ہوٹل سلازار

واشنگٹن سکوائر کے جنوب مشرقی کونے سے جو سڑک پھوٹتی ہے، اس پر چند فرلانگ کے فاصلے پر ہوٹل سلازارواقع ہے۔ یہ اس صدی کے اوائل کے طرز تعمیرکا نمونہ، ایک سادہ، بے رنگ عمارت ہے جس کی دیواریں مسلسل بارشوں سے کائی زدہ ہیں۔ اس کا اوپر والا حصہ کالے سیاہ رنگ کا ہے۔ سنا ہے کہ یہ بیس برس پہلے آگ کی لپیٹ میں آگیا تھا۔ نجانے کیوں، اسے اسی رنگ میں محفوظ کردیا گیا، اور اب یہ خستہ حال سرمئی آخری منزل اپنی اندھی آنکھوں سے اردگرد کی جدید تر عمارتوں میں قدامت کی انفرادیت لیے ، راہگیروں کی توجہ کھینچتی ہے۔
ہوٹل کی تنگ ڈیوڑھی میں داخل ہوتے ہی داہیں جانب لکڑی کا تنگ زینہ گذرے وقتوں کی یاد دلاتا ہے۔ بائیں جانب استقبالیہ (Reception) کا لکڑی سے بنا ڈبہ نما کمرہ ہے جس کی کھڑکی ڈیوڑھی میں کھلتی ہے۔ اس کھڑکی میں ہر وقت یا تو لحیم شحیم حبشی مہماندار (Receptionist) یا موٹی توند والابرازیلین منیجر براجمان رہتا ہے۔ زینے اور اس لکڑی سے بنے ڈبہ نما کمرے کے درمیان ایک ننھی منی لفٹ موجود ہے۔ اگرکوئی چیز ہوٹل کی گذشتہ گھٹیا شان و شوکت کی یاد دلاتی ہے تو وہ ہوٹل کی یہی لفٹ ہے جس کی اندرونی دیواروں پر سیاہی مائل کلیجی رنگ ویلوٹ منڈھی ہے۔ لفٹ کی تین دیواروں پر قد آدم آئینے بھی جڑے ہیں اور دروازے کا اہتمام یوں ہے کہ جب دونوں پٹ بندہوجائیں تو دونیم آئینہ یک جان ہو کر باقی تین دیواروں کی مانند ثابت و سالم قد آدم آئینے کا روپ دھارلیتا ہے۔ اس لفٹ کی خوبی یہ ہے کہ آپ نرگسیت کا شکار ہوں یا نہ ہوں اپنے عکس سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔
لفٹ بہت پرانی ہونے کے سبب ہر وقت کراہتی رہتی ہے۔ اس کے کل پرزے، چولیں، سب وقت کے ہاتھوں زخم خوردہ ہیں۔ اسی لیے یہ چوں چوں کرتی انتہائی سست روی سے اوپر کی طرف سفر کرتی ہے جیسے کوئی بڑھیا ہانپتی کانپتی چڑھائی چڑھ رہی ہو۔ ہوٹل کے اکثر گاہک اپنے حق میں بہتر سمجھتے ہیں کہ وہ لکڑی کے زینے سے اوپر نیچے آئیں جائیں۔ ویسے بھی لفٹ تنگی دامن کی بنا پر ایک وقت میں صرف ایک مسافر بے سروسامان کی متحمل ہوسکتی ہے۔ اگر مسافر مع سامان ہے تواسے کون اتارے گا، اگر خود لفٹ میں چلا جاتا ہے توسامان کیسے پہنچے گا۔ اس لیے اکثر گاہک لکڑی کے زینے کو آزماتے ہیں جو اپنی قدامت کے باوجود اتنا فراخ ضرور ہے کہ گاہک اوراس کے سامان دونوں کو سہارسکتا ہے۔
