ چوکی پر اس طرح گھٹنے موڑے بیٹھی تھی کہ دونوں ایڑیاں اور پاؤں کا باقی حصہ چھپا ہوا تھا لیکن دونوں پاؤں کی ایک ایک دو دو انگلیاں اور ان کے حنائی ناخن کبھی کبھی جھلک دکھاجاتے تھے۔ وہ ہمیشہ اسی پہلو بیٹھی تھی اور گانے کے دوران کے علاوہ پوری مدت محفل میں پہلو نہ بدلتی تھی۔ اس کی پشت پر دو خواصیں ہاتھ باندھے کھڑی تھیں اور ان کے ریشمی پٹکوں سے تعبیہ ہوئے جڑاؤ خنجر صاف نظر آتے تھے۔


دیوان خانے تک پہنچنے کے لیے ایک دالان، ایک آنگن اور پھر ایک بارہ دری سے گزرنا پڑتا تھا۔ اردابیگنی باہر سے اندر آئی، اور بارہ دری کے وسطی در پر رک کر تسلیمات بجالانے کے بعد بولی، ’’خانم بزرگ کی خدمت میں عرض ہے کہ اعلیٰ حضرت نواب قمرالدین خان بہادر اعتماد الدولہ نصرت جنگ، وزیر الممالک شہنشاہ ہندوستان کے ایلچی رائے کشن چند اخلاص باریابی کے متمنی ہیں۔‘‘


لبیبہ خانم نے کوئی خفیف سا اشارہ کیا، یا بہت نیچے لہجے میں ہاں کہی۔ اگر کوئی غیربیٹھا ہوتا تو نہ اشارہ سمجھ پاتا نہ حکم سن پاتا، لیکن ا ردا بیگنی الٹے پاؤں باہر گئی اور اور ایک ہی دو ثانیے میں واپس آئی، اس طرح کہ وہ آگے آگے تھی اور آنے والا اس کے دوقدم پیچھے تھا۔ اس بار وہ دیوان خانے تک آئی اور ذرا بلند آواز سے بولی، ’’رائے کشن چند اخلاص دہلی سے تشریف لائے ہیں۔‘‘


پینتیس اور چالیس کے درمیان کی عمر، نووجب (چھ فٹ۔ مرتب) سے کچھ نکلتا ہوا قد، بڑی بڑی غلافی آنکھیں، گہرا سانولا رنگ، کشن چند اخلاص کا چہرہ ڈاڑھی سے بے نیاز تھا۔ متوسط گھنی مونچھیں البتہ اس کے دہانے کے دونوں جانب تک ڈھلکی ہوئی تھیں۔ ڈھلکی ہوئی مونچھوں نے نمایاں، مضبوط ٹھوڑی کو اور بھی نمایاں کردیا تھا۔ سرپر کشتی نما دوپلڑی ٹوپی، جس کا منڈواذراگولائی لیے ہوئے، اور سرا ذرا نوک لیے ہوئے تھا۔ پوری ٹوپی پر کڑھائی کاکام تھا۔ پٹے دار گھنے سیاہ چمک دار بالوں پر وہ ٹوپی بائیں طرف اس طرح کج رکھی گئی تھی کہ ماتھے کا ایک حصہ تو ڈھک گیا تھا لیکن سر اور بال بڑی حدتک کھلے ہوئے تھے۔ گلے میں پچ لڑا سڈول موتیوں کا ہار، جس میں بڑے زردی مائل سفید موتی کے بعد چھوٹے سیاہی مائل موتی ایک کے بعد ایک پروئے گئے تھے۔


باریک فالسئی ڈوریے کا کرتا، اس پر نیلی مخمل کا انگرکھا، جسے اس وقت نیمہ بھی کہتے تھے۔ انگرکھے کا پردہ دائیں طرف سے کھینچ کر بائیں طرف تکمے سے بندھا ہوا، اس طرح کہ بائیں چھاتی کا حصہ کرتے کے نیچے سے جھلکتا تھا۔ نیمے کی آستینیں کھلی ہونے کی وجہ سے چوڑی کلائیاں صاف نظر آتی تھیں۔ دونوں کلائیوں میں سونے کے کڑے۔ گلبدن کا پاجامہ ایک برکا، اس پر بڑے گھیر کا سیاہ مخملی جامہ جس پر سنجاف ٹکی ہوئی تھی اور آستینیں جدید طرز کے مطابق اوپر سے کاٹ کر نیچے لٹکنے کے لیے چھوڑ دی گئی تھیں۔ کمر میں سنہرا پٹکا، پاؤں میں سلیم شاہی جوتیاں۔ پیچھے دوملازم سرپوش ڈھکے ہوئے خوانوں پر نذر کا سامان لیے ہوئے کھڑے تھے۔


رائے کشن چند اخلاص نے جوتیاں لب فرش اتاریں، ذرا اندر داخل ہوا تو اس نے تین بار جھک کر سلام کیا او رپھر ہاتھ باندھ کر بولا، ’’دولت و اقبال زیادت باد۔ میں، شہنشاہ ہندوستان مینونشان کے وزیر کا ایلچی، ان کا نامۂ فیض شمامہ لے کر حاضر ہوا ہوں۔‘‘ اب تک کشن چند اخلاص نے نگاہ اٹھائی نہ تھی، اردابیگنی کے ہلکے سے اشارے پر اس نے سراٹھایا اور کمرے میں داخل ہوکر ایک چھوٹے بخارائی قالین پر دوزانو بیٹھ گیا، اس طرح کہ قالین نہ اتنا دور تھا کہ بات سننے میں تکلف ہو اور نہ اس قدر نزدیک کہ دونوں حقیقی معنی میں روبرو ہوسکیں۔ اب اس نے خانم بزرگ سے آنکھیں چار کیں اور ایک ہی نظر میں بسمل ہوگیا۔


لبیبہ خانم کے چہرے پر خفیف سی لیکن گرم جوشی آمیز مسکراہٹ تھی۔ اس وقت اس کی عمر دوکم پچاس تھی، لیکن وہ یوں بھی اپنی عمر سے بہت کم، دو کم چالیس کی سی لگتی تھی اور آج تو اس نے خاص اہتمام کیا تھا۔ کشن چند اخلاص کو اپنے چہرے پر پسینہ پھوٹتا ہوا محسوس ہوا۔ اس نے نگاہ جھکاکر چاہا کہ گریبان میں سے رومال نکالے کہ اس کی نگاہ خانم کی جوتیوں پر پڑی۔ پہلے تو اس نے سمجھا کہ یہ کاغذ کی بنی ہوئی سجاوٹ کی چیزیں ہیں، لیکن پھر اس نے پہچانا کہ یہ تو اس کے ہی ملک کی مشہور جوتیاں ہیں، اتنی ہلکی اور اس قدر نازک کہ انہیں ننگے فرش پر پہناجاتا تو دوگھڑی بھی نہ جاتی تھی کہ وہ کٹ گھس کر بے کار ہوجاتی تھیں۔ اس کا جی چاہا وہ جوتیاں اٹھاکر کلیجے میں رکھ لے۔ لیکن اس نے دیکھا کہ ایک خواص نے اس کے سامنے ایک بہت نیچی میز پر ایک رومی طشتری میں میوے، ایک فنجان میں قہوہ اور ایک منقش عطردان رکھ دیا ہے۔ ابھی وہ ادھر متوجہ ہو ہی رہا تھا کہ اس نے محسوس کیا کہ خانم بزرگ کی آنکھیں اس پر ہیں، اور وہ کچھ کہہ رہی ہے۔


’’اہلاً و سہلاً۔ اے آمد نت باعث دل شادی ما۔‘‘ وہ بولی تو لگا کہیں پردے کے پیچھے ہلکے سر میں بلمپت جل ترنگ بج رہا ہو۔ کشن چند اخلاص سو سوجان سے قربان ہو رہا تھا۔ کاش یہ اسی طرح کو کتی رہیں اور میں سنتا رہوں۔ ’’اعتماد الدولہ بہادر نے ہم دور افتادگان کی تبریک کے لیے اپنے سایۂ رافت و راحت کا نمونہ آپ کی شکل میں بھیجا ہے۔ شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدارا۔ میں سراپا متشکر ہوں۔ ان کی جان پاک پر قربان ہوجاؤں تو یہ میرے نصیب کی بلندی ہوگی۔ فرمائیے، میں کس طرح بندگان حضور کے کام آسکتی ہوں؟‘‘


کشن چند اخلاص کچھ اس درجہ مسحور ہو رہا تھا کہ ایک لحظہ اسے احساس ہی نہ ہوا کہ سوال کا جواب دینا ہے۔ پھر ذرا ہڑبڑاکر اس نے کمر میں بندھی ہوئی ہمیانی کھولی، وزیر ہندوستان کا زرنگار شقہ نکالا اور نذر کی پانچ اشرفیوں کے ساتھ دونوں ہاتھوں پر رکھا، پھر سروقد کھڑے ہوکر تعظیم کے ساتھ ہاتھوں کو لبیبہ خانم کی طرف بڑھایا۔ معاً ایک خواص کشتی لیے ہوئے آگے آئی، نامے اور نذر کو کشتی میں رکھا، پھر کشتی کو سرپر رکھ کر خانم بزرگ کے روبرو آکر اسے سر سے اتارا او رخانم کے ملاحظے کے لیے پیش کیا۔ لبیبہ خانم نے اپنے ہاتھ سے شقہ کھولا، اس پر ایک غائر نظر ڈالی، پھر کچھ متبسم ہوئی، گویا مضمون اسے پسند آیا ہو۔


فارسی عبارت کا مفہوم تھا، ’’اقبال نشان و سعادت آثار، رنگ وبوے ہر گل و گلزار، زہرۂ فلک رقص و سوزوساز، مالک مملکت ناز و انداز، لبیبہ خا نم کی خدمت میں اعتماد الدولہ محمد قمرالدین خان نصرت جنگ عرض پرداز ہے کہ میری اکلوتی فرزند کی شادی میرے ہمشیرزادے رعایت خان ابن ظہیر الدولہ نواب عظیم اللہ خان سے ماہ شوال ۱۱۵۶ھ (مطابق نومبر۔دسمبر ۱۷۴۳ء، مرتب) میں ہونا قرار پائی ہے۔ اس مبارک موقعے پر ایک جلسہ ترتیب دیا چاہتا ہوں جس کی نظیر چشم پیر فلک نے بھی نہ دیکھی ہو۔ اور ظاہر ہے کہ ایسی محفل، محفل ہی نہ ہوگی اگر آں عزیزہ وہاں رونق افزانہ ہوں گی۔ تفصیلات سفر و اخراجات میرے ایلچی برخوردار کشن چند اخلاص بیان کردیں گے۔ امید کہ مایوس نہ کیا جاؤں گا۔‘‘


لبیبہ خانم کے ماتھے پر تفکر کی خفیف سی شکن ایک لخطے کے لیے ابھری لیکن اس نے سراٹھایا اور متین لہجے میں، ہلکی آواز میں کہا، ’’بندی اعتماد الدولہ بہادر کی قدر افزائی اور یاد فرمائی کے لیے سراپا سپاس ہے، مگر۔۔۔‘‘ وہ چپ ہوگئی۔


کشن چند اخلاص کو اپنا دم سینے میں اٹکتا محسوس ہوا۔ سفارت کی ناکامی کا خوف تو تھا ہی اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اگر یہ میرے ساتھ نہ گئیں تو پھر تاحیات کی جدائی ہوگی۔ اس وقت اس کی پوری ذہنی اور باطنی قوت لبیبہ خانم پر مرتکز تھی، کہ اس کا جواب باصواب ہو، اور ’’مگر‘‘ کہہ کر اس کے ٹھہر جانے میں انکار مرموزنہ ہو۔ قطع کلام کی جرأت تھی نہ موقع، لہٰذا ملتجی نگاہوں سے لبیبہ خانم کو دیکھتا رہا۔


دل کی پچیس تیس دھڑکنوں کی مدت تک خاموش رہنے کے بعد خانم بزرگ نے کہا، ’’مگر میں وہاں کی زبان جانوں نہ وہاں کے رسوم رواج اور ادب آداب میں کچھ درک رکھوں۔ اور پھر میں تو سنتی ہوں کہ اعلیٰ حضرت امیرخسرو علیہ الرحمہ سے لے کر آج چار پانچ صدیاں ہونے آئیں، ملک ہند میں ایک سے بڑھ کر ایک ماہر فن ہوا ہے اور آج بھی ہے۔ میں تو ان میں بالکل گنگ ہوکر رہ جاؤں گی۔‘‘


اب کی بار کشن چند اخلاص نے کھلے بندوں رومال نکال کر پسینہ خشک کیا، پھر ٹھہر ٹھہر کر بولا، ’’خانم بزرگ کے ارشاد سے اختلاف کی جرأت میں نہیں کرسکتا۔ لیکن ہر گلے رارنگ و بوے دیگرست۔ آپ اپنی جگہ ہیں، اہل ہند اپنی جگہ۔ رہا سوال زبان کا تو اردوے معلاے شاہجہاں آباد میں حضور کو مجھ جیسی ٹوٹی پھوٹی فارسی بولنے والے بہت ملیں گے۔ پھر ارمنی بولنے والوں کی بھی کچھ ایسی قلت نہیں۔ ساز (بمعنی آلات موسیقی، مرتب) آپ اپنے ساتھ لے چلیں، سوز (بمعنی گانا، vocal music مرتب) سارے کا سارا فارسی میں ہوگا۔ اور جہاں تک سوال شاہجہاں آباد کی عام بولی کا ہے، تو اسے ہندی یا ریختہ کہتے ہیں، اور وہ فارسی سے اس درجہ قریب ہے کہ اگر مجھے ہم رکابی کا شرف حاصل رہا تو آپ اسے اثناے راہ ہی میں سیکھ لیں گی۔‘‘


یہ ساری تقریر کشن چند اخلاص نے خانم بزرگ کے سامنے آنکھیں اٹھاکر کی، اس طرح کہ وہ اس کی شخصیت کے جمال اور حسن صورت کی لطافت، خاص کر آنکھوں کی دمکتی روشنی کے سحر میں خود بخود جکڑتا جارہا تھا۔ خانم بزرگ کی بڑی بڑی سبزی مائل نیلگوں آنکھیں نہ صرف یہ کہ خانم کے چہرے کے تاثرات بلکہ شاید دل کے حالات کو منعکس کرتی تھیں، بلکہ یہ بھی کہ ان میں ایک حیرت خیز زندگی کااحساس ہوتا تھا۔ رنگین شمعوں کی لویں کچھ بھڑکتیں، یا لہراتیں تو روشنی کا ہر نیاعکس خانم بزرگ کی نگاہ کو اپنے طور پر جگمگادیتا، گویا آنکھوں کی لوشمع کے نور کا جواب دے رہی ہو۔ رائے کشن چند اخلاص اس وقت تو فلک زہرہ میں تھا۔ ایسی روشن، زندہ آنکھیں اس نے کبھی دیکھی نہ تھیں، دیکھی کیا، کبھی ان کا خواب بھی نہ دیکھاتھا۔


’’بہت مناسب، بلکہ انسب۔‘‘ لبیبہ خانم نے جواب دیا، ’’لیکن سفر کی صعوبتیں، وہاں نئے ماحول سے خود کو مانوس کرنے کی مشکلیں بھی تو ہیں۔‘‘


’’سفر تو حضور کا انشاء اللہ یوں ہوگا کہ تخت رواں کی بھی کچھ حقیقت نہ رہ جائے گی۔ آپ اجازت دیں گی تو میں سارا راستہ آپ کی حفاظت کروں گا۔‘‘ اس آخری جملے کی ادائیگی میں تمنا اور درخواست کے لہجے لبیبہ خانم سے پوشیدہ نہ رہے تھے۔ ’’اور اجنبیت کا کیا سوال ہے؟ آپ خود حضرت نواب کی مہمان ہوں گی۔ وہاں آپ کی مرضی پر سارے کام ہوں گے۔ وہاں کے سب لوگ خود کو آپ حضور کے مزاج و منہاج، پسند ناپسند سے مانوس کرنے کو اپنی توقیر جانیں گے۔‘‘


یہ کہتے کہتے کشن چند اخلاص نے پیچھے کھڑے خدام کو اشارہ کیا۔ انہوں نے آگے بڑھ کر دونوں خوان لبیبہ خانم کی جوتیوں کے پاس رکھ کر سرپوش ہٹادیے۔ کشن چند نے کہا، ’’یہ ایک ہزار اشرفیاں اعتمادالدولہ بہادر نے آپ کی نذر کے لیے بھیجی ہیں۔ اور یہ چند جوڑے خادمان بندگان حضور کے لیے ہیں۔ آپ میرے ملک کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے عزت بخشیں یا نہ، ان نذروں کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ لبیبہ خانم نے نیم قد ہوکر سلام کیا، ’’نصرت جنگ بہادر کو رب العزت مزید نصرتیں عطا کرے۔ ان کی دریادلی نے میرے سیاہ خانے کو گہرہاے شب چراغ سے بھردیا ہے۔ میں ان کی ممنون ہوں۔‘‘


’’تو پھر رخت سفر بار کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟‘‘ اخلاص کے لب و لہجہ ہی نہیں، سارے بدن سے خوشی پھوٹی پڑ رہی تھی۔


لبیبہ خانم پہلی بار کھل کر مسکرائی، ’’اتنی بھی جلدی نہیں۔ مجھے سوچنے کے لیے موقع درکار ہے۔ میں پرسوں اپنا فیصلہ بتاؤں گی۔‘‘


رائے کشن چند کا چہرہ اتر سا گیا۔ وہ اجازت کے لیے اٹھنے ہی والا تھا کہ اس کا رنگ پژمردہ ہوتے د یکھ کر خانم بزرگ نے کہا، ’’آپ نے کچھ قہوہ عطر وغیرہ ملاحظہ نہ کیا۔ تشریف رکھیں، آپ کی قیام گاہ بہت دور تو نہیں۔‘‘


’’بندہ پروری ہے بندگان حضور کی۔‘‘ اخلاص نے کہا، ’’میں آپ کے حکم کا غلام ہوں، جاکہاں سکتا ہوں۔‘‘


اس بات میں بھی شوق اور آرزو کے کتنے ناشگفتہ غنچے پوشیدہ تھے، اس کا اندازہ خانم بزرگ کو بھی تھا لیکن وہ صاف پہلو بچاگئی۔ اس اثنا میں خواص نے قہوے کا نیا فنجان لاکر اخلاص کے سامنے رکھ دیااور پرانا فنجان، جس کا قہوہ رکھا رکھا ٹھنڈا ہوگیا تھا، سامنے سے ہٹالے گئی۔ اخلاص ابھی فنجان اٹھا ہی رہا تھا کہ خانم بزرگ نے کہا، ’’رائے کشن چند، یہ لفظ اخلاص آپ کے نام کا جز ہے، یا آپ کو شعر گوئی سے بھی کچھ لگاؤ ہے، اور یہ جناب والا کا تخلص ہے؟‘‘


لبیبہ خانم کے منھ سے اپنا نام سن کر کشن چند اخلاص کو عجب فرحت اور لطف کا احساس ہوا، جیسے اس نے نام نہ لیا ہو، اس کے شانے پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔ اس پر ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ وہ فنجان کو منھ تک نہ لے جاسکا۔


’’اس ذرۂ بے علم کا تخلص اخلاص ہے۔ حضرت مرزا غنی بیگ قبول کشمیری مدت فیوضہم کا شاگرد ہوں۔‘‘


’’جی، شاگردی کے کیا معنی؟ علم موسیقی کی تعلیم البتہ استاد سے حاصل کی جاتی ہے۔ شاعر تو تلامیذ الرحمن ہوتے ہیں۔‘‘


’’بجا اور درست۔ لیکن گزشتہ چار پانچ دہائیوں سے اردوے معلاے سلطانی میں ریختہ کی شاعری کا چلن ہوا ہے۔ اس اسلوب میں شعر گوئی پہلے متداول نہ تھی۔ لہٰذا حدیقۂ شعر و سخن کے طیورنوپر کو ضرورت پڑی کہ کوئی مرد زیرک و دانا انہیں ریختہ کی شاعری کے آسمان میں اڑنے کے طور سکھائے۔ یہ بات بہت مقبول ہوئی، اور دوہی چار برس گئے تھے کہ کئی مرتبہ استادوں نے اچھے اچھے شاگرد بہم کیے۔ ان کی دیکھا دیکھی فارسی گویوں نے بھی خیال کیا کہ ہم بھی کیوں نہ کسی استاد کا دامن تھام لیں جس سے ہمیں فیوض و برکات حاصل ہوں۔‘‘


’’خوب، لیکن استاد سے فیض اٹھاتے کس طرح ہیں؟‘‘


’’بسااوقات استاد کوئی لفظ بدل کر زیادہ بامعنی یا مناسب تر لفظ رکھ دیتا ہے۔ کبھی کبھی پورا مصرع نیا کہہ دیتا ہے۔ محاورے کے سقم اگر کوئی ہوں، تو انہیں دور کرنے کا مشورہ دیتا ہے یا خود ہی درست کردیتا ہے۔ بندش اگرسست ہو تو اسے چست کردیتا ہے۔‘‘


’’تقصیر معاف ہو لیکن یہ آخری بات سمجھی نہیں۔ بندش کی سستی اور چستی سے کیا مراد ہے؟‘‘


رائے کشن چند کچھ سوچ میں پڑگیا، کہ بندش کی سستی کو پہچاننا آسان ہے، بیان کرنا مشکل۔ سنبھل سنبھل کر بولا، ’’جی، مثال کے طور پر کوئی لفظ مصرعے میں بیکار ہے، یا کم کارگر ہے۔ یاشعر میں کوئی کھلا ہوا عیب نہیں لیکن اس میں کوئی شگفتگی نہیں، نہ ترکیب کی، نہ قافیے کی، نہ محاورے کی۔ یہ سب باتیں بندش کی سستی کی ضمن میں آتی ہیں۔‘‘


’’ان باتوں کے لیے کچھ قاعدے بھی ہیں، یا محض استاد کی فہمیدگی پر انحصار ہے؟‘‘


’’قاعدے ہیں بھی اور نہیں بھی۔ لیکن سب سے بڑھ کر وہ چیز اہم ہے جسے شاعر کی وہبی حس کہہ سکتے ہیں۔ پھر مشق و مزاولت کو یہاں بڑی اہمیت ہے۔‘‘


’’اور علم شعر؟‘‘


’’جی درست فرمایا گیا۔ یہ بات تو بدیہی ہے کہ استاد کو شعر اور علم شعر، دونوں میں شاگرد پر تفوق ہوتا ہے۔‘‘


’’خوب، تو کیا آپ مجھے اپنے کلام بلاغت التیام سے کچھ حظ اندوزی کا موقع عطا فرمائیں گے؟‘‘


رائے کشن چند کے جسم پر ایک لرزش خفی طاری ہوگئی۔ اس فرمائش میں کس قدر اپنائیت تھی۔ کیا آپ، مجھے، اپنے کلام، حظ اندوزی، ہر ہر فقرے کے معنی کی تہہ میں بھی ایک معنی تھے۔ یہ بات اس کے دل میں یوں اترگئی جیسے صبح کی پہلی کرن کسی غیر متوقع روزن سے خوابگاہ میں آجائے۔ لیکن اس وقت اسے اپنا ایک بھی شعر یاد نہ آیا۔ اور اگر یاد بھی آتا تو سنانے کی ہمت کہاں تھی۔ شعر اگر پسند خاطر نہ ہوئے تو تھوڑی بہت توقیر جو اس وقت تک حاصل ہے، جاتی رہے گی۔


’’میرے شعر اس لائق نہیں۔ موجب سمع خراشی ہوں گے۔ اجازت ہو تو ملک ہند کے سب سے بڑے شاعر میرزا عبدالقادر بیدل کا کلام پیش کروں۔ وہ شاید اس باب عالی تک پہنچنے کے قابل ہو۔‘‘


’’بہت خوب، ارشاد ہو۔‘‘


بیدل کو کون سی غزل اس وقت مناسب ہوگی؟ اخلاص نے گھبراکر دل میں کہا، یا ابوالمعانی، آپ کی روح پر فتوح کے صدقے، اس وقت میری مشکل آسان کردیجیے۔ شاہجہاں آباد پہنچ کر آپ کے مزار پرانوار پر شیرینی کی نیاز دلواؤں گا۔ اور یہ کہتے کہتے اس کی آنکھوں کے سامنے بیدل کی ایک غزل یوں جھلملاگئی جیسے کسی نے اس کے دماغ میں روشن اور معطر پرچہ رکھ دیا ہو۔ واللہ کیا برمحل غزل تھی۔ اس نے فنجان کو ذرا فاصلے پر رکھ دیا اور پہلو بدل کر دوبارہ دوزانو ہوکر لحن سے پڑھنا شروع کیا،


ستم است اگر ہوست کشد کہ بہ سیر سرو و سمن درآ
توز غنچہ کم نہ دمیدہ ای در دل کشا بہ چن درآ


مطلع سنتے ہی لبیبہ خانم لو لگا کسی نے کوئی چیز کلیجے میں چبھادی۔ اس نے اس سارے عرصے میں اول بار پہلو بدلا اور خود پوری طرح دوزانو ہوکر بیٹھ گئی۔ رائے کشن چند کی آنکھیں نیم وا تھیں اور وہ ایک فردوسی محویت کے ساتھ کہے جارہا تھا،


پئے نافہ ہاے رمیدہ بو مپسند زحمت جستجو
بہ خیال حلقۂ زلف او گر ہے خور و بہ ختن درآ


نفست اگر نہ فسوں دہد بہ تعلق ہوس جسد
زہ دامن تو کہ می کشد کہ درایں رباط کہن درآ


ہوس تو نیک و بد تو شد نفس تو دام و دوِ توشد
کہ بہ ایں جنوں بلد تو شد کہ بہ عالم تو و من درآ


غم انتظار تو بردہ ام بہ رہ خیال تو مردہ ام
قدمے بہ پرسش من کشا نفسے چو جاں بہ بدن درآ


چو ہوا زہستی مبہمے بہ تاملے زدہ ام خمے
گرہ حقیقت شبنمے بہ شگاف و در دل من درآ


نہ ہواے اوج و نہ پستیت نہ خروش و ہوش نہ مستیت
چو سحر چہ حاصل ہستیت نفسے شو و بہ سخن درآ


چہ کشی ز کوشش عاریت الم شہادت بے دیت
بہ بہشت عالم عافیت در جستجو بشکن درآ


بہ کدام آئنہ مائلی کہ ز فرصت ایں ہمہ غافلی
تو نگاہ دیدۂ بسملی مژہ وا کن و بہ کفن درآ


ز سروش محفل کبریا ہمہ وقت می رسد ایں صدا
کہ بہ خلوت ادب وفا ز در بروں نہ شدن درآ


بہ در آے بیدل ازایں قفس اگر آں طرف کشدت ہوس
توبہ غربت آں ہمہ خوش نہ ای کہ بگویمت بہ وطن درآ


اس شام کی کیفیت کشن چند اخلاص کو ہمیشہ یاد رہی۔ باہر چنار اور سروکے درختوں کی پتیاں شفق کے پس منظر میں اب سیاہی مائل لگ رہی تھیں۔ دیوان خانے میں روشنی باہر سے چھن کر آنا بند ہوگئی تھی اور فانوسوں میں روشن شمعیں کچھ اور بھی فروغ پر تھیں۔ کھڑکیوں کے پردوں میں شام کی ہوا سے خفیف سی سرسراہٹ تھی، جیسے کشن چند اخلاص کی گونجتی ہوئی آواز نے انہیں بھی مرتعش کردیا ہو۔ غزل ختم ہوتے ہی دونوں خواصوں کے منھ سے بے اختیار صدائے ’’مرحبا! سبحان اللہ‘‘ بلند ہوئی اور لبیبہ خانم تو اپنے زانو پر بار بار ہلکے ہلکے ہاتھ مارتی اور کہتی، ’’کیسی انوکھی بحر ہے اور کیسے نامانوس الفاظ ہیں لیکن واللہ کیا زور ہے، کیا مضامین ہیں، کیا روانی ہے اور کیا قوافی ہیں۔‘‘


رائے کشن چند نے جھک کر تسلیم کی، اور پھر ایک دوسرے ہی لہجے میں رباعی پڑھی،


مرزا بیدل کہ رہنماے سخن است
پیغمبر و غوث و پیشواے سخن است


یکتا ست در آفرین طرز کلام
باللہ کہ پئے سخن خداے سخن است


اس رباعی پر خانم بزرگ نے سراٹھایا اور بولیں، ’’درست کہا۔ کس کی ہے؟‘‘


رائے کشن چند اخلاص کو اس التفات فراواں نے تقریباً مدہوش کر رکھاتھا۔ پھنسی پھنسی آواز میں بولا، ’’بندر ابن المتخلص بہ خوشگوکی۔ میرزا صاحب مبرورکے ارشد تلامذہ میں ہیں۔‘‘


’’تو کیا خود میرزا بیدل اس دنیا میں نہیں؟‘‘


’’انہیں واصل بحق ہوئے کوئی بیس برس ہوتے ہیں۔ میرے والد گرامی بھی، اللہ ان کا سایہ ہم پر سلامت رکھے، حضرت میرزا صاحب کی شاگردی کا شرف رکھتے ہیں۔‘‘


لبیبہ خانم ایک لمحہ چپ رہی، پھر بولی، ’’ناگوار طبع نہ ہو تو کچھ پوچھوں۔‘‘


’’آپ کی بات اور ناگوار ہو!‘‘ اخلاص نے مسکراکر کہا، ’’شوق سے فرمائیے۔‘‘


’’میرزا بیدل تو غالباً اہل اسلام میں سے تھے، اور جناب۔۔۔؟‘‘


’’بحمداللہ ہندو ہوں۔ بند رابن صاحب قبلہ بھی ہندو ہیں۔ ہم اہل ہند اور خاص کر صاحبان تصنیف و تالیف، سب فارسی بولتے لکھتے ہیں اور سب اقوام ہند آپس میں اپنی اپنی حدتک مواخات و مواسات رکھتے ہیں۔‘‘


’’اور یہود و نصاریٰ؟‘‘


’’سب اپنے اپنے مسالک پر ہیں۔ یہود تو مدت مدید سے ہند میں ہیں، نصرانی البتہ بعد میں آئے۔ اور فردوس مکانی صاحب قران ثانی اعلیٰ حضرت شہاب الدین شاہجہاں شہنشاہ ہند کے وقتوں میں انہوں نے کچھ نیچے طبقے کے لوگوں کو بجبر اپنے مذہب میں داخل کرلیا۔ بحمداللہ اس وقت ان کی خوب سرکوبی ہوئی۔ اب ان کا دور دورہ بڑھتا جاتا ہے۔ لیکن ہم ان سے کچھ بہت میل جول نہیں رکھتے۔ بہرحال،


بہشت آں جا کہ آزارے نہ باشد
کسے را باکسے کارے نہ باشد


کاسا معاملہ ہے۔ میرے ملک کو جنت نشان شاید اسی لیے کہتے ہیں۔‘‘ وہ پہلی بار ذرا بے تکلف ہوکر بولا، ’’اب اجازت مرحمت ہو۔ پرسوں جب آپ طلب فرمائیں گی، حاضر ہوجاؤں گا۔‘‘


’’آپ کے لیے طلبی کی ضرورت نہیں۔ آج ہی کے وقت پر کرم گستر ہو کر قدم رنجہ فرمائیں۔ بندی کو منتظر پائیں گے۔‘‘


اس آخری جملے کے معنی کی تہہ میں بھی شاید کچھ اور تھا۔ لبیبہ خانم رائے کشن چند کو رخصت کرنے کے لیے اٹھیں، پاؤں میں جوتی ڈال ہی رہی تھیں کہ رائے کشن چند نے تقریباً دوڑ کر انہیں جوتیاں پہنادیں اور اس عمل میں اس کا ہاتھ پلک جھپکتے کی مدت کے لیے گلابی انگلیوں اور ایڑی سے چھوگیا۔ اسے ایک سنسنی سی محسوس ہوئی، جیسے چاقو کی دھار پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔ اٹھ کر تین سلام کرکے وہ الٹے پاؤں باہر آتو گیا لیکن اس کے پاؤں زمین پر پڑتے نہ تھے۔


اس رات اور اگلے دن کے دوران ماں بیٹی میں اعتماد الدولہ کے بلاوے کے بارے میں تین بار مشورہ ہوا۔ نورالسعادۃ نے کہا، ’’اماں، مجھے دہلی جانے میں تو کوئی قباحت نظر نہیں آتی۔ لیکن اتنا لمبا سفر کرنا، چند ہفتے قیام کرنا اور پھر سفر کے خطرات مول لے کر واپس آنا مصلحت سے بعید معلوم ہوتا ہے۔ زمانہ شورشوں سے پر ہے اور راستے جگہ جگہ مخدوش۔ جاتے وقت اگر خوبی قسمت سے محفوظ رہے تو رہے۔ دوسری بار پھر تقدیر کو آزمانا مصلحت سے دور معلوم ہوتا ہے۔‘‘


’’تو تمہاری رائے ہے کہ میں یہ دعوت مسترد کردوں؟‘‘


’’نہیں۔۔۔‘‘ اس نے نہیں کی ’ہیں‘ کو ذرا کھینچ کر کہا، پھر چپ ہوگئی، اور ایک لمحہ بعدبولی، ’’سوال یہ بھی ہے کہ مالی اعتبار سے کیا ہمیں اعتماد الدولہ کے فیوض و انعام کی ضرورت ہے؟‘‘


’’ضرورت ابھی تو نہیں۔ لیکن تم خود ہی کہتی ہو کہ زمانہ مساعد نہیں اور ہم جیسوں کا تو مساعد بالکل نہیں۔ پھر گاڑھے وقت کے لیے جتنا رکھ سکیں رکھ لیں تو کیا برائی ہے؟‘‘


’’یہی کہ۔۔۔‘‘ وہ چپ ہوگئی، پھر گویا ہمت کرکے بولی، ’’جنگل میں جس پیڑ پر شہد ہوتا ہے، وہیں ریچھ بھی آجاتے ہیں۔۔۔‘‘


’’لیکن بے سروسامانی میں کوئی تحفظ نہیں۔‘‘


’’اماں یہی تو میری مشکل ہے۔‘‘ وہ ٹھنڈی سانس لے کر بولی، ’’ہمارے لیے نہ جلوت اچھی نہ خلوت اچھی۔‘‘


’’لیکن ہر چیز پر نظر کرکے دیکھو تو کثرت سازوسامان بہتر ہے قلت سے۔ اگر زہرۂ مصری نے میری وجہ سے اتنی دولت نہ کمائی ہوتی، اور اس کا ایک ذرا سا حصہ میں لے کر نہ نکلتی تو میں اور تمہارے باپ بھیک مانگ کر اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر شغال و سگ سے بدترموت مرتے۔‘‘ خانم بزرگ نے ذرا تیز لہجے میں کہا۔


نورالسعادۃ سہم گئی، ’’میں آپ کے خلاف کچھ نہیں کہہ رہی۔‘‘


’’نہیں۔ لیکن ضرورت سے زیادہ لاونعم کی بھول بھلیاں میں پڑنے والے کو راستہ اکثر نہیں ملتا۔ ہمیں حقیقت کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہیے۔‘‘


بات کسی فیصلے کے بغیر ختم ہوگئی۔ اگلی صبح کو نورالسعادۃ نے پہل کی۔


’’اماں، ہندوستان کیسا ملک ہے اور دہلی کیسا شہر ہے؟‘‘


’’اگر وہاں نہیں جانا تو یہ سوال غیرضروری ہے۔‘‘


اس بار نورالسعادۃ کی فطری تیز مزاجی بروے کار آئی، ’’اماں آپ نہ بات سنتی ہیں، نہ کھل کر کچھ کہتی ہیں۔‘‘


’’تو تم ہی کھل کر کہو۔ میری بات تو تم سمجھنا شاید نہیں چاہتیں۔‘‘


’’میں اور آپ کی بات نہ سمجھوں، یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ میں یہ سوچ رہی تھی کہ چند دن یا چند ہفتے ہی کے بعد دہلی سے مراجعت کیا ضرور ہے۔‘‘


لبیبہ خانم سناٹے میں آگئی۔ دہلی سے مراجعت ضروری نہیں، ادھر اس کا دھیان ہی نہ گیا تھا۔


’’مستقبل جیسا یہاں نظر آرہا ہے، اس سے بدتر تو شاید وہاں نہ ہو۔ اور دہلی سنتی ہوں بہت بڑا شہر ہے۔ ہمارے ہم زبان اور ہم مشرب بھی دہلی میں، اور کوئی شہر دہلی کے مشرق میں کلکتہ ہے، وہاں بہت ہیں۔ وہاں تو ہمارے اسقف اعظم بھی رہتے ہیں۔‘‘


’’یہ سب تم نے کہاں سنا؟‘‘


’’اماں، کتابیں اور سفرنامے اور آئندوروند، ان سے بہت کچھ معلوم ہوسکتا ہے۔ ہندوستان تو بہت ہی بڑا ملک ہے، اور دولت کی تو وہاں اس قدر فراوانی ہے کہ ہمارے شاہ جم جاہ اعلیٰ حضرت نادر شاہ بہادر وہاں سے اتنا لے کے آئے لیکن لوگ کہتے ہیں کہ کوئی خاص کمی نہیں ہوئی۔‘‘


’’تمہیں دولت سے اتنا لگاؤ کب سے ہوگیا؟‘‘ لبیبہ خانم ذرا چڑ کر بولی۔


’’کل تک تو آپ ہی مجھے یہ سبق سکھارہی تھیں۔۔۔ لیکن معاملہ دولت کا نہیں اماں۔‘‘ نورالسعادۃ کا بھی لہجہ کچھ تیز ہوا، ’’معاملہ امکانات کا ہے۔ آپ میرے لیے اتنی متفکر رہتی ہیں۔ وہاں ملک ملک کے، مختلف قوموں اور طرزوں کے لوگ ہیں۔ اصفہان تو دہلی کا پاسنگ بھی نہیں۔‘‘


’’تو کیا میری بیٹی اصفہان سے اکتاگئی؟‘‘ لبیبہ خانم کا لہجہ کچھ شگفتگی مائل تھا۔


’’اماں جان یہ مذاق کا وقت نہیں۔‘‘ نورالسعادۃ جب دل میں ماں سے خفا ہوتی تو اسے ’اماں‘ کی جگہ ’اماں جان‘ کہتی تھی۔


’’کل تک ہمیں ان رائے صاحب کو جواب دینا ہے اور اپنے سارے حالات کو دیکھ سمجھ کر جواب دینا ہے۔ کیا پتا یہ ایک موقع ہمیں اللہ نے فراہم کردیا ہو۔ اور سچ یہ ہے کہ مجھے اصفہان سے لگاؤ کیوں ہو؟ یا کہیں سے لگاؤ کیوں ہو؟ یہ میرا وطن نہیں۔ تبریز مجھے یاد بھی نہیں۔ ہمارا اصل وطن، جیسا کہ آپ بتاتی ہیں کہیں بہت دور مغرب کے ایک ملک میں ہے جسے آپ نے بھی چارپانچ سال کی عمر کے بعد نہیں دیکھا۔ ایک طرح سے ہم خانہ بدوش ہی تو ہیں۔ شاید دہلی ہمیں گھر دے دے۔‘‘ اس کے لہجے میں آرزو کا عجب ساحزن تھا۔


