ابن طفیل کا تخلیق کردہ کردار ، حئی بن یقضان

 

نیاز فتح پوری نے مولانا ابوالکلام آزادؒ کے ذکر میں لکھا تھا  کہ ایک بار حکماء اسلام کے سلسلہ میں ابنِ طفیل کا ذکر آگیا تو مولانا نے اس کی مشہور کتاب  " حئی   بن یقظان" کی ساری داستان ایک نشست میں اس طرح سنادی گویا وہ اس کے حافظ تھے ۔

 

اسی تذکرہ نے ابنِ طفیل اور اس کی کتاب کے متعلق  جستجو پیدا کی  ۔

ابو بکر محمد بن عبد الملک بن محمد بن طفیل القیسی 1110ء کو غرناطہ کے نواح میں پیدا ہوئے۔ ان کے ابتدائی حالات تاریکی میں ہیں۔ ابنِ طفیل نے طبابت کا پیشہ اختیار کیا ۔ 1154ء میں طنجہ کے گورنر کے سکریٹری مقرر ہوئے اور پھر الموحد خاندان کے فرمانروا ،ابو یعقوب یوسف   کے دربار میں پہنچے جہاں انہیں وزیر مقرر کیا گیا اور عہدۂ قضا بھی انہیں کے سپرد تھا ۔ مشہور فلسفی ابنِ رشد کو انہوں نے ہی شاہی دربار تک پہنچایا تھا ۔

ابنِ طفیل نہ صرف طبیب ، بلکہ ماہرِ الٰہیات ، فلکیات ، فلسفی اور ناول نگار بھی تھے ۔ ان کی کتابوں میں صرف ایک کتاب " اسرار الحکمۃ  المشرقیہ"   (حئی بن یقظان ) محفوط رہی ۔

ابنِ طفیل کا انتقال 1185ء میں طنجہ میں ہوا ۔

حئی بن یقظان ایک فلسفیانہ ناول ہے جس میں افلاطونیتِ جدیدہ کے مسائل کوا فسانے کی شکل میں پیش کیا گیا ہے ۔

اس ناول کے مقدمہ میں ابنِ طفیل نے پہلے مسلم فلاسفی کی تاریخ پر تبصرہ کرتے ہوئے ابنِ سینا ، ابنِ باجہ اور غزالی کی تعریف کی ہے ۔ اور پھر یہ ثابت کیا ہے کہ فلسفہ کی اصل غائت ذاتِ خداوندی سے متحد کردینا ہے اور یہی فلسفہ صوفیا کا ہے ۔

قصہ یوں شروع ہوتا ہے

ایک شہزادی  نےاپنے لڑکے کو، جس کا باپ نہ تھا ،سمندر میں ڈال دیا  اور یہ بہتا بہتا ایک سنسان جزیرے میں پہنچ گیا ۔  اس موقع پر وہ اس نظریہ کو پیش کرتے ہیں کہ اول اول زمین میں گرمی سے جو کیفیت خمیر کی پیدا ہوئی تھی اس سے جاندار کی تخلیق ہونا ممکن تھی ، ابنِ طفیل نے اس کا نام  حئی  ( زندہ ) رکھا  ۔  اس لڑکے کو ایک ہرن لے گیا  اور اسی ہرن نے  اس کی پرورش کی ۔ جب حئی نے ہوش سنبھالا  تو دیکھا  کہ وہ دوسرے جانوروں کی طرح ننگا اور غیر مسلح تھا ،اس لئے اس  نےپتوں سے جسم کو ڈھانکا  اور درختوں کی شاخ سے لکڑی توڑ کر ایک چھڑی تیار کی  ۔اس طرح سب سے پہلے اسے اپنی ہاتھ کی قوت کا علم ہوا  ۔ رفتہ رفتہ وہ شکاری بن گیا اور اپنی رہائش کے لیے ایک  جھونپڑا  بھی تیار کر لیا ۔