اوپر پہلی منزل پرپہنچنے کے بعد زینے کے دہانے سے دو کوریڈورز نکلتے نظرآتے ہیں۔ زینے کی بالکل سیدھ میں ایک لمبا بل کھاتا ہوا کوریڈور ہے، جس کے پیچ و خم کے سبب اس کا آخری سرا نظروں سے اوجھل ہے۔ جانے وہ کہاں جا کر ختم ہوتاہے۔ دائیں جانب صرف دیوار ہے جس میں کوئی دروازہ نہیں۔ زینے کے بالکل ساتھ ہی لفٹ کا دروازہ ہے جس کے قریب سے زینہ بل کھاتاہوا اوپر کی منزلوں کو چلاجاتاہے۔ بائیں جانب جوکوریڈور ہے وہ آگے جاکرا یک لمبی گیلری کے ساتھ جڑتاہے۔ اس میں کئی گیلریوں کے دروازے کھلتے ہیں جو اس مرکز ی گیلری کے ذریعے سے ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ باقی تمام منزلوں پر اسی نقشے کی تکرار نظر آتی ہے۔ غرضیکہ کوریڈورز اور گیلریوں کی بھول بھلیاں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہوٹل سلازار کی تنگی کا جو تاثر اس کی ڈیوڑھی سے پیدا ہوتا ہے درحقیقت صحیح نہیں۔ اس کاگراؤنڈ فلور یعنی ڈیوڑھی والا حصہ یقیناًرقبے میں بے حد محدود ہے، لیکن جوں جوں ہم اوپر کی طرف جاتے ہیں اس کے پھیلاؤ میں پراسرار طریقے سے اضافہ ہو تا چلا جاتا ہے۔ شمالاًجنوباً ، شرقاً غرباً، کمرے گیلریوں کے ذریعے سے ملے ہوئے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوریڈورز اورگیلریوں کا ایک معمہ بکس تیارکیا گیا ہے جس میں انسان بالکل اسی طرح بھٹک سکتاہے جس طرح ماہرین طبیعات کی تجرباتی بھول بھلیوں میں چوہا۔ بظاہر ہوٹل سلازار کی تعمیراتی ساخت کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ لیکن اس کے اندر گھومنے کے بعد تصور کی آنکھ سے دیکھا جاسکتا ہے کہ یہ ایک تکون کی طرح ہے جو اپنے کسی کونے پر سیدھی کھڑی ہو یا جیسے اہرا م اپنی نوک کے بل کھڑے ہوں۔ غالباً یہ امریکن تجارتی ذہن کی توسیع پسندی کے روئیے کا کرشمہ ہے کہ سلازار کے مالک کو جس ملحقہ عمارت کاکوئی اپارٹمنٹ حاصل ہوا وہ اسے ہوٹل میں شامل کرتا گیا اور گیلریوں کے ذریعے باہم ملاتا چلا گیا۔
مختلف منزلوں میں جو گیلریاں اور کوریڈورز ہیں ان میں گھسی پٹی دریاں بچھی ہیں جو جوتوں کی مسلسل رگڑ سے تارتارہیں۔ ان دریوں کا کوئی خاص مقصدسمجھ میں نہیں آتا۔ سوائے عذر زیبائش کے، جسے پوراکرنے میں یہ ناکام ہیں ۔ گیلریوں کی دیواروں پر جو وال پیپر چڑھا ہے وہ کبھی نکھرے آسمانی رنگ کاہوگا لیکن اب وہ مٹیالے رنگ میں ڈھل چکا ہے۔ اس وال پیپر پر کھڑی جل پریوں کا نقش ہے، جو اس قدر گھس پٹ گئی ہیں کہ اپنے گلیمر سے محروم ہو چکی ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ زمانے کے ہاتھوں کسی کا سرغائب ہے اور کسی کا دھڑ ، عموماًآنے جانے والوں کو اتنی فرصت نہیں کہ وہ اس تخیلّی مخلوق کی طرف توجہ دے سکیں، لیکن کبھی ان پر بھولے سے نظر پڑجائے کہ دل دہل جاتا ہے کہ دیکھنے والا شخص اپنے آپ کو سینکڑوں عجیب الخلقت اپاہج جل پریوں کے غول درغول میں گھرا پاتا ہے۔