’’ہاں۔۔۔‘‘ لبیبہ خانم نے لمبی سی ہاں کی۔ ’’ہو تو سب کچھ سکتا ہے۔‘‘ اچانک اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ نخجوان کے زلزلے کی تباہیوں کے مناظر اس کے سامنے یوں تھے گویا کل کی بات ہو۔ نور السعادۃ کچھ سمجھی نہیں لیکن ماں کے آنسو دیکھ کر وہ خود بھی روپڑی۔ ’’اماں آپ خفا نہ ہوں۔ آپ چاہیں تو ابھی انکار کہلادیں۔‘‘


’’نہیں یہ بات نہیں، میری منی بیٹی۔‘‘ پھر لبیبہ خانم نے کچھ نہ کہا۔ نورالسعادۃ کو بھی لب کشائی کا دم نہ تھا۔ لیکن شام ڈھلتے پھر بات شروع ہوئی۔ لبیبہ خانم کا مزاج اس وقت خلاف توقع بہت شگفتہ تھا۔ بات میں پہل بھی اسی نے کی۔


’’یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ ہم وہاں جاکر کچھ طویل مدت قیام کرکے حالات کا جائزہ لیں۔‘‘


نورالسعادۃ نے ماں کو شگفتہ رودیکھا تو خود بھی کھل اٹھی، ’’جی آپ درست کہتی ہیں اماں۔ کچھ دن رہ کر حالات دیکھ لیں۔ اور شرط یہ رکھیں کہ اگر ہم نے واپسی کی ٹھانی تو ہمیں بحافظت اصفہان پہنچانے کا ذمہ اعتماد الدولہ بہادر کا ہوگا۔‘‘


’’ہاں، یہی کچھ میں بھی سوچ رہی تھی۔ لیکن۔۔۔‘‘ وہ متفکر ہوکر چپ ہوگئی۔


’’ارے، آپ پھر محزوں ہوئی جاتی ہیں۔ اب کیا ہوا؟‘‘


اچانک لبیبہ خانم کے چہرے پر خدا جانے کہاں سے اتھاہ غم ٹوٹ پڑا۔ اس بار وہ صرف آنسوؤں سے نہیں روئی۔ ہاتھوں میں منھ چھپاکر اس طرح سسکیاں لینے لگی کہ نورالسعادۃ کی چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ وہ اٹھی کہ کسی خادمہ کو بلائے لیکن گھبراہٹ میں ماں کے پلنگ کی پٹی سے ٹکراکر اس طرح گری کہ ماتھے سے خون جاری ہوگیا۔ بیٹی کو زخمی دیکھ کر لبیبہ خانم نے خود کو کسی طرح سنبھالا، بیٹی کو اٹھایا، پیار کیا۔ چوٹ پر خوشبودار مرہم رکھ کر ہلکی سی پٹی باندھی پھر بولی، ’’غم نہ کرو بیٹی۔ مجھے اس وقت اپنا ایک عہد یاد آگیا تھا۔ تبریز چھوڑتے وقت میں نے تمہارے باپ کی قبر پر وعدہ کیا تھا کہ مرنے سے پہلے ایک بار ان کے مزار کی زیارت کو پھر آؤں گی۔ اگر ہم دہلی چلے گئے تو پھر وہ وعدہ کیوں کر پورا ہوگا؟ اور اگر پورا نہ کیا تو تمہارے باپ کو کیسے منھ دکھاؤں گی؟‘‘ وہ پھر بے اختیار روپڑی۔


نورالسعادۃ نے ماں کی کمر اور گردن میں ہاتھ ڈال کر اسے یوں چمکارنا اور پیار کرنا شروع کیا گویا وہ ماں ہو اور خانم بزرگ اس کی بیٹی ہو۔


’’میری اماں جانی۔‘‘ اس نے ماں کو اپنے سب سے زیادہ محبت بھرے طرز سے مخاطب کیا، ’’میں نے تو انہیں گویا دیکھا بھی نہیں لیکن میرا دل کہتا ہے کہ وہ ہر اس بات کی تائید کرتے جس میں میری اور آپ کی بھلائی کا کچھ بھی امکان ہوتا۔ اور یہ کون کہتا ہے کہ خدانخواستہ آپ کی عمر۔۔۔‘‘ شدت گریہ سے اس کا گلا بھرا گیا، ’’ختم ہونے کو آئی۔ دہلی اور تبریز کے درمیان آمد رفت کوئی بند تھوڑی ہے۔ اللہ نے چاہا تو میں آپ کے ساتھ تبریز جاؤں گی۔۔۔‘‘ اب وہ بھی زور زور سے روئی، ’’اور ان کے مزار سے لپٹ کر روؤں گی۔‘‘


اگلے دن شام کو جب رائے کشن چند باریابی کے لیے حاضر ہوا تو یہ معلوم کرکے اس کا دل بیٹھ گیا کہ خانم بزرگ سے ملاقات اس بار نہ ہوگی۔ ایک تو نہ ملنے کا غم اور دوسرا یہ خوف کہ جواب شاید نفی میں ہو۔ بہرحال، وہ پہلے کی سی تکریم کے ساتھ دیوان خانے میں پہنچایا گیا تو یہ دیکھ کر متعجب ہوا کہ خانم بزرگ تو وہاں موجود تھی اور بالکل سابق کے انداز میں صندلی پر متمکن تھی۔ اس کے منھ سے کلمۂ حیرت نکلنے ہی والا تھا کہ اس کو محسوس ہوا کہ بات کچھ اور ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ کسی مزید غلط فہمی میں مبتلا ہوتا، نورالسعادۃ نے سروقد ہوکر اس کا استقبال کیا تو اس نے دیکھا کہ آج کی میزبان کی قامت خانم بزرگ سے زیادہ ہے، اور عمر بہت کم۔ پھر یہ بھی تھا کہ میزبان کے بال بہت گھنی چوٹی کی صورت میں اس کے زانو تک پہنچے ہوئے تھے۔


’’تسلیمات عرض کرتی ہوں۔ میرا نام نورالسعادۃ ہے۔ اماں نے حکم دیا ہے کہ میں آپ کی میزبانی کا شرف حاصل کروں۔ تشریف رکھیے۔‘‘ آواز بھی خانم بزرگ جیسی تھی لیکن بچپن کا ذرا سا الھڑپن لیے ہوئے، اس لیے اور بھی بھلی معلوم ہوتی تھی۔ رائے کشن چند نے لبیبہ خانم کو پہلے نہ دیکھ لیا ہوتا تو وہ یہ کہتا کہ اس نے نورالسعادۃ جیسی حسینہ کوئی اور نہ دیکھی تھی۔ اب اس سے پوچھا جاتا تو وہ کہتا کہ اس نے خانم بزرگ سے بڑھ کر حسین عورت، اور نورالسعادۃ سے بڑھ کر حسین لڑکی نہ دیکھی تھی، اور نہ آئندہ ہی اس کا امکان تھا۔


رائے کشن چند اخلاص نے اپنی حیرت اور مایوسی کو چھپانے کی پوری کوشش کرتے ہوئے جھک کر نورالسعادۃ کو دوبار سلام کیا اور ’’بہت خوب، حاضر ہوتا ہوں‘‘ کہہ کر جوتیاں اتار کر پرسوں والی ہی جگہ پر بیٹھ گیا۔ نورالسعادۃ کی تمکین اور تمکنت میں نوعمری کا رنگ کچھ اس طرح آمیز تھا کہ کشن چند اخلاص کی سمجھ ہی میں نہ آتا تھا کہ بات خود شروع کرے، یا اس طرف سے مخاطبت کا انتظار کرے۔


’’یہ فرمائیں کہ یہاں سے دہلی تک کے منزلیں ہوں گی؟‘‘


نورالسعادۃ کے منھ سے یہ سوال سن کر اخلاص کا دل بلیوں اچھلنے لگا۔ اس نے ذرا رک کر کہا، ’’تیس منزلیں ہیں۔‘‘ اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ اس لڑکی سے اس کا طرز مخاطب کیا ہو۔ نورالسعادۃ شاید اس کے دل کی بات بھانپ گئی، بولی، ’’آپ مجھے نور خانم کہہ سکتے ہیں۔ میں بھی آپ کے ساتھ دہلی چلوں گی۔‘‘


کشن چند کو اپنا بدن پھول سا ہلکا لیکن دل پتھر سا بھاری معلوم ہوا۔ اتنی بڑی مسرت اور اتنی بڑی ذمہ داری بیک وقت اٹھانے کا اس کے لیے پہلا موقع تھا۔ ایک ایک کرکے تفصیلات سب طے ہوئیں۔ اخلاص نے اعتماد الدولہ کی طرف سے اور اپنی طرف سے بھی، ہر بات منظور کی۔ انعام اور معاوضے کی کوئی بات نہیں ہوئی لیکن اس نے صاف اشاروں میں یہ کہہ دیا کہ توقع سے بہت زیادہ ہوگا۔ اس نے برسبیل تذکرہ بتایا کہ بہیناے فیل سوار نامی ایک مطربہ کو انہیں اعتماد الدولہ نے ایک بار ستر ہزار روپے کے زیور، ظروف طلائی، اور اقمشہ نذر کیے تھے۔ تھوڑی سی گفت و شنید کے بعد طے پایا کہ اب سے پانچویں روز، دن چڑھے خانم بزرگ کا قافلہ عازم ہند ہوگا۔


تابوے گلے سلسلہ جنبان نسیم است
برما رہ آمد شد بستاں نہ تواں بست


صائب پروبالے بکشا موسم ہند است
دل رابہ تماشاے صفاہاں نتواں بست


ملازمین جو ساتھ چلنا چاہیں گے، ساتھ ہوں گے۔ جو نہ چلنا چاہیں گے، لبیبہ خانم کے دولت کدے پر حسب معمول مقیم رہیں گے اور نگہبانی کی خدمت انجام دیں گے۔


یہی وجہ تھی کہ لبیبہ خانم کے قافلے کو گھر چھوڑے ہوئے آج پانچواں ہفتہ تھا۔ مقبول اور چلتی ہوئی شاہراہ تو طہران اور مشہد ہوکر کوہ ہندوکش کی دشوار گزار چڑھائیاں پار اتر کر ہرات اور پھر کابل پہنچ کر کابل تا دہلی کی شاہراہ بابری سے مل جاتی تھی۔ لیکن طہران اور مشہد دونوں بہت سردعلاقوں میں واقع ہیں اور کوہ ہندوکش میں داخل ہوکر یہ شاہراہ کئی جگہ پر چار ہزار گز تک بلند تھی۔ سردی کا موسم اس پر مستزاد۔ اندیشہ تھا کہ نورالسعادۃ کی بیماری پھر نہ عود کرآئے۔ لہٰذا ساربانوں اور راہبروں کے مشورے سے یہ قافلہ سیدھا جنوب کو چلا۔ یزد، بافق، کرمان، او رزاہدان سے ہوکر وہ دشت لوط کے جنوب بعید کی سرحد سے بالکل لگے ہوئے، اور اب مشرق کی سمت میں سفر کرتے ہوئے افغانستان میں داخل ہوئے۔ یہاں انہوں نے دریائے ہلمند پار کرکے قندہار میں کئی دن قیام کیا، کہ دشت لوط اور اس کے بعد کے سفر کی تکان نہ صرف دور ہوجائے، بلکہ آئندہ سفر کے لیے وہ تازہ دم بھی ہوسکیں۔ قندہار کے بعد انہیں افغانستان کی مشکل راہوں کا سامنا تھا۔ اب وہ غزنین، کابل، جلال آباد، پیشاور اور لاہور ہوتے ہوئے سرہند پہنچے۔ یہاں ان کا قافلہ دہلی سے صرف چار دن کی راہ پر تھا۔


رائے کشن چند اخلاص اپنے کو کبۂ نوابی کو لیے تمام راہ ساتھ ساتھ رہا تھا اور خانم بزرگ کے خدم و حشم ان کے گرداگرد تھے۔ رائے اخلاص ایک لحظے کو بھی لبیبہ خانم کے محافے سے الگ نہ ہوتا۔ لبیبہ، نورالسعادۃ اور رائے اخلاص کی بات چیت ہندی میں ہوتی۔ وہ دونوں بہت جلد ٹوٹی پھوٹی ہندی بولنا سیکھ گئی تھیں۔ سرہند سے گزرتے وقت تک وہ ہندی کو کم و بیش اچھی طرح سمجھنے لگی تھیں، اگرچہ گفتگو کرنے میں انہیں ابھی تکلف تھا۔ ایک دن اخلاص نے انہیں یہ شعر سنایا،


تجھ بن دماغ صحبت اہل چمن نہ تھا
گل وا ہوئے ہزار ولے ہم نہ وا ہوئے


’’اے سبحان اللہ!‘‘ خانم بزرگ اور نورالسعادۃ نے ایک ساتھ کہا۔


’’یہ کس کا شعر ہے؟‘‘ لبیبہ خانم نے پوچھا، ’’یہ تو ہمارے میرزا ولی اصفہانی یا بابا فغانی شیرازی کا شعر معلوم ہوتا ہے۔‘‘


’’یہ شعر ایک جوان پیر صفت کا ہے۔ عجب وارستہ اور عاشق مزاج، خوددار و خودنگر شخص ہے۔ نام اس کا محمد تقی ہے، تخلص اس کا میر ہے۔ ہم سب اسے میر صاحب یا میر جی کہتے ہیں، اگرچہ وہ عمر میں مجھ سے چھوٹا ہے۔ اس کم عمری میں بھی بڑے بڑے استادوں کو خود سے کم تر گردانتا ہے۔‘‘


’’آپ اسے جانتے ہیں؟‘‘ نورالسعادۃ نے پوچھا۔


’’جی ہاں۔ دہلی میں ہر شاعر ہر شاعر کو پہچانتا ہے، باوجود اس کے کہ وہاں کم و بیش ہر گھر میں ایک دو شاعر ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ شعر گوئی ہمارے یہاں مشغلۂ نفیس و ظریف مانی جاتی ہے۔‘‘


رائے اخلاص نے نورالسعادۃ کو پہلی بار کسی ہندوستانی چیز میں اس طرح دلچسپی لیتے دیکھا تھا۔ اس نے دل میں خیال کیا کہ یہ شعر نورالسعادۃ کے دل میں ا تر کر کسی نامعلوم طریقے سے اپنی جگہ بناگیا ہے۔


’’میر صاحب کے ایک دو شعر اور سنیے گا؟‘‘ اس نے کہا۔


’’اگر زحمت نہ ہو۔ اس ایک شعر نے تو اشتیاق بڑھا ہی دیا۔‘‘ نور السعادۃ بولی۔


اخلاص نے پڑھنا شروع کیا،


میں کون ہوں اے ہم نفساں سوختہ جاں ہوں
اک آگ مرے دل میں ہے جو شعلہ فشاں ہوں


جلوہ ہے مجھی سے لب دریاے سخن پر
صد رنگ مری موج ہے میں طبع رواں ہوں


اک وہم نہیں بیش مری ہستی موہوم
اس پر بھی تری خاطر نازک پہ گراں ہوں


خوش باشی و تنزیہہ و تقدس تھے مجھے میر
اسباب پڑے یوں کہ کئی روز سے یاں ہوں


’’سبحان اللہ!‘‘ خانم بزرگ نے کہا، ’’لگتا ہے مولوی معنوی، بابا فغانی اور میرزا صائب کی روحیں ایک قالب میں حل ہوگئی ہیں۔‘‘


’’یہ میر صاحب تو دیکھنے اور ملنے کے قابل معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ نورالسعادۃ بھی بے ساختہ بول اٹھی۔


’’جہاں آپ جیسے کا ملان فن ہوں گے، وہاں یہ شخص خود ہی حاضر ہوجائے گا۔‘‘ رائے کشن چند نے کہا۔ وہ خوش تھاکہ خدمت کاایک اور موقع ہاتھ آیا، ’’ورنہ میں اسے خود آپ کی زیارت اور قدم بوسی کے لیے لے آؤں گا۔‘‘


دہلی میں ان کا داخلہ کشمیری دروازے سے ہوا۔ سب سے پہلی چیز جو خانم بزرگ نے محسوس کی وہ شہر کی وسعت تھی۔ ابھی شاہجہاں آباد ی فصیل کا پتا نہ تھا لیکن کشمیری دروازے کے بھی بہت پہلے ہی سے شہر کی گہما گہمی، بازاروں میں خلقت کا ہجوم، مسجدوں میں اذانیں، مندروں میں گھنٹیاں، سب موجود تھیں۔ تیس ہزاری جیسا وسیع و عریض باغ بھلا کسی نے کاہے کودیکھا ہوگا۔ شہر پناہ شاہجہاں آباد پہنچتے پہنچتے انہیں کئی گھڑیاں لگیں۔ شہرپناہ پر کوتوالی کے سپاہیوں نے ان سے کچھ سوال جواب کیے۔ اعتماد الدولہ کا نام سنتے ہی سپاہیوں نے مزید پوچھ گچھ نہ کی او رسارے غیرملکیوں کو اسی دم پرچۂ راہداری لکھ دیا۔


شاہجہاں آباد کی شہر پناہ پار کرکے وہ سرائے جہاں آرا بیگم کی بلند اور خوشنما عمارت سے ہوتے ہوئے پھاٹک حبش خان میں پہنچے جہاں اعتماد الدولہ کی ایک آراستہ حویلی ان کے لیے تیار کردی گئی تھی۔ لبیبہ خانم کو ایک دوروز یہ سمجھنے میں لگے کہ تغلق آباد، بدرپور سے لے کر شاہجہاں آباد تک دہلی کئی شہروں کا مجموعہ ہے اور صرف شاہجہاں آباد میں کوئی پانچ لاکھ لوگ رہتے ہیں، اور ایک لاکھ یا کچھ کم لوگ ہر روز شہر میں داخل ہوتے اور تقریباً اتنی ہی تعداد میں یہاں سے کوچ کرتے ہیں۔


رائے کشن چند اخلاص حویلی تک پہنچاکر ان سے رخصت ہولیا تھا لیکن وہ صبح شام حاضری ضرور دیتا۔ اعتماد الدولہ سے ابھی خانم بزرگ کی ملاقات نہ ہوئی تھی، اس لیے یہ کہنا ممکن نہ تھا کہ لبیبہ خانم اور اعتماد الدولہ کے مابین کس قسم کے تعلقات قائم ہوسکیں گے۔ اور رائے کشن چند کی مجال نہ تھی کہ کسی ایسی ہستی سے کوئی لگاؤ رکھنے کی آرزو کرے جو اعتماد الدولہ کی منظور نظر ہوسکتی تھی۔ ورنہ خود اخلاص کی آنکھوں میں شوق اور آرزو کی جھلملاہٹ اس قدر واضح ہوچلی تھی کہ خانم بزرگ کے اپنے لوگوں میں کسی کو بھی شک نہ رہا تھا کہ رائے کشن چند ان کا پرستار ہے۔


اعتماد الدولہ اور خانم بزرگ کی پہلی ملاقات بہت خوش گوار ماحول میں شروع ہوئی اور طرفین کو ایک دوسرے کا خلوص و احترام فوراً حاصل ہوگیا۔ اعتماد الدولہ قمر الدین خان نصرت جنگ چھوٹے قد، دوہرے لیکن کسرتی بدن کے شخص تھے۔ وہ بے حدخلیق اور اپنے زمانے کے دیگر امرا کے مقابلے میں متشرع اور سادہ مزاج تھے۔ صوفیا کے سلسلۂ سہروردیہ کے بنیاد گزار حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی ان کے جدامجد تھے۔ ان کے خاندان میں علم و فضل اور دنیاوی ثروت و جاہ کی وراثت کئی پشتوں سے چلی آرہی تھی۔ وہ چن قلچ خان آصف جاہ نظام الملک کے سگے بھائی تھے۔ ہندوستان میں ان کے جد اعلیٰ میر بہاءالدین کی آمد اورنگ زیب عالم گیر کے دور سلطنت میں ہوئی تھی۔ میر موصوف کو اورنگ زیب نے غازی الدین خان بہادر کے خطاب سے نوازا اور ان سے بڑی بڑی خدمات لیں۔ تب سے یہ خاندان اپنی شرافت و نجابت اور حسن کاکردگی کے باعث سلطنت مغلیہ کے نمایاں عمائد کا خاندان رہا تھا۔


امیرالامرا سید حسین علی خان کی شکست اور موت، اور اس کے بھائی قطب الملک سید عبداللہ خان (تاریخ ہند کے بدنام سید برادران، جو ’’بادشاہ گر‘‘ کہلاتے تھے۔ مرتب) کی معزولی کے بعدشاہ فلک بار گاہ محمد شاہ بہادر غازی، شہنشاہ دہلی نے قمر الدین خان کے باپ میر محمد امین خان کو اعتماد الدولہ کا خطاب دے کر وزیر مقرر کیا (۱۱۳۰ھ، مطابق ۱۷۲۰ء۔ مرتب) لیکن محمد امین خان جلد ہی واصل بحق ہوئے۔ ان کے بعد بادشاہ قمرالدین خان کو اعتماد الدولہ نواب قمرالدین خان بہادر نصرت جنگ کے خطابات کے ساتھ وزیر مقرر کیا (۱۱۳۷ھ، مطابق ۱۷۲۴ء، مرتب)


قمرالدین خان نے تب سے اپنی شہادت (۱۷۴۸ء۔ مرتب) کے وقت تک منصب وزارت کو بڑی خوبی اور نیک نامی کے ساتھ نباہا۔ ان کے زمانے میں منصور علی خان صفدرجنگ عرف مرزا مقیم، اور عماد الملک غازی الدین خان سوئم (جو نظام الملک آصف جاہ کا، اور اس لیے قمرالدین خان کا بھی نبیرہ تھا۔ مرتب) جیسے اولوالعزم، لائق لیکن بے ضمیر اور سنگ دل امرا کو سراٹھانے کا موقع بالکل نہ مل سکا تھا۔ قمرالدین خان کے بعد صفدرجنگ نے احمد شاہ جیسے باصلاحیت اور ہمہ صفت و موصوف بادشاہ کو، جو محمد شاہ کے بعد تخت نشین ہوا تھا، بالکل بے اثر کرکے رکھا اور بالآخر اسے اندھا کراکے تخت سے اتاردیا۔ (۱۷۵۴ء، مرتب۔) عماد الملک غازی الدین خان نے ایک قدم اور آگے جاکر احمد شاہ کے جانشین عالم گیر ثانی کو مرواہی دیا (۱۷۵۹ء۔ مرتب) سلطنت مغلیہ کے زوال اور ذلت و ناکامی کی موت کے اصل ذمہ دار جو سچ پوچھیے تو یہی دونوں صاحبان ہیں۔


لیکن یہ سب باتیں ابھی پردۂ خفا میں تھیں۔ نادر گردی اور نادر شاہی لوٹ کے باوجود دہلی کا تخت روشن اختر محمد شاہ پادشاہ غازی (جنہیں انگریز کے پٹھو مؤرخین نے ’محمد شاہ رنگیلا‘ بنادیا۔ مرتب) کے زانو تلے ابھی مضبوط تھا۔ آصف جاہ نظام الملک اور اعتماد الدولہ قمرالدین خان کی شہرت کے آفتاب نصف النہار پر تھے۔


لبیبہ خانم کے سامنے اعتماد الدولہ نے کوئی شرطیں نہ رکھیں۔ بس یہ کہا کہ شادی کے موقعے پر جو محفلیں ہوں گی ان میں سے چند میں آپ کو غزل سرائی کی زحمت دی جائے گی۔ اس کے علاوہ آپ ہر طرح آزاد ہیں۔ یہ حویلی اور اس کا عملہ فعلہ، سب آپ کی سرکار کے ملازمین ہیں لیکن تنخواہ انہیں ہماری سرکار سے ملے گی۔ رائے کشن چند اخلاص ہمہ وقت میری طرف سے آپ کی پیشی میں رہیں گے۔ شادی کے فرائض سے فراغ ہونے کے بعد میں آپ کو مزید تبادلۂ خیال کے لیے زحمت دوں گا۔


’’ہاں، بس ایک درخواست، یا مشورہ، قبول ہو تو بندے کو عین مسرت ہوگی۔‘‘ اعتماد الدولہ نے ارشاد کیا۔


’’کنیز ہمہ تن گوش ہے۔‘‘ خانم بزرگ نے جواب دیا۔


’’ارمنی رسم کے مطابق تو آں جناب کا لقب خانم بزرگ اور صاحب زادی سلمہا اللہ تعالیٰ کا اسم سامی نورالسعادۃ، بہت مناسب ہیں۔ لیکن ملک ہند میں ایسے نام صرف امرا اور سلاطین کی مخدرات کے لیے ٹھیک سمجھے جاتے ہیں۔ یہاں ان ناموں کو فی الحال ترک کرکے اپنے لیے بڑی بائی صاحب اور صاحب زادی کے لیے نوربائی صاحب نام، یاالقاب منتخب فرمائے جائیں تو خوب ہوگا۔‘‘


خانم بزرگ ایک لمحے کے لیے چپ ہوگئی اور اس کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات پیدا ہوئے۔ اعتماد الدولہ تو مجسم فراست تھے، انہوں نے خانم بزرگ کے چہرے پر کوئی اثر پیدا ہونے کے پہلے ہی دیکھ لیا تھا کہ وہ ناراض ہونے والی ہے۔ لیکن اس معاملے میں مفاہمت کا کوئی امکان نہ تھا۔ یہاں کی شہزادیاں اور امیرزادیاں کبھی گوارا نہ کرتیں کہ ان کے علاوہ کسی اور کے نام اس امیرانہ اور سلطانی ٹھاٹھ کے ہوں۔ وہ یہ سوچ کر آئے تھے کہ اگر خانم بزرگ نے یہ تجویز نہ مانی تو انہیں انعام اور عزت گو ویسی ہی دی جائے گی جس کی وہ مستحق تھیں، لیکن ان سے کسی محفل میں شرکت کے لیے نہ کہا جائے گا۔


یہ بڑا کڑواگھونٹ تھا۔ لیکن لبیبہ خانم بھی سمجھتی تھی کہ نصرت جنگ نے یہ تجویز یوں ہی نہ رکھی ہو گی۔ پھر بھی، امتحاناً اس نے کہا، ’’اعتماد الدولہ بہادر، میں یہاں اپنا نام گنوانے نہیں، اسے بلند کرنے آئی تھی۔‘‘


’’میری بھی مجبوری آپ سمجھتی ہوں گی۔‘‘ اعتماد الدولہ نے اٹھتے ہوئے کہا، ’’آپ غور فرمائیں۔ اب میں اجازت چاہتا ہوں۔‘‘


’’اعتماد الدولہ بہادر، میں دہلی میں آپ کی مہمان ہوں لیکن اپنے گھر میں خانم بزرگ ہی رہوں گی۔‘‘


’’چشم ماروشن دل ماشاد۔‘‘ اعتماد الدولہ نے دایاں ہاتھ سینے پر رکھا، تھوڑا جھکے، پھر دائیں ہاتھ سے فرشی سلا م کیا۔ اس کے پہلے کہ وہ مڑتے، ان کے خواصی نے ان کے پاؤں میں جوتیاں پہنادیں۔ لبیبہ خانم نے فوراً لب فرش تک آکر سات فرشی سلام کیے۔ ’’سطوت و شوکت روزا فزوں، عمر و دولت و اقبال زیادت باد۔ دوبارہ بندی کو سرفراز فرمائیں، میں تاعمر ممنون کرم رہوں گی۔‘‘ یہ باتیں کہتے کہتے دونوں دروازے سے باہر آگئے۔ سب گفتگو اس نزاکت کو ملحوظ رکھ کر ہوئی کہ نہ اعتماد الدولہ کی پیٹھ خانم بزرگ کی طرف ہو اور نہ انہیں الٹے پاؤں دیوان خانے سے باہر آنا پڑے۔ اس طرح کوئی بات وضاحت سے کہے بغیر طرفین نے مان لیا کہ دہلی کے عوام و خواص لبیبہ خانم اور نورالسعادۃ کوخواہ کسی نام سے پکاریں، لیکن اپنی چہاردیواری کے اندر انہیں خانم بزرگ اور نورخانم ہی کہا جائے گا۔


صبح ابھی ہوئی نہ تھی لیکن فجر کی اذان ہوئے کچھ عرصہ ہوچکا تھا۔ نمازی گھروں سے نکل کر تیز تیز محلے کی مسجد کو جارہے تھے۔ حوض قاضی کا چھوٹا سا محلہ ابھی سو ہی رہا تھا۔ صرف چند خاکروب کان منھ لپیٹے، موٹی چادریں اوڑھے اپنے کام میں لگنے کو تیار ہو رہے تھے۔ سردی اس سال تھی بھی بہت سخت اور حوض قاضی کی مسجد کے سامنے سیدھی سڑک خانم کے بازار سے آتی تھی۔ پوری سڑک پر دورویہ بلند عمارتوں کے باعث سرنگ ہوائی کا سا لطف اکثر پیدا ہوجاتا تھا، یعنی باہر سے آتی ہوئی ہوا اس طرف عام سے کچھ زیادہ تیزی سے بہنے لگتی تھی۔


حوض قاضی کی مختصر سی نہر کا پانی برف ہو رہا تھا لیکن ایک نوجوان مسجد کے پائیں سے نکلا۔ اس کے قدم کبھی سست پڑتے، کبھی تیز اور اس کی آنکھوں میں رات کا خمار تھا۔ وہ ہاتھ میں کاغذوں کاایک جنگ لیے ہوئے تھا، اسے لب نہر رکھ کر وہ پانی پینے کے لیے جھکا۔ یہ شدید سردی اور یہ سرداب، اور علی الصباح، بھلا کون پانی پینے اٹھتا ہے۔ لیکن نوجوان کو شاید بھوک لگی تھی اور وہ اسے ٹھنڈے پانی سے مارنا چاہتا تھا۔ یا پھر اس کا خلط ہی اس درجہ سوداوی تھا کہ اسے اس عالم میں بھی پیاس لگتی تھی۔


نہر میں چلو ڈال کر اس نے پانی اٹھایا ہی تھا کہ آواز آئی، ’’اے میاں صاحب زادے! ارے میاں، تم محمد تقی میر تو نہیں ہو؟‘‘ پوچھنے والا ایک عمر رسیدہ، شریف اور باوضع شخص معلوم ہوتا تھا۔ وہ وزیر الممالک نواب قمرالدین خان اعتماد الدولہ کی حویلی کے حافظ خانے سے نماز کے لیے نکلا تھا۔ حویلی مسجد سے کوئی پچاس قدم پر تھی لیکن اس وقت وہاں صرف چند روشنیاں جل رہی تھیں۔


’’میں محمد تقی ہوں تو سہی۔ پھر آپ کو کیا؟‘‘ نوجوان نے کچھ تیز لہجے میں کہا۔ بائیس تیئیس کی عمر، کشیدہ قامت، دبلا بدن، لیکن چوڑی کلائیاں، خمار آلود تیز آنکھیں جو کچھ خاص بڑی تو نہ تھیں لیکن ان میں غضب کی زندگی اور چمک تھی۔ ہلکی ڈاڑھی، ٹھوڑی پر اور بھی ہلکی، لیکن گھنی، چڑھی ہوئی مونچھوں کے باعث چہرہ بھرا بھرا لگتا تھا۔ ٹوپی یا چیرہ وغیرہ سے بے نیاز سر کے بال گھنے اور پٹے دار، بیچ میں مانگ کی روشن لکیر۔ ورنہ سارے بال سر کی پشت پر اس طرح پڑے ہوئے تھے گویا انہیں کھینچ کھینچ کر سیدھا کیا گیا ہو۔ گلے میں ہلکی بانات کا انگرکھا، اس کے نیچے اونی کرتا۔ بدن پر موٹے مشروع کا جامہ، پاؤں میں گھیتلی جوتی۔ کمر میں تیلیارنگ کا دوپٹہ، جس سے کٹار آویزاں تھی۔


اس وقت اس کا چہرہ غالباً بے خوابی اور تھکن سے ستا ہوا سا تھا، اچانک یوں پکارے جانے پر چڑچڑاہٹ اس پر مستزاد۔ ورنہ اس کے منھ کے گوشے تھوڑے اوپر کو اٹھے ہوئے تھے اور دونوں آنکھوں کے کونوں پر شکنیں تھیں۔ یہ دونوں باتیں ظریف الطبع ہونے کی علامت تھیں۔ مجموعی حیثیت سے اس کی پوری شخصیت میں عجب دل آویزی تھی، دیکھنے والوں کے دل خواہ مخواہ اس کی طرف کھنچتے تھے۔ لہجے میں دہلی کے فوری جنوب میں بولی جانے والی برج بھاشا کا لوچ خاصا نمایاں تھااور اس کے منھ پر بہت بھلا لگتا تھا۔


اجنبی شخص اب قریب آگیا تھا، ’’مجھے کچھ نہیں میاں صاحب۔ تم مجھے نہیں جانتے لیکن تمہارا سودائیانہ انداز تو مشہور ہے۔ اور تمہارے شعر اس سے زیادہ۔‘‘ محمد تقی کے چہرے پر چھوٹی سی شرمندہ مسکراہٹ آئی۔ ’’میں نے تمہیں مشاعروں میں دیکھا ہے۔ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ نواب رعایت خان بہادر ابن ظہیر الدولہ نواب عظیم اللہ خان تمہارے کلام کے اور تم سے ملاقات کے مداح ہیں۔‘‘


محمد تقی اچانک پھر چڑچڑاگیا، ’’مشتاق ہیں تو باقاعدہ پرچہ بھیج بلواتے۔ یہ آدھی رات کو شارع عا پر مجھے ٹوکنے کا کیا مطلب؟‘‘


’’میاں صاحب تم تو پٹھے پر ہاتھ ہی نہیں رکھنے دیتے۔ اچھا دیکھو، مجھے نماز کی دیر ہوتی ہے۔ اتنے تم میرے حجرے میں بیٹھو۔ وہ رہا وزیر الممالک کے محافظ خانے کے اوپر۔ میرا ملازم تمہیں پہچانتا نہیں ہے، میرا نام اسے بتادینا، علیم اللہ خان مجھے کہتے ہیں۔ میں ابھی آیا۔‘‘


یہ کہہ کر وہ شخص تو لپک جھپک مسجد میں چلا گیا لیکن محمد تقی کوئی گھڑی اپنے خیالوں میں گم وہیں کھڑا رہا۔ خدا جانے کون بندۂ خدا ہے، اس نے اپنے دل میں کہا۔ نماز کا پابند ہے تو ٹھیک ہی آدمی ہوگا۔ شاید شعر فہم بھی ہو۔ ورنہ آج کل کون کسے پوچھتا ہے۔ رعایت خان بہادر کو میں جانتا نہیں، کوئی خرنامشخص ہوگا، جیسے آج کل کے رئیس ہوتے ہیں۔ لیکن میں نے بھی تو جلاد صفت سوتیلے ماموں کی رفاقت اور مشائعت کو لات ماردی ہے۔ کب تک اپنے اشعار کی اصلاح کے پردے میں ان کے زہر بھرے جملے سنتا اور کب تک دوسروں کے سامنے ان کے منھ سے یہ سخن سنتا کہ محمد تقی میرے مضمون اڑاتا ہے لیکن نبھا نہیں پاتا۔ مجھے کیا مضامین کی کمی ہے اور اگر مضمون اڑاؤں بھی تو کیا ان کے اڑاؤں، کہ جن کا کوئی مصرع سست ہوتا ہے تو کوئی چست؟ اور کینہ توزی بھی واللہ ان میں کس قدر ہے۔ میرے عالم جنون میں مجھ پر کیا کیا ستم انہوں نے نہ ڈھائے۔۔۔


’’ارے میاں، تم ابھی یہیں سردی میں ٹھٹھر رہے ہو!‘‘ علیم اللہ خان نے مسجد کے دروازے سے ہی آوازدی، ’’اچھا شاید تکلف محسوس کر رہے تھے۔ آؤ اب چلتے ہیں۔ میں نماز بھی پوری کرکے آگیا اور تم وہیں کے وہیں ہو۔‘‘


’’چلتا تو ہوں، لیکن ایک التماس ہے۔‘‘ محمد تقی میر نے کہا۔


’’کہو کہو، کیا معاملہ ہے؟‘‘


’’مجھ سے شعر سنانے کو نہ کہیے گا۔‘‘


علیم اللہ نے زور کا قہقہہ مارا، ’’شاید میری سخن سنجی پر شک ہے۔ صاحب زادے، تم سے شعر سننے کی فرمائش تو اور لوگ کریں گے۔ میں تو یہ جاننا چاہتا تھا کہ اس کڑکڑاتے جاڑے میں تم نہر کا یخ پانی کیوں پی رہے تھے۔‘‘


علیم اللہ خان کے حجرے میں انگیٹھی روشن تھی۔ مزے دار گرمی اور گھریلو سا بے تکلف ماحول، محمد تقی کو کھڑے کھڑے ہی جھپکی آنے لگی۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے آنکھیں ملتے ہوئے کہا، ’’معاف کیجئے، شاید کوئی تنکا وغیرہ آنکھ میں چلا گیا ہے۔‘‘


’’یہ تنکا نہیں، نیند کی کھٹک ہے میاں صاحب۔ میرا گھر خانۂ درویش ہے او رمیرا دل قلب بے ریا۔ یہ لو کمبل اور اس کونے میں پڑکر سو رہو۔ وہ کیا شعرہے تمہارا،


جب رات سر پٹکنے نے تاثیر کچھ نہ کی
ناچار میر منڈکری سی مار سو رہا‘‘


’’یہ شعر آپ نے کہاں سنا؟‘‘ میر نے متعجب ہوکر پوچھا، ’’یہ شعر تو میں نے ابھی دو دن ہوئے کہا تھا اور صرف مقطع ہی ہے، اللہ بہتر جانتا ہے کہ غزل کب پوری کروں گا۔‘‘


’’کیوں، کیا تمہیں شعر کہنے میں بہت دیر لگتی ہے؟‘‘


’’لگتی بھی ہے اور نہیں بھی۔‘‘ میر نے لمبی جماہی لے کر کہا، ’’کبھی کبھی مطلع یا مقطع پہلے ہوجائے، اور اچھا نکلے تو غزل پوری کرنے میں۔۔۔‘‘


اتنا کہتے کہتے میر زمین پر ڈھیر ہوکر سوگیا۔ نہ معلوم کتنی راتوں کا جاگا تھا، یا گھر کے ماحول میں بے تکلفی اور یگانگت کے فقدان نے اسے اس درجہ نڈھال کردیا تھا کہ ذرا اُنس کی گرمی پائی تو وہیں کا وہیں سو گیا۔ علیم اللہ خان نے اسے اٹھایا نہیں، اس پر ایک کمبل ڈال دیا اور خود اپنے اوراد و وظائف میں مشغول ہوگیا۔


محمد تقی دن چڑھے تک سویا۔ اس کی آنکھ تب کھلی جب اس نے خواب میں د یکھا کہ مجھے بڑے زور کی بھوک لگی ہے او رمیں کہیں دعوت کھارہا ہوں۔ خواب دیکھتے ہی دیکھتے اس کی آنکھ کھل گئی۔ واقعی اسے بڑے زور کی بھوک لگی تھی۔ وہ ہڑبڑاکر اٹھا۔ علیم اللہ شاید اپنے کام پر جاچکے تھے، لیکن ان کے خادم نے فوراً ہی اندر آکر کہا، ’’تسلیمات عرض کرتا ہوں۔ نیچے غسل خانہ اور حمام تیار ہیں۔ آپ ضروریات سے فارغ ہولیں، اتنے میں ناشتہ لگائے دیتا ہوں۔ خان صاحب ایک سوا ساعت میں تشریف لے آئیں گے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ ناشتے کے بعد جناب ان کا انتظار فرمائیں تو عین نوازش ہوگی۔‘‘