جب ہرن بہت بوڑھا ہو کر بیمار پڑگیا  تو  اس لڑکے نے سوچا کہ بیماری کیا چیز ہے اور اس کا سبب کیا ہے ۔پھر وہ یہ سوچ کر کہ بیماری کا تعلق سینہ سے ہے وہ اسے ایک تیز نوکدار پتھر سے چیرنے لگا۔  اس طرح اسے دل ، پھیپھڑے اور اندرونی اعضاء کا علم ہوا اور اسی کے ساتھ وہ یہ بھی محسوس کرنے لگا  کہ جسم کے اندر کوئی اور چیز  ایسی تھی جو نکل گئی  تو اس کے باعث ہرن بے حس و حرکت ہو گیا۔ جب ہرن کا جسم سڑنے لگا تو حئی نے ایک کوے کو دوسرے کوے کا مردہ جسم زمین کھود کر اندر گاڑتے ہوئے دیکھ کر خود بھی ہرن کا جسم زمین میں دفن کر دیا۔

اس کے بعد اتفاق سے خشک شاخوں کی باہمی رگڑ سے آگ پیدا ہوتے دیکھ کر  اس نے   خود بھی آگ سے جان پہچان بنائی ۔اسی کے ساتھ اس گرمی کی طرف بھی اس کا خیال منتقل ہواجو جسمِ حیوانی میں پائی جاتی ہے اور وہ جانوروں کی کھال نکال کر ان کی جسمانی حرارت پر غور کرنے لگا ۔اس کی ذہانت اب ایک قدم اور آگے بڑھی ۔

یعنی وہ کھالوں کے لباس بنانے لگا ۔ اس نے روئی کاتی  ، سوئی بنائی  اور   چڑیوں کے گھونسلے دیکھ کر مکان تیار کیا۔   شکاری پرندوں کو دیکھ کر خود بھی شکار کرنا شروع کیا۔   چڑیوں کے انڈے کھا نے لگا  اور جانوروں کے سینگوں سے ہتھیار کا کام لیا۔  

اب اس کا علم بڑھتے بڑھتے فلسفہ کی صورت اختیار کر گیا ۔ وہ رفتہ رفتہ نباتات و معدنیات  کا مطالعہ کرنے لگا۔  اعضاء ، وزن اور دیگر خصوصیاتِ طبعی کی بنا پر جانوروں کی قسمیں مقرر کیں  ۔ آخر میں وہ روح پر غور کرنے  لگا۔  جس کا تعلق اس کے نزدیک دل سے تھا اس نے روح کی دو قسمیں ( روحِ  نباتی ، روحِ حیوانی ) قرار دیں۔  اس کے بعد اس نے  عناصرِ اربعہ کا علم حاصل کیا   اور مٹی پر غور کرتے کرتے اس کا خیال مادہ کی طرف منتقل ہوا۔ پانی کو بخار ( بھاپ ) میں تبدیل ہوتے  دیکھ کر وہ اس نتیجہ پر پہنچا  کہ ایک مادہ دوسرے مادہ میں تبدیل ہو سکتا   ہے اور پھر اس کا خیال علتِ تخلیق کی طرف منتقل ہو کر خالق تک پہنچا  اور زمین سے ہٹ کر اب اس کی نگاہیں آسمانوں کی طرف مائل ہوتی  نظر آئیں ۔ اس نے سوچا کہ کیا یہ کائنات غیر محدود ہے؟

 لیکن اس کی عقل اس بات کو قبول نہیں کر رہی تھی۔ اس نے سیاروں کے کُروی ہونے کا گمان کیا۔ آخر کار رفتہ رفتہ ایک خالق یا خدا کا تصور اس کے ذہن میں پیدا ہوا   جسے حئی  بن یقظان نے آزاد اور صاحبِ علم و ادراک تصور کیا   اور پھر روحِ انسانی کو  بھی غیر فانی قرار دے کر ذاتِ خداوندی سے اس کے ربط و تعلق پر غور کرنے لگا۔    ایک زمانہ  اس نے اسی فکر و مراقبہ میں گزارا۔  