بہزاد جب نوکری کی تلاش میں اس شہر میں وارد ہوا تو اس کی جیب بھاری تھی۔ چنانچہ وہ لنکن سینٹرکے بالمقابل ایک اونچے متوسط درجے کے ہوٹل میں آکر اترا۔ مگر جوں جوں دن گزرتے گئے، نوکری ناپیدرہی اور جیب ہلکی ہونے لگی تو اسے کسی ایسے ہوٹل کی جستجو ہوئی جو کم کرائے پر کمرے اٹھاتا ہو۔ بعد از بسیار وقت و تلاش اسے گوہر مقصود ہوٹل سلازار کی شکل میں نصیب ہوا۔ اسے محض اتفاق کہیے یا خوبی تقدیر سمجھئے کہ جس دن بہزاد نے پوچھا اسی دن ایک کمرہ موجود تھا۔۔۔ وہ فوراً وہاں اٹھ آیا۔ لحیم شحیم حبشی نے اسے بتایاکہ جو کمرہ خالی ہے وہ چودھویں منزل پرواقع ہے۔ جب بہزاد اپنا سامان ڈیوڑھی میں حبشی کے حوالے کر کے کمرہ دیکھنے کی غرض سے لفٹ کے ذریعے اوپر جانے لگا، تو اسے بے حد حیرت ہوئی کہ لفٹ میں منزلوں کی نمبر پلیٹ پر بارھویں منزل کے فوراًبعد چودھویں منزل کا نمبر لکھا تھا۔اس نے سوچا کہ غلطی سے تیرھویں کو چودھویں لکھ دیا گیا تھا، اگرچہ اس قوم کی میکانکیت کی حد تک مکمل کارکردگی کی استعداد سے اس قسم کی غلطی کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔ پھر بھی انسان انسان ہے اور خطا کا پتلاہے۔ اس لیے بہزاد نے اپنی تیسری دنیا کی قدیم سوچ کے مطابق اسے انسانی کوتاہی جان کرکوئی خاص اہمیت نہ دی۔ البتہ جب وہ ہوٹل کے عملے سے بات کرتے ہوئے کہتاکہ اس کا کمرہ تیرھویں منزل پر ہے تو وہ لاحول پڑھتے ہوئے غائب ہوجاتے۔ آخر اس سے رہا نہ گیا اور ایک دن اس نے ہوٹل کے برازیلیں منیجر سے یہ پہیلی بجھوانے کی کوشش کی۔منیجر نے اس کے سوال کے جوا ب میں اگرچہ ’احمق‘ یا ’جاہل‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ لیکن اس کی آنکھوں سے ظاہر تھا کہ وہ اسے احمق یا جاہل یا دونوں کی آمیزش خیال کررہاتھا۔ پھر بھی منیجر نے زیادہ علم رکھنے کی بنا پر احساس برتری کے تحت اس پر یہ منکشف کیاکہ بے وقوف کیا تم نہیں جانتے کہ تیرہ کا عدد منحوس ہوتاہے، اس لیے یہاں کسی عمارت میں بھی تیرھویں منزل کا ذکر نہیں ہوتا، بلکہ تیرھویں کو چودھویں کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
بہزاد کی سمجھ میں یہ منطق نہ آئی کہ اگر تیرھویں منزل موجود ہوتی ہی ہے تو اس کے چودھویں پکارنے سے آئی بلاکیسے ٹل جاتی ہے۔ بہرحال یہ منکشف ہوگیا کہ چاند پرپہنچنے والے انتہائی ترقی یافتہ امریکن ویسے ہی توہم پرست ہیں جیسے برصغیر کے کسی پسماندہ گوشے میں بسنے والے جہاں اب تک کوروؤں پانڈوؤں کی رتھ گڈاور ریڑے کی شکل میں چل رہی ہے۔ اس طرح خلائی دور اور قرون اولیٰ کا باہم فاصلہ گھٹ کر صفررہ جاتا ہے۔