جب تک غسل اور ناشتے کے معمولات ادا ہوئے، علیم اللہ خان بھی واپس آگئے۔


’’ماشاء اللہ، صاحب آپ تو خوب سوئے۔ امید ہے اب تازہ دم ہوں گے۔ شاید آپ متفکر ہوں کہ میں یہاں آپ کو کیوں لے آیاہوں، تو عرض یہ ہے کہ میں نواب رعایت خان کا مصاحب ہوں، اور وہ، جیسا کہ میں نے رات کہا، آپ کے کلام کو نظر استحسان سے دیکھتے ہیں۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ آپ کے مزاج میں شوریدگی بہت ہے۔۔۔‘‘


’’شوریدگی نہیں، شوریدہ سری، بلکہ خیرہ سری۔‘‘ میر نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’خدا جانے مجھے سب سے لڑنے بھڑنے میں لطف کیوں آتا ہے۔‘‘ پھر اس نے اپنے ترکیب بند سے یہ شعر بڑے سادہ لیکن من موہنے انداز میں پڑھے،


وہ تشنہ دہن ہوں دل جلا ہوں
لب چش جس کا نہ ہووے دریا


کہتے ہو جسے فلک ہوا ہے
میرے ہی غبار دل سے پیدا


کھلتا تو سہی کبھو بلا سے
دل میرا بھی کاش غنچہ ہوتا


وہ خستہ ہوں میں ہی جس کو کہیے
رونق افزائے کوہ و صحرا


’’مزاج میں اتنی کڑواہٹ، اور اتنی کم عمر میں، آخر کیوں؟‘‘


’’مزاج سے زیادہ یہ معاملہ میری ضد کا بھی ہے خان صاحب من۔‘‘ میر نے کہا، ’’مجھے میر سمجھا ہے کم یاں کسو نے۔ مجھے کسی سے کچھ لینا اچھا نہیں لگتا، خواہ فتوح ہو، خواہ ہدیہ، خواہ احسان۔ لیکن طبیعت میں اتنا استغنا بھی نہیں کہ تنگی محسوس کروں تو بھی خاموش رہوں، کسی پر اپنا حال نہ ظاہر کروں۔ میرے مخمصے کو ابوطالب کلیم بہت پہلے بیان کرگیا ہے۔‘‘ پھر اس نے کلیم کا شعر بڑی قوت کے ساتھ پڑھا،


طبعے بہم رساں کہ بسازی بہ عالمے
یاہمتے کہ ازسر عالم تواں گذشت


وہ ہنسا، لیکن اس ہنسی میں خودپر استہزا بھی شامل تھا، ’’یہ بات تو کلیم کا شانی سے بھی نہ ہوئی، تو مجھ سے کیوں کر ہو۔‘‘


’’اچھا تو کل رات کا قصہ کیا تھا؟ آپ رات بھر کہاں رہے اور صبح سویرے اس قدر ٹھنڈا پانی کیوں پی رہے تھے؟‘‘


وہ پھر ہنسا، ’’اگر شاعری کی زبان میں جواب دوں تو یہی کہوں گا کہ سردی میں میں منھ اندھیرے ٹھنڈا پانی اس لیے پی رہا تھا کہ،


آگ سی سینے میں سلگے ہے کبھو بھڑکی تو میر
دے گی میری ہڈیوں کا ڈھیر جوں ایندھن جلا‘‘


علیم اللہ بڑے غور سے سن رہا تھا لیکن اب اس کے منھ سے ارتجالاً نکلا، ’’واللہ میاں کیا غضب کا شعر کہا ہے۔‘‘


’’ہاں، لیکن عام زندگی کی زبان جواب دوں تو یہ کہوں گا کہ میرے پاس لونگ کے چند پھول تھے، میں رات بھر انہیں چباتا رہا تھا۔ زبان اینٹھ گئی تھی۔‘‘


دونوں ہنسنے لگے۔ علیم اللہ خان نے دیکھا کہ میر جب ہنستا تو اس کا چہرہ بالکل بدل جاتا ہے، درشتی کی تھوڑی سی بھی رمق اس پر نہیں رہ جاتی۔ روشن آنکھیں جو ہنسنے میں تھوڑی سکڑ جاتی ہیں اور بھی تیز چمک دار بن جاتی ہیں۔ سارے بدن میں شگفتگی کی لہر سی دوڑ جاتی ہے اور صاف لگتا ہے کہ یہ شخص زندگی کا لطف اٹھانا جانتا ہے، ہنسنے ہنسانے سے خوب واقف ہے۔


’’مگر یہ شب گردی اختیار کیوں کی تھی، اگر بار خاطر نہ ہو تو پورا حال بتائیں۔‘‘


میر نے ایک ہلکی سی ٹھنڈی سانس کھینچی، ’’میرے سوتیلے ماموں، بلکہ نام نہاد ماموں کو آپ جانتے ہیں؟‘‘


’’کون، نواب سراج الدین علی خان آرزو؟ اجی انہیں کون نہ جانے گا؟ عالم بے بدل، جگت استاد، فارسی اور ریختہ دونوں میں ایک عالم ان کے علم اور نظم و نثر کا لوہا مانتا ہے۔‘‘


’’بس بس رہنے دیجیے۔‘‘ محمد تقی چڑا چڑا گیا، ’’یہ سب ہوگا۔ لیکن وہ شخص انتہائی کینہ پرداز، حاسد اور ہم چومن دیگرے نیست کے مرض کاشکار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے چھوٹوں کا بھی حاسد ہے۔‘‘


’’اجی یہ کیا کہتے ہو میاں صاحب! وہ اور چھوٹوں سے حسد کریں، کینہ رکھیں۔ نا صاحب۔۔۔‘‘


’’تو کیا میں جھوٹا ہوں؟‘‘ میر کا پارہ پھر گرم ہونے لگا، ’’سچ بھی برا وہ جس کو سن کر لوگ کہیں تو جھوٹا ہے۔ اجی مشفق من، آپ نے وہ مثل نہیں سنی کہ ہاتھی کے دانت۔۔۔‘‘


’’بجا، بالکل بجا، میاں صاحب۔‘‘ علیم اللہ نے جلدی سے قطع سخن کیا، ’’میں کب کہوں ہوں کہ آپ جھوٹ بولتے ہو۔ میں تو صرف یہ کہہ رہا تھا کہ بات ایسی ہے کہ۔۔۔‘‘


’’بات جیسی بھی ہو، حقیقت یہی ہے۔ آپ نہ مانیں، نہ سہی۔ سنیے ان سوتیلے ماموں صاحب کے کرتوت۔‘‘ لفظ ’سوتیلے‘ پر خاص زور تھا۔ ’’ان کا خاص مشغلہ یہ ہے کہ اپنے سے کم عمر کے شعرا کے کلام میں فی نکالنا اور ان پر سرقہ کاجھوٹا الزام لگانا۔‘‘


’’تعجب، صد تعجب کامقام ہے۔‘‘ علیم اللہ نے زیر لب کہا۔


’’مرزا رفیع کو جانتے ہیں آپ؟‘‘ میر نے کسی مشاق بحاث کے انداز میں کہا، ’’چلیے ان سے پچھوادیتے ہیں کہ ان پر کیا معاملہ گزرا۔‘‘


’’فی الحال آپ ہی سے سن لیتے ہیں میاں۔ آپ کی بات کا بھی اتنا ہی اعتبار ہے۔‘‘


’’میں اس وقت وہاں خان آرزو کے دیوان خانے میں موجود تھا۔ آخر رہتا بھی تو وہیں تھا۔ صبح شام ان کے یہاں شعرا جمع ہوتے ہیں، کلام سناتے ہیں۔ داد بیداد کا دور چلتا ہے۔ اس دن میرزا رفیع تشریف لائے، اور آتے ہی مطلع پڑھا،


آلودۂ قطرات عرق دیکھ جبیں کو
اختر پڑے جھانکیں ہیں فلک پر سے زمیں کو


’’سب نے حسب توفیق تعریف کی، کہ تعلیل خوب تھی۔ ہمارے خان علامہ منھ بچکائے بیٹھے رہے۔ جب داد کا زور تھما تو آپ نے فرمایا،


’’شعر سودا حدیث قدسی ہے
چاہیے لکھ رکھیں فلک پہ ملک؟


’’کوئی سمجھا کوئی نہ سمجھا۔ ایمان کی یہ ہے کہ میں بھی نہ سمجھا۔ سب ایک دوسرے کا منھ تک رہے تھے۔ جب سب لوگ دل میں خود کو پوری طرح احمق گردان چکے تو آپ نے لب کشائی کی۔ ’صاحب، ہمارے میرزاجی نے تو محمد جان قدسی کو جاپکڑا۔‘ پھر آپ نے یہ شعر پڑھا،


آلودۂ قطرات عرق دیدہ جبیں را
اختر ز فلک می نگرد روے زمیں را


’’اور سب لوگ تو ماموں۔۔۔ ارے توبہ، خان آرزو کی جانب توصیفی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے کہ خوب چور پکڑا لیکن میرزا رفیع تو ایک کائیاں شخص ہیں۔‘‘ وہ ہنس کر بولا، ’’انہوں نے بھی خوب پٹخنی دی۔‘‘


پھر کچھ توقف کے بعد محمد تقی نے کچھ ثنائیہ، کچھ طنزیہ لہجے میں کہا، ’’دل میں تو خوب ہی کٹے ہوں گے لیکن اوپر اوپر یوں ظاہر کیا گویا ان کو داد ملی ہے۔ بڑھ کر خان صاحب کے پاؤں پکڑ لیے اور فرمایا، ’بے شک حضور کا فرمایا ہوا مستند ہے۔ آپ نے میرے کلام کو بھی حدیث قدسی سے مشابہت دی۔ میں یہ شعر دیوان میں لکھوں گا تو حضور کا یہ قول بھی نقل کروں گا۔‘‘


محمد تقی اور علیم اللہ دونوں ہی اس روداد پر خوب ہنسے اور محمد تقی نے میرزا سودا کے لہجے کی نقل ایسی اتاری کہ علیم اللہ عش عش کر گیا۔ کوئی نقال یا بھانڈ کیا بھلا ایسی انقل اتارتا۔ ایک لمحے کو لگا یہاں محمد تقی میر نہیں، میرزا رفیع سودا بول رہے ہیں۔


’’اچھا، لطیفہ در لطیفہ یہ ہے کہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے یہ شعر قدسی ودسی کا نہیں، خان صاحب قبلہ نے میرزا کو شرمندہ کرنے کے لیے فی البدیہہ تصنیف کرکے محمد جان قدسی کی جھولی میں ڈال دیا۔‘‘


’’ارے واللہ؟‘‘ علیم اللہ نے حیرت سے کہا۔


’’حضت قبلہ، دروغ برگردن راوی، یہ میں نہیں کہہ رہا۔ میں نے حاجی محمد جان قدسی کا دیوان بھی نہیں دیکھا۔ لیکن میرزا سودا اس دن ذلیل خوب ہوئے۔‘‘


میر محمد تقی کے لہجے سے صاف ظاہر تھا کہ اسے سودا کی رسوائی پر ذرہ برابر افسوس نہیں۔ ’’ایک اور دن کی بات ہے، میں اس وقت تھا نہیں لیکن کئی لوگوں نے بیان کیا۔ میرزا صاحب بچارے پھر ایک مطلع کہہ لائے تھے، اور حق یہ ہے کہ لاجواب مطلع تھا،


بہار بے سپر جام و یار گزرے ہے
نسیم تیر سی سینے کے پار گزرے ہے


’’سنا ہے داد کا شور ذرا تھما تو مام۔۔۔ خان صاحب نے بہ آواز بلند کہا کہ ہاں صاحب کسی اور بھی استاد نے کچھ ایسا ہی مضمون باندھا ہے،


بہار بے سپر جام و یار می گذرد
نسیم ہم چو خدنگ از کنار می گذرد‘‘


میر تقی کھلکھلاکر ہنسا، ’’اور لطف یہ ہے صاحب من، کہ خان صاحب نے اس فرضی استاد کا نام بھی نہ بتایا۔ لوگوں کو صاف معلوم ہوا کہ یہ مطلع بھی سودا غریب کو ذلیل کرنے کے لیے خان صاحب موصوف نے گھڑدیا تھا۔ لیکن میرزا رفیع اس بار بھی بات کو پی گئے۔‘‘


’’اور میاں صاحب، کیا کبھی آپ کے ساتھ بھی ایسا کوئی معاملہ گزرا؟‘‘ علیم اللہ نے پوچھا۔ ’’آپ کے ساتھ تو قرابت کا پاس کیا ہوگا؟‘‘


’’اجی توبہ کیجیے صاحب۔ معاملہ کیا، معاملے کہیے۔ اور ہر بار مجھے برسر محفل زک پہنچانے کی ترکیب تھی۔ میرزا رفیع مجھ سے عمر میں بڑے ہیں۔۔۔ جاہل ہیں تو کیا ہوا، شعر تو وہ مجھ سے بہت پہلے سے کہہ رہے ہیں۔۔۔‘‘


’’اماں صاحب زادے، یہ کیا کہتے ہو، سودا اور جاہل؟ میاں اتنا بھی تبختر ٹھیک نہیں، اللہ کو برا لگے ہے۔‘‘


’’اسی لیے تو میری کسی سے بنتی نہیں۔‘‘ میر محمد تقی نے بھناکر کہا۔ ’’سچ بات کوئی سننا نہیں چاہتا۔ لوگ مجھے خدا جانے کیا سمجھتے ہیں۔ میرزا صاحب کو گالی گلوچ کا فن تو آتا ہے لیکن فن شعر میں وہ محض پیادہ ہیں، پیادہ۔ صاحب من، یہ بات گرہ میں باندھ رکھیے،


طرف ہونا مرا مشکل ہے میرا اس شعر کے فن میں
یوں ہی سودا کبھو ہوتا ہے سو جاہل ہے کیا جانے


قصیدہ البتہ وہ کہہ لیتے ہوں گے۔ لیکن اصل کمال تو غزل میں ہے۔‘‘


علیم اللہ کے چہرے سے بے اعتباری ترشح کر رہی تھی لیکن اس نے گرم مزاج نوجوان شاعر سے بحث میں الجھنا مناسب نہ جانا۔ ’’تو وہ واقعات تو بیان کریں جو آپ پر گزرے۔‘‘


’’خیر، میں کہہ یہ رہا تھا کہ میرزا رفیع اپنی جگہ پر متمکن ہیں۔ ان باتوں سے ان کا کچھ نہ بگڑے گا۔ لیکن میرے بارے میں یہ جھوٹ مشہور ہوجائے کہ میں دوسروں کے مضامین باندھتا ہوں تو میرے کمال فن کو دھبا لگ جائے گا۔‘‘


’’نہیں، میرا خیال ہے آپ کے بھی لوگ بہت قائل ہیں۔‘‘


میر محمد تقی اس جملے پر ذرا ٹھنڈا ہوا۔ ’’ایک دن میں نے خان موصوف کے مشاعرے میں غزل پڑھی۔ بیت الغزل تھا،


نشو و نما ہے اپنی جوں گرد باد انوکھی
بالیدہ خاک رہ سے ہے یہ شجر ہمارا


’’اس پر خان صاحب داد تو کیا دیتے، وہیں برسر محفل کہنے لگے، میاں محمد تقی۔‘‘ اس نے اب کی بار خان آرزو کے لہجے کی بے حد کامیاب نقل اتاری۔ ’’ماموں ہی کے گھر ڈاکا ڈالا، اور وہ بھی بھونڈے پن سے۔ مال کو سنبھال نہ پائے۔‘‘ پھر جب سب مجمع متوجہ ہوگیا توآپ نے اپنا شعر پڑھا،


افتاد گیست مایۂ نشو و نماے من
نخلم چو گرد باد ز خاک آب می خورد


’’خدا کی قسم نہ پوچھیے میں کس قدر شرمندہ ہوا، سارا مجمع ملامت بھری آنکھوں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ اور آپ یقین کریں مشفق من، کہ قسم لے لیجیے جو میں نے ماموں۔۔۔ آرزو صاحب کا وہ شعر کبھی دیکھا یا سنا ہو۔ صاف توارد تھا، لیکن انہوں نے مجھے نکو بنادیا۔‘‘


علیم اللہ کے چہرے بشرے سے بے اعتباری اس بار اور بھی عیاں تھی۔ بات صرف مضمون کی نہ تھی۔ دونوں شعروں کے اہم الفاظ و تراکیب بھی بالکل ایک تھے، نشوونما، گردباد، خاک، شجر/نخل۔ پھر کوئی کیسے سمجھ لیتا کہ یہ محض توارد تھا؟ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے تھے کہ محمد تقی نے خان آرزو کا جواب لکھنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ تاہم، علیم اللہ نے اس وقت چپ رہنے ہی میں عافیت جانی۔


’’اور کل رات کا واقعہ تو زہر سے بڑھ کر تلخ تھا،‘‘ میر نے کہا۔ ’’مام۔۔۔ خان صاحب نے کچھ لوگوں کو کھانے پر بلایا تھا، میں بھی شریک تھا۔ ابھی میں نے لقمہ اٹھایا بھی نہ تھا کہ حضرت فرماتے ہیں، ’میاں محمد تقی، تم نے ہمارے شاگرد رائے آنند رام مخلص کا مضمون اٹھالیا اور ہمیں بتایا تک نہیں؟‘‘


خان آرزو کے لہجے کی نقل اس بار اس قدر کمال کی تھی کہ علیم اللہ خان کو بے اختیار ہنسی آگئی۔ لیکن میر محمد تقی کے لیے اس میں ہنسی کی کوئی بات نہ تھی۔ وہ کہتا رہا، ’’اور جب میں ان کا منھ تکنے لگا کہ آپ صاحب کیا فرماتے ہیں، تو انہوں نے مخلص کا شعر پڑھا،


بردل ما تیرہ روزاں از صف مژگاں گذشت
آنچہ از فوج دکن بر ملک ہندستاں گزشت


میں اب بھی نہ سمجھا کہ بات کیا ہے۔ تب انہوں نے کہا، ’اجی کیا اپنا ہی شعر بھول گئے، ایسی بھی کیا محویت، سنو یہ تمہارا ہی تو شعر ہے،


نیزہ بازان مژہ سے دل کی حالت کیا کہوں
ایک نا کسبی سپاہی دکھنیوں میں گھر گیا‘


’’صاحب، میری تو آنکھوں میں خون اترآیا۔ کہاں وہ موٹے آنند رام مخلص کا مدرسانہ شعر، کہاں میرا پرکیف شعر۔ ذرا سوچیے، ’ناکسبی سپاہی‘ جیسا محاکاتی فقرہ، اور ’نیزہ بازان مژہ‘ سے اس کی مناسبت، اور کہاں مخلص کاسست اور سپاٹ ’فوج دکن‘، اور اس کے مقابلے میں میر الفظ ’دکھنیوں‘ ببیں تفاوت رہ از کجاست تابہ کجا۔


’’میں نے اسی وقت طے کیا کہ اب یہاں نہ رہوں گا۔ کھانے میں ہاتھ ڈالے بغیر اٹھ گیا۔ اپنا سامان چھوڑ چھاڑ اسی وقت ان کے گھر سے نکلا اور جامع مسجد کی راہ لی۔ کچھ پتا نہ تھا کہ کہاں جانا، کہاں رہنا ہوگا۔ بس چلتا رہا۔ رنج اور غصے نے شاید اندھا کررکھا تھا۔‘‘ میر کے چہرے پر مسکراہٹ سی آئی۔


’’راستہ ہی بھول گیا۔۔۔ رات بھیگ چکی تھی، کہیں سے بھٹکتا بھٹکتا حوض قاضی کی مسجد پر آنکلا۔ وہاں ایک حجرہ خالی پاکر اسی میں پڑ رہا۔ کوئی چار پانچ کی ساعت رہی ہوگی۔ تہجد والے اٹھ رہے تھے۔ مجھے مارے سردی اور بھوک کے نیند نہ آئی۔ جب فجر کی اذان سنائی دی تو وہاں سے نکلا۔‘‘


اتنا کہہ کر وہ رکا، پھر ذرا سا مسکرایا۔ یہ بات صاف تھی کہ وہ اس طرح ماموں کے یہاں سے اٹھ آنے پر شرمندہ ہے، لیکن واپس بھی نہیں جانا چاہتا، اور یہ شب بھر کی شہر گردی اس کے خیال میں کوئی بری بات بھی نہ تھی۔


’’باقی آپ جانتے ہی ہیں۔‘‘ اس نے اپنی کہانی ختم کی اور علیم اللہ کی طرف کچھ یوں دیکھا گویا اس پورے قضیے میں اس کا ردعمل جاننا چاہتا ہو لیکن کسی تشویش کے بغیر۔ یعنی اگر علیم اللہ نے اس کی بات مانی تو بھی کیا اور نہ مانی تو بھی کیا۔


’’سچ تو یہ ہے کہ آپ کے ساتھ خان آرزو نے بڑی زیادتی کی۔‘‘ علیم اللہ خان نے اسے سمجھانے کے انداز میں کہا۔ ’’لیکن ایسی باتوں پر گھر نہیں چھوڑدیتے۔ آپ چندے صبر کرتے، کوئی اچھی نوکری مل جاتی تو خوش اسلوبی سے رخصت ہولیتے۔‘‘


’’دیکھے جناب، آپ مجھے دنیاداری نہ سکھائیں۔ خان آرزو سے میرا نباہ نہیں ہوسکتا تو نہیں ہوسکتا۔ اور یہ پہلی بار نہیں کہ انہوں نے مجھے ذلیل کیا ہے۔‘‘


’’میں سمجھا نہیں۔‘‘


میر محمد تقی کچھ سوچ میں پڑگیا۔ اس کے چہرے پر تفکر کی شکنیں ابھر آئیں، جیسے کسی ذہنی کشمکش میں ہو۔ علیم اللہ بھی چپ رہا، کہ اس وقت محمد تقی اپنے دل سے مخاطب ہے، مجھے دخل نہ دینا چاہیے۔


’’سنیے جناب۔‘‘ کچھ دیر کے سکوت کے بعد وہ کچھ بادل ناخواستہ بولا، ’’مجھ پر ایک زمانہ جنون کا سا گزرا ہے۔۔۔‘‘


علیم اللہ چونک کر گویا پیچھے ہٹ گیا، ’’ارے! یہ کب، اور کیسے؟‘‘


’’ان تفصیلات کا موقع نہیں۔‘‘ میر نے ذرا خشک لہجے میں کہا، ’’اور شاید ضرورت بھی نہیں۔ ویسے یہ سب باتیں کھل ہی جائیں گی۔ میں ان حالات پر مبنی ایک مثنوی لکھ رہا ہوں۔ فی الحال خاموشی ہی بہتر ہے۔


’’کہنے والی بات یہ ہے کہ اس زمانے میں ان لوگوں نے ازخود، یا ممکن ہے میرے سوتیلے بھائی محمد حسن کے اغوا سے، مجھے جان سے مارڈالنا چاہا۔‘‘


علیم اللہ کے چہرے پر استعجاب ہویدا ہوا لیکن اس نے کہا کچھ نہیں۔ محمد تقی نے بھی اس کی طرف دیکھے بغیر اپنی روداد جاری رکھی، ’’خان صاحب ہر طرح سے میرا براچاہنے لگے۔ اگر میں سامنے پہنچ جاتا تو پھٹکارتے۔ ادھر ادھر منھ چھپائے رہتا تو بلوا بھیجتے اور ذلیل کرتے۔ کیا بیان کروں کہ میں نے ان سے کیا پایا۔۔۔‘‘


علیم اللہ خان نے پوچھا، ’’انہوں نے بیماری کے عالم میں بھی کوئی طبیب نہ بلوایا؟‘‘


’’جلاد بلواتے تو بات سمجھ میں آتی۔‘‘ میر نے ناگواری سے کہا، ’’وہ تو میرے والد مرحوم اعلیٰ اللہ مقامہ کی ایک مریدنی نہ ہوتیں تو یہ لوگ مجھے زنداں میں ڈلوا کر دم لیتے۔‘‘


’’اللہ اللہ، کیا زمانہ آلگا ہے۔‘‘ علیم اللہ نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا، ’’میں آج شام نواب رعایت خان کی بارگاہ میں حاضری دوں گا۔ وہاں آپ کا ذکر خیر بھی آئے گا۔ شاید اللہ کوئی سبیل نکالے۔‘‘


’’رب العزت آپ کو اس غریب نوازی کے لیے عنایات عالیہ سے نوازے گا۔‘‘ میر نے کہا، ’’لیکن خدا کے لیے آپ کوئی ا یسی بات نہ کہیں جس سے آپ کی نوکری پر آنچ آئے یا کسی ایسے انتظام پر راضی نہ ہوں جس میں میری تذلیل کا پہلو نکلے۔‘‘


’’ایسا ہرگز نہ ہوگا صاحب زادے۔‘‘ علیم اللہ نے کچھ آزردگی سے کہا، ’’میں نے ان رؤسا کی نوکری میں بھاڑ نہیں جھونکا ہے۔ خیر، اس قضیے کو یہیں ختم کیجیے۔ رات ڈھلے آپ یہیں رہیں۔ شاید طلبی ہو۔‘‘


اس رات نواب رعایت خان کی محفل میں علیم اللہ نے میر کی روداد سنائی تو نواب نے کہا، ’’اماں وہ شخص کہتا خوب ہے۔ ایک دن اعتماد الدولہ ماموں حضور بھی اس کا ذکر کرتے تھے۔ لیکن یہ خان آرزو کا قصہ کیا ہے؟ اعتماد الدولہ ماموں حضور سے ان کے مراسم ہیں۔ کہیں خان موصوف برا نہ مان جائیں۔‘‘


’’نہیں۔۔۔‘‘ علیم اللہ نے ’نہیں‘ کی ’ہیں‘ کو ذرا کھینچتے ہوئے ادا کیا، ’’نواب کے اقبال اور اعلیٰ حضرت وزیر الممالک اعتماد الدولہ نصرت جنگ کے دبدبے کی بدولت ایسا نہ ہوگا۔ مجھے یقین کامل ہے۔‘‘


’’لیکن میر محمد تقی کی کہانی میں سچ کتنا ہے؟ ہم تو نواب سراج الدین علی خان کو ایسا نہ سمجھتے تھے۔‘‘


میں نے کچھ سنا تو ہے۔۔۔ سرکار تک ہی یہ بات رہے تو اچھا ہے۔‘‘ علیم اللہ نے حضار مجلس کی طرف دیکھ کر کہا۔ نواب نے اس کی بات سننے کے لیے اپنا سر ذرا اس کی طرف گھمایا ہی تھا کہ سب لوگ کسی نہ کسی بہانے سے دیوان خانے کے مختلف گوشوں کی طرف متوجہ ہوگئے۔


’’غلام کی تحقیق یہ ہے کہ محمد تقی کو خان آرزو کے گھرانے کی کسی حسینہ سے عشق ہوگیا تھا۔۔۔‘‘


’’تو کیا ہوا؟ میر تقی سید ہے، خوبرو ہے، پڑھا لکھا ہے۔ کردیتے دونوں کی شادی۔‘‘


’’بے شک، سرکار درست فراتے ہیں۔ لیکن محمد تقی کا میلان رفض کی طرف ہے۔۔۔ کچھ لوگ کہتے ہیں وہ تبرائی شیعہ ہے۔۔۔ اور خان موصوف ٹھہرے شیخ غوث محمد گوالیاری اور ان کے اوپر شیخ فریدالحق والدین بابا فرید گنج شکر، اور سب سے اوپر امیرالمومنین سیدنا عمر ابن الخطاب کے اخلاف میں، بھلا کیوں کر برداشت کرتے۔ انکار ہوا اور سختی سے انکار ہوا۔ پھر محمد تقی نے ان کی برائیاں کرنی شروع کیں۔ اسی عالم میں، یا اس کے پہلے، ایک ہلکا سا دورہ ماخولیا کا بھی میر تقی پر پڑا۔ خان آرزو سے ان کی کوئی واقعی قرابت تو تھی نہیں، نسبی نہ سببی۔ پھر خان موصوف کا ہے کو علاج معالجے کی سبیل کرتے۔‘‘


’’ہوں، تو یہ بات ذرا دور تک جاتی ہے۔‘‘


’’درست فرمایا سرکار نے۔ لیکن ابھی ایک پہلو اور بھی ہے۔‘‘


’’وہ کیا؟‘‘


’’یہ مجھ سے میر تقی نے خود بیان کیا۔ خان آرزو نے اس کے بعض شعروں پر سرقے کا الزام لگایا۔ اور الزام بھی کچھ ایسا کہ سرقہ ثابت نہیں، لیکن شعر آپس میں لڑے ہیں ضرور۔ اغلب ہے کہ میر نے جواب لکھا ہو اور خان موصوف اسے سرقہ بتاتے ہوں۔


’’میر کو اپنے کمال شاعری پر جو غرور ہے۔۔۔ اور بجا غرور ہے۔۔۔ اس کے مدنظر اس کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ ایسے الزام کے بعد وہ ان کی چھت کے نیچے قیام کرتا، بس وہاں سے نکل لیا۔‘‘


’’تو تمہارے خیال میں ماموں جان حضور کے سامنے اسے پیش کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔‘‘


’’جی نہیں بندہ پرور۔ اور یقین ہے کہ اعلیٰ حضرت وزیر الممالک اس بات کو نظراستحسان سے دیکھیں گے کہ میر تقی ایسا شاعر غرا آپ کے متوسلین میں ہو۔‘‘


’’اور خان آرزو؟‘‘


’’سرکار کا اقبال بلند ہو، وہ عالم آدمی ہیں، کینہ پرور نہیں۔ محمد تقی کہیں رہے، مرے، کھپے، ان کو کیا۔ اور ان کا شاگرد تو وہ بہرحال ہے اور قرابت داری بھی ہے، نام نہاد کو سہی۔ وہ کیوں براماننے والے ہوتے؟‘‘


’’ٹھیک ہے، کل صبح چاشت کے وقت اسے یہاں حاضر کرو۔ اگر میری طبیعت کے موافق نکلا تو نوکر رکھ لوں گا۔ تمہارے حجرے کے سامنے محافظ خانے کے اوپر دوسرا حجرہ خالی ہے۔ ماموں حضور سے کہہ کر وہاں اس کے رہنے کا بندوبست کرادوں گا۔ کھانا ہمارے باورچی خانے سے جائے گا۔ فرائض منصبی کچھ نہیں، دن بھر شعر کہے، گھومے پھرے، جو چاہے کرے۔ محفل شبینہ میں حاضری بے شک ضروری ہوگی۔‘‘


رات گئے جب علیم اللہ گھر لوٹا تو محمد تقی نہ صرف موجود تھا بلکہ جاگ بھی رہا تھا۔


’’لو جی میاں صاحب، تمہارا کام تو بن گیا۔‘‘ اس نے میر کی پیٹھ ٹھونکتے ہوئے کہا، ’’سرکار عالی مقدار نے کل بوقت چاشت حاضری کا حکم دیا ہے۔ آگے تمہاری قسمت۔ چاکری کی سب تفصیلات طے ہوگئی ہیں۔ لیکن میاں تم ٹھیرے بگڑے دل انسان۔ وہاں ذرا سنبھل کر بات کرنا۔ کوئی بات ناگوار ہو تو پی جانا۔‘‘


’’یہ تو ذری ٹیڑھی کہی آپ نے صاحب من۔ لیکن میں کوئی ایسی بات نہ کروں گا جس سے آپ پر حرف آئے۔ آپ دیکھیے گا انشاء اللہ سب ٹھیک ہوگا۔‘‘


’’نوکری لگ گئی تو تمہارے رہنے کھانے کا بھی انتظام یہیں ہوجائے گا۔ ایسا سرکار نے فرمایا ہے۔ آج کی رات یہیں گزارلو، میں حجرے میں ایک پلنگڑی بچھوائے دیتا ہوں۔‘‘


’’علیم اللہ خان صاحب، بندہ آپ کا مرہون احسان ہے۔ انشاء اللہ آپ مجھے ہمیشہ شاکر و متشکر پائیں گے۔‘‘


’’میاں صاحب، شکر اللہ کے لیے واجب ہے۔ میں نے تم پر کچھ احسان نہیں کیا۔ یہ سحر خیزی اور باجماعت نماز فجر کے التزام کی برکت ہے کہ میں نے تمہیں وہاں دیکھ لیا۔ اب سوؤ، صبح دعائے کامرانی پڑھ کر چلنا۔‘‘


نواب رعایت خان کی محل سرا خوب سجی ہوئی تھی۔ شادی کی تاریخ کی آمد آمد تھی۔ بارات کی تیاریاں تھیں۔ دلہن کے جوڑے زیور چوتھی سانچق بری چڑھاوے کے انتظام والے مرد عورت خود کو نہایت اہم سمجھ رہے تھے۔ اندرون حویلی سادہ کاروں، مرصع کاروں، کشیدہ کاروں، اتوگروں کی نمائندہ مغلانیوں، بوڑھے کاری گروں کی ریل پیل تھی۔ زنانہ صدر دروازے پر شہنائی بج رہی تھی۔ مردانہ دربار کے صحن میں نہریں رواں، سایہ دار درختوں کا جوش۔ ان کے سائے میں چوکیاں بچھی ہوئیں، جن پر علیٰ قدر مراتب گانے بجانے والوں، تہنیت پڑھنے والوں کی صفیں جمی ہوئیں۔ اندر دیوان خانۂ خاص کے سامنے بارہ دری میں ایشک اقاصی ملنے ملانے والوں کو مناسب جگہوں پر بٹھاکر عطرپان شیرینی سے ان کی تواضع کر رہا تھا۔ علیم اللہ خان کے بارے میں اسے معلوم تھا، لہٰذا جب وہ میر کو لیے ہوئے اندر کی طرف چلتے چلے گئے تو اس نے کچھ تعرض نہ کیا۔


چوب دار نے میر محمد تقی کی آمد کا اعلان کیا تو خفیف سا اشارہ نواب کی طرف سے ہوا کہ ان کو آگے آنے دو۔ میر نے جھک کر سات سلام کیے۔


’’اماں میر تقی، تم خوب آئے۔‘‘ نواب نے یک گونہ بے تکلفی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’ہم تمہارے مشتاق تھے۔‘‘ پھر اپنی مسند کے نیچے بائیں طرف اشارہ کرکے فرمایا، ’’آؤ، ادھر بیٹھو۔‘‘


میر نے ہاتھ باندھ کر عرض کی، ’’پیر و مرشد، حضرت ابوالمعانی میرزا بیدل فرماگئے تھے،


آتش دل شد بلند از کف خاکسترم
باز مسیحاے شوق جنبش دامان کیست


لیکن میرے لیے تو آپ مسیحاے شوق ہیں اور آپ کا بلاوا وہ جنبش داماں ہے جس نے میری خاکسترکو پھر سے روشن کردیا۔ بندہ آپ کی گرم گستری کے لیے دل سے ثناخواں ہے۔‘‘


’’خوب۔ انشاء اللہ بشرط وفاداری تم ہمیں بھی اپنا پشتی بان پاؤگے۔ کہو، ادھر کچھ کہا؟ جی چاہے تو سناؤ۔‘‘


’’عالی جاہا، اس دربار میں طلبی کے انبساط نے کل رات دل گرفتہ کو واکردیا تو یہ رباعی موزوں ہوئی۔‘‘ پھر میر نے انوکھے، سادہ اور دلکش انداز میں، کچھ متبسم لبوں کے ساتھ رباعی پڑھی،


ہے تجھ سے محال جی اٹھانا مجھ کو
پھر جنی کہے کوئی سیانا مجھ کو


سر میرا لگا ہے نقش پا سے تیرے
سجدے کو خدا کے بھی بجانا مجھ کو


حاضرین نے آفریں کہی، نواب نے بھی متبسم ہوکر کہا، ’’درست۔‘‘ وہ اب دوسری طرف متوجہ ہونے والے تھے کہ پھر ایک بار کچھ توقف کرکے محمد تقی کی طرف رخ کیا، ’’اماں میرتقی، اب نواب سراج الدین علی خان آرزو کی طرف مراجعت کا جی تو نہ چاہے گا؟‘‘ اس جملے میں تھوڑی سی چھیڑ کے ساتھ تھوڑی سی تشویش بھی تھی۔


’’پیرومرشد۔‘‘ میر نے ہاتھ باندھ کر عرض کی، ’’اس تردد کے لیے منت پذیر ہوں۔‘‘ پھر وحشی یزدی کا شعر پڑھا،


دل نیست کبوتر کہ چو بر خاست نشیند
ما از سر بامے کہ پریدیم پریدیم


’’درست۔‘‘ نواب نے پھر کہا، ’’ہاں، تمہارے فرائض منصبی تمہیں علیم اللہ خان بتادیں گے۔ قیام و طعام کا بھی بندوبست سرکار سے ہوجائے گا۔ اب تنخواہ بتاؤ کیا قبول ہوگی؟‘‘


’’عالی جاہا، آپ کی غریب پروری کی بدولت اتنا سب ہے تو تنخواہ کی کیا احتیاج؟ ایک گوشۂ انزوا، اور جناب کے نیر اقبال کی مہرپروری، اور مجھے کچھ درکار نہیں۔‘‘ علیم اللہ خان یہ سن کر میر کی سعادت مندی اور خوش سلیقگی پر خوش تو ہوئے، لیکن دل میں یہ بھی کہا کہ عجب وارستہ مزاجی ہے۔ ارے بھائی گزارے کے لیے کچھ تو لے لیتا۔ اتنے میں نواب نے کہا، ’’نہیں، کچھ تو ہونا ہی چاہیے۔ چلو پچیس روپئے درماہہ قبول کرلو۔‘‘


میر محمد تقی نے جھک کر تین سلام کیے۔ نواب کی آنکھ کا اشارہ پاکر علیم اللہ نے کہا، ’’آج سے آٹھ دن بعد یوم الخمیس کو سرکار دولت مدار کی بارات ہے۔ میر محمد تقی بھی ہم رکاب ہوں تو۔۔۔‘‘


’’مناسب ہے۔‘‘ نواب نے کہا، پھر دوسری طرف متوجہ ہوگئے۔ بنگال کا ایک جوہری کا مروپ کے پہاڑوں کے اس پار بہنے والے دریاے اراودی کی گھاٹی کے یاقوت لایا تھا۔ پیازی رنگ کے یہ نگینے ساری دنیا میں اپنی غیرمعمولی چمک کے لیے مشہور تھے۔


علیم اللہ خان نے نواب کے خزانہ دار سے کہہ کر میر کو سات روپئے تنخواہ میں سے علی الحساب دلوادیے تھے۔ اس رقم میں سردی کا بستر، ایک پلنگ، ایک چھوٹی چوکی، گھڑونچی، دوچار ضروری برتن مہیا ہو گئے۔ بارات کے لیے نئے کپڑوں کا انتظام بزاز اور درزی کے یہاں سے قرض پر ہوگیا۔ محمد تقی کے دن رات چین سے گزرنے لگے، یہاں تک کہ بارات کا دن اور وقت آگیا۔


اس وقت تک بڑی بائی صاحب اور نوربائی صاحب کے حسن اور کمال کے چرچے ہر طرف پھیل چکے تھے۔ اور دلی تو ہمیشہ ہی سے بے فکروں، گپ بازوں، افواہ اور چٹ پٹی خبریں پھیلانے والوں کا شہر رہا ہے۔ کوئی کہتا یہ فرنگنیں ہیں، اعتماد الدولہ کے ہاتھ پر مسلمان ہوگئی ہیں۔ کوئی کہتا اعتماد الدولہ نے بیٹی سے اپنی شادی کا پیغام دیا ہے۔ اپنی بیٹی کے بیاہ سے فرصت پالی تو اپنا بھی نکاح رچائیں گے۔ کوئی کہتا ان کو پانچ لاکھ تو بیل دی گئی ہے، مصارف سفر اور اخراجات شہر اور امرا کی طرف سے انعامات الگ۔ کوئی کہتا نظام الملک کے گھرانے کی کسی بی بی نے بڑی بائی صاحبہ کو اپنی مستقل مصاحبت اور دوگانہ بنانے کے لیے دکن سے پیغام بھیجا ہے۔ غرض جتنے منھ اس سے زیادہ باتیں تھیں۔


