حکم دے قرطاس پر رنگیں نظارہ پھونک دوں

حکم دے قرطاس پر رنگیں نظارہ پھونک دوں
مصرع تر میں سنہرا استعارہ پھونک دوں


رمز کی بارہ دری میں ضبط واجب گر نہ ہو
میں تیقن سے تعجب کا منارہ پھونک دوں


مشتری کا تاج پہنے زحل پر اسوار ہوں
گاہ سیارہ جلاؤں گاہ تارا پھونک دوں


ہاں اسی دریا تلے آئندگاں کا شہر ہے
آتشیں لب سے اگر پانی کا دھارا پھونک دوں


ایک فوارے کے گیسو ایک چوبارے کی آنکھ
چشم نظارہ جلا کر ہر اشارہ پھونک دوں


قلب سے اٹھتی ہوئی شاخ تموج حکم دے
کیا تنفس کے شرر سے باغ سارا پھونک دوں