اس  موقع پر  قریب کے جزیرہ سے ایک شخص اسال وہاں  پہنچا ، جو ایک  الہامی مذہب  کا پیامبر تھا   ۔وہ دونوں ایک دوسرے سے تبادلۂ خیال کے بعد اس نتیجے پر پہنچے  کہ اسال جس مذہب کا پابند ہے وہ دراصل وہی ہے جس تک حئی  سالہا سال کے غور و فکر سے پہنچا۔    پھر اسال  نے اسے آمادہ کیا   کہ وہ جزیرہ جا کر وہاں کے بادشاہ سلامان کو اس حقیقت سے آگاہ کرے  کہ ایک خدا پر ایمان لاؤ اور فطرت کے قوانین کو مت توڑو۔ لیکن سلامان پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔   آخر کار حئی اور اسال دونوں واپس آ گئے   اور صحرا میں رہ کر فکر و مراقبہ میں انھوں نے اپنی زندگی تمام کر دی۔

 

 

ابنِ طفیل کی اس عربی کتاب پر حواشی بھی لکھے گئے اور اس کتاب  سے نصیر الدین طوسی اور جامی نے بھی استفادہ کیا ہے ۔

اس کتاب سے مغربی مصنفین نے بھی  بہت فیض حاصل کیا ہے ۔انگریزی کے مشہور ناول  ٹارزن  میں ہیرو کی تربیت کا تصور اسی کتاب سے استفادہ کا ثبوت ہے ۔ انگریزی ہی کے ایک اور مشہور ناول  رابنسن کروسو  (Robinson Crusoe)  کی تخلیق میں اس کے مصنف ڈینیل ڈیفو (Daniel Defoe) نے اسی ناول کی تقلید کی ہے ۔ لئیون گوئیٹے نے  حئی بن یقظان  کے مقدمہ میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ رابنسن کروسو میں فرائی ڈے کا کردار ، اسال کا چربہ ہے اور اس میں جو فلسفیانہ نکتہ سنجی اور حکیمانہ موشگافیاں پائی جاتی ہیں وہ بھی اسی سے ماخوذ ہیں لیکن اسلوب عصرِ جدید کے مطابق ہے ۔

جوناتھن سوِفٹ (Jonathan Swift) اپنی کہانی  گلیورز ٹریولز (Gulliver`s Travels)  کی تالیف میں "حئی بن یقظان"  ہی کا مرہونِ منت ہے ۔

بون یونیورسٹی کے پروفیسر روڈلف نیس نے اپنے ناول  خاندان سوئزر لینڈ  میں اسی عربی کتاب کا تتبع کیا ہے ۔

1671  میں اس کتاب کا ترجمہ ایڈورڈ پوکوک نے لاطینی میں کیا ۔ اس کا ترجمہ فرانسیسی ، انگریزی ، جرمن ، ہسپانوی ، ولندیزی اور اردو میں ہوچکا ہے ۔ 1900ء میں اس کا ایک ترجمہ عبرانی زبان میں بھی کیا گیا ہے ۔

اشویل نے اپنے انگریزی ترجمہ کے مقدمہ میں ابنِ طفیل پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ۔

"ابو بکر ابنِ طفیل مشہور مسلمان فلسفی ہے۔ اس نے اپنے قصہ میں ارتقاء عقلِ انسانی کے مدارج واضح کیے ہیں اور نہایت چابک دستی سے راز ہائے کائنات کا انکشاف کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس کی دقتِ مشاہدہ حوادثِ کون و مکاں کی تفسیر میں ظاہر بین ہے ۔"  

 

بشکریہ : نگار

سالنامہ 1955ء