بارات میں دوہزار آدمی تھے اور کوئی پانچ ہزار نوکر۔ سب سے آگے ڈھائی تین سو لوگ ہاتھیوں کی عماریوں میں تھے، اور ان کے بعد کوئی سوڈیڑھ سو باراتی ہواداروں میں یارتھوں پر۔ ان کے پیچھے کوئی چارسو حضرات گھڑسوار۔ یہاں تک کے لوگوں کو تو اپنی خبر تھی، لیکن بارات کے باقی ارکان اور شاگرد پیشوں کو اپنے فوری گردوپیش کے سوا کچھ پتا نہ تھا، بس اتنا معلوم تھا کہ ہم بارات میں ہیں۔ سارے راستے آرائش لٹتی آئی تھی۔ چاندی کے روپئے، سچے گوٹے کے پھول اور ہار، چاندی کے کڑے جن میں عقیق زردیا عقیق سرخ جڑے ہوئے تھے، سنہلا اور کٹیلا نامی نیم قیمتی جودھپوری اور بیکانیری پتھروں کے ہار۔ چاندی اور سونے کے چھلے اور اکا دکا نیم اشرفی۔ مال کو لوٹنے والے پانچ سات جیالے ہاتھ پاؤں ضرور تڑا بیٹھے، اور ایک آدھ کی جان بھی گئی لیکن بہت سے گھرانے اس رات خوش حال ہوگئے۔


اعتماد الدولہ کی درخواست تھی کہ بارات کے ساتھ آتش بازی ہو تو ہو، لیکن ڈھول تاشے نہ ہوں۔ اس کا لحاظ رکھتے ہوئے لڑکے والوں نے شہنائی، نفیری، قرنا وغیرہ کو تو موقوف کیا تھا لیکن آتش بازی اس قدر تھی کہ دھوئیں کی کثرت سے راستہ نظر نہ آتا تھا۔ اگرچہ خود بارات کے ساتھ روشنیاں بہت تھیں اور اعتماد الدولہ نے بھی خانم کے بازار سے لے کر حوض قاضی تک بارات کے سارے راستے میں دورویہ لٹو، کنول اور مردنگ لگوادیے تھے لیکن سڑک پر بعض جگہ سردی کی دھند سی جمی ہوئی معلوم پڑتی تھی۔


اعتماد الدولہ کے صاحب زادے میر انتظام الدین خود باراتیوں کے خیرمقدم کے لیے حوض قاضی کی گل کے سرے پر تھے۔ دولہااور اس کے کچھ خاص اعزہ یابزرگوں کو مستثنیٰ کرکے اب لوگ وہاں سے پاپیادہ چلے۔ ان کی سواری کے سب جانور بلبلی خانے کے وسیع میدان میں اتارے گئے جہاں ان کے لیے معقول بندوبست تھا۔


دلی والوں کا کہنا تھا کہ اس کے بعد دوسری دھوم دھام کی شادی دلی میں راجا جگل کشور کے بیٹے کی ہوئی۔ راجاے موصوف کو دلی کے دربار میں ناظم بنگالہ کے وکیل کی حیثیت سے بڑی عزت اور توقیر حاصل تھی۔ دلی والے یہ بھی کہتے تھے کہ فلک کج رفتار کو یہ دونوں شادیاں نہ بھائیں۔ احمد شاہ، بادشاہ دہلی کے آخری برس (۱۱۶۵ھ، مطابق ۱۷۵۳ء، مرتب) میں اعتماد الدولہ کے بیٹے میر انتظام الدین، (جو آج بارات کی پیشوائی کر رہے تھے) انتظام الدولہ خان خاناں کے خطاب کے ساتھ وزیرالممالک بنے۔ لیکن عماد الملک غازی الدین خان نے سازش کرکے انہیں مروادیا (۱۷۵۹ء، مرتب۔) راجا جگل کشور پر سراج الدولہ کی شہادت کے بعد برا وقت پڑا۔ آخر وہ شجاع الدولہ کے پاس اودھ چلے گئے۔ پھر وہ فرخ آباد گئے، جہاں ایک ہاتھی کے پاؤں تلے آکر انہوں نے جان بحق تسلیم کی۔


بارات کی آمد کے کچھ قبل بڑی بائی صاحب اور نوربائی صاحب ہاتھی پر سوار ہوکر مہمان گاہ پہنچیں۔ ان کی عماری کھلی ہوئی تھی، یعنی ایک چتر کے سوا ان پر کچھ نہ تھا۔ دستی بردارنیاں عماری میں بھی تھیں اور ہاتھی کے جلووپس میں بھی۔ اس طرح نظارۂ حسن کی پھلواری لوٹنے والوں کی بن آئی۔ سب نے انہیں جی بھر کے دیکھا۔ اس وقت نورالسعادۃ کے حسن پروہی بہار تھی جو عرصہ قبل اس کی ماں پر نخجوان میں گذرچکی تھی۔ کہتے ہیں کہ اس با رات کے تماش بینوں میں کچھ ایسے بھی تھے جو آرائش لٹنے کے دوران نہیں بلکہ نورالسعادۃ کو دیکھ کر بیہوش ہوئے تھے۔


ظاہر ہے کہ ماں بیٹی کی شہرت میر تک بھی پہنچ چکی تھی اور ظاہر ہے کہ نصف دہلی کی طرح وہ بھی ان کے جمال گیتی افروز کا غائبانہ مشتاق و مداح تھا۔ براتیوں کے تقریباً آخری زمرے میں ہونے کی وجہ سے اسے جلسہ گاہ میں کسی مناسب جگہ کے ملنے بلکہ داخل ہونے ہی کے لالے تھے۔ لیکن اس کی تقدیر ان دنوں عروج پر تھی۔ حسن اتفاق سے امیرالامرا شاہ نواز خان صمصام الدولہ مرحوم کے بیٹے صمصام الدولہ عاشوری خان میر آتش نے اسے دیکھ لیا۔ امیرالامرا شاہ خاں نواز خان مرحوم سے میر کا تعارف ان کے بھتیجے خواجہ محمد عاصم کی بدولت ہوا تھا اور صمصام الدولہ مرحوم نے میر کے لیے ایک روپیہ روزینہ مقرر کردیا تھا، جو اسے صمصام الدولہ شاہ نواز خان کی حیات تک ملتا رہا تھا۔ صمصام الدولہ عاشوری خان میر آتش نے چوب دار بھیج کر میر کو بلوالیا اور اپنے پاس ہی بٹھا لیا۔ بائی صاحب لوگوں کی نشست بالکل سامنے ہی تھی۔ ایک نگاہ پڑتے ہی میر کی حالت غیر ہوگئی۔ اسے یہ بھی وہم ہوا کہ نوربائی صاحب نے بھی اس کی طرف نگاہ غلط انداز سے دیکھا ہے۔


تھی نظریا کہ جی کی آفت تھی
وہ نظر ہی وداع طاقت تھی


ہوش جاتا رہا نگاہ کے ساتھ
صبر رخصت ہوا اک آہ کے ساتھ


بے قراری نے کج ادائی کی
تاب و طاقت نے بے وفائی کی


کیا کہوں طرز دیکھنے کی آہ
دل جگر سے گزر گئی وہ نگاہ


چپکے منھ ان کا دیکھ رہتا میں
جی میں کیا کیا پہ کچھ نہ کہتا میں


میر کو یہ بھی خوف نہ تھا کہ اس کی بے خودی اور ازخود رفتگی کوئی دیکھے تو معاملے کی تہہ کو فوراً پہنچے گا۔ پھر کیا کیا نہ فضیحتے ہوں گے۔ پھر اس کی نظر کشن چند اخلاص پر پڑی جو اعتماد الدولہ کی طرف سے بائی صاحب لوگوں کی پیشی پر مامور تھا، لہٰذا وہ ان کے بالکل پیچھے ایک کرسی پر تنہا بیٹھا تھا۔ آنکھیں چار ہوتے ہی رائے کشن چند مسکرایا۔ دونوں نے ایک دوسرے کے دل کا حال فوراً جان لیا۔ رائے کشن چند جن نگاہوں سے بڑی بائی صاحبہ کے سروسینہ کو دیکھتا تھا، ان سے میر نے صاف سمجھ لیا کہ وہ اس کا رقیب نہیں۔ ایک قد آدم تیغ صفاہانی کا قتیل ہے تو دوسرا نیمچۂ رومی کا۔


میرکو کچھ یاد نہیں کہ اس رات بڑی بائی صاحب نے کیا گایا کیا سنایا۔ اسے اتنا یاد ضرور ہے کہ اگر وہ نور بائی صاحب کے حسن پر نہ مرمٹا ہوتا تو بڑی بائی صاحب کی آواز اسے مسحور کرلیتی۔ اور پھر، یارائے کشن چند اخلاص اس دنیا میں رہتا یا محمد تقی میر۔ بیان کرنے والے بیان کرتے ہیں کہ بڑی بائی صاحب نے سب سے پہلے خواجہ حافظ کی غزل گائی،


روشن از پر تو ریت نظرے نیست کہ نیست
منت خاک درت بر بصرے نیست کہ نیست


سبحان اللہ وہ حسب حال غزل، وہ ملوک الکلام، وہ مقام عراق کے سوندھے عطر میں ڈوبی ہوئی، کوکتی، دور تک جاتی ہوئی آواز۔ وہ بیاض گردن اور اس کے اوپر وہ غازہ، وہ گلگونہ سے بے نیاز طلسماتی شہزادیوں جیسا سحر کار چہرہ۔ ایسا لگا کہ جلسے میں کوئی نہیں ہے، صرف ایک صورت ہے اور ایک آواز ہے۔ کوئی اپنی جگہ سے حرکت نہ کرتا تھا، جیسے سب کے سب کمند سحر میں گرفتار ہوں۔ موسیقی سمجھنے والوں کا تو یہ عالم تھا گویا جنم جنم کے پیاسے کو پہلی بار پانی ملا ہو۔ اور جب اس نے یہ شعر گایا،


ازسر کوے تو رفتن نہ توانم گامے
ورنہ اندر دل بیدل سفرے نیست کہ نیست


تو اس کے ساتھ صائب کا یہ شعر بھی جوڑدیا،


ہم چو عزم سفر ہند کہ در ہر دل ہست
رقص سوداے تو درہیچ سرے نیست کہ نیست


یہ دونوں شعر اس قدر حسب حال تھے اور کچھ اس کمال فن کے ساتھ گائے گئے تھے کہ پھر تو سارا مجمع بے قابو ہوگیا۔ جو ان سب کے سب کھڑے ہوکر اس کی آواز میں آوازملاکر گانے لگے اور بوڑھوں نے زانو پر ہاتھ تھپک تھپک کر تال دینا شروع کردیا۔ وہ ایک گھڑی سے زیادہ تک یہی دو شعر گاتی رہی، اور کبھی کسی طرف سے، کبھی کسی طرف سے، مجمع آواز میں آواز ملا تایا تال دیتا رہا۔ اگر وہ ذرا بھی ٹھہرتی تو سامعین کی طرف سے ’’مکرر، للہ مکرر‘‘ ، ’’خانم یک بار مزید‘‘ کی آوازیں بار بار اٹھتیں۔ حتی کہ لبیبہ خانم پسینہ پسینہ ہوگئی۔ مجبور ہوکر اسے شیشہ اٹھاکر ہلکے شربت گلاب سے حلق تر کرنا پڑا۔ اور یہ غزل تو اسے بہرحال پوری ہی کرنی تھی، ورنہ سامعین رخصت نہ دیتے،


بجز ایں نکتہ کہ حافظ ز تو ناخوشنود است
در سراپاے وجودت ہنرے نیست کہ نیست


محمد تقی میر صبح ہوتے ہوتے گھر واپس پہنچا۔ علیم اللہ خان ابھی دولہا میاں کی پیشی میں وہیں تھا۔ میر کو بھی نیند اب کیا آتی۔ ایک دو گھڑی کروٹ بدل کراٹھ کھڑا ہوا، شمع روشن کی اور سراپا لکھنے بیٹھ گیا۔


کیا کہوں کیسا قد بالا ہے
قالب آرزو میں ڈھالا ہے


ایک جاگہ سے ایک جاگہ خوب
پیکر نازک اس کے سب محبوب


موے سر ایسے جی بھی کریے نیاز
بل ہی کھایا کریں یہ عمر دراز


اس جبیں سے ہے دل کی کب جاذب
صبح صادق کے دعوے ہیں کاذب


کہوں چتون کے دیکھنے کے طور
اس قیامت پہ وہ قیامت اور


کیا جھمکتا ہے ہائے رنگ قبول
جیسے مکھڑا گلاب کا سا پھول


برگ گل سے زباں ہے نازک تر
پھول جھڑتے ہیں بات بات اُپر


کیا کہوں کم ہیں ایسے شیریں گو
وہ زباں کاش میرے منھ میں ہو


دم بہ دم سوے گوش اشارۂ صبح
گوہر گوش یا ستارۂ صبح


کنج لب آرزوے جان و دل
آگے چلنا نگاہ کو مشکل


ان لبوں سے جو کوئی کام رکھے
قند مصری کو کیوں نہ نام رکھے


جو حلاوت انہوں کی کہیے اب
ہم دگر سے جدا نہ ہوویں لب


ایسی ہوتی نہیں ہے سرخ لبی
رنگ گویا ٹپک پڑے گا ابھی


دیکھے از بس بر آمدہ سینے
ایسا معلوم دل جوں یوں چھینے


وہ کف دست راحت جاں ہے
کاش سینے پہ رکھ دے غم یاں ہے


صدر کے ناحیے سے لے تا ناف
چپ کی جاگہ ہے کیوں کہ کہیے صاف


اس سے پھر آگے غنچۂ گل ہے
یاں سخن بابت تامل ہے


ہائے اس سے خدا جدا نہ کرے
دور اس سے جیوں خدا نہ کرے


یہ اشعار موزوں ہوتے ہوتے دن چڑھ آیاتھا۔ میر کی آنکھوں میں شب بیداری کی سرخی اور دل میں خار خار شوق کی چبھن تھی۔ جی چاہتا تھا ابھی پھاٹک حبش خان پہنچ جائے۔ لیکن وہاں دھنسنے کون دے گا؟ مسلح محافظ، دربان، اردابیگنی، سب گردن لیں گے۔ عزت سادات بھی خاک میں ملے گی اور اس جوہر مطلوب کی جھلک دور سے بھی نہ دکھائی دے گی۔ رائے کشن چند کے پاس چلوں؟ لیکن اس وقت خدا جانے کہاں ہوگا۔ تو کیا ہوا، دو ہی تو جگہیں ہیں۔ اپنے گھر پر ہوگا تو کیا کہنا۔ اور اگر ان کے یہاں پیشی میں ہوگا تو اس کی حویلی کے خدام سے اس کے معمولات کی تو خبر مجھے ہوجائے گی۔ آخر کبھی تو گھر آتا ہوگا۔


اور یہ اشعار؟ کیا عندالملاقات ان کو سنادوں؟ لاحول ولاقوۃ، اس سے زیادہ بھونڈی اور احمقانہ بات کیا ہوگی۔ پہلی ملاقات اور ایسی بے تکلفی۔ اللہ اللہ کرو میر صاحب۔ عقل اور ادب دونوں ہی غرق کر آئے ہو کیا۔ چومتے ہی گال کاٹا اسی کو کہتے ہیں۔ بلکہ یہاں تو ابھی کنار و بوس کیا خیال بوس بھی ممکن نہیں۔ اسی ادھیڑ بن میں دوپہر ہوگئی۔ علیم اللہ کے حجرے کا دروازے کھلا نظر آتا تھا۔ شاید ابھی کچھ دیر ہی پہلے وہ واپس آئے ہوں گے۔ میر نے سوچا، چپکے سے نکل چلیے، ورنہ خان صاحب دیکھ لیں گے تو گھڑیوں بٹھائے رکھیں گے۔


رات کا پہنا لباس اب ذرا مل دل گیا تھا لیکن میر کو نہ شکیبائی تھی اور نہ اس کے پاس کپڑوں کی ایسی فراوانی ہی تھی کہ روز روز نئے لباس بدلتا۔ منھ پر دو چھینٹے مار کر وہ کٹڑہ نیل کو چل دیا، جہاں رائے کشن چند اخلاص کا گھر تھا۔ قسمت اب بھی یاور تھی کہ اخلاص اسے گھر پر ہی مل گیا۔


’’میاں جان، مجھے معلوم ہے۔‘‘ اخلاص نے مزاج پرسی کے بعد کسی مزید تمہید کے بغیر کہنا شروع کیا، ’’مجھے معلوم ہے تم بے وقت اچانک کیوں آئے ہو۔ میاں تم خوش قسمت بھی ہو اور بدقسمت بھی۔ خیر۔۔۔‘‘ ان الفاظ نے میر کی بے صبری مضاعف کردی۔ ’’کیوں، بدنصیب کیوں صاحب من؟ اچھا پہلے خوش نصیبی والی بات بتائیے۔‘‘


’’خوش نصیب یوں کہ نوربائی صاحب تمہیں جانتی ہیں۔‘‘


یہ سن کر میر کو چکر سا آگیا۔ اسے اخلاص اور خود اپنا بدن، ہوا میں جھولتے ہوئے سے لگے۔ ’’م۔۔۔ مجھے جانتی ہیں؟ کیسے؟ کیا انہوں نے میرا کلام کہیں سنا ہے؟ کل کے پہلے دیکھا تو کبھی نہ ہوگا؟ کیا وہ ریختہ سمجھ لیتی ہیں؟ مگر سنا وہ لوگ تو ایرانی ارمنی ہیں۔‘‘


’’صبر، میر جی صبر۔ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔‘‘ اخلاص نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’اتنے ہولے خبطے انداز میں بات کروگے تو میری سنو گے کیا۔‘‘


’’بندہ عفو کا طالب ہے رائے صاحب۔ مگر للہ سب باتیں ایک سانس میں کہہ جائیے۔‘‘


’’تو تم سمجھوگے خاک۔‘‘ اخلاص نے ہنس کر کہا۔ پھر دوران سفر میں ماں بیٹی کے ہندی سیکھنے، میر کی شاعری سے معرفی حاصل کرنے اور نورالسعادۃ کی دلچسپی کی روداد اس نے مختصراً کہہ سنائی۔ میر کا تو دماغ عرش معلیٰ پر تھا۔ اسے یہ کیا خیال آتا کہ اس ٹھنڈی چھاؤں کے ساتھ چلچلاتی دھوپ بھی لگی ہے۔ وہ ’’مولا تیری شان‘‘ جیسے فقرے بار بار کہے جارہا تھا۔ کشن چند اخلاص نے کہا، ’’اچھا اب روئے زمین پر اترآؤ میر صاحب۔ اصل بات تو سن لو۔‘‘


میر گویا چونک سا گیا، ’’اصل بات؟ اب کون سی اصل بات ہوگی رائے صاحب؟‘‘


’’تم جانتے ہو میں اعتماد الدولہ بہادر کا ملازم ہوں۔ اور یہ عورتیں۔۔۔‘‘ میر کو لفظ ’عورتیں‘ بہت برا معلوم ہوا لیکن کشن چند کی بات سننی زیادہ ضروری تھی، لہٰذا اس نے قطع کلام نہ کیا۔ ’’۔۔۔ اعتماد الدولہ کی مہمان ہیں، بلکہ ان کی نوکر ہیں۔ انہوں نے ان کے نام تک بدل کر لبیبہ، یا خانم بزرگ، کے بجائے بڑی بائی صاحب، اور نورالسعادۃ، یانور خانم، کی جگہ نوربائی صاحب رکھوادیے ہیں۔‘‘


’’توپھر؟‘‘ میر نے ذرا جھلاکر پوچھا، ’’ہمیں اس سے کیا؟‘‘


’’اماں بات تو سمجھو۔‘‘ رائے کشن چند نے بھی ذرا تیز لہجے میں جواب دیا، ’’وہ لوگ وزیر الممالک کی نوکر، میں بھی انہیں وزیر الممالک کا نوکر، ان سے کسی قسم کا تعلق قائم کرنا، یا تمہیں ان لوگوں سے ملانا میرے لیے حددرجہ معیوب بات ہوگی۔ معیوب کیا، میری اپنی نوکری خطرے میں پڑجائے گی۔‘‘


’’لیکن وزیرالممالک کی سرکار میں تو سنتا ہوں خوشحالی طوائف نوکر ہے۔‘‘


’’اماں اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ ان رئیسوں کے یہاں ان جیسی درجنوں پڑی رہتی ہیں۔‘‘


محمد تقی کو رائے کشن چند کا لہجہ پھر اہانت آمیز لگا۔ اسے گوارا نہ تھا کہ بڑی بائی صاحب اور علیٰ الخصوص نوربائی صاحب کے لیے کوئی ایسے لفظ کہے کہ رئیسوں کے ہاں ان جیسی درجنوں پڑی رہتی ہیں۔ لیکن عمومی طور پر اخلاص کی بات میں صداقت تھی۔


’’اچھا تو مشفق من، آپ ہوں گے اعتماد الدولہ کے نوکر۔ میں تو نہیں ہوں، جو جی چاہے گا کروں گا۔‘‘


’’نوکر تو ایک اعتبار سے میاں جان تم بھی ہو۔‘‘ کشن چند اخلاص نے یوں مسکراکرکہا کہ اس کی بات کا برا ماننا محال تھا۔ ’’اعتماد الدولہ کے نہ سہی، ان کے بھانجے اور سگے داماد کے سہی۔ ہم نیک و بد سبھی تمہیں سمجھائے جاتے ہیں۔ آگے تمہاری مرضی، بس اس کا خیال رکھ لیجیو کہ تمہاری آتش شوق سے کوئی چنگاری مجھ غریب کے خرمن پر نہ آگرے۔‘‘


’’بھائی جان قسم لے لیجیے۔ خدانہ خواستہ آپ پر گزند کا شائبہ بھی آنے کے پہلے میں راہ سے ہٹ جاؤں گا۔‘‘


’’میری مانو تو چندے توقف کرلو۔ اعتماد الدولہ بہادر نے بڑی بائی صاحب سے سات محفلوں کا وعدہ لیا ہے۔ اس کے بعد دیکھیں ہوا کس طرف بہتی ہے۔ شاید باد شرطہ ہی ہو اور ہمیں یار آشنا سے ملادے۔‘‘


میر جب کشن چند کے یہاں سے اٹھا تھا تو دل میں قسم کھا کر اٹھا تھا کہ اخلاص کے مشورے پر عمل کروں گا۔ لیکن اس کے دل میں صبر کی وہی جگہ تھی جو چھلنی میں پانی کی۔ جیسا کہ اس نے کچھ برس بعد ایک مثنوی میں لکھا،


دل کے غبار نے راہ جو پائی
شہر میں گویا آندھی آئی


سر پر اس کے سنگ ہمیشہ
جی پر عرصہ تنگ ہمیشہ


بار دامن تار گریباں
دامن قرب و جوار گریباں


پامالی میں مثل جادہ
نقش قدم سا خاک افتادہ


رکھتا سدا تھا وہ دیوانہ
ورد زباں یہ شعر دانا


صار فوادی شقاً شقا
حقاً حقا حقاً حقا


ہوش و خرد ناشاد گئے سب
دین و دل بربا دگئے سب


کوئی نہ اس پر سایہ گستر
اپنا ہاتھ اپنے ہی سر پر


نے کعبے نے دیر کے قابل
مذہب اس کا سیر کے قابل


اس کے دل میں بار بار یہ بات آتی کہ نورالسعادۃ خود اس کی طرف کچھ مائل تھی۔ اور کچھ نہیں تو اس کی شاعری ہی کی وجہ سے مائل تھی۔ اگر وہ اس مرحلے پرسست گام ثابت ہوتا ہے تو ممکن، بلکہ اغلب ہے کہ موقع ہاتھ سے نکل جائے گا۔ ان معشوقوں کا کیا ہے، انہیں چاہنے والوں کی کمی نہیں۔ یہ لوگ ہوتے بھی متلون مزاج ہیں اور یہ تو ابھی نوعمر اور ناتجربہ کار ہیں۔ چاہے کوئی اپنی طرف راغب کرلے۔ یہ لوگ کیسۂ زر کے طلب گار ہیں اور تخت و کرسی کے پرستار۔ یہاں اپنے پاس کیا ہے؟ ایک نجابت اور اس کی اس زمانے میں توقیر نہیں۔ اور شاعری، جس سے توپیں نہیں سر ہوسکتیں۔ مانا کہ وہ میرے نام سے واقف ہیں لیکن وہاں تک پہنچوں تو کیسے؟ تعارف غائبانہ کو تعارف حقیقی میں کیسے بدل دوں؟ پھر رائے کشن چند اخلاص کا بھی پاؤں درمیان ہے۔ ان پر کوئی بات آئی تو بڑا برا ہوگا۔


ایک مشکل یہ تھی کہ نورالسعادۃ کا خیال آتے ہی میر لذت بھرے خیالوں میں ڈوب جاتا۔ بات بہت جلد مخاطبت سے بڑھ کر ہاتھ کو ہاتھ لگانے، پھر بازوؤں اور منھ کو چھونے تک پہنچتی۔ اس کے بعد تو میدان کھلا ہوا تھا۔ وہ کبھی نورالسعادۃ کا منھ چومتا، کبھی اس کے چشم و سینہ کو پیار کرتا، کبھی کبھی بے راہ رو خیال اور بھی بے راہ ہوجاتے۔ پردے اٹھنے لگتے اور وہ ان جگہوں پر جا پہنچتا جن کے تصور سے اس کا طاقتور، بے لگام، زمینی، تخیل بھی عاجز تھا۔ وہ دنیا کی ہرلذت کا تصور کر سکتا تھالیکن نور السعادۃ کے جسم کے نہاں خانے تو کیا، اس کے لب و رخسار کے بھی بوسوں کی لذت کے لمسی اور بصری پیکر پوری طرح اس کے بس میں نہ تھے۔ بنتے ہی نہ تھے، بنتے بنتے ٹوٹ جاتے تھے۔ اس وقت تو احساس اس قدر زندہ، تخیل اس قدر سیال، اور تصور کا لطف اس قدر ہنگامہ گرم کن تھا کہ اسے اپنے ذہن میں جمع کرنے کے لیے لمس کے لہریے نہ ملتے تھے، الفاظ کا تو سوال کیاہے۔


ان روزوشب کے غروب ہوجانے کے بہت دن بعداور ان شب و روز کے لائے ہوئے زخموں کے بھر جانے کے بھی بہت دن بعد کہیں جاکر میر کو استطاعت نصیب ہوئی کہ کھوئے ہوئے زمانوں کے ان موہومات اور ان تصوراتی لمحات کی کچھ بھی شرح کرسکے۔


ہائے لطافت جسم کی اس کے مر ہی گیا ہوں پوچھو مت
جب سے تن نازک وہ دیکھا تب سے مجھ میں جان نہیں


گوندھ کے گویا پتی گل کی وہ ترکیب بنائی ہے
رنگ بدن کا تب دیکھو جب چولی بھیگے پسینے میں


کیا صورت ہے کیا قامت دست و پا کیا نازک ہیں
ایسے پتلے منھ دیکھو جو کوئی کلال بناوے گا


اب کچھ مزے پہ آیا شاید وہ شوخ دیدہ
آب اس کے پوست میں ہے جوں میوہ رسیدہ


پانی بھر آیا منھ میں دیکھے جنھوں نے ہائے
وے کس مزے کے ہوں گے لب ہاے نامکیدہ


وہ سیم تن ہو ننگا تو لطف تن پہ اس کے
سوجی گئے تھے صدقے یہ جان و مال کیا ہے


کیا لطف تن چھپا ہے مرے تنگ پوش کا
اگلا پڑے ہے جامے سے اس کا بدن تمام


جی پھٹ گیا ہے رشک سے چسپاں لباس کے
کیا تنگ جامہ لپٹا ہے اس کے بدن کے ساتھ


وے کپڑے تو بدلے ہوئے میر اس کو کئی دن
تن پر ہے شکن تنگی پوشاک سے اب تک


بوکیے کمھلائے جاتے ہو نزاکت ہائے رے
ہاتھ لگتے میلے ہوتے ہو لطافت ہائے رے


میر نے ابھی نورالسعادۃ کے منھ اور کلائی، کف دست اور ہاتھوں کی انگلیوں کے سوا دیکھا ہی کیا تھا۔ لیکن اس نے نورالسعادۃ کے بدن کے ہر حصے پر اپنے بوسوں کے نشان ثبت کردیے تھے۔ کب، کتنے اور کہاں، ان سب کا حساب اس کے ذہن میں تھا، اگرچہ بار بار بدلتا رہتا تھا۔


جس جاے سراپا میں نظر کیجیے اس کے
آتا ہے یہی جی میں یہیں عمر بسر کر


بدن کے شوق، ہوس کے فشار، تخیل کے کوہ آتش فشاں، ان کے ہنگاموں میں عقل بے چاری کی آواز کون سنتا۔ لیکن آخر کئی دن بعد ملاقات کی ایک راہ سوجھی، اگرچہ مخدوش اور مشکوک تھی۔ میر نے ایک پرچۂ کاغذ افشانی پر خوبصورت خط شفیعا شکستہ آمیز میں ’’میں کون ہوں۔۔۔‘‘ والی غزل کے وہی شعر لکھے جو رائے کشن چند ماں بیٹی کو سنا چکا تھا اور جنہیں نورالسعادۃ نے پسند کیا تھا۔ پھر نیچے حافظ کے مشہور مطلعے کا مصرع اولیٰ لکھا کہ،


رواق منظر چشم من آشیانۂ تست


پھر نیچے لکھا،


رقیمۂ نیاز، میرمحمد تقی المتخلص بہ میر


اب وہ اسے بند ہی کرنے والا تھا کہ خیال آیا، کیسے معلوم ہو کہ یہ مکتوب کس کے نام ہے؟ مانا کہ میں دربان یا پہرے دار کو تاکیداً کہلادوں گا کہ یہ نور خانم صاحب کے لیے ہے لیکن ان بے عقلوں کا کیا ہے۔ ممکن ہے وہ اسے لے جاکر خانم بزرگ کو دے آئیں، اور کچھ بتائیں بھی نہ۔ دیر تک سوچا کیا۔ پھر یہی سمجھ میں آیا کہ ماں سے تو بات چھپائی جاسکتی نہیں۔ اور خط جس کے بھی ہاتھ میں پڑے، نورالسعادۃ کو خبر ہو ہی جائے گی۔ یہ طے کرکے رقعے کو دوبارہ سہ بارہ پڑھ کر کلید پیچ کیا، محلے کے ایک ہوشیار لونڈے کے ہاتھ پر ایک دام رکھا اور مکتوب اس کے ذریعہ بڑی بائی صاحب کی حویلی واقع پھاٹک حبش خان پر بھجوادیا۔


ابھی خط پہنچا بھی نہ ہوگا کہ یہاں انتظار شروع ہوگیا، بلکہ نیک شگون کے طور پر ایک شعر بھی ہوگیا،


صد سحر و یک رقیمہ خط میر جی کا دیکھا
قاصد نہیں چلا ہے جادو مگر چلا ہے


لیکن کچھ بات بن نہ آئی۔ وہاں سے جواب کیا، کوئی اشارہ بھی نہ ملا کہ خط مل گیا ہے۔ اور یہ بھی کسے پتا کہ مل ہی گیا ہو۔ میر طرح طرح کے بہانے کرکے پھاٹک حبش خان کی طرف جاتا، اس حویلی کے سامنے سے نکلتا کہ شاید کوئی دیکھ لے اور بلاوا ہی آجائے۔ یا کوئی صورت مزید پیغام رسانی کی نکلے۔ اور۔۔۔ اور یہ تو شان سکندری ہوتی اگر نورخانم کہیں حویلی میں آتی جاتی دکھائی دے جاتیں۔ کبھی کبھی وہ دعا کرتا کہ وہاں پہنچ کر مجھے بے ہوشی آجائے، یا کسی بے لگام دیوپیکر گھوڑے کی ٹاپوں کے نیچے آجاؤں، کہ شاید اس حویلی کا کوئی ساکن مجھ پر رحم کھاکر اندر اٹھوالے جائے۔ طبیب کے آتے تک تو میں ا ندر پڑا رہوں گا۔ اور شاید وہ دیکھنے بھی آجائیں، کہ یہ کون میرے دروازے پر حادثے کا شکار ہوا ہے۔ کبھی وہ محلے کے لونڈے سے باز پرس کرتا کہ ابے میرا خط تو کہاں اور کسے دے آیا۔


’’قران قسم میر صاحب، میں آپ کا خط بس بالکل وئیں دے آیا جہاں آپ فرمائے تھے۔ زواب نئیں ملا کیا؟ چاہو تو اپنا پیسہ واپس لے لو۔ نئیں تو کہو اپنے خان پھر دوڑ کر چلے جاویں، زواب لے ہی کر پھریں۔‘‘


میر کو ہنسی آجاتی۔ لاحول ولاقوۃ، میں بھی کیا باولا ہو ریا ہوں، وہ دل میں سوچتا۔ پھر وہ چونکتا، ’’ہو ریا ہوں۔۔۔ یہ میں کیا بول گیا؟ یہ اندرون سفیل والے میری زبان ہی خراب کردیں گے۔‘‘ وہ دل ہی دل میں مسکراتا۔ ’’ٹھیک ہے، باہر والے میری عاقبت بگاڑدیں اور اندر والے زبان کا مثلہ کرڈالیں۔ یہ دلی ہے، یہاں جو ہوجائے تھوڑا ہے۔‘‘ (میر پر دلی کی زبان اتنا اثر کر گئی تھی کہ وہ بے خیالی میں ’’فصیل‘‘ کی جگہ ’’سفیل‘‘ بول گیا اور خبر تک نہ ہوئی، اسے اتنا ہی دھیان تھا کہ میں ’’ہورہا‘‘ کی جگہ ’’ہوریا‘‘ کہہ گیا ہوں، مرتب۔)


اگر میر کی حس مزاح اس کا ساتھ نہ دیتی تو شاید اسے دوبارہ جنون یا ماخولیا کا شکار ہونا پڑتا۔ وہ خود پر ہنسنا جانتا تھا۔ جس طرح وہ اپنے قاصد کی بات پر خوش طبعی سے ہنس سکتا تھا، جس طرح وہ اپنی اکبر آبادی زبان پر دہلی کی بولی کا اثر پھیلتے دیکھ کر ہنس سکتا تھا، اسی طرح وہ اپنے عشق اور اپنی ہوس پر بھی ہنس سکتا تھا۔ اسے یہ گمان ہرگز نہ تھا کہ میرا عشق اس دنیا سے باہر کسی اور دنیا، کسی اور سیاراتی عالم، کسی اور کو کبی منطقے سے آیا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ یہ سب اسی دنیا کے کھیل ہیں۔ میں نہ پہلا عاشق ہوں، نہ نورالسعادۃ پہلی معشوق۔ اپنی اپنی دنیا سب کو بہت بڑی لگتی ہے، ورنہ ہے یہ بہت ننھی سی، حقیر سی دنیا۔ اس کے عشق کیا اور اس کی جاں کا ہیاں کیا، اس کی لیلیٰ کیا اور فرہاد کون۔ اس کی وحشتیں کیا، اس کی ناکامیاں کیا۔ یہ سب ایک بہت ہی چھوٹی سی بساط کے کھیل ہیں۔ اور ہیں یہ سب کھیل۔


میں شاعر تو شاید بہت بڑا ہوں مگر عاشق میں ویسا ہی ہوں جیسا کوئی بھی ہوتا ہے۔ اس میں بدن کے تقاضے بھی ہیں، انانیت کا دباؤ بھی، اور شاید۔۔۔ شاید کہیں کوئی ازخورد فتگی اور خودسپردگی، اپنے آپے کو مار کر کسی اور کے آپے میں کھوجانے کی تمنا بھی۔ لیکن یہ تمنا، یہ فناے باطن بھی تنہا میری نہیں۔ مجھ سے پہلے کتنے ہی اس راہ پر چل چکے ہیں۔ کیا انسان اور کیا خدا، سب کی تلاش میں منزلیں ایک ہی سی ہیں، اور وہ سب کو طے کرنی پڑتی ہیں، مقصود ملے یا نہ ملے۔ اسے شیخ شرف الدین بو علی قلندر سے منسوب ایک شعر یاد آیا اور اس کے ساتھ امیر خسرو کا بھی۔ حضرت بوعلی قلندر فرماتے ہیں،


غلام روے او بودم اسیر موے اوبودم
غبار کوے او بودم نمی دانم کجارفتم


اور حضرت امیر خسرو کا شعر تھا،


در وہ بے نیاز بت صد چو حسین کربلا
تشنہ بہ ماند بر گذر تابہ زلال کے رسد


تو وہ ان لوگوں سے تو اوپر اڑ نہیں سکتا تھا۔۔۔ آہ لیکن وہ بدن کیا بدن ہوگا جس سے ہمہ وقت خواہش کی خوشبو سی پھوٹتی محسوس ہوتی تھی۔ کاش وہ بھی آنند رام مخلص کی طرح کہہ سکتا،


ناخن تمام گشت معطر چو برگ گل
بند قباے کیست کہ وامی کنیم ما


اور اسے یہ بھی معلوم تھا کہ عشق کا جنون ہو یا عقل کی عشوہ گری، یہ سب چلتی پھرتی چھاؤں ہیں۔ یہ سارا عالم ہی کوئی خواب ہے، جسے کوئی عظیم الشان ہستی کہیں دیکھ رہی ہے۔ کسی لامکانی دشت کو اپنا بستر بنائے، قاف تا قاف، بلکہ اس سے بھی وسعت کا دشت ہے، اور وہ ہستی، وہ وجود، جان بوجھ کر خواب بافی کر رہا ہے، اور ہم سب اسی خواب کی مملکت میں سایوں کی طرح دوڑتے پھرتے ہیں۔ یا شاید پھر اس وجود کو بھی اپنے خوابوں پر قابو نہیں؟ کیا یہ سب کسی اور کے خواب ہیں جو وہ ہستی دیکھ رہی ہے۔ موت او رزیست میں کچھ فرق نہیں۔ خواب کے اندر سونا جاگنا برابر ہیں۔ ویدانت والے کہتے ہیں ساری کی ساری کائنات ایک اتھاہ شعور میں ہمہ وقت موجود ہے۔ اور وحدت الوجودی کہتے ہیں لاموجود الاللہ۔ تو پھر یا تو سب کچھ ہے یا کچھ بھی نہیں۔ میں کسی سے عشق کروں، وہ میرے جال میں آئے نہ آئے، میں کسی کا شکار ہوں یا نہ ہوں۔ سب برابر ہے۔ میں کسی کو دیکھوں، یا کوئی مجھے نہ دیکھے، دونوں ہی برابر ہیں۔


لیکن۔۔۔ شکار ہونے، خاک و خون میں نہانے، جامۂ عقل چاک کرنے، پھر جامۂ لباسی اتار پھینکنے اور پھر جامۂ ہستی کو قبا کرنے کا الگ مزہ کیوں ہو؟ مزہ الگ تو یقیناً ہے۔ روز کی زندگی سے بھاگ کر، عزت اور توقیر تج کر، کوئی ادھر کیوں جاتا ہے؟ یہ آندھی کچھ نہ کچھ گوہر مقصود کہیں نہ کہیں سے اڑا لائے گی۔


