اک کہانی
ہم پر تھی پیارے بچو نانی کی مہربانی
روزانہ رات کو وہ کہتی تھیں اک کہانی
اک رات کو سنایا برسات کا فسانہ
کہنے لگیں کہ موسم اک روز تھا سہانا
تھا دیکھنے کے قابل فوارہ آسمانی
دریا سے لا کے بادل برسا رہے تھے پانی
تالاب بن گیا تھا آنگن ہمارے گھر کا
ٹہنی پے اس کی بچو بیٹھا تھا ایک طوطا
اس کو جھلا رہا تھا آ کر ہوا کا جھونکا
دالان میں سے بلی طوطے کو تک رہی تھی
لالچ میں رال اس کی گویا ٹپک رہی تھی
جلدی سے اس نے حملہ پرچھائیں پر کیا جو
طوطا نہ ہاتھ آیا پانی میں گر گئی وہ
پچھتائی اپنے دل میں گھبرا کے آئی گھر میں
آخر تو جانور تھی کامل نہ تھی نظر میں
بچو خدا نے تم کو بخشی ہے ہوشیاری
ہر کام سے ہو ظاہر دانشوری تمہاری