جب بہزاد اپنے کمرہ میں پہنچا تو رات ہو چکی تھی۔ اس نے بجلی کابٹن دباکرکمرے میں روشنی کی تواس کا دل دہل گیا۔ کمرے کی دیواریں پرہیبت سیاہ رنگ کی تھیں۔ کھڑکی سڑک کی جانب کھلنے کے بجائے ساتھ والی بلڈنگ کی چھت پر کھلتی تھی جس کی چادرزنگ کی وجہ سے کہیں سے بھورے رنگ کی تھی، اور بارش کا پانی جمع ہو جانے کے سبب کہیں سے سیاہ تھی۔ اس کھڑکی میں جو شیشے لگے تھے وہ چھوٹے چھوٹے رنگ برنگے ٹکڑوں کی صورت میں تھے۔ لیکن کالی دیواروں کے پس منظر میں آگ کے دہکتے انگاروں کی مانند دکھائی دے رہے تھے۔ کمرے میں ایک پلنگ، ایک تپائی، ایک کرسی اورایک الماری تھی۔ کمرہ صاف ستھرا ہونے کے باوجود بہزاد کو بوسیدگی کے علاوہ عجیب طرح کی گھٹن کا احساس ہوا۔ کمرے میں کپڑوں کے ایسے بند ٹرنک کی سی بو تھی جسے بڑی مدت کے بعد کھولا گیا ہو۔ اس نے الماری کھولی تو اس میں سے بھی بند بو آرہی تھی۔ اس نے فوراً الماری بند کر دی۔ بستر میں بھی کافورکی گولیوں کی ہمک تھی۔
بہزاد کو کمرے کی ہر چیز سے کراہت محسوس ہو رہی تھی۔ حالانکہ وہ بڑی محنت سے صاف کی گئیں تھی۔ وہ بہت تھکا ہوا تھا سو بستر پرلیٹ گیا، مگر نیند اس سے کوسوں دور تھی۔ وہ سوچنے لگا کہ آخر اسے اس کمرے اور اس میں رکھی ہر چیز سے تنفر کااحساس کیوں ہورہا ہے۔ جبکہ اس کی کوئی ٹھوس وجہ موجودنہیں۔ یقیناًیہ کمرہ آتشزدگی کی باقیات میں سے تھا۔ لیکن اسے اسی حالت میں محفوظ رکھنے کا کیا جواز تھا۔ بھلا کون اس کے آسیب زدہ ماحول میں رہنا پسند کرے گا۔ شاید ہوٹل کے مالک کواس میں کوئی خاص کشش اورانوکھا پن محسوس ہوتاہو۔ ویسے بھی اس ملک کے باسیوں کااحساس جمال ناقابل فہم ہے۔ جن چیزوں کو عموماً بھدا، بدصورت حتیٰ کہ کریہہ المنظر سمجھا جاتا ہے، یہ انہیں حسین، خوبصورت اوردلفریب تصور کرتے ہیں۔
بہزاد ساری رات عجیب کیفیت سے گذرا۔ ایک انجانے خوف سے اسے ٹھنڈے پسینے آتے رہے۔ بالاخر وہ تھک ہارکر سویا بھی تو ایسی نیند کہ ذہن نیم بیدار تھا۔ وہ صبح سویرے اٹھ گیا۔ انگ انگ ٹوٹ رہا تھا۔ سر میں شدید دردتھا۔ سوچا کہ تازہ دم ہونے کے لیے غسل کرلیاجائے۔ اس غرض سے جب غسل خانے گیا تو ’لاحول‘ پڑھ کر پلٹ آیا۔ ہر چند کے غسل خانے کی ہرچیزصاف ستھری تھی، لیکن اتنی پرانی تھی کہ گندگی کاتاثردیتی تھی۔ ٹب، سنک اور فلش کی چینی جگہ جگہ سے اکھڑ چکی تھی اور نیچے سے زنگ آلود سیاہی جھانک رہی تھی۔ اس پر طرہ یہ کہ صفائی کے باوجود ناقابل برداشت بو آرہی تھی جیسے مردہ چوہے کا تعفن۔