انسانوں کو کسی سے لگاؤ کیوں ہوتا ہے؟ کیا یہ میثاق ازل کا تقاضاہے، یا انسان کے اس وحشی عہد کی یادگار ہے جب اسے قدم قدم پر نئی اور اجنبی موتوں کا سامنا تھا، اور افزائش نسل نہ ہوتی تو گھر، خاندان، اور پھر قبیلہ، سب مٹ جاتے؟ تو کیا عشق کچھ نہیں، بس بقاے نسل کا بہانہ ہے؟ نہیں، بقاے وجود بھی تو کوئی شے ہے، وہ خود سے کہتا۔ لسان الغیب نے کیوں کہا،


ہرگز نہ میرد آں کہ دلش زندہ شد بہ عشق


لیکن وہ کون سے عشق ہیں جو دل کو زندہ کردیتے ہیں اور وہ کون سے دل ہیں جنہیں عشق اس طرح زندہ کر دیتا ہے؟ مجھے تو نورالسعادۃ کا دل چاہیے، صرف اس مدت کے لیے کہ وہ اپنے بدن کو میرا بدن بنادے۔ میں اسے بے لباس کروں، خود رات بھر جاگوں اور میرے بازو اس کے پہلو کی عریانی کے نیچے سوجائیں۔ اسے شہیدی قمی کا شعر یاد آیا،


خوش آں شبے کہ در آغوش گیرمت تا روز
بزیر پہلوے تو دست من بہ خواب رود


توبہ ہے، یہ بھی کوئی آرزو ہے۔ اس نے اپنے دل میں کہا۔ اگر کچھ ہے ہی نہیں، اس کے دل نے جواب دیا، تو جو تمنا رکھو، جس حسرت کو حسرت سے دل میں تکتے رہو، سب ایک ہے۔ میر کے یہ شعر اسی زمانے کے ہیں،


مجھ سا بے تاب ہووے جب کوئی
بے قراری کو جانے تب کوئی


اب خدا مغفرت کرے اس کو
صبر مرحوم تھا عجب کوئی


اور محزوں بھی ہم سنے تھے ولے
میر سا ہوسکے ہے کب کوئی


کہ تلفظ طرب کا سن کے کہے
شخص ہو گا کہیں طرب کوئی


مندرجہ بالا اشعار میں میر کی خودداری کے ساتھ اس کا باطنی کرب اور سب سے بڑھ کر اس کی حس مزاح کی صفت بھی صاف جھلکتی ہے۔ اب یہ شعر دیکھیں،


ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے


بارہا اس کے در پہ جاتا ہوں
حالت اب اضطراب کی سی ہے


میں جو بولا کہا کہ یہ آواز
اسی خانہ خراب کی سی ہے


چشم دل کھول اس بھی عالم پر
یاں کی اوقات خواب کی سی ہے


آیا جو واقعے میں درپیش عالم مرگ
یہ جاگنا ہمارا دیکھا تو خواب نکلا


مقام فنا واقعے میں جو دیکھا
اثر بھی نہ تھا گور منزل کا اپنے


مرکر بھی ہاتھ آوے تو میر مفت ہے وہ
جی کے زیان کو بھی ہم سود جانتے ہیں


ان صحبتوں میں آخر جانیں ہی جاتیاں ہیں
نے عشق کو ہے صرفہ نے حسن کو محابا


گویا محاسبہ مجھے دینا تھا عشق کا
اس طور دل سی چیز کو میں نے لگادیا


تھی لاگ اس کی تیغ کو ہم سے سو عشق نے
دونوں کو معرکے میں گلے سے ملادیا


سب شورماومن کو لیے سر میں مرگئے
یاروں کو اس فسانے نے آخر سلادیا


عشق وہ ہے کہ جو تھے خلوتی منزل قدس
وہ بھی رسواے سر کو چہ وبازار ہوئے


یہ سب تو تھا، لیکن وہاں سے کوئی جواب نہ آنا تھا، نہ آیا۔ دن بلکہ ہفتے، اور پھر کئی مہینے گزر گئے۔ بڑی بائی صاحبہ کی ساتوں محفلیں بھی ہوچکیں۔ کچھ لوگ کہتے تھے اب وہ واپس ایران کو سدھاریں گی، کچھ کہتے تھے نہیں، اب وہ ہندوستان بلکہ دہلی میں رونق افزاے حیات ہوں گی۔ محمد تقی میر کے دل میں امید کی ایک لہر اٹھتی تو دس لہریں مایوسی کی اس کے سارے وجود کو کھولتے ہوئے پانی سے نہلادیتیں۔ رائے کشن چند کے پاس جانے کی ہمت نہ تھی۔ اسے سید خواجہ میر درد صاحب کے شاگرد قیام الدین قائم کا ایک شعر بہت پسند تھا۔ کیا طرفہ بات تھی کہ وہ شعر اسے اب یاد آیا، اور ایسے لمحے میں، جب اس کی بھی ہمت جواب دے رہی تھی،


نہیں کہتا میں دل ترک تمنا
پہ جتنی ہو سکے اتنی ہوس کر


اور لطف بالاے لطف یہ کہ اسی شعر کے مربیانہ لہجے نے اس وقت اسے جھلاہٹ میں مبتلا کردیا۔ اس رات اس نے مصمم ارادہ کرلیا کہ کل صبح پھاٹک حبش خان کی حویلی کا پھاٹک ضرور کھٹکھٹاؤں گا، ہو سو ہو۔ رات بھر اسی ادھیڑ بن میں اسے نیند نہ آئی تھی لیکن صبح کا سورج طلوع ہوتے ہی اس کی تقدیر کا سورج برج شرف میں پہنچ گیا۔ ابھی وہ گھر سے نکلنے کی تیاری ہی میں تھا کہ رائے کشن چند اخلاص کا پیغام پہنچا کہ جلد آکر مل جاؤ۔ محمد تقی میر نے رائے کشن چند کے گھر تک کی راہ دھڑکتے ہوئے دل اور کپکپاتے ہوئے ہاتھ پاؤں کے ساتھ طے کی۔ لیکن وہاں پہنچ کر تو باچھیں ہی کھل گئیں۔ اخلاص کہیں جانے کو تیار تھا لیکن اس نے فوراً بڑی آؤبھگت کے ساتھ میر کو بٹھایا۔


’’آؤ میاں جان، عید ملو۔‘‘ اس نے ہنستے ہوئے کہا، ’’مجھے وزیر الممالک بہادر کی پیشی میں دیوان خاص پہنچنا ہے اس لیے دیر تک نہیں بیٹھ سکتا۔ بس مطلب کی بات سن لو۔ مبارک ہو۔‘‘


’’کاہے کی مبارک دے رہے ہو رائے صاحب؟ شرح حال تو فرماؤ۔‘‘


’’میاں جان، اعتماد الدولہ نصرت جنگ بہادر نے بڑی بائی صاحب سے فرمایا کہ جس مقصود کے لیے انہیں سواد اصفہان سے دہلی جنت نشان تک آنے کی زحمت دی گئی تھی، وہ بفضلہٖ بخوبی پورا ہوا۔ اب انہیں آزادی ہے، دہلی سارے ہندوستان و دکن کا دل ہے، خلد منزل ہے۔ اگر وہ یہاں تشریف رکھنا چاہیں تو حویلی ان کی، ملازمان سرکار بھی ان کے۔ لیکن اب وہ خود کو اعتماد الدولہ بہادر کا پابند نہ سمجھیں، بس کبھی ان کی دعوت کو قبول کر کر رونق افزاے محل سراے وزارت ہو جایا کریں تو کرم گستری ہوگی۔‘‘


میر کا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا اور جب وہ بولا تو اس کی زبان میں لکنت تھی۔ ’’یہ، یہ۔۔۔ ک۔۔۔ کیسے ہوا اور کیوں؟ کوئی ب۔۔۔ بے مزگی تو نہیں پیدا ہوگئی؟‘‘


’’اماں نہیں۔ وزیر الممالک نواب قمرالدین خان جیسے فرشتہ صفت اور شائستہ مزاج شخص سے ایسی کسی بات کا سوال ہی نہیں۔‘‘ پھر اس نے کچھ سرگوشی کے لہجے میں کہا، ’’دوباتیں ہیں، لیکن ایک ذرا راز کی ہے۔‘‘


’’مطمئن رہیں، آپ میری طبیعت سے واقف ہیں۔‘‘


’’اسی لیے تو دونوں باتیں بتارہا ہوں میاں جان۔‘‘ اخلاص نے میر کی پیٹھ ٹھونکتے ہوئے کہا، ’’اول بات تو یہ کہ عمدۃ الملک نے اعتماد الدولہ سے درخواست کی کہ اجازت ہو تو وہ بھی کبھی کبھی ماں بیٹی کو اپنے یہاں زحمت دیں، یا ان کی حویلی پر محفلوں میں شریک ہوں۔‘‘


’’کون عمدۃ الملک، نواب امیر خان انجام؟‘‘


’’ہاں، اور کون یہاں عمدۃ الملک ہے؟ وہی صوبہ دار الٰہ آباد، فوجدار کوڑہ جہاں آباد، فوجدار کڑامانک پور، قلعۂ معلیٰ میں اعلیٰ حضرت خدیو ہند محمد شاہ پادشاہ غازی خلد اللہ ملکہ کے منھ لگے امیر۔‘‘


’’بھئی سبحان اللہ!‘‘ میر نے کہا، ’’تو پھر اعتماد الدولہ بہادر نے دست کشی ہی اختیار کرلی؟ بڑا جگرا ہے ان کا۔‘‘


’’اجی ان بائی صاحب لوگ جیسی کتنی تو ان کی جیب میں پڑی رہتی ہیں۔‘‘ رائے کشن چند کی یہ بات میر کو بری لگی، لیکن اس بار بھی سکوت مناسب جان کر وہ چپ رہا۔


’’اور دوسری بات؟‘‘ میر نے بھی ذرا پست آواز میں پوچھا۔


کشن چند اخلاص نے ادھر ادھر دیکھا، گویا اطمینان کر رہا ہو کہ پاس کوئی ہے تو نہیں۔ پھر میری طرف بالکل جھک کر اس نے کہا، ’’دوسری بات یہ کہ میر انتظام الدین خان بہادر کا رجحان نور بائی صاحب کی طرف دکھائی دیتا تھا۔ حضرت وزیر الممالک کو یہ بات پسند نہ تھی کہ اس نوعمری میں وہ یہ شوق شروع کردیں۔ اور خود اعتماد الدولہ بہادر کا ربط ضبط ماں بیٹی سے رہا تو میر انتظام الدین خان بہادر کو لازمی موقعے ملتے۔ لہٰذا سرکار نے وہ جڑ ہی کاٹ دی۔‘‘


کشن چند اخلاص نے زور کا قہقہہ لگایا۔ ادھر میر کے بھی دل میں پھلجھڑیاں چھوٹ رہی تھیں، دونوں دوستوں کے لیے راستہ پہلے سے بہت بہتر ہوگیا تھا۔ تھوڑی دیر اور گفتگو کرکے دونوں نے اپنی اپنی راہ لی۔


گھر پہنچنے کے تھوڑی ہی دیر بعد، اس کے پہلے کہ میر اپنی خوش نصیبی پر دل کھول کر ناز کرتا، اور نور السعادۃ کی حویلی کو جانے کے بارے میں کوئی منصوبہ بناتا، ایک چوبدار نے دستک دی، سلام کیا اور ایک مہربند رقعہ میر کے ہاتھ میں دے کر یہ کہتا ہوا واپس چل دیا کہ جواب درکار نہیں ہے۔ میر نے رقعہ کھولا تو وہ اس کا اپنا ہی پرچہ تھا۔ لیکن حافظ کے مطلعے کا مصرع اولیٰ جو اس نے لکھا تھا، اس کے ٹھیک نیچے اسی مطلعے کا مصرع ثانی انتہائی خوش خط لکھا ہوا تھا،


کرم نما و فرود آ کہ خانہ خانہ تست


میر کو شادی مرگ ہوتے ہوتے بچی لیکن جب ذرا اوسان ٹھکانے ہوئے تو اس نے عملی باتوں پر غور شروع کیا۔ کب جاؤں؟ پہلے سے اطلاع بھیج کر، ملاقات کا وقت متعین کراکے جاؤں؟ کوئی تحفہ لے جاؤں؟ اگر لے جاؤں تو کیا لے جاؤں؟ تحفہ دونوں کے لیے ہو یا ایک کے لیے ہو؟ اگر ایک کے لیے تو کس کے لیے؟ کیا معلوم ان کی منشا یہ ہو کہ ابھی آجا، تحفے تحائف یا تعین کا اہتمام نہ کر۔ لیکن وہاں مجھے کوئی پہچانتا تو ہے نہیں، ابھی چلا جاؤں تو اپنے بارے میں کیا کہوں، کیا کہہ کر خبر بھجواؤں؟ یہ کہوں کہ نورخانم کے بلائے ہوئے میر تقی، جو شاعر ہیں، وہ آئے ہیں؟ اور اگر کوئی پوچھے کہ ثبوت کیا ہے، تو کیا یہ پرچہ کاغذ دکھادوں؟ مگر وہ کہیں برا نہ مان جائیں کہ میرا خط دوسروں کو کیوں دکھایا؟


میر محمد تقی ان خیالوں میں گم تھا کہ اچانک آواز سنائی دی، ’’بچیے گا جناب۔ ذرا ہٹ کے، میاں صاحب ہوت، ذرا بچ کے!‘‘ اس نے گھبراکر سر اٹھایا تو دیکھا کہ وہ لال کنویں کے بازار سے گزر رہا ہے اور کچھ ہی دور پر پھاٹک حبش خان اور پھر بڑی بائی صاحب کی حویلی ہے۔ اے لو، میں یہاں کیسے اور کیوں پہنچ گیا؟ اس نے اپنے دل میں کہا۔ میں گھر سے نکلا کب؟ اب جو ذرا اور عقل ٹھکانے آئی تو دیکھا کہ وہی پرچہ کاغذ ہاتھ میں ہے۔ شاید اسے دیکھتے ہی میں نکل کھڑا ہوا، گھر کو کنڈی بھی نہیں لگائی۔ اس نے دل میں کہا کہ یہ کوئی تائید غیبی معلوم ہوتی ہے۔ اب ان کی حویلی ہی پر چلوں، ہوسو ہو۔


بڑی بائی صاحب کی حویلی کے عظیم الشان پھاٹک پر عام سے زیادہ چہل پہل تھی لیکن آنے جانے والے زیادہ تر اہل حرفہ معلوم ہوتے تھے۔ شاید کسی جلسے یا جشن کا اہتمام تھا۔ کہیں چوکی پہرے والے مجھے بھی اہل حرفہ میں نہ سمجھ لیں، اس نے کچھ گھبراکر دل میں کہا۔ لیکن اب تو پھاٹک سامنے ہی تھا اور محافظ خانے سے باہر نکل کر ایک تنومند غیرملکی سے شخص نے فارسی میں کسی سے کچھ کہا۔ لیکن نہیں، وہ تو اسی سے مخاطب تھا۔


’’آں جناب کا اسم گرامی شاید میر محمد تقی المتخلص بہ میر ہے۔‘‘ اس میں استفسار سے زیادہ خبر کا پہلو تھا، گویا وہ شخص محض تصدیق کر رہا ہو۔


’’جی ہاں، میں ہی میر محمد تقی، شاعر ہوں۔‘‘ وہ کچھ اتنا حواس باختہ ہو رہا تھا کہ پہلے یہ جواب اس نے فارسی کے بجائے عربی میں دیا لیکن فوراً ہی رک کر فارسی میں وہی بات دہرائی۔


’’تو تشریف لائیں، جناب کا انتظار ہے۔‘‘


یا مولا، یہ میں کیا دیکھ سن رہا ہوں؟ اس نے دل میں کہا۔ لیکن وہ قد آور محافظ اسے تیز تیز قدم چلاکر اندر کی ڈیوڑھی تک لے آیا۔ وہاں اس نے دق باب کیا، ایک اردابیگنی باہر نکلی۔ محافظ نے میر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس سے کسی ا جنبی زبان، شاید ترکی میں کچھ کہا اور سلام کرکے رخصت ہوا۔ ادھر اردابیگنی نے میر کو جھک کر سلام کیا، اور اسے اپنے پیچھے پیچھے اندر تک لے آئی۔


میر کو گمان تھا کہ مجھے دیوان خانے میں لے جایا جائے گا، لیکن نہیں، اردابیگنی اسے دیوان خانے کے متصل بائیں جانب کے ایک تنگ سے دروازے پر لے گئی۔ وہ دروازہ پردے میں اس طرح چھپا ہوا تھا کہ پہلی نظر میں معلوم ہی نہ ہوتا تھا کہ وہاں کوئی دروازہ ہے۔ دروازے کے پیچھے کوئی ایک گز چوڑی اور پانچ سات گز لمبی راہ داری تھی، جس کے آخری حصے میں دونوں طرف دروازے تھے۔ ایک دروازے کو اردابیگنی نے آہستہ سے کھولا اور جھک کر سلام کرتے ہوئے میر سے فارسی میں کہا کہ اندر تشریف لے چلیے۔


کمرے میں دیوار تا دیوار قالین تھا۔ ہلکے سبز کنول روشن تھے اور لونگ کے عطر کی لطیف خوشبو ہوا میں تھی۔ کمرے کے پرلے سرے پر قالین ہی کی طرز و قماش کا بھاری پردہ تھا۔ شاید اس کے پیچھے کوئی دراز ہوگا، میر نے خیال کیا۔ ایک دیوار سے ملاکر ترکی طرز کا دیوان بچھا ہوا تھا۔ اس کے سامنے ہی اس سے مختلف، لیکن خدا جانے کیوں بالکل مناسب لگتی ہوئی دوکرسیاں تھیں۔ میر کو بعد میں معلوم ہوا کہ وہ چینی ترکستانی طرز کی تھیں۔ بیچ میں ایک نیچی سی میز پر پھر کسی اجنبی اسلوب کے نقش و نگار والا میز پوش تھا۔ میز پر، اور دوطاقوں میں گلدان، گلدانوں میں تازہ پھول۔ ایک طرف نیچی سی چوکی، جس پر ہاتھی دانت کے پتلے ورق کی بنی ہوئی شطرنج کی بساط اور ہاتھی دانت ہی کے مہرے۔ ترکی دیوان کے ایک سرے پر دو کتابیں لیکن دونوں بند۔ ان کی خوبصورت جلد بندی سے معلوم ہوتا تھا کہ نہایت قیمتی، اور محبت سے رکھی پڑھی جانے والی کتابیں ہیں۔


میر کی سمجھ میں نہ آرہا تھا کہ یوں ہی کھڑا ہو نقوں کی طرح ہر چیز تکتا رہوں یا کسی کرسی پر بیٹھ جاؤں۔ بظاہر یہ غیر رسمی سا وثاق ملاقات تھا، جہاں نورالسعادۃ اپنی ہمجولیوں سے ملتی ہوگی۔ میرا بے تکلف بیٹھ جانا شاید مناسب نہ ہو، اس نے اپنے دل میں کہا۔ لیکن یوں کھڑے کھڑے کب تک۔۔۔ وہ نگاہ جھکا کر اپنے جوتوں کو دیکھنے لگا جو یوں بھی کچھ بہت اچھی قسم کے نہ تھے، اور اب تو ان پر راستے کی گرد بھی خوب جمی ہوئی تھی۔ مجھے جوتے اتار کر۔۔۔


’’تسلیمات!‘‘ کسی نے فارسی میں کہا، ’’تاخیر کے لیے شرمندہ ہوں۔ لیکن آپ تشریف تو رکھیں۔‘‘


میر نے سراسیمہ ہوکر سر اٹھایا۔ کمرے کے دوسرے سرے کا پردہ اٹھاکر نورالسعادۃ اندر آگئی تھی لیکن اسے خبر بھی نہ تھی۔ نہ معلوم کب سے وہ مجھے اس طرح گنواروں کی طرح کمرے میں چاروں طرف تاکتے اور پھر اپنے گندے جوتوں پر غور کرتے دیکھ رہی ہوں گی۔ اس کے پاؤں لڑکھڑائے اور وہ وہیں فرش پر بیٹھ گیا۔ خدا کا شکر ہے کہ ڈھیر نہ ہوا، اس نے اپنے دل میں کہا۔ پسینہ بھی خشک کرنے کی ہمت نہ تھی۔


’’م۔۔۔ معافی کا خواستگار ہوں۔‘‘ اس نے نورالسعادۃ کے قدموں پر نظرجمائے ہوئے کہا، ’’م۔۔۔ میں ک۔۔۔ کچھ کھ۔۔۔ کھو سا گیا تھا۔‘‘


نورالسعادۃ آگے بڑھ کر، نہیں بلکہ زمین سے ایک قدم اوپر ہوا میں تیرتی ہوئی سی آئی اور میر کے پاس کرسی پر بیٹھ گئی۔ وہ میرے اس قدر نزدیک کیوں آگئیں۔۔۔؟ میر کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ اس نے جھک کر نورالسعادۃ کے پیروں اور جوتیوں کو بوسہ دیا، آنکھوں اور پیشانی سے لگایا اور پھر انہیں اپنے سینے سے چمٹاکر یوں جکڑ لیا گویا اب زندگی اسی جگہ اور اسی طرح گزاردے گا۔ وہ بار بار دونوں پیروں کو چومتا رہا اور اس کے آنسو ٹپک ٹپک کر کبھی نورالسعادۃ کے پاؤں اور کبھی اس کے اپنے گریبان کو تر کرتے رہے۔ نورالسعادۃ بھی یوں ہی بے تعرض بیٹھی رہی، گویا وہ میر کے پاس والی کرسی پر اسی مقصد سے آبیٹھی تھی۔ کبھی کبھی وہ اس کے بالوں میں اپنی انگلیوں سے ہلکی ہلکی کنگھی کرتی، کبھی اس کے بالوں کو تھوڑا الجھا کر پھر ہاتھ سے برابر کردیتی۔ کہا لیکن اس نے کچھ بھی نہیں، گویا الفاظ کی ضرورت نہ تھی۔


میر یہ کبھی نہ بتاسکا کہ کتنا عرصہ اس عالم میں گذرا، شاید اسے جھپکی سی آگئی تھی۔ اتنا اسے یاد ہے کہ جب بھی اس نے اپنا ہاتھ نورالسعادۃ کے پاؤں سے آگے بڑھانا چاہا، اس کا ہاتھ جھٹک دیا گیا۔ حتی کہ وہ نورالسعادۃ کے ہاتھ بھی نہ چوم سکا۔ بس اتنا ضرور تھا کہ نورالسعادۃ نے اپنی بے حد لمبی چوٹیاں اپنی کمر پر دوپٹے سے کس رکھی تھیں۔ کبھی کبھی ان نیلگونی مائل سیاہ گیسوؤں کا کوئی طرہ میر کے ہاتھ لگ جاتا تو وہ اسے بھی آنکھوں سے لگاتا اور بوسہ دیتا۔


ان دونوں میں اس وقت کی پہلی بات چیت جو اسے یاد رہی، شاید دراصل پہلی نہ تھی۔ ممکن ہے دونوں نے کچھ خواب گوں انداز میں اظہار محبت یا اظہار شوق کیا ہو۔ میر نے ایک شعر اس واقعے کے کوئی پچاس برس بعداور پھر ایک اور شعر ساٹھ باسٹھ برس بعد کہا تھا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس پہلی ملاقات کی پاے بوسی نے اس کے دل پر کیسا گہرا اثر ڈالا تھا،


پاؤں چھاتی پہ میری رکھ چلتا
یاں کبھو اس کا یوں گذارا تھا


پاؤں پہ سر رکھنے کی مجھ کو رخصت دی تھی میران نے
کیا پوچھو ہو سر پر میرے منت سی منت ہے اب


’’تمہیں میں نے بہت یاد کیا، اور تم نے۔۔۔؟‘‘ اس نے ہندی میں کہا۔ اس کی آواز میں لبیبہ خانم کی آواز کی جھمک تھی لیکن نوعمری کے باعث اس میں چاندی کی گھنٹیوں جیسی صفائی تھی، گویا سنگ مرمر کا مجسمہ، جس کی ہر لکیر انتہائی صفائی اور نزاکت سے تراشی گئی ہو۔ اس کی ہندی رواں تھی، لیکن اس کے لہجے پر ایرانیت غالب تھی۔ مذکر مؤنث میں بھی ایک آدھ بار غلطی کرجاتی تھی۔ ہندی کی مخلوط اور ٹ، ڈ، ڑ وغیرہ آوازیں وہ ابھی ادا نہ کرسکتی تھی، اور یہ ذرا سا توتلا پن اس کے منھ سے اس قدر بھلا لگتا تھا کہ جی چاہتا تھا ہر لفظ پر مجھ چوم لیجیے۔


’’یاد نہیں کیا، جان اور ایمان او رمحبت کو دعا کرتا رہا۔‘‘


’’یہ کیا بات ہوئی، کیا یہ کوئی نیا انداز ہے بھولنے بھلانے کا؟‘‘


’’نہیں۔ تمہاری جان کو دعا کرتا رہا کہ تم نے مجھے اتنی بڑی دولت بس اٹھاکر دے دی۔ سخاوت ہو تو ایسی ہو۔ اور ایمان کو دعا کرتا رہا کہ میرے دل میں یا وہ رہتا یا تمہاری صورت۔ اس نے چپ چاپ تمہارے لیے جگہ خالی کردی۔ اور محبت کو دعا کرتا رہا کہ میری جان نہ لے جائے کہ میں محبت کرتا رہوں۔‘‘


’’باتیں اچھی کرلیتے ہو۔‘‘ اس نے میر کے رخسار پر ہلکی سی چپت لگائی۔


’’نہیں، سچ یہ ہے کہ یاد کرتا بھی کیوں کر،


تیرے بے خود جو ہیں سو کیا چیتیں


ایسے ڈوبے کہیں اچھلتے ہیں‘‘


’’چیتیں؟‘‘ اس نے ٹھوڑی پر ہاتھ رکھ کر ذرا سوچنے کے لہجے یں پوچھا، ’’چیتیں چہ معنی دارد؟‘‘


’’اہل ہندی’بہوش آمدن‘ را ’چیتنا‘ می گویند۔‘‘ اس نے جواب دیا۔


’’درست۔ تم مبالغے کے ماہر لگتے ہو۔‘‘ اس نے فارسی میں کہا، ’’مگر شعر اچھا کہتے ہو۔‘‘


’’مجھے اپنی شاعری بہت پیاری ہے، کہ اسی نے مجھے تم تک پہنچایا۔‘‘


’’سو تو ہو!‘‘ اس نے عجب انداز دلربائی سے کہا، ’’لیکن اگر تم اچھے عاشق ثابت نہ ہوئے تو تمہاری شاعری کس کام کی؟‘‘


’’اچھا عاشق، یعنی۔۔۔؟‘‘ وہ پھر کچھ گڑبڑا گیا۔


’’یہ پھر بتاؤں گی۔‘‘ میر نے سمجھا کہ نورالسعادۃ یوں ہی مطائبہ کر رہی ہے۔ لیکن جب اس نے سراٹھاکر دیکھا تو اس کے چہرے پر بلا کی متانت تھی۔ اس کی سمجھ میں آیا کہ کیا جواب دوں۔ بے ساختہ اس کی زبان پر اپنے یہ شعر رواں ہوئے،


خورشید صبح نکلے ہے اس نور سے کہ تو
شبنم گرہ میں رکھتی ہے یہ چشم تر کہ ہم


یہ تیغ ہے یہ طشت ہے یہ ہم ہیں کشتنی
کھیلے ہے کون ایسی طرح جان پر کہ ہم


میر کا خیال تھا ان شعروں پر نورالسعادۃ کچھ شگفتہ ہوگی لیکن وہ یہ دیکھ کر کانپ گیا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو چھلک رہے تھے۔ اسے کچھ کہنے کی ہمت نہ پڑی۔ اور نہ وہ سمجھ ہی سکا کہ نورالسعادۃ کا مدعا کیا ہے۔ اس نے اس کا ہاتھ تھام کر دلجوئی کے کچھ لفظ کہے کی کوشش کی لیکن نورالسعادۃ نے اپنا ہاتھ جھٹک کر چھڑالیا۔ کچھ دیر خاموشی رہی۔


’’میرے دل میں کچھ خوف ہیں۔‘‘ بالآخر اس نے مہرسکوت توڑی۔ میر چونک کر کچھ کہنے والا تھا کہ نورالسعادۃ نے ذرا سختی سے کہا، ’’چپ، بس چپ سنتے رہو، ورنہ میں بھی چپ ہو جاؤں گی۔‘‘


میر نے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنے کا اشارہ کیا۔ اس پر اچانک وہ تھوڑی سی شگفتہ ہوئی، ’’یہ طریقہ تم ہندیوں کا اچھا ہے، عفو طلب کرنے کا۔ منھ سے کچھ نہ بولو، بس کف دست جوڑ کر رہ جاؤ۔ اگلا کچھ بول ہی نہ سکے۔‘‘ وہ فوارے کی طرح کھلکھلائی، ’’اور تم لوگ بات بات پر کان کیوں پکڑتے ہو؟‘‘ میر نے سوچا، میں بھی تھوڑا ہنسادوں، شاید یہی سلسلہ چل نکلے۔


’’ہاں، ہم لوگ کان پکڑتے ہیں مگر کھاتے نہیں۔۔۔‘‘ نورالسعادۃ مسکرائی، لیکن بات کاٹ کر بولی، ’’اچھا میری بات سنو۔ بس۔‘‘


وہ اچانک پھر محزوں ہوگئی، ’’بچپن ہی سے میں کچھ خواب دیکھتی رہی ہوں۔ کبھی دھندلے، کبھی دھوپ کی سوئی کی طرح تیز اور روشن۔ اور اب وہ خواب یقین میں بدل گئے ہیں۔‘‘


اس کے بدن میں ہلکی سی لرزش تھی، جیسے تپ آنے والی ہو۔ اس نے اپنے پاؤں کھینچ کر گھٹنے موڑلیے اور نیم زانو ہو کر بیٹھ گئی۔ اس طرح بیٹھنے میں اس کے نازک نازک پاؤں زانوؤں کے نیچے چھپ گئے، کبھی کبھی ایڑی یا انگلی جھلک جاتی۔ صراحی دار بیاض گردن اٹھی تو جو بن کچھ تن گئے، کمر کی تنگی اور گات کا ابھار نمایاں ہوگئے۔ یہ سب ادائیں، جونورالسعادۃ نے غیر شعوری طور پر اپنی اں سے حاصل کی تھیں، میر کو بہت اچھی لگیں۔ اس نے نورالسعادۃ کی جوتیوں کو اور بھی اپنائیت کے ساتھ اپنی گود میں بھر لیا۔


نورالسعادۃ کی آنکھوں کے گوشے آنسو سے جگمگارہے تھے، لیکن اس نے اپنی نظریں میر کے چہرے پر گاڑدیں، اور کہنے لگی، ’’مجھے رسوا ہونا ہے۔ میں تنہائی کی موت مروں گی۔ اور میری مایں۔۔۔ میری ماں مجھ سے آزردہ رہیں گی۔‘‘


’’شاہ زادی، یہ تم کیا کہہ رہی ہو، کیا کسی منجم۔۔۔‘‘ لیکن اس نے پھر میر کی بات مکمل نہ ہونے دی، ’’میری تمنا ہے کہ وہ میرا عاشق ہو جو مجھے رسوائی سے، تنہائی کی موت سے اور میری اماں کی آزردگی سے بچالے۔‘‘


میر سکتے میں آگیا۔ نوشتۂ تقدیر ہو تو کوئی اسے دعا تعویذ سے بدلنے کی سعی کرے۔ جو مرض ہو کوئی دوا کرے، جو بلا ہو کوئی دعا کرے۔ لیکن یہاں تو جہان دیگر تھا۔


’’تمہارے آسمان ناز پر رسوائی کے خفیف ترین بادل کا سایہ بھی نہ آنے پائے گا کہ میں تمہاری دنیا سے نکل جاؤں گا۔‘‘ میر نے بالآخر سنبھل سنبھل کر کہنا شروع کیا، ’’اور تنہا تو تم کبھی ہو ہی نہیں سکتیں نور خانم۔ تم تو اپنے آپ میں خود مکمل ہو۔ تنہا نہ ہونے کے معنی یہ نہیں کہ عاشقوں کا ہجوم ہو۔ تنہا نہ ہونے کے معنی ہیں نفس مطمئنہ حاصل ہونا، اور وہ تمہیں شروع سے حاصل ہے اور ہمیشہ حاصل رہے گا۔‘‘


پھر میر نے جامی کی ’یوسف زلیخا‘ کے شعر بڑے جوش سے پڑھے۔ یہ شاہد مطلق کی شان میں تھے،


جمال مطلق از قید مظاہر
بہ نور خویش ہم برخویش ظاہر


دل آرا شاہدے در حجلۂ غیب
مبرا دامنش از تہمت عیب


صبا از طرہ اش نگسستہ تارے
نہ دیدہ چشمش از سرمہ غبارے


نواے دلبری با خویش می ساخت
قمار عاشقی با خویش می باخت


’’تم بھی تو اسی وجود کا ظل ہو، اسی نور کا ایک ٹکڑا ہو۔ تمہیں زوال کہاں، تمہیں تنہائی و رسوائی کا کیا خوف؟‘‘


نورالسعادۃ کا چہرہ دمک اٹھا۔ ’’سچ کہا تم نے۔ یہ کس کے شعر ہیں؟ مجھے اور بھی سناؤ۔‘‘


میر نے اس موقعے کے اور بہت سے شعر پڑھے۔ نورالسعادۃ کے دل کی دھڑکنیں شاید تیز ہوگئی ہوں لیکن اس کے چہرے پر دلجمعی کا فروغ تھا۔ کچھ دیر بعد نورالسعادۃ نے میر کی گود سے اپنی جوتیاں کھینچ کر پہنیں لیکن چلنے کے لیے اٹھی نہیں۔ میر نے جوتیوں کے پہننے کو اپنے لیے اشارہ جانااور اٹھنے کا ا رادہ کیا تو نورالسعادۃ نے اس کے شانے کو دباکر اسے بٹھائے رکھنے کا عندیہ ظاہر کیا، اور بولی، ’’جانتے ہو میں نے تمہیں کیوں بلوایا؟‘‘


’’مجھے سرفراز کرنے کے لیے، اور کاہے کو؟‘‘


’’ہشت، تم مردوں کو صرف سبز اندر سبز ہی دکھائی سنائی دیتا ہے۔ بھولے بے وقوف۔۔۔‘‘ اس خطاب پر میر نہال ہی تو ہوگیا۔ سرجھکا کر بولا، ’’بجا ارشاد، جانی وجہانی۔‘‘


’’سنو، عمدۃ الملک نے اماں سے بات کی تھی۔ میں ان کی پابند ٹھہرادی گئی ہوں لیکن گانے کے سوا کوئی خدمت نہ ہوگی۔ عمدۃ الملک کو یہاں آنا ہوگا تو کہلاکر آئیں گے۔ اور اگر بلانا ہوگا تو کئی دن پہلے بتادیں گے۔ عام محفلوں میں تم مجھ سے مل سکتے ہو، عام لوگوں کی مانند۔ لیکن یہاں آنے کے لیے تمہیں میرے بلاوے کا انتظار کرنا ہوگا اور۔۔۔‘‘


’’تو کیا روز ملنا نہ ہوگا؟‘‘ میر نے گھبراکر پوچھا۔


’’بہت خوب میر صاحب۔ آئینے میں آج منھ نہیں دیکھا کیا؟‘‘ وہ ہنسی لیکن اس میں کوئی تمسخر نہ تھا۔ پھر سنجیدہ ہوکر بولی، ’’اور دیکھو، ہمارے یہاں کب جاتے ہو، کب آتے ہو، اس کی خبر کسی کو نہ ہو۔‘‘


’’مجال نہیں جو اس حکم سے سر موتجاوز کروں۔‘‘ وہ مسکرایا، ’’اور اپنے خزانے کی تشہیر، احمق ہی ہو جو یہ کام کرے۔‘‘


’’اب سدھارو، بہت باتیں نہ بناؤ، مرد بچوں کی چھچھورے پن کا حال میں خوب جانتی ہوں۔ لیکن سن رکھو، مجھے رسوا کیا تو پچھتاؤگے۔‘‘


یہ کہتے کہتے وہ اٹھ کھڑی ہوئی، ’’دیکھو، پرسوں شب آدینہ کو میرا اس شہر بلکہ ساری زندگی کا پہلا مجرا ہے۔ عمدۃ الملک کے یہاں۔ آسکو تو آنا۔‘‘


’’جان درمیان ہو تب بھی آؤں گا۔‘‘ میر نے جھک کر سینے پر ہاتھ رکھا۔ نورالسعادۃ نے سلام کے لیے ہاتھ اٹھایا تھا کہ خدا جانے کس طرح وہ ایک قدم آگے بڑھ آئی اور اس نے خود کو میر کی آغوش میں پایا۔ میر نے اس کے منھ، پیشانی، ناک، کان، گردن، رخسار پر درجنوں بوسے دے ڈالے۔ نورخانم تھوڑی دیر تو کسمسائی، پھر اس نے چپکے سے میر کے منھ کو خود پیار کرکے اپنا سر اس کے سینے پر ٹکادیا۔ لیکن جب میر نے ’اے کاش وہ زبان ہو اپنے دہن کے بیچ‘پر عمل کرنا چاہا تو نورالسعادۃ نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے آہستہ سے پیچھے دھکیلتے ہوئے کہا، ’’اب جاؤ، نکلو۔ نہیں تو چانٹا ماردوں گی۔‘‘


میر کو کچھ یاد نہیں کہ وہ کس طرح باہر آیا اور اس وقت کیا ساعت تھی۔ نہ اس ملاقات کا کوئی حال ہی وہ اس وقت، یا اس کے کچھ دن بعد بھی، قلم بند کرسکا۔ لیکن اس پہلی بغل گیری اور ہم آغوشی کی لذت اور فرحت اسے شاید کبھی نہ بھولی۔ وہ اس پر تاحیات مباہات کرتا رہا جیسا کہ اس کے مندرجہ ذیل شگفتگی آمیز شعروں سے مترشح ہوتا ہے جو برسہا برس بعد اس نے لکھے،


آخر عدم سے کچھ بھی نہ بگڑا مرا میاں
مجھ کو تھا دست غیب پکڑ لی تری کمر


کب تلک یو ں لوہو پیتے ہاتھ اٹھاکر جان سے
وہ کمر کولی میں بھرلی ہم نے کل خنجر سمیت


بخت برگشتہ پھر جو یار ہوئے
اس طرح مجھ سے وے دوچار ہوئے


وے تو ہر چند اپنے طور کے تھے
پر تصرف میں ایک اور کے تھے


کرتے ظاہر میں احتیاط بہت
مجھ سے بھی رکھتے اختلاط بہت


رفتہ رفتہ سلوک بیچ آیا
ہاتھ پاؤں کو اپنے لگوایا


گاہ بے گاہ پاؤں پھیلاتے
میری آنکھوں سے تلوے ملواتے


ہنس کر سینے پہ پاؤں رکھ دیتے
دل مرا یوں بھی ہاتھ میں لیتے


گہ گہے دست دی ہم آغوشی
ہم سری ہم کناری ہم دوشی


جس دن محمد تقی میر اور نورالسعادۃ کے درمیان راز نیاز ہوئے، اس کے اگلے دن سہ پہر کو رائے کشن چند اخلاص عام سے زیادہ سج دھج اور آن بان کے ساتھ پھاٹک حبش خان کی حویلی پر پہنچا۔ پیچھے ایک نوکر جھلی سر پر رکھے ہوئے، اس کے پیچھے دو اور، سروں پر خوان دھرے ہوئے۔ جھلی اور خوان سب پر زرکار سرپوش۔ رائے اخلاص کو فوراً دیوان خانے میں بٹھایا گیا۔ تینوں نوکر دیوان خانے کے دروازے پر بارہ دری میں رہے۔ کشن چند کو اصفہان کی پہلی ملاقات یاد آئی۔ اس نے دل میں دعا کی کہ جس طرح اُس ملاقات کا انجام اچھا ہوا، اسی طرح اس کا بھی انجام بخیر ہو۔ چند ہی لمحوں بعد لبیبہ خانم دیوان خانے میں داخل ہوئی۔ رائے کشن چند نے سروقد ہوکر تین بار تعظیم دی اور کہا، ’’خانم بزرگ، آزادی نسیم مبارک ہو۔‘‘


