حسن کو سمجھتا ہے عشق ہم زباں اپنا
حسن کو سمجھتا ہے عشق ہم زباں اپنا
ہے حقیقت ایسی ہی یا ہے یہ گماں اپنا
فاش ہم کریں کیونکر راز مدعا یابی
گم حصول مقصد میں حاصل بیاں اپنا
کارساز ہے کتنی دید و باز دید اپنی
مل گیا صلہ ہم کو بعد امتحاں اپنا
لطف رنجش بے جا آج دونوں پاتے ہیں
مسکرا رہے ہیں وہ دل ہے شادماں اپنا
ان کی دل فریبی کا یہ جواب ہے ورنہ
مجھ سا بد گماں سمجھے ان کو مہرباں اپنا
کارواں کے بھی ملتے کچھ نشاں یہ نا ممکن
کچھ اثر تو چھوڑے گی یاد کارواں اپنا
درد آشنا دل کو دیکھ کر میں کہتا ہوں
یاس دے نہیں سکتی آس کو مکاں اپنا
بیکسی کی منزل سے جس کی حد نہیں ملتی
اس زمیں پہ کھینچیں ہم کس طرح نشاں اپنا
کیا علاج ہے منظورؔ اس جنوں خرامی کا
منفعل ہوں مجنوں کو کہہ کے ہم عناں اپنا