لبیبہ کو رائے کشن چند کا مطلب سمجھنے میں کچھ بھی دیر نہ لگی۔ لیکن اس نے تجاہل عارفانہ سے کہا، ’’بہت خوب، آپ کو بھی مبارک ہو۔ لیکن بطور خاص مجھے یہ مبارک باد کیوں؟‘‘ شاید وہ چاہتی تھی کہ رائے کشن چند کی زبان سے حرف مدعا صاف صاف ادا ہو اور شروعات بھی وہیں سے ہو۔


’’جناب عالیہ، دلو ں پر ایک قدغن تھی، وہ ہٹ گئی۔ اب آپ کسی کی پابند نہیں اور میں غل و زنجیر وفاداری میں بندھا ہوا نہیں۔ دست و پا آزاد ہیں۔‘‘


وہ ہنسی، ’’بندھے ہوئے دست و پا شل ہوجاتے ہیں تو کھلے ہوئے دست و پا ٹوٹتے بھی ہیں، خاص کر جب وہ گستاخ ہوں۔‘‘


’’جو گستاخ ہوتے ہیں، وفادار نہیں ہوتے۔‘‘


’’درست، ہمیں گوئے و میداں۔‘‘ اس کے لہجے سے صاف ظاہر تھا کہ وہ اس گفتگو سے خو ش ہوئی ہے۔ رائے کشن چند نے اشارہ کیا تو تینوں نوکر ایک ایک کرکے اندر آئے۔ انہوں نے اپنے سروں کا بوجھ اتار کر قالین پر رکھا، پھر سات سلام کرکے الٹے پاؤں باہر چلے گئے۔


’’رائے صاحب، آج کیا لے آئے، اور کس کے لیے؟‘‘ خانم بزرگ اب بھی اسے چھیڑنے ہی کے انداز میں تھی۔


’’اس کے لیے جس کے لیے مجلس آفاق کی ہر چیز ہے۔ جس کے پاس سب کچھ ہے لیکن ایک شے نہیں۔‘‘


’’وہ کیا شے ہے، اور آپ کیا وہی لے کر آئے ہیں؟‘‘ لبیبہ خانم نے پہلی بار کچھ ایسے لہجے میں بات کی جس میں ذرا لگاوٹ کی مہک تھی۔


’’وہ تو میں روز ہی لاتا ہوں لیکن آپ اعتنا ہی نہیں کرتیں۔‘‘


’’اچھا، ایسی کون سی شے ہے؟ آپ تو اچھے خاصے شاعر تھے، میر حیدر معمائی کے شاگرد کب سے ہو گئے؟‘‘


رائے کشن چند کا دل زور سے دھڑکا، کہوں نہ کہوں، اس نے اپنے دل سے پوچھا۔ دل نے کہا کہہ دے۔ اس سے بہتر موقع کون سا ہوگا؟ اور اگر کہنا نہیں تھا تو اس طرح تیار ہوکر آیا کیوں تھا؟ ان کی خفگی کا خطرہ ہے؟ وہ تو ہے ہی۔ کب نہ تھا؟ ’سب کہنے کی باتیں ہیں کچھ بھی نہ کہا جاتا‘، اسے محمد تقی میر کا مصرع یاد آیا۔


’’کیا ہوا، چپ کیوں ہوگئے جناب؟ بات شروع کی تو اسے ختم بھی کرتے۔ یا کیا اہل دہلی کے رواج ان معاملات میں کچھ اور ہیں؟‘‘ اخلاص کو ان الفاظ میں صاف صاف اجازت، بلکہ دعوت نظر آئی۔ آخر وہ بول پڑا، ’’آپ کے یہاں جو شے نہیں ہے وہ کشن چند اخلاص کے نقش قدم ہیں، کہ آپ کی چوکھٹ کے آگے ان کو بار ہی نہیں۔‘‘


خانم بزرگ یقیناً ایسی ہی کسی بات کی متوقع تھی لیکن جب وہ بات کہی گئی تو اس کے دل پر چوٹ سی لگی۔ اسے کچھ خوف اور خطرے کا بھی احساس ہوا اور مسرت کے اہتزاز کا بھی۔ اس کا چہرہ ان مختلف کیفیات کی آئینہ داری کرنے سے قاصر تھا، اور یہ آسان تھا کہ وہ چپ ہوکر آنکھوں میں آنسو بھر لائے۔ رائے کشن چند گھبراگیا کہ اب کیا کروں، کیا کہوں۔ اپنی جگہ سے اٹھ کر لبیبہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لینے کی ہمت کر رہا تھا کہ وہ بہت دھیمی آواز میں بولی، ’’رائے کشن چند، آپ نے مجھے بڑی مشکل میں ڈال دیا۔ میں خود کو اس اعزاز کا مستحق نہیں سمجھتی۔‘‘


’’یہ آپ کیا فرماتی ہیں؟میں البتہ۔۔۔‘‘


لبیبہ خانم نے عجب شاہانہ انداز میں ہاتھ اٹھاکر اخلاص کو مزید کچھ کہنے سے روکا، پھر وہ کہنے لگی، ’’مجھے بایزید شوقی کے بعد، اور اس کے پہلے بھی، کوئی شخص نہ ملا جس کی طرف دیکھنے کا بھی میرا دل چاہے۔‘‘ اچانک اس کے لہجے میں لگاؤ کی ہلکی سی گرمی پیدا ہوگئی، ’’تم کو دیکھنے اور تم سے بات کرنے پر جب میرا جی مائل ہونے لگا تو میں بہت ڈری۔ میں تو ہمیشہ کے لیے بایزید سے بیاہی جاچکی ہوں، ایک بار نہیں، زندگی کی ہر سانس کے ساتھ تمہارا میلان بھی مجھ پر کھل چکا تھا، لیکن مجھے اس سے کوئی خوف نہ تھا۔ خوف تو مجھے اپنے سے تھا، اور ہے۔۔۔‘‘


اس نے رک کر اپنے آنسو خشک کیے، ’’میں کاروبار شوق میں مفلس او رنہتی ہوں، لیکن تمہاری باتیں نہ جانے کہاں سے خزانے لے کر آجاتی ہیں اور میرے قدموں اور دامن کو گوہر تمنا سے بھردیتی ہیں۔ میں نہ چاہتی تھی کہ پردہ کھلے اور بات آگے بڑھے۔ میرے دل کا، میری روح کا، بڑا حصہ خاکستری ریگ رواں بن چکا ہے۔ وہاں کچھ ٹھہر نہیں سکتا، اگ نہیں سکتا۔ لیکن جو سلامت ہے اس کے گلی کوچوں میں تم مجھے آواز دیتے ہوئے سے لگتے ہو۔‘‘


وہ خاموش ہوگئی۔ شاید وہ کشن چند کی طرف سے کسی جواب، کسی وعدے، کسی اقرارو اعلان کی توقع کر رہی تھی، یا شاید اس میں اب مزید کہنے کی تاب نہ تھی۔ کشن چند اخلاص بت بنا بیٹھا اپنے دل کی دھڑکن سنتا رہا۔ ایک لمبے سکوت کے بعد وہ بولی، ’’کیا جانے ریت اور راکھ کی یہ بستی تمہیں راس بھی آئے گی، کہیں تم اسی ویرانیوں سے گھبرانہ اٹھو۔‘‘


’’ایسا نہ کہو، ایسا ہرگز نہ ہوگا۔‘‘


’’میں تمہیں چوکھٹ کے پار تو بے شک بلالوں۔‘‘ اس نے گویا رائے کشن چند کی بات سنی ہی نہیں تھی، ’’لیکن وہاں ویرانی بہت ہے۔‘‘


’’اس ویرانی میں جان دے دینا مجھے دلی پر راج کرنے سے بہتر ہے۔‘‘ اخلاص نے بڑے عزم سے کہا، ’’ہم دونوں ہی اکتاہٹ کی منزلوں سے بہت دور آچکے ہیں۔ اور طفلانہ دل آرامیوں کے رنگ بھی ہمارے دلوں سے کب کے اڑچکے ہیں۔ ہوس تم میں کبھی تھی نہیں اور میں شہر ہوس کے ہر کوچے میں مدتوں آیا گیا ہوں۔ اب وہاں میرے لیے کشش کا کوئی سامان نہیں۔‘‘


وہ دفعتاً اٹھ کھڑا ہوا، ’’پھر اب کاہے کا ڈر؟ تم آفتاب ہو، میں ذرہ۔ ذرہ کتنا ہی مٹ میلا ہوچکا ہو، آفتاب کے محاذ میں آکر روشن ہو ہی جاتا ہے۔ اور آفتاب کتنا ہی گہنا گیا ہو لیکن جیب کفن کی زینت بھر کے لیے داغ تو دے ہی سکتا ہے۔‘‘


رائے کشن چند اخلاص کا اگلا قدم اسے لبیبہ خانم کے برابر لے آیا۔ وہ جھجک کر ذراپیچھے ہٹی لیکن اخلاص نے اس کی ٹھوڑی اٹھاکر اس کی آنکھوں میں دیکھا، اسے اپنی طرف کھینچا، کسی مزاحمت کے بغیر وہ گویا بے ارادہ اس کے سینے سے آلگی۔


عمدۃ الملک نواب محمد امیر خان انجام کے باپ کا نام میر خان تھا لیکن اورنگ زیب نے ازراہ لطف اس میں ایک الف کا اضافہ کرکے امیر خان کردیا۔ شاہ نعمت اللہ ولی ان کے جداعلیٰ تھے۔ نواب امیر خان کو بارگاہ عالم گیری میں تقرب خاص حاصل تھا۔ وہی صورت اب ان کے بیٹے کی تھی جو عمدۃ الملک کے خطاب سے مخاطب اور محمد شاہ پادشاہ غازی کے متقربین خاص میں تھے۔


محمد امیر خان انجام چھوٹے قد کے دبلے پتلے شخص تھے۔ ان کی بوٹی بوٹی سے ذکاوت ٹپکتی تھی۔ ممتاز نظر آتے تھے۔ معاملات ملکی و مالی، حسن انتظام ریاست اور کارہائے سفارت میں اس وقت کوئی ان کا حریف نہ تھا۔ اس پر مستزاد ان کی شعر فہمی، شعر گوئی اور سخاوت۔ سینکڑوں ہی ارباب علم و فن کی سرپرستی اور پرورش ان کی سرکار سے ہوتی تھی۔


شعر اور ارباب طرب پر وہ خاص مہربانی فرماتے۔ موسیقی کے اتنے بڑے ماہر کہ بڑے بڑے ڈوم اور کلاونت ان کے آگے کان پکڑتے تھے۔ خود وہ فارسی کے شاعر تھے، ریختہ بہت کم کہتے تھے لیکن اس فن کے بھی رموز سے وہ خوب باخبر تھے۔ نگاہ اکثر نیچی رکھتے اور جتنا گرم فقرہ کہتے اسی قدر متانت سے، نگاہ نیچی رکھ کر، رواروی میں کہتے تھے۔ چھوٹے قد اور نازک ہاتھ پاؤں کے باعث بعض اوقات وہ زنانہ لباس پہن لیتے تو لوگوں کے لیے انہیں پہچاننا محال ہوجاتا۔


صفر ۱۱۴۷ھ (مطابق جولائی ۱۷۳۴ء۔ مرتب) میں جب شیخ علی حزیں لاہیجی باحال پریشان، جان بچا کر ایران سے دہلی آئے تو سب سے پہلا آستانہ جس پر انہوں نے جبہہ سائی کی، عمدۃ الملک کا ہی تھا اور نواب موصوف نے علی حزیں کی اعلیٰ ترین توقعات سے بڑھ کر ان کی مربی گری کی۔ خود جو کچھ سلوک انہوں نے علی حزیں کے ساتھ کیا وہ تو الگ، سب سے بڑی بات یہ کہ عمدۃ الملک نے انہیں بارگاہ محمد شاہی تک رسائی دلوادی جہاں سے شیخ علی حزیں کو بیس لاکھ روپئے کی خطیر رقم شاہی خزانے سے یک مشت عطا کی گئی۔ اب اسے شیخ کے مزاج کی ٹیڑھ او ر سبھاؤ کی کڑواہٹ کہیں، یا ان کی احسان فرموشی اور تنگ جبینی، کہ اس کے باوجود وہ ملک ہند کو ’شبستان تیرہ روز‘ اور یہاں کے شعرا کو ’پوچ گو‘ کہتے تھے اور ہندوستان کے فارسی گویوں کو مستند سمجھنا تو دور رہا، ساقط المعیار اور زبان کی لطافتوں سے بے بہرہ جانتے تھے۔


ایک بار شہزادہ احمد شاہ کے دودھ شریک بھائی نواب اشرف علی خان فغاں نے محمد شاہ پادشاہ کے حضور مطلع پڑھا،


شمع رو مت راہ دے خلوت میں پروانے کے تئیں
اے ترے قربان ہم کیا کم ہیں جل جانے کے تئیں


سب نے تحسین کی۔ عمدۃ الملک نے کہا، ’’نواب صاحب، شعر یوں تو نہایت رنگین اور مضمون نہایت روشن ہے۔ لیکن اگر ’اے ترے قربان‘ کی جگہ ’اے ترے بل جائیں‘ارشاد ہوتا تو مطلع کسی اور ہی رتبے کا ہوجاتا، کہ ’بل جائیں ہم‘ کا فقرہ سوختن پروانہ کے ساتھ مناسب کلی رکھتا ہے۔‘‘ سب یہ اصلاح سن کر پھڑک اٹھے، یہاں تک کہ حضرت ظل سبحانی بھی زبان معجز بیان سے گویا ہوئے، ’’سبحان اللہ، اے ترے بل جائیں ہم۔ عمدۃ الملک درست گفتید۔ جان در قالب شعر دمیدہ شد۔‘‘


خان دوراں صمصام الدولہ عبدالصمد خان بہادر جنگ، جنہوں نے اپنی بہادری، حسن تدبیراور حکمت عملی تینوں کے باعث بڑا نام پیدا کیا تھا، ہمیشہ اس فکر میں رہتے کہ عمدۃ الملک کو لاجواب کردیجیے۔ چنانچہ ایک بار بھرے دربار میں انہوں نے بہت سوچ سمجھ کر ایک بات کہی، ’’ظل سبحانی، تجربہ شاہد ہے کہ ہر فرقہ جس کے نام کے آگے ’بان‘ لگا ہوتا ہے، اس کے لوگ مفسد اور اکثر غدار ثابت ہوئے ہیں، مثلاً شتربان، گاڑی بان، بہلی بان، وغیرہ۔‘‘ بادشاہ نے عمدۃ الملک کی طرف دیکھا۔ انہوں نے دایاں ہاتھ سینے پر بائیں طرف رکھا اور خان دوراں کو مخاطب کرکے کہا، ’’درست ہے مہربان۔‘‘


بہ آواز بلند ہنسنے کا تو کوئی سوال ہی نہ تھا، کہ آداب شاہی کے منافی تھا لیکن خان دوراں کی شرمندگی کے خیال سے کسی نے آنکھ بھی اونچی نہ کی۔ نادرشاہ کے حملے میں جن محمد شاہی سرداروں نے دفاع دہلی میں اپنی جان قربان کی، ان میں خان دوراں عبدالصمد خان بھی تھے۔


عمدۃ الملک کا دست سخامیر محمد تقی تک بھی گاہے ماہے پہنچ جایا کرتا تھا۔ لہٰذا دونوں میں معرفی تو تھی ہی، اور اس وقت تو نواب رعایت خان کا تو سل بھی تھا۔ لہٰذا میر کو وقت مقررہ پر عمدۃ الملک کی عالی شان محل سرا میں داخل ہونے میں کوئی دقت نہ ہوئی۔


اس وقت نور بائی کی شہرت، اور خاص کر یہ بات، کہ یہ ان کا پہلا مجرا ہے، دہلی کے بچے بچے کی زبان پر تھی۔ بہت سے امرا توبن بلائے پہنچ گئے تھے اور پھاٹک کے باہر کان لگاکر سننے والو ں کی تو تنگی نہ تھی۔ میر کو حسن اتفاق سے اعتماد الدولہ کے متعلقین اور متوسلین میں جگہ ملی، اس لیے وہ محفل کا لطف بخوبی اٹھا سکا۔ اس نے اپنی خوش طالعی پر شکر کیا کہ جہاں وہ تھا وہاں مطربہ کی آواز اور ہر ساز کی آواز صاف سنی جاسکتی تھی۔


نور خانم کی طرف نظر بھر کر دیکھنے کا تو خیر امکان ہی نہ تھا لیکن میر کی نشست اور مطرب اور سازندوں کی نشست میں کچھ خاص فاصلہ نہ تھا، لہٰذا وہ ادھر ادھر نظریں کرنے کے بہانے اسے بھی دیکھ لیتا تھا۔ نورالسعادۃ نے ایک بار اس سے آنکھیں چار کیں، لیکن اس طرح، جیسے یہ بات اتفاقیہ پیش آگئی ہو۔ خانم بزرگ بھی موجود تھیں لیکن انہوں نے میر، اور میر ہی کیا، کسی کی طرف نہ دیکھا۔ وہ صرف عمدۃ الملک، اور اعتماد الدولہ کے سلام کو سروقد اٹھیں۔ باقی عمائد و رؤسا کو انہوں نے بیٹھے ہی بیٹھے جھک کر تسلیم کی۔


جب محفل آراستہ ہوچکی تو لبیبہ خانم نے دوزانو ہوکر اہل محفل کو سلام رسمی کیا اور فارسی میں مختصر سی تقریر کی، جس کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے، ’’قبلہ گاہی نواب عمدۃ الملک بہادر، مربیان و محبان کرام، آپ سب ارباب فن اور اصحاب علم ہیں۔ یہ بچی ہر اعتبار سے طفل مکتب ہے اور یہ اس کی پہلی محفل ہے۔ جو کچھ یہ پیش کرے، اسے بنظر اصلاح ملاحظہ فرمائیں اور اس کی خطاؤں کو درگزر فرمائیں۔ بالعموم بڑوں کے پہلے چھوٹوں کو غزل سرائی و نواسجی کا موقع دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ وقت خاص ہے، اس لیے میں اس ہمہ کہکشاں مجلس کا آغاز مولوی معنوی کی ایک رباعی سے کرتی ہوں۔ یہ بچی بھی مولوی ہی کا کلام پیش کرے گی۔‘‘


عمدۃ الملک نے کوئی اشارہ ضرور کیا ہوگا لیکن کوئی اسے دیکھ نہ سکا۔ ایسا لگا کہ ایشک اقاصی از خود آگے آیا، اس کے پیچھے دو عصابردار دوخوان لیے ہوئے۔ عمدۃ الملک نے ایک خوان پر سے کشمیری جامہ وار کا دوشالہ اتار کر نور خانم کو پہنایا۔ دوسرے خوان پر سے انہوں نے ڈھاکے کی ململ کا ایک تھان اٹھایا جسے گول لپیٹ کر موٹائی میں مردانہ انگشت شہادت کے برابر کردیا گیا تھا، اور جس کے دونوں سروں پر سونے کے چھلے چڑھادیے گئے تھے۔ یہ تھان انہوں نے خانم بزرگ کو پیش کیا۔ دونوں نے سروقد ہوکر اپنے تحفے قبول کیے۔


ہرطرف سناٹا ہوگیا۔ خانم بزرگ نے عمدۃ الملک کو مخاطب کرکے مولانا روم کی رباعی راگ بھیروی میں گائی،


آں را کہ خداے چوں تو یارے دادست
اورا دل و جان بے قرارے داد ست


زنہار طمع مدار ز آں کس کارے
زیرا کہ خداش طرفہ کارے دادست


سامعین کی صفوں سے بے ساختہ تحسین کا شور بلند ہوا۔ خواجہ ناصر عندلیب کے صاحب زادگان سید خواجہ میر درد اور سید محمد میر اثر، جنہوں نے ابھی خانقاہی زندگی نہیں اختیار کی تھی، عمائد کی صف میں بالکل آگے بیٹھے تھے۔ داد دیتے ان کی زبان نہ تھکتی تھی۔ دریں اثنا اندر سے اردابیگنی نے آکر عمدۃ الملک سے سرگوشی میں کچھ کہا۔ عمدۃ الملک اپنی جگہ سے اٹھے اور انہوں نے بڑی بائی صاحب سے کچھ کہا۔ معلوم ہوا کہ اندر بیگمات، خاص کر اعتماد الدولہ کی بہو، یعنی میر معین الدین خان بہادر عرف میر منوکی حلیلہ مغلانی بیگم کی فرمائش ہے کہ مخدرات علیا کی نشست گاہیں ٹھیک جگہ نہیں ہیں، نغمہ سرائی صاف سنائی نہیں دیتی۔ نشستیں دوبارہ مرتب کی جارہی ہیں۔ اتنے کہ نشستیں دوبارہ قائم ہوں، نور بائی صاحب کو زحمت نواسنجی نہ دی جائے۔


جتنی دیر میں یہ سرگوشیاں ختم ہوئیں، پیغام آگیا کہ اب سب ٹھیک ہے۔ محفل آغاز ہو۔ نور خانم نے سروقد ہوکر حضار محفل کو سلام کیا اور فارسی میں کہا کہ میرے گانے میں کوئی کمی پائی جائے تو اسے میری کم عمری پر محمول ٹھہراکر عفو تقصیر فرمائی جائے۔ پھر اس نے مولانا روم کی رباعی امیر خسرو کے ایجاد کردہ راگ یمن کلیان میں گائی،


کے باشد و کے باشد و کے باشد و کے
مے باشد و مے باشد و مے باشد و مے


من باشم و من باشم و من باشم و من
وے باشد و وے باشد و وے باشد ووے


سید خواجہ میر اور سید محمد میر صاحبان پر تو وجد طاری ہوگیا۔ میر کے رخسار آنسوؤں سے بھیگ گئے اور محفل میں گویا کہرام مچ گیا۔ خانم بزرگ کی پختہ، پرانے تانبے کی گھنٹیوں جیسی سچی اور ٹھکی ہوئی آواز کے مقابلے میں نور خانم کی ذرا دوشیزہ پن لیے ہوئے، کچھ باریک، چاندی کے گھنگھروؤں جیسی آواز، راگ اگرچہ نسبتاً سادہ، لیکن ادائیگی بالکل سچی اور گت نہ بلمپت نہ درت، بلکہ کہیں بیچ کی سی۔ اور کلام کا پیمبرانہ زور و جوش۔ بعد میں معلوم ہوا کئی بیگمان بے ہوش ہوئیں، انہیں لخلخہ سنگھانا پڑا اور کئی بزرگوں کی خدمت میں خمیرۂ مروارید پیش کیا گیا۔


جب ہنگامہ کچھ فرو ہوا تو سازندوں نے دوبارہ ساز درست کیے اور نورالسعادۃ نے راگ جو گیا میں مولاناے روم کی غزل آغاز کی،


اندر دو کون جانا بے تو طرب نہ دیدم
دیدم بسے عجائب چوں تو عجب نہ دیدم


گویند سوز آتش باشد نصیب کافر
محروم آتش تو جز بو لہب نہ دیدم


من بر دریچۂ دل بس گوش جاں نہادم
چنداں سخن شنیدم اما دو لب نہ دیدم


اے ساقی گزیرہ مانندت اے دو د یدہ
اندر عجم نیامد اندر عرب ندیدم


چنداں بریز بادہ کز خود شوم پیادہ
کاندر خودی و ہستی غیر تعب نہ دیدم


اے شیر واے شکر تو اے شمس واے قمر تو
اے مادر و پدر تو جز تو نسب نہ دیدم


پولاد پارہایم آہن رباست عشقت
اصل ہمہ طلب تو در تو طلب نہ دیدم


اس محفل کا حال بیان کرنے کے لیے رومی ہی کا قلم کام آسکتا ہے۔ میر نے کئی برس بعد کچھ محفلوں میں اپنی غزلوں کے گائے جانے کے بارے میں کچھ شعر لکھے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا فیضان نورالسعادۃ کی وہ پہلی محفل تھی جس کی کچھ روداد اوپر بیان ہوئی۔ میر نے لکھا،


مطرب نے پڑھی تھی غزل اک میر کی شب کو
مجلس میں بہت وجد کی حالت رہی سب کو


پھرتے ہیں چنانچہ لیے خدام سلاتے
درویشوں کے پیراہن صد چاک قصب کو


اس غزل پر شام سے تو صوفیوں کو وجد تھا
پھر نہیں معلوم کچھ مجلس کی کیا حالت ہوئی


مطرب سے غزل میر کی کل میں نے پڑھائی
اللہ رے اثر سب کے تئیں رفتگی آئی


اس محفل کے بعد نوربائی صاحب کی شہرت اور عزت پر لگا کر اڑی۔ عمدۃ الملک سے خانم بزرگ اور نور خانم کا ربط ضبط بھی اتنا بڑھا کہ رئیس اور مغنیہ کے رسمی رشتوں سے بڑھ کر کچھ ایسا معاملہ ہوا جیسا متوسل اور مربی میں ہوتا ہے۔ آ داب امیرانہ کو بالاے طاق رکھ کر بے تکلف گفتگوئیں بلکہ ہنسی ٹھٹھول بھی ہونے لگے۔


جیسا کہ اوپر مذکور ہوا، عمدۃ الملک کو زنانہ لباس پہننے کا بھی ذوق تھا۔ یا پھر وہ مردانہ کپڑے بھی ایسی وضع یا رنگ کے پہن لیتے جو عام طور پر طبقۂ اناث سے منسوب سمجھے جاتے ہیں۔ چنانچہ ایک بار وہ اپنی ایک محفل میں یوں تشریف لائے کہ ایک برکا ریشمی پاجامہ پہنے ہوئے تھے، شوخ نارنجی رنگ کے کپڑے پر طاؤسی نیلے رنگ کی ذرا نمایاں دھاریاں اور بھی بہار دے رہی تھیں۔ جب وہ محفل میں داخل ہوئے تو بڑی بائی صاحب کے منھ سے بے ساختہ نکلا، ’’عمدۃ الملک نے آج تو بڑا کافر پاجامہ زیب تن فرمایا ہے۔‘‘


فقرہ ذرا دھیمی آواز میں کہا گیا تھا لیکن ایسا بھی نہیں کہ کوئی سن نہ سکے۔ مطلب بھی یہی تھا کہ براہ راست پھبتی کا اندازہ نہ ہواور عمدۃ الملک سن بھی لیں۔ چنانچہ انہوں نے سن لیا اور شرکاے محفل نے بھی۔ ہنسنا تو بہرحال خلاف تہذیب تھا۔ بزرگ مسکرادیے اور نوجوان منھ میں رومال ٹھونس کر اپنے اپنے گریبان دیکھنے لگے۔


عمدۃ الملک نے یہ سب دیکھا، پھر نگاہیں نیچی کیے کیے متانت سے بولے، ’’جی، مگر اس میں تھوڑی سی مسلمانی بھی ہے۔‘‘


ہنسنا تو اب بھی ممکن نہ تھا لیکن داد تحسین کے فقروں پر کوئی پابندی نہ تھی، اور وہ بھی اس وقت جب خود نواب نے اس قدر چبھتا ہوا جملہ سر کیا ہو۔ داد تو بڑی بائی صاحب کی بھی طرف سے آئی لیکن خانم بزرگ صرف داد دے کر چپ رہنے والی نہ تھی۔ جب تحسینی صدائیں دھیمی پڑیں تو بول اٹھی، ’’اسی دورنگی کے باعث تو نواب ہر وقت آنکھیں نیچی کیے رہتے ہیں۔‘‘


’دورنگی‘ کا لفظ یہاں قیامت ڈھا رہا تھا۔ عمدۃ الملک نے یہ جملہ اتنا پسند کیا کہ گلے کی زمردی ہیکل اتار کر خانم بزرگ کی نذر کردی۔


عمدۃ الملک کبھی کبھی ماں بیٹی کو مشاعروں میں بھی بلاتے۔ دونوں، اور خاص کر نورالسعادۃ، ریختہ میں بھی اس غضب کی شعر فہم نکلی تھیں کہ ان کی داد نہ ملنے پر شعرا کی نظر میں خود اپنا کلام حقیر ہوجاتا۔


ایک بار عمدۃ الملک کے مشاعرے کا منظر قران السعدین سے بھی بڑھ گیا۔ شاہ حاتم کے سوادلی کے تمام بڑے ریختہ گو موجود تھے۔ شرف الدین مضمون، نجم الدین سلام اور اشرف علی خان فغان بزرگوں میں، مانے ہوئے نئے استادوں میں میرزا رفیع سودا، میر محمد تقی میر، سید خواجہ میر درد۔ فارسی گویوں میں بھی میرزا مظہر جان جاناں کو چھوڑ کر اکثر بڑے لوگ شریک محفل تھے۔ آنند رام مخلص، شیخ علی حزیں، شاہ نورالعین واقف، ٹیک چند بہار، میر شمس الدین فقیر، بیدل کے شاگرد سکھراج سبقت، میر افضل ثابت الٰہ آبادی، اور خود خان آرزو۔ سامعین میں خانم بزرگ اور نور خانم کے علاوہ بھی بعض باذوق ارباب طرب حاضر تھیں۔ شیخ علی حزیں کا ارادہ ان دنوں بلاد اودھ کا تھا، اور ایک طرح یہ ان کی الوداعی محفل تھی۔ بعض ریختہ گویوں نے ریختہ کے ساتھ فارسی بھی سنائی، فارسی والوں نے صرف فارسی۔ ریختہ اور فارسی دونوں میں طرح مقرر کی گئی تھی لیکن بزرگ استادوں کو غیرطرح میں بھی پڑھنے کی اجازت تھی۔


مشاعرے کا آغاز شاید کسی بری ساعت میں ہوا تھا، کہ کسی کی غزل نہ جمی۔ بڑے بڑے شعرا خفیف ہوئے جارہے تھے۔ اس پر ظلم یہ کہ فارسی ہو یا ریختہ، علی حزیں کبھی دبی زبان سے کبھی ذرا اونچی آواز میں اکثر شعروں پر ایراد بھی کرتے چلے تھے۔ لوگ اس خیال سے طرح دیتے چلے گئے کہ شیخ ہند میں ہمارے مہمان ہیں، اور پھر اب وہ دہلی چھوڑ کر جانے ہی والے ہیں۔


مشاعرہ شاہ نورالعین واقف کے کلام پر ختم ہونا تھا۔ وہ شعرا میں سب سے بزرگ نہ تھے لیکن گھر سے اس قدر کم نکلتے تھے کہ کسی بھی جگہ ان کی موجودگی بانی محفل اور حاضرین کے لیے افتخار کا باعث ہوتی۔ انہوں نے بڑے والہانہ انداز میں جھوم جھوم کر لحن کے ساتھ غزل پڑھی۔ میر کو اس کے چند شعر یاد رہ گئے،


گہ می فشارد گہ می گذارد
یا رب چہ دارد غم با دل من


رحمے نہ داری با یک مسلماں
کافر دل من ترسا دل من


گفتی کہ دارد ایں گونہ خوارت
مرزا دل ن آقا دل من


ایک تو بولتی ہوئی ردیف، پھر کلام کی غیر معمولی روانی اور لہجے کی وارفتگی۔ مشاعرہ پہلی بار گویا جاگ اٹھا۔ لیکن شیخ علی حزیں منھ بنائے سنتے رہے۔ شاید انہیں اس بات پر آزردگی تھی کہ اوروں کی طرح خود ان کی غزل بھی سرسبز نہ ہوئی تھی۔ لیکن جب درست، واہ واہ، سبحان اللہ کا شور تھما تو اس بار شیخ نے بہ آواز بلند کہا، ’’شاہ صاحب، غزل خوب تھی، مگر واللہ فارسی نہ تھی۔‘‘


نورالعین واقف تو بے نیاز شخص تھے۔ انہوں نے کچھ جواب نہ دیا، اگرچہ تیوری پر ان کے بھی بل آگئے تھے۔ مجمع ایک لمحے کے لیے سکتے میں آگیا۔ وہ جو رخصت ہونے کے لیے اپنی پاپوشیں اور عصا ڈھونڈ رہے تھے، وہیں رک گئے۔ اچانک میرزا رفیع نے تیکھے سروں میں کہا، ’’جناب شیخ صاحب، غزل ہندوستان میں بھی ہوتی ہے۔‘‘ شیخ علی حزیں کو اب بھی مجمعے کی صورت حال کا اندازہ نہ ہوا تھا، چمک کر بولے، ’’بے شک، لیکن ایران کی زبان اور ہے، ایران کا مذاق اور ہے۔ شعراے ہند کو محاورۂ ایران پر کماحقہ عبور نہیں۔‘‘


’’ایران کے صاحبان قدرت نے ہندی اور عربی میں تصرف کیے ہیں۔‘‘ خان آرزو اب تکلف کو بالائے طاق رکھ کر بحث میں شریک ہونے پر مجبور ہوئے۔ ’’ہند کے صاحبان قدرت بھی حسب توفیق فارسی میں تصرف کرسکتے ہیں۔‘‘


’’ہند میں صاحبان قدرت محال ہیں۔‘‘


’’ایران میں غلط گو ممکن ہیں تو ہند میں صاحبان قدرت بھی ممکن ہیں۔ انصاف کی نظر چاہیے۔‘‘ خان آرزو نے کہا۔


’’جس کی زبان ہو وہی اسے برت سکتا ہے۔‘‘ علی حزیں نے تنتناکر جواب دیا۔


’’معاملہ روز کی معمولی عام زبان کا نہیں شیخ علی حزیں، ادبی زبان کا ہے۔ ادبی زبان کتابوں سے سیکھی جاتی ہے،‘‘ خان آرزو نے سمجھانے کے انداز میں کہا۔


’’اہل زبان، صاحب محاورہ، یہ سب بکواس ہے۔‘‘ اچانک محمد تقی میر نے محفل کے بیچ میں کھڑے ہوکر اعلان کے انداز میں کہا، ’’زبان اس کی ہے جو زبان کے ساتھ اس طرح کھیل سکے جس طرح بچہ ماں سے کھیلتا ہے۔ معاف فرمائیں جناب علی حزیں، زبان کوئی مقدس بیوہ نہیں کہ اس کی طرف ذرا سی چشمک ہو تو اس کی عفت مخدوش ہوجائے۔ آپ اہل ایران کی شاعری ٹھٹھرتی جارہی ہے، کہ آپ لوگ تصرفات و محاورات اہل ہند سے گریز کرنے لگے ہیں۔ سنیے، یہ شعر سنیے، اور لائیے جواب ان کا۔‘‘ پھر میر نے میرزا بیدل کے حسب ذیل شعر اپنی معمولی آواز میں نہیں بلکہ مشاق شعر خوانوں کی سی دور دور تک پھیلتی ہوئی آواز میں پڑھے،


از دلم بگذشت و خوں در چشم حیرت ساز ماند
گرد رنگے یادگارم زاں بہار ناز ماند


شمع یکرنگی ز فانوس خموشی روشن است
نیست جز تار نفس چوں نالہ از آواز ماند


اے بسا معنی کہ از نامحرمی ہاے زباں
باہمہ شوخی مقیم پردہ ہاے راز ماند


تمام لوگ ان اشعار کی کیفیت اور قوت اور بالخصوص آخری شعر کی پراسرار، معنی پرور فضا میں محو تھے۔ میر نے کہا، ’’آپ کا ننھا سا، مدرسانہ ذہن اسی میں الجھا رہے گا کہ ’چشم حیرت ساز‘ درست ہے کہ نہیں، ’گردرنگ‘، ’معنی شوخ‘، اور ’نامحرمی ہائے زباں‘ جیسی تراکیب کے لیے آپ فرہنگیں ڈھونڈیں گے۔ لیکن یہ شعر لوگوں کے دلوں میں، ان کی زبانوں پر قائم رہیں گے۔ آپ کی چشم تنگ نہ مضمون دیکھے گی، نہ کلام کی روانی پر نظر رکھے گی۔۔۔‘‘


’’محمد تقی خیرہ سر اور خودبیں ہے، لیکن حق یہ ہے کہ اس وقت اس نے جو بھی کہا سچ کہا۔‘‘ خان آرزو نے رائے آنند رام مخلص کو مخاطب کرکے کہا۔


’’بجاہے پیر و مرشد۔‘‘ آنند رام مخلص نے مؤدبانہ کہا۔ وہ موٹے اس قدر تھے کہ بیٹھ جاتے تو اٹھنا محال ہوجاتا، لیکن ان کی آواز باریک تھی۔


علی حزیں اکیلے، اور ساری محفل ایک طرف، لیکن تھے وہ بلا کے ضدی۔ بھناکر بولے، ’’ہم نے سعدی و حافظ کے کلام میں ’مرزا دل من، آقا دل من‘ کہیں نہیں دیکھا۔ بابا فغانی کے یہاں بھی ’چشم حیرت ساز‘ جیسی مہملیات کا گذر نہیں۔ سب ٹکسال باہر، سب ہندی۔‘‘


’’گستاخی معاف شیخ صاحب، سعدی و حافظ پر شاعری ختم ہوئی نہ بابا فغانی کے بعد زبان تھک کر بیٹھ گئی۔ طبائع موزون و طینت ہاے بہار ایجاد نے ہر زمانے میں نئی نئی گل کاریاں کی ہیں۔‘‘ ٹیک چند بہار نے تیز لہجے میں کہا، ’’ہم اگر آپ کے قائل ہیں تو آپ سے بڑھ کر بیدل و سرخوش و ناصر علی کے بھی قائل ہیں، اور آپ کے کلام کو بھی انہیں کے آئینے میں دیکھتے ہیں۔‘‘


سامعین میں سے ایک صاحب، جو شاید حزیں کے شاگرد تھے، بولے، ’’آخر ہندیوں میں مولانا ابوالبرکات منیر لاہوری بھی تو ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ظہوری اور عرفی اور زلالی وغیرہ کی خیال بندیاں شعر پارسی کے جسد نازک پر بار ہیں۔ ہمیں طرز حافظ و سعدی کو اختیار کرنا چاہیے۔‘‘


بحث میں مداخل ہونے والے نئے صاحب کو خان آرزو نے گھور کر دیکھا کہ صحبت اہل علم میں یہ بے علم کون آگھسا۔ انہوں نے سرد لہجے میں کہا، ’’آں عزیز نے اس حقیر کا رسالہ ’سراج منیر‘ شاید نہیں دیکھا، ورنہ اس باب میں زحمت لب کشائی نہ فرماتے۔‘‘


’’اور جب استادی و مرشدی جناب سراج المحققین اپنی کتاب لاجواب ’تنبیہ الغافلین‘ مکمل فرمائیں گے تو شیخ صاحب کی سب شیخی نکل جائے گی،‘‘ آنند رام مخلص نے کہا۔


یہ بحث نہ معلوم کب تک چلتی، جنہیں گھر جانے کی جلدی تھی، وہ پہلو بھی بدل رہے تھے کہ نکلنے کا کوئی موقع ہاتھ آجائے تو اچھا، لیکن بانی محفل کے احترام میں جگہ سے اٹھنے کا یارانہ تھا۔ اتنے میں عمدۃ الملک کے ایشک اقاصی نے آکر خبر دی کہ سرکار نواب صاحب کو ظل سبحانی نے قلعہ معلی میں یاد فرمایا ہے۔ نواب مجلس برخاست کرکے جلدی سے اٹھ کھڑے ہوئے، ورنہ محمد تقی میر تو ابھی اور بھی کچھ کہنے کے لیے تیار ہو رہاتھا۔ شیخ علی حزیں کی پیشانی پر سے بل نہ جانا تھے، نہ گئے۔ شاہ نورالعین واقف البتہ خوش تھے کہ انہیں لب کشائی کی ضرورت ہی نہ تھی۔


مشاعرہ برخاست کرکے جب عمدۃ الملک سوار ہونے کے لیے باہر نکلے تو صبح کاذب ہوچکی تھی۔ لوگ نماز کے لیے تیز تیز قدم اٹھاتے جارہے تھے۔ وہ جمعہ کا دن تھا اور ذی الحجہ ۱۱۵۹ھ کی ۲۳تاریخ (مطابق ۶جنوری ۱۷۴۷ء۔ مرتب) جلدی کی وجہ سے نواب نے اپنا معمولہ کو کبۂ نوابی ساتھ نہ لیا تھا۔ وہ خود اپنے ہاتھی پر صرف ایک خواصی کے ساتھ تھے، پیچھے چار مسلح شہسوار۔ عمدۃ الملک ان چند امرا میں سے تھے جنہیں دیوان خاص کے صدر دروازے تک ہاتھی پر آنے کی اجازت تھی، لہٰذا وہ تو سواری پر بیٹھے بیٹھے آگے نکل گئے اور ان کے شہسوار سعداللہ خان کے چوک پر گھوڑے سے اتر کر پیدل چلے۔ ایوان شاہی میں یوں بھی کوئی خطرہ نہ تھا۔


دیوان خاص کے صدر دروازے پر عمدۃ الملک کا ہاتھی رکا، نقارے پر چوٹ پڑی۔ قاعدے کے مطابق خواصی کو پہلے اترنا چاہیے تھا لیکن عجلت کے مارے عمدۃ الملک ہی پہلے اترآئے۔ ان کے اترتے اترتے محافظ خانے کے اندر سے ڈھاٹا باندے ہوئے دو شخص کود کر باہر آئے اور خنجر کے ایسے سدھے ہوئے ہاتھ انہوں نے عمدۃ الملک کو مارے کہ ایک نے دل کو، اور دوسرے نے جگر کو دونیم کردیا۔ زمین پر آتے آتے وہ لاشۂ بے جان ہوچکے تھے۔


پیچھے سے آتے ہوئے شہسواروں نے عمدۃ الملک کو گرتے دیکھا تو کچھ نے ان کو سہارا دینا اور کچھ نے دوڑ کر قاتلوں کو پکڑنا چاہا۔ سہارا دینے کے لیے تو وہاں تھا ہی کچھ نہیں اور لال قلعہ جیسی لق و دق عمارت میں، جس میں راہداریوں، کھڑکیوں، اور چور دروازوں کی کمی نہیں، کسی بھاگتے کو پکڑلینا کہاں ممکن تھا۔


عمدۃ الملک کی موت پر دلی کے گئی گھروں میں صف ماتم بچھ گئی۔ کئی بیواؤں نے دوبارہ خود کو بیوہ اور کئی یتیموں نے دوبارہ خود کو یتیم پایا۔ واردات چونکہ د یوان خاص کے عین سا منے ہوئی تھی اور قاتل ہاتھ نہ آسکے تھے، اس لیے بہت لوگ اعلانیہ بادشاہ کو اس واقعے میں ملوث ٹھہراتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمدۃ الملک بادشاہ کے بہت منھ لگے تھے، حتی کہ ان کی باتیں کبھی کبھی گستاخی کی حد کو چھولیتی تھیں، اس لیے بادشاہ ان سے آزردہ تھے۔ اور بادشاہ کی آنکھ کا اشارہ پاکر روزافزوں خان خواجہ سرا نے کرائے کے دوقاتلوں کو پیدا کیا۔ انہیں زر کثیر انعام میں دیا گیا۔ وہ ادھم بائی (بادشاہ بیگم) کے خزانے سے آیا تھا۔


کچھ کا کہنا تھا کہ ادھم بائی نے عمدۃ الملک کو اس لیے مروادیا کہ نواب موصوف کو ادھم بائی کے بطن سے پیدا محمد شاہ پادشاہ کے بیٹے شاہزادہ مجاہد الدین ابونصر احمد (جو احمد شاہ کے نام سے بادشاہ بنا) کی ولی عہدی سے اتفاق نہ تھا۔ کچھ، بلکہ اکثر لوگ اس خیال کے تھے کہ دربار خسروی میں عمدۃ الملک کی مقبولیت بعض امرا کو ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ اور عماد الملک غازی الدین خان (جس نے ۱۷۵۹ء میں بادشاہ عالم گیر ثانی کو قتل کرایا، مرتب) یا صفدر جنگ (جس نے ۱۷۵۴ء میں خود احمد شاہ کو تخت سے اتار کراندھا کرایا، مرتب) کے اغوا سے بعض پیشہ ور ڈاکوؤں کواس کام پر لگایا گیا تھا۔)


ایک خیال یہ تھا کہ نواب امیرخان کا قتل محض اتفاقیہ تھا۔ ایک مدت سے ان کے بعض معزول شدہ نوکر ان سے بدلہ لینے کے لیے ان کے پیچھے لگے ہوئے تھے۔ اس رات بادشاہ کے غیر متوقع بلاوے نے انہیں موقع فراہم کردیا۔ حقیقت جو بھی ہو، دلی میں عام خیال یہ تھا کہ عمدۃ الملک محمد امیر خان انجام جیسا بیدار مغز، صاحب الرائے، لائق فائق رئیس اب شاہان مغلیہ کے ہاتھ نہ لگے گا۔ ’غم عمدہ‘ کسی نے تاریخ کہی۔ چونکہ نواب مرحوم کو عورتوں کی طرح کپڑے زیب تن کرنے کا بھی ذوق تھا، اس لیے کسی نے زنانہ اسلوب میں فقرہ کہا جس سے تاریخ نکلتی تھی، ’اوہی لوگو امیر خان موا۔‘ بعض لوگوں نے یہ بھی کہا کہ یہ تاریخ نور بائی صاحب نے کہی تھی۔ واقعہ یہ ہے کہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ نہ اس فقرے سے نواب کی تاریخ وفات نکلتی ہے اور نہ یہ فقرہ نورالسعادۃ کا تصنیف کردہ ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ لبیبہ خانم اور نورالسعادۃ نے گیارہ دن تک عمدۃ الملک کا سوگ کیا۔


دلی پھر دلی ہے۔ امیر خان انجام کی موت پر چند دن سنسنی اور افواہ بازیاں رہیں۔ پھر حالات اپنی پرانی مستانہ چال پر آگئے۔


کھوگئے دنیا سے تم ہو اور اب دنیا ہے میاں


عمدۃ الملک کے بعد پھاٹک حبش خان کی حویلی کے مکینوں کے معمول میں تبدیلی ضرور آگئی۔ خانم بزرگ نے نوربائی صاحب کو اب کسی کا پابند نہ کیا لیکن تمکنت اور رکھ رکھاؤ پہلے سے زیادہ بڑھادیا۔ ان دونوں کی شہرتیں پہلے سے ہی بام ثریا کو چھورہی تھیں۔ اب نوربائی صاحب دوسرے رؤسا کی محفلوں میں بھی جلوہ افروز ہونے لگیں۔ خود ان کی حویلی پر بھی غزل و غناکے مواقع ہوتے رہتے تھے۔ ان کے یہاں دولت و ثروت کی اب وہ فراوانی ہوئی کہ دلی والوں کی بھی آنکھ چکاچوندھ ہوگئی۔ نور خانم کا چشم دید حال نواب درگاہ قلی خان سالار جنگ اول نے، جو درآں زماں حیدر آباد سے وارد دہلی تھے، یوں لکھا ہے،


’’نور بائی دلی کی ڈومنیوں میں سے ہے۔ اس کی شان کی بلندی اس قدر ہے کہ امرا اس کے دیدار کی التجا کرتے ہیں اور بعضے اس کے گھر بھی جاتے ہیں۔ اس کا گھر ارباب دول کے گھروں کی آن بان رکھتا ہے۔ دربار کی زیب و زینت اور تجمل اور اس کی سواری کے ساتھ چلنے والے خدام میں چاؤ شوں اور چوبداروں کی ریل پیل، یہ سب ویسی ہے جیسی امرا اور رؤسا کے ساتھ ہوتی ہے۔ وہ عام طور پر ہاتھی پر سوار ہوکر نکلتی ہے۔ او رجس رئیس کے گھر جاتی ہے، وہ اسے کم از کم ایک نگ قیمتی پتھر نذر کرتے ہیں۔ اور جب اسے کہیں بلایا جاتا ہے تو ایک بیش قرار رقم اس کے گھر پہلے سے بھیج دی جاتی ہے۔ اس سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ جب وہ رخصت ہوتی ہوگی تو اس وقت اسے کیا اور کتنا پیش کیا جاتا ہوگا۔ نہ جانے کتنوں نے اپنا سارا مال و متاع اس پر قربان کردیا ہے۔


نور بائی سخن فہم بے نظیر اور نکتہ دان خوش تقریر ہے۔ اس کے روز مرہ کی صفائی کا کیا کہنا، سامعہ جوے بہار میں غوطہ کھاتا ہے اور وہ محاورے اس قدر برجستہ و بر محل بولتی ہے کہ گویا اس کی زبان پھولوں کی پنکھڑیاں تراشتی ہے۔ علم مجلسی کی وہ اس درجہ ماہر ہے، اور اس کے یہاں نشست و برخاست کے آداب و رسوم ایسے ہیں کہ اچھے اچھے استاد اس سے سبق لیں۔ اور جمیع حاضرین محفل کی خاطروں کا لحاظ وہ اس قدر رکھتی ہے کہ بڑے بڑے صاحبان تہذیب و اخلاق اس کے شاگرد بنیں۔ وہ اپنے طائفے کے ساتھ، کہ ان میں ہر ایک کو بیگم یا خانم کے لقب سے مخاطب کرتے ہیں، بزم آراے محفل ہوتی ہے۔‘‘


محمد تقی میر اور رائے کشن چند اخلاص کا آنا جانا حسب سابق تھا، احتیاط اب پہلے سے کچھ کم تھی، لیکن ایسا بھی نہ تھا کہ دونوں درّانہ حویلی میں آئیں جائیں۔ میر کے عشق کی تو پھر بھی لوگوں کو سن گن لگ گئی تھی، لیکن رائے کشن چند کے بارے میں کسی کو خبر نہ تھی کہ وہ شروع ہی سے حویلی میں آتا جاتا تھا۔ میر کے تعلقات نورالسعادۃ سے ابھی بغل گیری و ہم آغوشی سے آگے نہ بڑھے تھے۔ وہ اس کی طرف دیکھتی تو ایسی نگاہوں سے تھی گویا چاہتی ہو کہ پہل میر کی ہی طرف سے ہو لیکن اس کا بیوہار اور لہجہ ایسا کبھی نہ ہوتا کہ میر کی ہمت کھلتی۔


تعلقات کی اس غیر اطمینان بخش صورت حال میں، جہاں اختلاط باطنی تو کیا، اختلاط ظاہری بھی بہت محدود قسم کا تھا، میر کو بڑی گھٹن محسوس ہوتی تھی۔ اگرچہ وہ خوش تھا کہ آمد و رفت اور بے تکلف بات چیت اور ہنسی مذاق کے تومواقع مہیا تھے، لیکن اس کی بے صبر طبیعت اسے کسی بھی کل چین نہ لینے دیتی۔ ایک عرصے کے بعد اس نے اپنی مثنوی میں کچھ شعر اپنی اس زمانے کی ذہنی کیفیت کے بارے میں لکھے،


صورت ان کی خیال میں ہر دم
خواب میں ہوں جو وہ مژہ باہم


میں تو بستر پہ دل شکستہ اداس
چاند سا منھ انہوں کا تکیے پاس


میں بچھونے پہ بے خود و بے خواب
ایک پیکر پری کا سا ہم خواب


شب کٹی صورت خیالی سے
دن کو ہوں میں شکستہ حالی سے


آشنا یار سارے بے گانے
کہ ہوئے میر جی تو دیوانے


رشتہ و ربط انہوں نے توڑدیا
ملنا جلنا سبھوں سے چھوڑ دیا


شوق سے ان کا حال دیگر گوں
پارہ پارہ دل و جگر سب خوں


جی پڑا تر سے ساتھ سونے کو
دل پریشان جمع ہونے کو


لیکن نورالسعادۃ اپنی روش پر قائم تھی۔ ایسا نہیں کہ وہ میر کا امتحان لے رہی ہو۔ بات شاید یہ تھی کہ اس کے دل کا خوف ویسے کا ویسا تھا۔ میر کا مزاج سوداوی تو تھا ہی۔ اس کی شعر گوئی بھی زور پر تھی اور اس کی شہرت بھی۔ اس کی خود بینی ایک طرف اور نورالسعادۃ کی دور گردی ایک طرف، یہ دونوں مل کر اس کے داغ سودا کی چمک کو روزافزوں کیے دیتی تھیں۔ اسی اثنا میں اس نے نواب رعایت خان سے بھی بگاڑ کرلیا۔


ایک رات نواب کے باغیچے میں بے تکلف صحبت تھی۔ شعر پڑھے اور سنے جارہے تھے۔ میر نے اس وقت تازہ غزل سنائی تھی۔ غزل حسب معمول بہت کامیاب ہوئی، حتی کہ نواب نے بھی اس کے ایک دو شعر گنگناکر پڑھے۔ سوے اتفاق کہ اسی وقت ایک نوجوان ڈوم بھی حاضر دربار ہوا جس کا گانا انہیں بہت پسند تھا۔ رعایت خان نے بے ساختہ کہا، ’’اماں میر محمد تقی، اپنی اس تازہ غزل کے کچھ شعر ہمارے سلطانا کو بھی یاد کرادو۔ جب تم نہ ہوگے تو اس سے سن لیا کریں گے۔‘‘ میر کو برا تو بہت لگا کہ میرا کلام اور یہ کم بخت مجہول النسب کل کا چھوکرا گاتا پھرے۔ ضبط کرکے عرض کیا، ’’قدر افزائی ہے سرکار والا تبار لیکن یہ صاحب زادے ہیں، ابھی انہیں ہدومیاں کی بندشیں یاد کرنے دیں تو مناسب، بلکہ انسب ہو۔‘‘


’’اماں تم بھی کیا باتیں کہو ہو محمد تقی۔ ہدوخان صاحب کی بندش اور ہے، غزل کے بول اور ہیں۔ تمہیں ہمارے سر کی قسم کچھ ردوقدح نہ کرو۔‘‘


میر نے مجبوراً پانچ شعر سلطانا کو یاد کرادیے۔ لیکن اس دن سلام کرکے وہ جو اٹھا ہے تو پھر نواب رعایت خان کی نوکری پر نہ گیا۔ کچھ دن بعد اعتماد الدولہ کی حویلی والا گھر بھی اس نے خالی کردیا اور کوئی حیلہ ڈھونڈ کر نواب امیر خان مرحوم کی حویلی میں اٹھ رہا۔


کچھ دن پھر بے کاری میں گذرے۔ بے روزگاری او رخاص کر اس بات کے احساس نے کہ نورالسعادۃ اسے نکھٹو سمجھتی ہوگی، اس کے مزاج کا حرارہ اور بھی بڑھادیا تھا۔ اس زمانے کی کیفیت اس نے ایک مقطعے میں لکھی تھی لیکن غزل عرصے بعد تمام ہوسکی تھی۔ ان دنوں شعر گوئی کے لیے طبیعت کہاں سے حاضر ہوتی،


اتنی بھی بد مزاجی ہر لحظہ میر تم کو
الجھاؤ ہے زمین سے جھگڑا ہے آسماں سے


اس دوران کچھ اچھی باتیں بھی ہوئیں۔ رعایت خان نے ازراہ لطف مربیانہ، میر کے ایک بھائی کو اس کی جگہ نوکر رکھ لیا۔ بعد میں میر کی خفگی بھی دور ہوگئی۔ ایک بار جب میر کا سامنا رعایت خان سے ہوا تو خان مذکور نے بہت کچھ عذر خواہی کی۔ میر نے کہا، ’’سرکار والا مقدار، گزشتہ راصلواۃ۔ اب میں اپنی جگہ خوش ہوں۔ اپنے ایک دوست اسدیار خان کی وساطت سے نواب بہادر جاوید خان خواجہ سرابہادر کی ڈیوڑھی پر نوکر ہوگیا ہوں۔‘‘


کچھ دن آرام سے گذرے۔ پھر اچانک ایک بہت ہی آرام کی بات ہوئی۔ میر کے سارے گلے شکوے، خواہ آسمان سے، خواہ زمین سے، دھل گئے۔ اسے ایسا لگا جیسے وہ دوبارہ پیدا ہوا ہے۔


میر نے تسنگ کا کبھی نام نہ سنا تھا، اور نہ ہی ایسی کسی مجہول الاسم جگہ پر جانے کی اسے توقع ہوسکتی تھی۔ لیکن ایک دن رائے کشن چند اخلاص اور میر دونوں ہی دلی سے میرٹھ جانے والی تنگ اور تکلیف دہ سڑک پر رواں تھے، کہ تسنگ نامی قصبہ میرٹھ کے ذرا آگے واقع تھا۔ بات یہ ہوئی کہ نواب بہادر جاوید خان خواجہ سرا کی کچھ املاک وہاں تھی جس پر مقامی زمیندار قابض ہوگیا تھا۔ نواب بہادر نے اسے بے دخل کرنے کے لیے سپاہی بھیجے تو وہ گڑھی خالی کرکے بھاگ گیا۔ اب نواب بہادر نے گڑھی پر دوبارہ قبضہ کرنے اور مال گزاری کی وصولی کے لیے وہاں کا سفر اختیار کیا۔ جشن منانے کے لیے خانم بزرگ، نور خانم، میاں ہینگا امرد اور کئی اور ارباب نشاط کو زحمت دی گئی۔ میر اس قافلے میں نواب بہادر کی ہمراہی کے باعث شریک تھا اور رائے کشن چند کے بغیر خانم بزرگ کہیں باہر نکلتی نہ تھی۔


قافلے میں کوئی سو ڈیڑھ سو افراد تھے۔ صفر ۱۱۶۱ھ (مطابق فروری ۱۷۴۷ء، مرتب) کی کوئی تاریخ تھی۔ تھوڑی تھوڑی تیز ہوتی ہوئی دھوپ بہار دے رہی تھی کہ اچانک ابرگندہ بہار گھر آیا اور موسلا دھار بارش ہونے لگی۔ بارش کوئی گھنٹہ بھر رہی، لیکن جب قافلہ صاحب آباد سے گزر کر میرٹھ والی سڑک پر مڑا تو معلوم ہوا کہ ہنڈن ندی میں اچانک بارش کی وجہ سے باڑھ آگئی ہے۔ کشتیوں تک پہنچنے کے لیے جو چہ باندھا گیا تھا، وہ ٹوٹ گیا ہے۔ اب چھوٹی بجرہ نما ناؤوں میں بیٹھ کر بڑی ناؤ تک جانا ہوگا۔ اس درمیان شام بھی ہوچکی تھی۔ کوئی مناسب جگہ نزدیک نہ تھی جہاں اتنا بڑا قافلہ آرام سے شب باش ہوسکے۔ دریا سے اترنا ہی اترنا تھا۔ ہنڈن چھوٹی سی ندی تھی اور تمام چھوٹی ندیوں کی طرح جب وہ باڑھ پر آتی تو قیامت کے طوفان اٹھاتی۔ میر نے واپس آکر اس کا حال یوں لکھا،


شب کہ دریا پہ ہو کے راہ پڑی
پانی کے سطح پر نگاہ پڑی


دامن ابر پاٹ دریا کا
دے گرہ تو کہے کہ باندھا تھا


آب تہہ دار اور تیرہ بہت
لہر اٹھتی جو تھی سو خیرہ بہت


پانی پانی تھا شور سے طوفان
دیکھ دریا کو سوکھتی تھی جان


جزر و مد سب حواس کھوتا تھا
خضر کا رنگ سبز ہوتا تھا


کسو درویش کا تھا یمن قدم
جا کے پہنچے جو اس کنارے ہم


ورنہ اعمال نے ڈبویا تھا
گوہر جاں سے ہاتھ دھویا تھا


بقیہ سفر کا حال طوالت سے خالی نہیں۔ اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ وہ غازی آباد ہوتے ہوئے دو دن میں تسنگ پہنچے۔ زمیندار کی وسیع و عریض گڑھی میں سارا قافلہ سماگیا۔ نواب بہادر نے البتہ اپنے اور بعض مخصوصین کے لیے خیمے نصب کرائے۔ خانم بزرگ کو بھی ایک خیمہ ملا لیکن شام ہوتے ہوتے ہوا اچانک تیز ہوگئی۔ نورالسعادۃ نے ضد کی کہ ہمیں حویلی میں کمرہ دیا جائے، مجھے ڈر لگتا ہے کہ یہ خیمے آندھی میں کہیں اڑ نہ جائیں۔ ظاہر ہے کہ اس کی مرضی پوری کی گئی۔


اس رات سفر کے کسل کے باعث محفل بہت مختصر رکھی گئی۔ قصبے میں کہیں سیر و تفریح کا سوال نہ تھا۔ دن ڈوبنے کے ڈھائی تین گھڑی بعد ہر طرف نیند اور سکوت کا دور دورہ تھا۔ اس رات میر کی تقدیر نے یاوری کی۔ نیند اسے آتی نہ تھی۔ نورالسعادۃ اتنی پاس اور میں اتنی دور۔ کاش نیند ہی آجاتی۔ لیکن تقدیر جاگتی تب تو آنکھ سوتی۔ چارپائی کے سرہانے کچھ دور پر ایک طاق میں دھیمی روشنی کی شمع جل رہی تھی۔ میر نے دروازے کی طرف پیٹھ موڑ کر اپنے ہی مصرعے پر عمل کیاتھا،


چل اب کہ سوویں منھ پہ دوپٹے کو تان کر


اچانک اسے محسوس ہوا کہ شمع اور اس کے درمیان کوئی آگیا ہے۔ کسی چور کا تو امکان تھا نہیں۔ بھوت پریت میں اسے یوں ہی سا یقین تھا۔ اس نے چادر کا ایک کونا کھول کر گوشۂ چشم سے دیکھا تو کچھ دکھائی نہ دیا۔ شمع گل ہوچکی تھی اور دروازہ بند تھا۔ کمرے میں وہی لطیف سی خوشبو تھی، جس کے بارے میں وہ کبھی فیصلہ نہ کرسکا تھا کہ نورالسعادۃ کے بدن کی اپنی خوشبو ہے یا اس نے کوئی عطر لگا رکھا ہے۔ اب تو اسے ڈر لگا۔ کون ہے یہ ہستی؟ مجھ سے کیا چاہتی ہے؟ میں خواب دیکھ رہا ہوں یا یہاں کوئی جادو چل رہا ہے؟


اس نے ایک ہی ساتھ چادر سر سے اتار پھینکی اور چارپائی بھی چھوڑ کر کھڑا ہوگیا۔ باہر کے کسی چراغ کی بہت دھندلی سی روشنی دروازے کی جھری سے چھن رہی تھی۔ نورالسعادۃ نے ہاتھ بڑھاکر اس کا منھ چھوا۔۔۔ نورالسعادۃ؟ اس کا دل اس زور سے دھڑکا گویا اب رک ہی جائے گا۔ ہلکی سی ہنسی، چوڑیوں کی بہت دھیمی سی کھنک۔ وہ آکر چارپائی پر بیٹھی تو پرانے پٹی پایوں نے ذرا سی آواز کی۔ تو میں خواب میں یہ سب سن سکتا ہوں؟ اس کا گلا خشک تھا۔ اس نے کہنا چاہا، ’’نورالسعادۃ، تم یہاں کہاں؟‘‘


لیکن اس کے حلق سے صرف ایک پھنسی پھنسی آواز نکلی، جیسے پھانسی کا پھندا لگ گیا ہو۔ اس کی ٹانگیں جواب دے گئیں اور وہ پلنگ کی پٹی تھام کر زمین پر بیٹھ گیا۔ میں بیٹھ گیا ہوں کہ ڈھیر ہوگیا ہوں؟ وہ اندر ہی اندر مسکرایا۔ یہ خواب بھی خوب ہے کہ مجھے معلوم ہے میں خواب دیکھ رہا ہوں۔ لیکن میرا ہاتھ یہ کس کی جوتیوں پر ہے؟ اور ان جان سے زیادہ پیاری جوتیوں میں ان سے بھی بڑھ کر پیارے پاؤں کس کے ہیں؟ اس نے ایک جوتی کو آنکھوں سے لگانا چاہا تو وہ پھسل کر اس کے ہاتھ میں آگئی۔ نورالسعادۃ کا پیر ٹھنڈا ہو رہا تھا۔۔۔ نورالسعادۃ کا؟ نورالسعادۃ یہاں۔۔۔ لیکن اس نے پاؤں کو آہستہ آہستہ ملنا چاہا کہ ذرا گرمی پہنچے تو اس کا ہاتھ پھسل کر نورالسعادۃ۔۔۔ اس وجود رؤیائی کی پنڈلی تک پہنچ گیا۔ وہ ایک برکا، بہت ہی ہلکے کاشانی مخمل دوخوابہ کا پاجامہ پہنے ہوئے تھی۔ زندگی میں یہ پہلا موقع تھا کہ اس کا ہاتھ نورالسعادۃ کی پنڈلی تک پہنچ سکا تھا۔ پھر اس نے بہت خوف زدہ لیکن وفور شوق سے بے قرار ہوکر ہاتھ اوپر لے جانا چاہا۔ آئینہ زانو، اور پھر زانو۔۔۔ لیکن نورالسعادۃ تو مخملی پاجامہ کبھی نہ پہنتی تھی؟ اس نے سراٹھایا تو دروازے کی جھری سے چھن کر ایک کرن اس کی آنکھ پر پڑی۔ پھر نورالسعادۃ نے بھی سراٹھاکر اس کا دوسرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تو کسی اور زاویے سے ایک کرن نے اندر آکر اس کی بھی آنکھوں میں اگیاری سی روشن کردی۔


میر کی سانس بے قابو ہو رہی تھی، اور نورالسعادۃ۔۔۔ نہیں، اس وجود خواب کی بھی سانسیں تہہ و بالا تھیں۔ دوصدی سے اوپر گزر جانے کے بعد، جب دونوں وجود واقعی خواب بن چکے تھے، کسی کہنے والے نے اس بات کو یوں بیان کیا، ’ملائمت ہے اندھیرے میں اس کی سانسوں سے /دمک رہی ہیں وہ آنکھیں ہرے نگیں کی طرح۔‘ میر نے وہ منظر خوددیکھا تھا لیکن اس وقت اس کے پاس سادہ الفاظ بھی نہ تھے، موزوں مصرعوں کی توفیق کہاں سے ہوتی۔ لیکن اپنے بارے میں اس نے کچھ دن بعد کہا، ’آئینے کو بھی دیکھو پرٹک ادھر بھی دیکھو/ حیران چشم عاشق دمکے ہے جیسے ہیرا۔‘


لیکن اس وقت۔۔۔ اس کا ہاتھ زانوؤں کے بیچ میں کہیں تھا۔ اس کا دوسرا ہاتھ اس کی مہمان کے ہاتھ میں اب بھی تھا۔ وہ جو ایک پل کے لیے کرن اندر چمکی تھی، اب جاچکی تھی۔ شاید ہوا کا رخ بدل جانے کی وجہ سے باہر کے چراغ کی لو بھی کسی اور سمت میں لہرا رہی تھی۔ اس نے اپنے ہاتھ پر ہلکی سی کشش محسوس کی۔ اس نے اپنی گرفت ڈھیلی کردی، خود کو پلنگ کی طرف کھنچنے دیا اور پھر پلنگ کی پٹی کو بالکل چمٹالیا، گویا اسے بھی اپنی آغوش میں بھرلے گا۔ اب کیا کروں، اس نے سوچا۔ شاید وہ (لڑکی؟ وجود؟ نورالسعادۃ؟) چاہتی تھی کہ میر اسے ہم آغوشی اور اس کے بعد کی منازل اور طور طریقوں سے آشنا کرے۔ شاید میر بھی اس سے یہی چاہتا تھا۔ شاید میر بھی ان راہوں کا اجنبی مسافر تھا، یا شاید اس کی ہمت نہ پڑتی تھی اور وہ چاہتا تھا ہر قدم کے ساتھ اجازت بھی حاصل ہو۔ بہ سوے خویشتن از لطف گستاخانہ کش دستم/ کہ من بسیار محجو بم ہم آغوشی نمی دانم۔


اچانک میر کو اپنا ہاتھ چشمۂ نوش تک پہنچتا محسوس ہوا۔ اسے نورالسعادۃ کے بدن کے بارے میں کچھ پتا تھا نہیں کہ پہلے کے دیکھے ہوئے خطوط اور نشانات کے سہارے وہ پہچانتا کہ یہ بدن اسی کا ہے یا کسی اور کا۔ جہاں جہاں اس کا ہاتھ پہنچتا، وہ جگہ پہلے سے زیادہ نرم اور گرم لگتی تھی۔ دل میں عرصے سے کرید تھی کہ کوہ زہرہ تختۂ عطار کی طرح پھسلواں ہوگا یا وہاں سبزۂ لب جو کی کیفیت ہوگی۔ اسے خسرو کی دورباعیاں یاد آئیں جنہیں دل میں بھی دہرانے کی ہمت اس میں نہ تھی۔۔۔ جہاں اس کا ہاتھ تھا وہ مخمل دو خوابہ تھا یا۔۔۔ نورالسعادۃ (اگر وہ نور خانم نہیں تو پھر کون ہے وہ؟) کا سر تکیے پر تھا، بائیں کلائی اور ہتھیلی کچھ نیند اور کچھ تھکن کے انداز میں اس کے ماتھے پر اور اس کی آنکھیں بند تھیں۔ رخ تھوڑا سا میر کی طرف، لیکن چہرے پر توقع یا لطف آئندہ کی پیش آمد کے تاثر کی جگہ متانت آمیز تناؤ، گویا وہ خود نہیں جانتی کہ یہاں کیا ہونے والا ہے۔ یا شاید جانتی تھی لیکن پوچھ نہ سکتی تھی۔ مگر اس موہوم خواب خاتون کے گلے میں آواز تو تھی ہی نہیں، پوچھتی کیسے۔۔۔ تو کیا وہ چاہتی تھی کہ عملاً اسے بتایا جائے؟


اندھیرے میں بھی اس کے چہرے پر روشنی سی تھی۔ اس روشنی میں اس کے گھنے بال تکیے اور پلنگ کی پٹی پر اور فرش پر بکھرے ہوئے۔ میر نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے نکال کر اس کے شانے پر، پھر گردن کے پاس سینے پر رکھا۔ ہلکی سی لرزش تھی، وہاں سینے کا ابھار نرم لیکن مضبوط محسوس ہوتا تھا۔ میر نے سرگوشی میں کہا، ’’نورالسعادۃ، تمہیں سردی لگ رہی ہے؟‘‘ وہ کچھ نہ بولی۔ اتنالمبا اور مربوط خواب کسی نے بھلا کاہے کو دیکھا ہوگا۔ میر نے اپنے دل میں کہا۔ اس کی ڈھونڈتی ہوئی انگلیوں کو گہرائی کا راستہ شاید ملنے والا تھا۔ وہاں ترائی اور ریشمی صنوبر کے جنگل تھے۔ اور اصل راستہ چشم بخیل کی طرح تنگ تھا۔ اس لڑکی نے آنکھ بھی نہ کھولی۔ میر نے دھیرے سے نورالسعا۔۔۔ خواب خانم کا سر ذرا سا اٹھایا اور اپنا دوسرا ہاتھ اس کی گردن میں یوں جھک کر حمائل کردیا کہ دونوں کے منھ پاس پاس آگئے۔ اسے لگا کہ موہوم وجود کے لب بہت ذرا سے وا ہوئے ہیں، اتنے کہ دانتو ں کی گوہریں جھمک دکھائی دیتی ہے۔ میر نے اس کے منھ پر منھ رکھ دیا، لطیف زعفرانی سیب جیسی خوشبو اس کی زبان پر تھی۔ لب برلب من نہادہ می گفت/ جان توبہ لب رسیدہ خاموش۔


سارے بدن میں نرمی گرمی کی سی لہر۔ بے زبان بدن شاید اپنے اظہار کے لیے بے قرار تھا اور لباس اس کے عجزبیان کی دلیل تھا۔ میر نے ذرا جھک کر اور آگے بڑھ کر ہاتھ آہستہ آہستہ نیچے اتارا۔ وہ اس قدر ہلکی تھی کہ ہاتھ کا نیچے کھسکالینا کچھ مشکل نہ تھا۔ (وہ لڑکی موہوم تھی نہ، سب کچھ آسان تھا۔) میر کا ہاتھ اب اس کی کمر اور کولہوں پر تھا۔ وہ پشتۂ دیوار خلد، وہ شمسین محشرزا، وہ قبہ ہاے گلناری اور وہ ان کی نرمی۔ کاش یہ دیوار کاشانی درمیان نہ ہوتی۔ اب میر کا دھڑ پلنگ پر تھا۔ آگے کے لیے جگہ کم تھی مگر نور خانم۔۔۔ خواب موہوم نے اپنا بدن شاید چرالیا، یا جسم نے خود بخود راہ ہموار کردی کہ میر کو بھی اس ذرا تنگ سے بستر پر جگہ مل گئی۔ اب اس دوسرے بدن کے خطوط کچھ نمایاں ہو چلے تھے۔


میر کا ہاتھ کمر اورکولہوں کے نیچے سے (لامحالہ) کھسک کر سامنے کی طرف سینہ و بغل کی لطیف وادی میں سرگرداں تھا۔ دوپستاں ہریکے چوں قبۂ نور/ حبابے خاستہ از عین کافور۔ میر کو جامی کا شعر یاد آیا۔ کاش ذرا روشنی ہوتی۔ تھوڑی سی روشنی گریبان سے تو پھوٹ رہی تھی، گویا صبح ہونے والی ہو۔ پستاں ہمیشہ نوروسینہ اش جملہ لطیف / یک صبح دو آفتاب نشنیدہ کسے۔ کمال ہے یہ شعر میر محمد علی حشمت کا کب اور کہاں یاد آیا۔ میر صاحب تو خود زنانہ اور مردانہ دونوں سامان حسن کا مکمل نمونہ تھے۔ کاش یہ سب شعر میں بآواز بلند پڑھ سکتا۔ مگر لوگ جاگ جائیں گے۔ اور نہ بھی جاگیں تو یہ موہوم بیگم تو شاید سن بھی نہیں سکتیں۔ کسی اور عالم کی مخلوق معلوم ہوتی ہیں۔ بدن میں اس کے تھی ہر جاے دل کش / بجابے جا ہوا ہے جا بہ جادل۔ میر نے ایک عمر کے بعد اسی لمحے کو یاد کرکے یہ شعر کہا تھا۔


نورالسعادۃ خواب۔۔۔ خاتون کا ہاتھ جو ماتھے پر تھا، منھ سے منھ ملتے ہی اب میر کی پیٹھ پر آرہا تھا، پھر جب میر کا ہاتھ سامان حسن کے میر فرش تک پہنچنے کی کوشش میں تھا تو کسی طرح وہ نوری ہاتھ۔۔۔ نورالسعاد۔۔۔ نور کا ٹکڑا ہاتھ نور۔۔۔ اجنبی لڑکی اور میر کے جسموں کے بیچ میں تھا، جہاں دونوں کا سینہ اور شکم ایک دوسرے سے چسپاں تھے۔ پھر وہ ہاتھ چپکے سے اندر تک رینگ گیا۔ میر کو وہم سا ہوا کہ نیچے جو بدن ہے اس نے اپنے عجزبیان پر قابو پالیا ہے۔ بند ڈھیلے ہو رہے ہیں۔


میر کی آنکھ کھلی تو دن نکل چکا تھا۔ اس کے کمرے کا دروازہ حسب سابق کھلا ہوا تھا، صبح کی گلابی کرنوں کے ساتھ طیور کی صبوحی بھی جان و شعور کو سیراب کر رہی تھی۔ طاق میں شمع بجھ چکی تھی۔۔۔ بجھادی گئی تھی؟ ابھی تین انگل موم باقی تھی، اس لیے یہ امکان کم تھا کہ اپنے آپ بجھ گئی ہو۔ رات کی مہمان (نورالسعادۃ؟) کی کوئی نشانی نہ تھی۔ حتی کہ چوڑی کی کرچ، یا چوٹی کا کوئی بادلہ، یا مخمل کا ایک دھاگا بھی نہ تھا۔ بستر پر پسینے کی نمی البتہ کہیں کہیں موجود تھی۔ مگر خود میر کو بستر پر پسینہ بہت آتا تھا۔ طبیب کہتے تھے یہ فشار قلب کے کم ہوجانے کی علامت ہے۔


میر نے تازندگی ہمیشہ قسم کھاکھاکر کہا کہ وہ اس رات جاگا بالکل نہ تھا۔ اگلی صبح جب دن چڑھے اس کی آنکھ کھلی تھی تو اس وقت کے بعد پہلی بار کھلی تھی جب اس نے بھاری چادر سے اپنا منھ ڈھک کر پیٹھ دروازے کی طرف کرلی تھی۔ لیکن وہ اس بات پر بھی قرآن مجید اٹھانے کوتیار تھا کہ اس رات کوئی معاملہ پیش آیا تھا ضرور۔ وہ ماہ پارہ جو بھی رہی ہولیکن تھی ضرور۔ اور یہ بھی نہیں کہ سب کچھ محض خواب میں واقع ہوا ہو۔ انسان سوتے میں بھی جاگنے کے خواب دیکھتا ہے اور جاگنے میں بھی بخوبی سو جاتا ہے۔ اور اگر کوئی شخص سوتے میں اٹھ کر چل سکتا ہے، دوڑ سکتا ہے، عام زندگی کے وظائف انجام دے سکتا ہے، تو سوتے میں وہ معشوق سے بھی یوں ہم آغوش ہوسکتا ہے کہ سب لطف جاگنے کے ہوں۔ رات کوئی آیا تھا، اس کی واحد طبیعی دلیل ادھ جلی شمع تھی۔ شمع کا ادھ جلی رہ جانا اس بات کا ثبوت تھا کہ اسے کسی نے رات میں کسی وقت بجھادیا تھا۔ اگر شمع کو اپنی طبیعی زندگی پوری کرنے دیا جاتا تو وہ پگھل کر، موم کی ایک چھوٹی سی چھپڑی کی شکل میں بجھتی۔


لیکن شمع کو ہوا کا جھونکا بھی تو بجھاسکتا ہے؟ میر کے حجرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا، یہ خود میر کا قول ہے۔ اور اس رات ہوا تیز تھی، اس کی شہادت سب دیتے ہیں۔ رہی بستر پر پسینے کی نمی، تو اس کا حال اوپر بیان ہو چکا۔ اور یہ بھلا کیوں کر ممکن تھا کہ اجنبی جگہ میں اپنا محفوظ کمرہ چھوڑ کر نورالسعادۃ قریب قریب ساری رات کہیں اور رہے؟ اس میں اتنی جرأت تھی اور نہ خانم بزرگ ایسی بے خبر سونے والی تھی کہ یہ سب آنا جانا ہو او روہ خبر نہ ہو؟ اور یہ بات تو بالکل بعید ازقیاس تھی کہ یہ سب ماں کے علم میں رہا ہو۔


نورالسعادۃ اس دن درد سر اور تپ کی وجہ سے اپنے کمرے ہی میں رہی۔ شام کی محفل میں بھی صرف خانم بزرگ اور میاں ہینگانے نغمہ سرائی کی۔ اگلی صبح قافلہ دہلی کے لیے روانہ ہوا تو نورالسعادۃ، جیسا کہ طریقہ تھا، زنانی ڈیوڑھی سے اپنے محافے میں سوار ہوئی۔ کسی کو پتا بھی نہ چلا کہ وہ کون سے محافے میں ہے۔


نورالسعادۃ کا بخار کئی دن تک نہ گیا۔ محمد تقی میر اور کشن چند اخلاص باہر سے خیریت معلوم کرکے واپس ہوجاتے۔ آٹھویں دن جب محمد تقی میر کو باریابی ملی تو دونوں معمول کی گرم جوشی کے ساتھ ملے لیکن زیادہ تر گفتگو نور السعادۃ کی بیماری کے حوالے سے ہوئی۔ اس رات کے باب میں لب کشائی کا یار امیر کو نہ تھا۔ اور نہ اسے اب بھی پوری طرح یقین تھا کہ کوئی آیا بھی تھا۔ ایک خوف اسے یہ کھائے جارہا تھا کہ اگر واقعی نورالسعادۃ ہی اس رات کو آئی تھی تو کیا رات کے تعب اور روحانی تکان کی وجہ سے اس کو بخار آگیا تھا؟ وہ اس قدر نازک مزاج اور نازک بدن تھی کہ اس کے وجود پر جسم سے زیادہ جان کا گمان ہوتا تھا۔ میر نے اس زمانے میں بھی، اور چالیس پچاس برس بعد بھی نورالسعادۃ کی شخصیت کے اس پہلو کو بار بار نظم کیا،


لطف بدن کو اس کے ہر گز پہنچ سکے نہ
جا پڑتی تھی ہمیشہ اپنی نگاہ جاں پر


لبالب ہے وہ حسن معنی سے سارا
نہ دیکھا کوئی اس نزاکت سے اب تک


لطف اس کے بدن کا کیا کہوں میر
کیا جانئے جان ہے کہ تن ہے


کیا تن نازک ہے جاں کو بھی حسد جس تن پہ ہے
کیا بدن کا رنگ ہے تہہ جس کی پیراہن پہ ہے


نازک بدن ہے کتنا وہ شوخ چشم دلبر
جان اس کے تن کے آگے آتی نہیں نظر میں


سچ تو یہ ہے کہ کئی سال بعد میر نے جو ایک شعر معشوق کی نازکی کے مضمون پر کہا تھا، وہ نورالسعادۃ کی ہی نزاکت پر مبنی تھا،


ہوں داغ نازکی کہ کیا تھا خیال بوس
گل برگ سا جو ہونٹھ تھا وہ نیلگوں ہوا

یہ بات میر کے تجربے کی تھی۔ نور السعادۃ کو بوسہ دیتے وقت جس جگہ بھی وہ ذرا دباؤڈال دیتا وہاں چند لمحوں کے لیے ہلکا سا نیل پڑجاتا تھا۔


وہ مہینہ گزرگیا۔ موسم ذرا گرم اور خشک ہوا تو نورالسعادۃکی طبیعت پوری طرح بحال آئی۔ لیکن یہ چار ہی دن کی چاندنی تھی۔ اسے رہ رہ کر ہلکا بخار ہوجاتا۔ بھوک کم ہوگئی تھی۔ بظاہر ضعف کبد کے علامات تھے، اسی کا علاج ہوتا رہا۔


اٹھارویں صدی کی تاریخ ہند سچ پوچھیے تو دغابازیوں اور غداریوں کی تاریخ ہے۔ ایسی ہی ایک دغابازی اعتماد الدولہ کے بھانجے شاہ نواز خان نے کی جب اس نے احمد شاہ درانی (اسے احمد شاہ ابدالی بھی کہتے تھے۔ مرتب) کو ہندوستان پر حملہ اور فتح کی دعوت دی۔ فتح دلانا شاہ نواز خان کا ذمہ تھا، شرط بس یہ تھی کہ بعد فتح ملک کی وزارت مجھے ملے۔


احمد شاہ درانی نے سمجھا تھا کہ جنگل میں جب ہاتھی مرتا ہے تو ان کرگسوں، گیدڑوں، اور کفتاروں کی بن آتی ہے جو سب سے زیادہ ڈھیٹ ہوتے ہیں۔ لیکن پیل بیمار پر پہلا حق اسی کا ہوتا ہے جو اس کا رشتۂ حیات منقطع کرے۔ درانی کی نظر میں شاہ نواز خان کی حقیقت کرگس لنگ سے زیادہ نہ تھی۔ محمد شاہ پادشاہ غازی ان دنوں بستر علالت پر تھا، اور درانی اسے پیل بیمار سمجھ کر اس پر اپنا حق قرار دے رہا تھا۔ لیکن یہ خبر اسے شاہ نواز خان سے نہ ملی تھی کہ بادشاہ کی اولوالعزمی اور صلابت فہم میں کوئی کمی نہ آئی تھی اور وہ احمد شاہ کے مقابلے کے لیے لشکر جرار ترتیب دے رہا تھا۔


دولاکھ کی فوج اعتماد الدولہ کی سربراہی میں دہلی سے سرہند پہنچی اور احمد شاہ کی افواج کے دوبدو ہوئی۔ اعتماد الدولہ کا نائب کماندار ان کا بیٹا معین الملک عرف میر منو تھا۔ اعتماد الدولہ کے خیام کی حفاظت رائے کشن چند اخلاص کے ذمہ تھی۔ محمد تقی میر بھی نواب بہادر کے عملے کے ساتھ شاہی جیوش میں موجود تھا۔ پہلے دن کی لڑائی صرف ہلکی جھڑیوں پر مشتمل تھی، نہ ایں راظفر نہ اور اخطر۔


اتفاق کہ اس دن بھی جمعہ تھا جب اگلے دن ۲۲ربیع الاول ۱۱۶۱ھ (مطابق ۲۲مارچ ۱۷۴۸ء۔ مرتب) کو درانی کی فوجوں نے پھوٹتے ہی محمد شاہ کی فوجوں پر سخت گولہ باری شروع کردی۔ اعتماد الدولہ اپنے خیمے کے اندر چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے کہ بالکل اتفاقیہ ایک گولہ براہ راست ان کے اوپر گرا، اور انہوں نے اسی عالم میں جان جان آفریں کے سپرد کی۔ رائے کشن چند اخلاص اس وقت خود پہرے پر تھا۔ غنیم نے اپنی توپ کے نشانے اور مار کا شاید صحیح اندازہ لگالیا تھا۔ اگلے چار پانچ گولے بھی تابڑ توڑ خیمے کے محاذ ہی میں گرے۔ رائے کشن چند اخلاص کادایاں پاؤں گھٹنے پر سے اور بایاں بازو کندھے کے پاس تک اس درجہ مضروب ہوئے کہ بالآخر انہیں فوری طور پر کاٹنا پڑگیا۔


لیکن جنگ کا نقشہ سنبھالنا اس وقت کی اہم ترین ضرورت تھی۔ معین الملک نے کمال حاضر دماغی اور جرأت سے کام لے کر اعتماد الدولہ کی موت کو چھپائے رکھا اور خود ان کے ہاتھی پر سوار ہوکر مقابلے کو نکلا۔ ادھر کار ساز حقیقی نے یہ انتظام کیا کہ محمد شاہی فوج کاایک گولہ براہ راست درانی کے بارود خانے میں پڑا۔ گولے کی دھمک اور تکان سے بارود خانے میں آگ لگ گئی۔ سینکڑوں سپاہی تو چشم زدن میں کوئلہ ہوگیا۔ آگ جب پھیلی تو درانی کے پاؤں اکھڑ گئے۔ افواج شاہی نے لاہور تک اس کا پیچھا کیا اور اسے بلادہند سے نکال کر ہی دم لیا۔


شہنشاہ ہند نے بستر علالت سے معین الملک کے ناظم لاہور مقرر کیے جانے اور شاہ نواز خان کی بذلت معزولی کا حکم بھیجا۔ معین الملک اپنی موت (محرم ۱۱۶۷، مطابق نومبر ۱۷۵۳۔ مرتب) تک اسی عہدۂ جلیلہ پر فائز رہے۔ ان کی موت کے بعد عماد الملک پھر اپنی چال چل گیا۔ اس نے معین الملک کی بیوہ مغلانی بیگم کو بے دخل کراکے آدینہ بیک خان کے نام پروانہ جاری کرادیا۔ اب کی بار غداری کا افتخار مغلانی بیگم کو نصیب ہوا۔ اس نے نظامت لاہور کے عہدے پر تقرر کی شرط پر احمد شاہ کو دوبارہ ہندوستان پر دھاوے کی دعوت دے دی۔ (لیکن یہ واقعات ہمارے افسانے سے تعلق نہیں رکھتے۔ مرتب۔)


رائے کشن چند کو میر اور دوسرے ساتھی چارپائی پر ڈال کر بہزار دقت دلی لائے۔ ربیع الثانی ۱۱۶۷ھ (مطابق اپریل ۱۷۴۸ء۔ مرتب) کامہینہ شروع ہو چکا تھا۔ خانم بزرگ نے حکم دیا کہ علاج میں کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھا جائے۔ لیکن گرمی کی آمد آمد تھی، ہزار احتیاط کے باوجود زخم پر مکھیاں ایک دوبار آہی جاتی تھیں۔ کشن چند کے زخم بگڑنے لگے، ان میں پیپ پڑگئی اور پٹی نہ بندھ سکنے کے باعث انہیں دن رات ٹھنڈی ہوا اور صاف جگہ کی ضرورت تھی۔ یہ سب کشن چند اخلاص کے کٹڑہ نیل والے مکان میں میسر نہ تھا۔ ایک مہینہ یوں ہی گزرا۔ پھر خانم بزرگ نے رائے کشن چند کے والد اچل داس کی اجازت سے کشن چند کو اپنی حویلی میں اٹھوالیا۔


ادھر محمد روشن اختر محمد شاہ پادشاہ غازی کا طالع حیات بھی مائل غروب تھا۔ شہنشاہ کا بستر علالت بہت جلد ہی مبدل بہ بستر مرگ ہوگیا۔ ۲۷ربیع الثانی ۱۱۶۱ھ (مطابق ۱۶/اپریل ۱۷۴۸ء۔ مرتب) کو اس نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کرلیں۔ اس نے انتیس سال حکومت کی اور حق یہ ہے کہ نادر گردی کے زمانے کے علاوہ اس نے بڑی شان سے حکومت کی۔ احمد شاہ درانی کے خلاف اس کی کامیاب مہم اس کی آخری مہم تھی اور وہ تاریخ کے صفحات پر ’فتح خداساز‘ کہلائی۔ موت کے وقت اس کی عمر کوئی چھیالیس سال تھی۔ دو دن بعد اس کا بیٹا مجاہد الدین ابونصر احمد شاہ کے لقب سے پانی پت میں تخت نشین ہوا۔


مئی ۱۷۴۸ء کی آخری تاریخیں تھیں جب شاعر نغزگورائے کشن چند اخلاص نے بھی آخری سانس لی۔ ۲۲مارچ ۱۷۴۸ء کے حادثۂ توپ کے بعد سے اسے ہوش نہ آیا تھا۔ جب اس نے جان دی ہے تو خانم بزرگ اس کے پلنگ کی پٹی سے لگی بیٹھی تھی، اگرچہ اس وقت تک رائے کشن چند کے زخم اتنے متعفن ہو چکے تھے کہ طبیب اور جراح بھی پاس آنے سے گریز کرتے تھے۔


کشن چند اخلاص کی چتا کو جب آگ دی گئی تو دہلی کے کئی فارسی گو اور قدردانان شعر و سخن نگم بودھ گھاٹ پر موجود تھے۔ میر بھی ان میں تھا۔ بوڑھے اچل داس نے جوان بیٹے کا سوگ دس دن منایا، پھر کلیجے پر پتھر رکھ لیا۔ خانم بزرگ نے کشن چند اخلاص کا سوگ بظاہر اکیس دن منایا، دل کا حال اللہ جانتا ہے۔ میر بھی دیگر اراکین حویلی کی طرح خانم بزرگ کے ساتھ ماتم داروں میں تھا۔ نورالسعادۃ کی مسلسل علالت پر تشویش کے ساتھ اب اسے خانم بزرگ کی بھی فکر لاحق تھی کہ اخلاص کا رنج انہیں بیمار نہ ڈال دے۔


جون ۱۷۴۸ء کا وسط تھا جب ایک ملاقات میں نورالسعادۃ نے میر سے کہا، ’’آج ہماری آخری ملاقات ہے۔ پھر ملنا نہ ہوگا۔‘‘ میر کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا، ’’کیا کہہ رہی ہو؟ میں سمجھا نہیں۔‘‘


’’یہی کہ اماں نے واپس ایران جانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ وہ کہتی ہیں تبریز جاکر ابا کی قبر کی مجاوری کریں گی۔‘‘ اس نے بے رنگ لہجے میں لیکن ذراسی اکتاہٹ کے ساتھ کہا۔


’’اور یہ سارا گھر، یہ سازوسامان، اور سب سے بڑھ کر تم؟‘‘


’’حویلی اور اس کا جو سامان اعتماد الدولہ مرحوم کا ہے، ان کے ورثا کو واپس ہوجائے گا۔ باقی سب کچھ مہینے دو مہینے میں اونے پونے بیچ کر ہم گھر کی راہ لیں گے۔‘‘ لفظ ’’گھر‘‘ نورالسعادۃ نے عجب تلخ اور طنز بھرے لہجے میں ادا کیا تھا۔


’’مگر کیوں؟ آخر یہاں کیا نہیں ہے جو تبریز میں ہوگا؟‘‘ میر نے کہا، ’’اور وہاں کی ہوا بھی تو تم کو موافق نہیں آتی؟‘‘ وہ دلی نہ چھوڑنے کی موافقت میں ممکن دلائل ڈھونڈ رہا تھا۔


’’اب میں بڑی ہوگئی ہوں اور اگر تبریز اب بھی موافق نہ آیا تو میں اصفہان چلی جاؤں گی۔‘‘


اتنی بات کرتے کرتے وہ ہانپ گئی تھی۔ ’’ذرا وہ شربت صدر کا شیشہ اور صاف پیالہ اٹھادو۔‘‘ وہ بولی، ’’اس سے فوری آرام ہوجاتا ہے۔‘‘


’’مگر تم اس قدر بیمار ہو۔ اتنالمبا سفر کیسے طے کروگی؟‘‘


’’میں ایسی بیمار بھی نہیں۔ ویسے، سفر میرے پوری طرح صحت مند ہونے پر آغاز ہوگا۔ اور ایک طبیب ساتھ چلے گا۔‘‘


’’مگر کیوں؟ کیوں؟‘‘ وہ زانو پر ہاتھ مار کر تقریباً چلا کربولا۔


’’شش!دھیمی آواز میں بولو، ورنہ چپ رہو۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے میر کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں لے لیا اور اس طرح اس کے جملے میں جو ذرا درشتی تھی وہ مٹھاس میں بدل گئی۔


’’مگر کیوں؟ جانی و جہانی، آخر کیوں؟‘‘


’’اماں کہتی ہیں کہ اعتماد الدولہ نے ہمیں بلایا، گھر دیا، توقیردی۔ عمدۃ الملک نے ہر طرح کا سلوک کیا۔ رائے کشن چند مثل پروانہ فدا رہا۔ اب یہ تینوں نہیں ہیں تو دہلی میں کاہے کا رہنا۔ اب ہمیں گاڑھے وقتوں میں امان کون دے گا۔‘‘


’’اور تم؟ تم بھی ان سے متفق ہو؟ میرے بغیر تم رہ لوگی، یا ان معاملات میں تمہاری کوئی رائے نہیں؟‘‘


نورالسعادۃ کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ وہ سروقد کھڑی ہوگئی، لڑکھڑائی لیکن پھر بھی سہارا لیے بغیر کھڑی رہی۔


’’میر محمد تقی، میں مرد کے بغیر رہ سکتی ہوں۔ اپنی ماں کے بغیر نہیں۔ تم نے میرے وجود میں رنگ بھرے لیکن یہ وجود ان کا دیا ہوا ہے۔‘‘


وہ ایک لحظہ چپ رہی۔ میر کا سرشرمندگی سے جھکا ہوا تھا۔ لگتا تھا اب روپڑے گا۔ ’’میں جانتی ہوں مجھے صحت نصیب نہ ہوگی۔ تبریز ہو یا دلی، میرے لیے سب برابر ہیں۔ گزشتہ ہفتوں میں اماں نے رائے کشن چند کے سڑتے ہوئے زخموں کی جس جس طرح نگہداشت کی، مرہم پٹی کی، ان کے بھائی اور باپ کے بھی بس کی بات نہ تھی۔ جراح تک ناک پر عطر کا پھاہا رکھ لیتے تھے، اور وہ دن کے آٹھ پہر میں ایک ہی بار آتے تھے۔ میری اماں کی نزاکت طبع کا حال تم جانتے ہو۔ لیکن میں اگر پٹی سے لگ گئی تو کیا تم میری بیمار داری کروگے؟‘‘


’’ک۔۔۔ کروں گا۔ ضرور کروں گا۔‘‘


’’ہونہہ!‘‘ اس نے پیار بھری نظر سے میر کو دیکھا، ’’تم مردوں کو میں خوب سمجھتی ہوں۔ چلو، جانا، تم نے کہہ دیا، یہی بہت ہے۔‘‘ آج اس نے میر کو پہلی بار ’جانا‘ کہا تھا۔ اس کے بدن کا ہر ذرہ جھوم اٹھا۔ لیکن یہ وقت لگاوٹ کی باتوں کا نہ تھا۔ ’’تم مجھے آزماکے تو دیکھ لیتیں۔‘‘


وہ تھوڑا ہنس دی، لیکن اس ہنسی میں استہزانہ تھا۔ ’’خطا معاف، تم آزمائش کے بھی لائق نہیں ہو۔ اچھا یہی بتاؤ مجھے کہاں رکھو گے، کس کا علاج کراؤگے؟‘‘


میر چپ ہوکر رہ گیا۔ وہ بولی، ’’اور دیکھو، میں نے تم سے بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ مجھے تنہائی کی موت کے خواب آتے ہیں۔ میں تنہا نہیں مرنا چاہتی۔ نہ اماں کو خفا کرنا چاہتی ہوں۔ ان کی خفگی بھی تنہائی کی موت لے کر آئے گی۔‘‘


’’تو کیا میں نے تمہاری شرطیں نہیں نبھائیں؟ میں نے تمہیں رسوا نہیں ہونے دیا۔‘‘


’’ٹھیک کہتے ہو تم۔ لیکن میں نے اگر تمہاری زمام اپنے ہاتھ میں نہ رکھی ہوتی تو تمہارا عشق مجھے کوچہ و بازار کی دھوپ میں لاکر ڈال دیتا۔ سب دیکھتے کہ نور خانم پابند کسی کی ہے اور معشوق کسی کی۔ تم میں صبر تو ہے نہیں۔‘‘ وہ مسکرائی۔ اس بار اس تبسم میں شوخی بھی تھی، ’’اپنے شعر بھول گئے تم؟ تم ہی نے تو کہا ہے،


مستوری خوب روئی دونوں نہ جمع ہو ویں
خوبی کا کام کس کی اظہار تک نہ پہنچا


’’خیر چلو، یہ تو ٹھٹھول کی باتیں تھیں۔ سچی بات یہ ہے کہ میں تمہاری احسان مند ہوں۔۔۔ اور حق یہ ہے کہ تم شعر خوب کہتے ہو۔ تم کہتے ہو شعر کی دنیا اور ہے، شاعر کی دنیا اور ہے۔ کوئی ضروری نہیں کہ جو باتیں شعر کی دنیا میں سچ ہوں وہ شاعر کی دنیا میں بھی سچ ہوں۔ ہوگا، لیکن شعر کی دنیا شاید زیادہ سچی ہوتی ہے، کیوں؟‘‘


’’نور خانم، اب مزید شرمندہ نہ کرو۔ میرا بس چلے تو میں تمہیں اپنی کھال کی جوتیاں پہناؤں۔‘‘


’’میری ماں کو دیکھو، انہیں تقدیر نے ساری زندگی ستایا۔ ایک میں ان کا سرمایۂ زیست ہوں، میں انہیں کیسے چھوڑدوں، خاص کر جب میری بھی حیات اب جتنی ہے انہیں کے دم سے ہے۔‘‘


’’میں تمہیں نہ جانے دوں گا۔ مجھے خانم بزرگ سے ایک بار مل لینے دو۔ میں انہیں منالوں گا۔‘‘


’’خانم بزرگ سے ملنے کی راہ میں کوئی حائل نہ ہوگا لیکن تم نے میرے سوالوں کا جواب نہ د یا۔ مجھے کہاں رکھوگے، کیا علاج کروگے میرا، میں پلنگ سے لگ گئی تو کیا میرا بدن صاف کروگے، میرے گندے کپڑے دھوؤگے۔۔۔؟‘‘


’’یہ سب فرضی سوالات ہیں۔ برسرفرزند آدم ہر چہ آید بگذرد۔ میں سب سہارلوں گا۔‘‘


نورالسعادۃ بولی، ’’کہنا آسان ہے۔۔۔ اور ایک بار کا بوجھ ہو تو شاید چیونٹی بھی اٹھالے لیکن روز صبح شام رات اس رنگ میں گزارنا۔۔۔ تم بھی انسان ہو، مرد ہو۔ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ تم ہزار دل و جان سے میری خدمت کرولیکن کبھی بے خیالی میں، بھولے سے بھی تمہارے بشرے پر ناگواری یا اکتاہٹ یا تھکن کا سایہ بھی مجھے دکھائی دے گیا تو میں۔۔۔ میں خدا جانے کیا کرڈالوں، خود زہر کھالوں یا تمہیں ہی زہر دے دوں۔ وہ تمہارے ہی تو بزرگ تھے، منصور حلاج کو خلق خدا کے بے شمار پتھروں نے وہ جراحت نہ پہنچائی جو انہیں شبلی کے ایک پھول سے پہنچی۔۔۔‘‘


میر بے صبری سے بولا، ’’تم امتحان لیے بغیر ہی مجھے نااہل قرار دے رہی ہو۔ یہ بڑا ظلم ہے۔۔۔‘‘


نورالسعادۃ کے منھ پر پیلی سی مسکراہٹ آئی، ’’بدنام ہوگے جانے بھی دو امتحان کو۔‘‘ یہ اس نے کچھ ایسی دل سوزی اور محبت بھرے تردد سے کہا جیسے کوئی ماں اپنے چھوٹے سے بچے کو کسی مشکل کام سے منع کرے کہ یہ تیرے بس کا نہیں، تو مفت ہلکان ہوگا۔ ’’میں تمہیں نااہل نہیں ٹھہراتی، ہرگز نہیں، جانا۔ لیکن میں بشریت کی مجبوریوں اورتقدیر کے جبر، دونوں سے خوب واقف ہوں۔ میری ماں اور ان کے باپ دادا کے گذشتہ حالات سے تم نابلد نہیں ہو۔ ہماری قوم کی تقدیر ہی میں دربدری ہے تو کوئی کیا کرلے گا۔ ہمارا گھر بننے سے پہلے ہی اجڑے گا۔‘‘


’’لیکن نورالسعادۃ، چار دن خوش رہ کر جی لینا دکھ بھری عمر خضر سے بہتر ہے۔‘‘ میر نے کہا۔


’’خوشی کسے کہتے ہیں؟ اور کس کی خوشی؟ کیا تم بھول گئے کہ ہم یہاں خوش رہنے کے لیے نہیں کٹنے مرنے اور بھبک بھبک کر جلنے بجھنے کے لیے لائے گئے ہیں؟‘‘


میر سے کوئی جواب نہ بن پڑا، ’’جسم اور جان میں مسرت کی ایک بوند زہر بھرے سمندر کو بھی ٹھنڈا کر سکتی ہے۔‘‘ وہ ٹھہر ٹھہر کر بولا، ’’لیکن۔۔۔‘‘


’’ہاں! یہی لیکن تو سب کچھ ہے۔ کب تک کے لیے کوئی جیے اور کس کی خوشی کے لیے جیے؟ میری ماں کی خوشی میری زندگی میں ہے اور تم جانتے ہو میں اماں کے ساتھ رہی تو شاید کچھ دن اور جی لوں گی اور انہیں خوش رکھ کر جی لوں گی۔ تمہارے پاس رہی تو شاید اور کم جیوں اور اماں کو ناخوش الگ کروں۔ تم ہزار میرا ساتھ دو لیکن جب مجھے موت آئی اور میں تنہا رہی، تو میں تہیں بددعا بھی نہ دے سکوں گی۔‘‘


اس نے آنسو خشک کیے، پہلے میر کے، پھر اپنے۔ ’’دیکھو اب مجھ سے ملنے نہ آنا۔ اماں بلائیں تو بھی نہ آنا۔‘‘ وہ زاروقطار روئی، ’’اس بار تو میں نے کسی طرح اپنے دل کو سمجھالیا۔ دوسری بار تمہیں دیکھوں گی تو مجھے کسی چیز پر قابو نہ رہے گا۔‘‘ وہ دیوان کے تکیے میں منھ ڈال کر روتی رہی۔ میر کب اٹھ آیا، اس نے دیکھا نہیں۔


اس گفتگو کے اگلے ہی دن نورالسعادۃ پلنگ پر پڑگئی۔ کئی دن بعد اطبا نے تشخیص کی کہ اسے بھی اپنے باپ کی طرح رنج باریک لگ گیا ہے اور بایزید کی تو صرف ہڈیاں متاثر تھیں، نورالسعادۃ کا پیٹ بھی اس کی زد میں آچکا تھا۔ اب اس کی زندگی سال چھ مہینے سے زیادہ نہ رہ گئی تھی۔ اسے روز شام کو تپ آجاتی لیکن جس وقت تپ نہ ہوتی اس وقت بھی اس کا جی نڈھال رہتا۔ بھوک اسے بالکل نہ لگتی تھی۔ اس پر ظلم یہ کہ ہر دوا اسے فائدے کے بجائے نقصان کرتی تھی۔ دوا پیتے ہی اسے قے ہوجاتی۔ ایک مہینہ مشکل سے گذرا ہوگا کہ وہ ہڈیوں کی مالا بن کر رہ گئی۔ اس کی غذا صرف ابالے ہوئے تازہ انجیر تھے اور اس کی دوا شیخ الرئیس کی قرابادین کے مطابق تیار کیا ہوا شربت صدر۔ یہ دوچیزیں تو وہ حلق سے اتارلیتی اور کسی شے کی طرف دیکھنا بھی اسے گوارا نہ تھا۔


لبیبہ خانم رو رو کر نورالسعادۃ سے کہتی کہ میر محمد تقی کو بلوادوں، میرے بچے کا دل بہل جائے گا۔ لیکن نورخانم کی ایک نہیں تو ہزار نہیں تھی۔ آخر ایک دن لبیبہ خانم نے کہا کہ تبریز جانے کا ارادہ ملتوی کردیں تو کیسی رہے؟ اور میرا چا ند، میری گڑیا اگر چاہے تو ارادہ منسوخ ہی کردوں۔‘‘


’’اماں آپ کا فیصلہ ٹھیک تھا۔ دہلی ہمارے رہنے کی جگہ نہیں۔ اور آپ کو ابا کے ساتھ اپنا وعدہ بھی پورا کرنا ہے۔‘‘ وہ رو کر بولی، ’’اور میں آپ کی آغوش میں مرنا چاہتی ہوں۔ ابا کو آپ نے جو سکون ان کے مرتے وقت پہنچایا اس کی میں بھی مستحق ہوں۔‘‘


’’تیرا حق سب حق ہے جانا۔ میری جان کوئی لے لے اور تجھے اچھا کردے، اچھا نہ کردے تو دوچار برس تیرے لیے آرام کی زندگی اور بڑھادے، تویہ بھی حق ہوگا۔‘‘


’’اب میں جینا بھی نہیں چاہتی اماں جانی۔ دہلی چھوڑ کر جینا کوئی جینا نہیں۔ اور آپ کو دلی سے نہ جانے دوں تو یہ تیسری موت آپ پر عائد کرنے کا مجھے حق کیا؟ اور آپ نہ ہوں گی تو میں پھر بھی اکیلی ہوجاؤں گی۔ ہم سب ایک دوسرے سے اس طرح بندھے ہوئے ہیں کہ نہ آزاد ہوسکتے ہیں اور نہ ایک دوسرے کو آزاد کرسکتے ہیں۔‘‘ وہ بڑی دیر چپ رہی، پھر کہنے لگی، ’’اماں، رخصت سفر جلدی تیار کرالیتیں تو خوب تھا۔ میں یہیں مرگئی تو کہیں کی نہ رہوں گی۔ ہوسکے تو مجھے ابا کے پاس ہی گاڑیے گا اماں۔‘‘


سامان سفر طے کرتے ایک مہینہ اور لگ گیا۔ سب سے بڑا سامان تو کوئی مناسب قافلہ تھا جو انہیں تبریز نہیں تو اصفہان یا طہران تک لے جاتا۔ پھر اس قافلے کا، رہبروں کا اور محافظوں کا انتظام بھی ہوگیا۔ ایک تجربہ کار طبیب بھی ساتھ چلنے کو راضی ہوگئے۔ محمد تقی میر سب خبر رکھتا تھا، جس دن یہ لوگ دہلی سے چلے ہیں، وہ پھاٹک حبش خان کے نکڑ پر آدھی رات سے آکر ٹھہر گیا تھا۔ صبح ہوئی تو جانے والوں نے کوچ کیا لیکن نورالسعادۃ کا محافہ ہر طرف سے بند تھا۔ میر کو اس کی ایک جھلک کیا، چوڑی کی کھنک تک نہ سنائی دی،


وہ کیا چیز ہے آہ جس کے لیے
ہر اک چیز سے دل اٹھا کر چلے


کوئی ناامیدانہ کرتے نگاہ
سو تم ہم سے منھ بھی چھپاکر چلے


اعتماد الدولہ اور عمدۃ الملک کے یہاں سے بھی کچھ لوگ الوداع کہنے آئے تھے۔ حویلی کے متوسلین اور متعلقین تو تھے ہی، پاس پڑوس کے بھی لوگ تھے۔ کشن چند اخلاص کا بوڑھا باپ آنکھوں سے معذور ہوچکا تھا لیکن پالکی میں سوار ہوکر آیا تھا۔ فضا میں دور تک سسکیوں کا طویل سلسلہ تھا۔


سفر کے بیسویں دن وہ ہرات سے تین دن کے فاصلے پر تھے۔ نورالسعادۃ پر اب غشی سی طاری تھی۔ اس کے طبیب نے خانم بزرگ سے کہا کہ اگر دھاوے کے طور پر چلیں تو ایک دن ایک رات میں ہرات پہنچ سکتے ہیں۔ مریضہ کو قیام اور آرام کی سخت ضرورت ہے۔ پھر ہرات میں بعض نامور اطبا بھی ہیں۔ انہیں شاید کوئی بات سوجھ جائے۔ ورنہ مجھے ڈر ہے کہ صاحب زادی تیسرے دن کا سورج نہ دیکھیں گی۔


اپنے لوگوں کو، جن کی تعداد تیس تھی، قافلے سے الگ کرکے خانم بزرگ نے دھاوے کا حکم دیا۔ وہ سارا دن چلتے گئے۔ شام ہوتے ہوتے چڑھائی کی راہ ختم ہوکر اتار شروع ہوتا تھا۔ لیکن ابھی وہ کچھ ہی دور گئے تھے کہ اچانک بارش شروع ہوگئی۔ اتار کی راہ، رات کا وقت، ہرطرف خطرہ ہی خطرہ تھا مگر خشک راہ پر سفر کسی نہ کسی(طرح) جاری رہ سکتا تھا۔ بارش میں تو اس کا کوئی امکان نہ تھا۔ رکنے میں بھی جوکھم تھے، لیکن کسی محفوظ جگہ پر خدا کے سہارے رات گزاری جاسکتی تھی۔ قافلے کو وہیں روک کر خانم بزرگ نے دو تجربہ کار راہبروں کو آگے بھیجا کہ پہاڑ کا کوئی محفوظ غار، یا کسی پہاڑی کا چھجا ایسا ڈھونڈیں جو بارش اور ہوا سے انہیں کچھ عافیت دے سکے۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد انہوں نے واپس آکر خوش خبری سنائی کہ محفوظ جگہ مل گئی ہے۔ ممکن حد تک تیز قدم رکھتے سارے اہل قافلہ نے مقام مصئون پر پہنچ کر خدا کا شکر ادا کیا۔ بارش بھی اب ہلکی پڑتی معلوم ہوتی تھی۔ اگر تقدید اچھی رہی تو صبح کاذب کے پہلے پہلے وہ سفر دوبارہ شروع کرسکتے تھے۔


نورالسعادۃ پر غشی ویسی ہی تھی لیکن اب شاید سردرات کی بارش اور ہوا کی وجہ سے اس کی سانس کھڑکھڑاتی ہوئی سی آرہی تھی۔ طبیب نے خرمہرہ گھس کر اور کچھ دعا پڑھ کے ایک ذرا سا اس کی زبان پر رکھا تو اس کی حالت بظاہر کچھ بہتر ہوئی، سانس کے عمل کا شور کم ہوگیا۔


لبیبہ خانم ساری رات بیٹی کا منھ تکتی رہی۔ جب نور خانم کی سانس کی آواز ہلکی پڑنے لگی تو اس نے سمجھا کہ دوا نے پورا اثر دکھادیا ہے۔ دفعتاً نورالسعادۃ نے اپنا ہاتھ بڑھایا، جیسے کچھ ٹٹول رہی ہو۔ ماں نے بیٹی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر دعا پڑھنی شروع کی۔ وہ صبح تک دعائیں پڑھتی رہی۔ نورالسعادۃ کی جان کب نکلی، اسے معلوم نہ ہوا۔


نورالسعادۃ کی قبر ہرات میں بنی۔ لوح مزار پر بس اتنا لکھا گیا،


نورالسعادۃ
بعمر ہفدہ سال و ہفت ماہ از دامن مادر برفت
گشتہ جدازدیدہ و داماں چگونہ ای


لبیبہ خانم نے قبر پر ایک چھوٹا سالیکن پرفضا اور خوبصورت روضہ بنوالیا۔ اسی کے پاس ایک حجرے میں وہ بھی دن رات رہتی۔


قافلے والوں، اور طبیب کو اس نے دونے چوگنے انعام و اعزاز کے ساتھ رخصت کیا۔ محمد تقی میر کے لیے چاندی کی تارکشی کے صنوبری شکل کے ڈبے میں نورالسعادۃ نے اپنے بالوں کی ایک چھوٹی سی لٹ پہلے سے رکھ چھوڑی تھی۔ اس کے ساتھ اپنی بے مثال خطاطی میں اس نے بیدل کے یہ شعر ایک پرچہ کاغذ پر لکھ دیے تھے کہ میری موت کے بعد انہیں بھی محمد تقی میر کو بھجوادیں۔


ز جنس شکست آنچہ پیدا شود
بریں آستاں قیمتش وا شود


شکست تو ایں جا درستی نماست
کہ بحر کرم سربسر مومیاست


محیطے کہ رنگ گہر نقش بست
نہ خواہد ز امواج غیر از شکست


سلامت نمی زیبد از ساز موج
شکست است انجام و آغاز موج


برآں گل کند گریہ ابر بہار
کہ رنگ شکستن نہ کرد اختیار


داستان گل و سنگ کی یہ آخری متاع دہلوی طبیب نے بچشم نم خانم بزرگ کے ہاتھوں سے لے کر بحفاظت محمد تقی میر کو پہنچادی۔


میر نے کئی بار ارادہ کیا کہ اپنی جان دے دیجیے لیکن جب بھی وہ اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے کوئی قدم اٹھاتا، نورالسعادۃ کی شبیہ اس کے سامنے آجاتی اور ہر بار اس طرح، جیسے وہ اسے کوئی کاغذ یا خط دے رہی ہو۔ میر نے پہلے تو اس کو محض واہمے کا کھیل اور جیتے رہنے کی فطری خواہش کے لیے ایک بہانہ سمجھا۔ لیکن کچھ مدت بعد وہ نورالسعادۃ کو خواب میں بھی دیکھنے لگا۔ شروع میں اس کا خواب بس یہی ہوتا کہ نورالسعادۃ اسے کوئی کاغذ دے رہی ہے۔ پھر وہ یہ دیکھنے لگا کہ صرف ایک پرچہ کاغذ نہیں بلکہ پورا دفتر ہے۔ آخر آخر میں وہ نورالسعادۃ کو کاغذ قلم لے کر کچھ لکھتے ہوئے دیکھنے لگا۔ ہر خواب میں وہ یہ بھی دیکھتا کہ میں نورالسعادۃ کے پیچھے جاکر اس کے شانوں پر سے جھانک کر دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ کیا لکھ رہی ہے۔ کہیں وہ مجھے خط تو نہیں لکھ رہی؟ کہیں وہ کچھ پیغام تو نہیں کہلانا چاہتی؟ لیکن جیسے ہی وہ اس کے قریب آتا، وہ ہوا میں گھل کر غائب ہوجاتی۔


نورالسعادۃ کے جانے کے بعد میر کی شعرگوئی ترک ہوگئی تھی۔ اسے لگتا تھا کہ باب سخنوری و سخن رانی اس پر تیغا ہوچکا ہے۔ اور یہ ٹھیک بھی تھا، کہنے کے لیے اب کچھ رہا نہ تھا۔ دل کی داستان کو کاغذ پر لانے کے لیے آدمی کا نہیں، شیر کا جگر درکار ہوتا ہے، اور بات پھر بھی ٹھیک سے کہی نہیں جاتی۔ رفتہ رفتہ خودکشی کے ارادے دھندلے پڑتے گئے اور اسی لحاظ سے اس کے خواب بھی دھندلاتے گئے۔ اسی زمانے میں، نورالسعادۃ کی سناونی سننے کے سواڈیڑھ سال بعد، اس نے پہلی بار شعر کہا،


نشاں اشک خونیں کے اڑتے چلے ہیں
خزاں ہو چلی ہے بہار گریباں


یہ شعر کہہ کر وہ اس قدر رویا کہ نورالسعادۃ کے جانے پر بھی اس قدر نہ رویا تھا۔ اب اسے معلوم ہوگیا تھا کہ دنیا اس پر حاوی آگئی ہے۔ اب اسے یہ بھی معلوم ہوگیا تھا کہ وہ چاہتے ہوئے بھی نورالسعادۃ کی خدمت اور تیمارداری اس طرح نہ کرسکتا تھا جس طرح کی خدمت اور تیمارداری کا حق وہ اس پر رکھتی تھی۔


لبیبہ خانم بھی کچھ دن بعد بیٹی کے روضے پر نظر نہ آئی۔ شاید وہ تبریز چلی گئی، شاید نہیں گئی۔ یا شاید گئی اور وہاں کچھ دن شوہر کے مزار پر رازونیاز کرنے کے بعد کہیں اور جارہی۔ یا شاید وہ گئی مگر راستے ہی میں کہیں مرکھپ گئی۔ اصفہان اور ہرات میں وہ بہرحال پھر نہ دکھائی دی۔