آخر بہزاد کے صبرکا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ وہ بڑبڑاتا ہو ا منیجر کے پاس پہنچا اورسارا ماجرا کہہ سنایا۔ موٹی توند والے برازیلین منیجر کو یقین تو نہ آیا کہ کوئی مردہ چوہا غسل خانے میں لیٹا بدبوکے بھبھکے اڑارہا ہے، مگر بہزاد کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے خیال سے اس نے جنیٹر کو اس کے ساتھ غسل خانے میں بھیجا تک کہ بدبوکا معمہ حل کیا جاسکے۔ جنیٹر نے لاکھ کوشش کی کسی مردہ توکیا کسی زندہ چوہے کا سراغ بھی نہ مل سکا، لیکن بہزاد اتنی جلد ہار ماننے کو تیار نہ تھا۔ اس نے تہیہ کرلیاتھا کہ اس جھلسے ہوئے آسیب زدہ کمرے، بندبو والے بستر اورمرے ہوئے چوہے کے تعفن سے ہرصورت چھٹکارا حاصل کرے گا۔ سو وہ دوبارہ منیجر کے پاس پہنچا اور کچھ اس موثر اور قابل رحم اندازمیں اپنی وکالت کی کہ اس کا دل پسیج گیا اور اس نے پہلی منزل پرایک ننھے منے سے کمرے کی پیش کش کی۔ بہزاد فوراًراضی ہو گیا۔ اس نے سوچا کہ ہر کمرہ اس کمرے سے بہتر ہوگا۔ چنانچہ وہ منیجر سے چابی لے کر اپنا بکس اٹھائے ہوئے نئے کمرے میں آن پہنچا۔
یہ انتہائی چھوٹا یعنی ۷x۷فٹ کا کمرہ تھا جس میں بمشکل ایک بیڈ رکھا جا سکتاہے۔ بیڈ کے علاوہ اس میں صرف ایک کرسی تھی اور بس۔ کمرے کی کل اوقات یہی تھی۔ اس کمرے سے منسلک غسل خانہ اعلیٰ درجے کا نہ سہی، مگرکم از کم قابل برداشت تو تھا۔ کمرے میں دو پٹوں والی ایک کھڑکی تھی جو باہر سٹرک کی جانب کھلتی تھی۔ اس کھڑکی سے واشنگٹن سکوائر کے کچھ حصے کا نظارا بھی ممکن تھا بشرطیکہ کھڑکی میں سے اچک کے سرباہر نکال کر دیکھا جائے۔ اس کے علاوہ بستر پر لیٹے ہوئے کھڑکی سے سامنے والے چرچ کی بیل فری کا میناربھی دکھائی دیتاتھا۔
بہزاد کو اس نئے کمرے میں منتقل ہوئے کئی روز بیت گئے۔ جوں جوں وقت گذرتاچلاگیا، مسافتوں کے در کھلتے چلے گئے، بہزاد ناستلجیا کی زد میں آتا چلاگیا۔ اس اژدہا کی طرح بہت بڑے کاسموپولیٹن شہر کے روز مرہ سے بے ربطی کا احساس شدت اختیار کرتاچلاگیا۔ جتنا یہ احساس گہراہوتا گیا، اتناہی اپنے دیس کی یاد کسک کی شکل میں ڈھلتی گئی۔ شاید ان دونوں کے درمیان ’برابر تناسب‘ کارشتہ تھا۔ فاصلے ویسے بھی جذبوں کومنکشف کرتے ہیں۔ زیادہ قربت مانع بصارت اورقاطع بصیرت ہوتی ہے۔ جب گھر میں رکھی اشیاء ہرروز اپنے مقام پرملیں، تو آہستہ آہستہ اپنی مانوسیت کی بنا پرجاذب توجہ نہیں رہتی ہیں، لیکن ان میں سے کوئی چیز اپنی جگہ سے غائب ہو، تو اسکی عدم موجودگی بری طرح کھٹکتی ہے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال بہزاد کی تھی۔ جب وہ وطن میں تھا تو اس کی ہرچیز سے بیزار تھا، اور اب ان تمام چیزوں کے لیے بے قرارجنہیں اس نے کبھی درخور اعتنا نہیں سمجھا تھا۔ پان سے اس نے ہمیشہ تنفر محسوس کیا، لیکن اب بعض دفعہ بیٹھے بٹھائے اس کی زبان پان کے پتے کا ذائقہ محسوس کرتی اور سونف سپاری کی خوشبو اس کے نتھنوں میں کہیں سے آگھستی۔ ایک دن ٹائم سکوائر کے قریب چلتے چلتے اچانک جانے کہاں سے چنبیلی موتیے اورگلابوں کی مہک اس کے ساتھ ہولی راتوں کواکثر اسے اپنے کمرے میں بستر پہ لیٹے لیٹے نیچے سڑک پر لوگ اردو بولتے سنائی دیتے، جس پر وہ فوراً بستر سے اٹھ کر کھڑکی سے جھانکتا اور اسے بڑی مایوسی ہوتی یہ جان کر کہ نیچے سڑک پر اردو میں نہیں، انگریزی میں گفتگو ہو رہی ہے۔ اکثر اوقات صبح سویرے نیم بیداری میں وہ محسوس کرتا جیسے وہ اپنے دیس میں اپنے گھر میں لیٹا ہوا ہے۔
غرضیکہ بہزاد کے دل و دماغ مکمل طور پر ناستیلجیا کی دلدوز گرفت میں جکڑے ہوئے تھے۔ اس کے اعصاب مغلوب ہوتے جارہے تھے۔ وہ عموماً غنودگی حالت میں رہتا۔ صبح جب گھڑی الارم بجاتی تووہ آنکھیں کھولتا، لیکن اسکاوجود ہلنے سے انکاری ہو جاتا۔ اس کے پپوٹے بندہو جاتے، ذہن نیم غنودگی حالت میں ہوتا، اور جسم کے پٹھے مزید آرام کی خواہش میں ڈھیلے پڑ جاتے۔ یہ کیفیت سارا دن اس پرطاری رہتی، اور وہ اکثر بارہ بجے سے پہلے اٹھنے کے قابل نہ ہوتا۔ اس نیم بیداری نیم غنودگی کی نباتاتی حالت میں اس کا ذہن گم گشتہ ماضی کے پچھتاوے سے محفوظ رہتا۔ شاید یہ اس کے وجود کا دفاعی ہتھکنڈا تھا۔
اگرچہ بارہ بجے کے قریب اس کی آنکھ کھل جاتی، مگر روز مرہ میں شرکت سے گریز اب بھی موجود رہتا، سووہ بستر پر لیٹے لیٹے کھڑکی سے باہر سامنے سکوئر کی پرلی طرف واقع چرچ کی بیل فری کو تکتا رہتا، جس میں لگی دیوہیکل گھنٹی جب بج اٹھتی تو فری بیل میں بسیرا کرنے والے سفید کبوتر غول در غول پھڑپھڑاتے ہوئے بیل فری کی چاروں کھڑکیوں سے طوفان کی طرح پھٹ پڑتے اور آسمان کو پل بھر کے لیے برف کے گالوں کی طرح سفید کرڈالتے۔ جانے کیوں بہزاد کو ان کبوتروں کودیکھ کر بہاالدین زکریا کے مزار کے گنبد پر اڑنے والے کبوتر یاد آتے جن کی ڈاریں چراغ والے صحن میں دانہ چگنے اترتی تھیں۔
ایک دن اسی کیفیت میں اسے ساتھ والے کمرے سے باتوں کی آواز سنائی دی۔ اس کے او ر ساتھ والے کمرے کے درمیان جو دیوار تھی وہ اس قدر پتلی تھی کہ آواز صاف آرہی تھی۔
’’ہیلو لنڈا سویٹ ہارٹ!ہاؤ آر یو‘‘۔
غالباً فون پر گفتگو ہو رہی تھی۔ کیونکہ جواب میں مخاطب کی آواز نہیں آرہی تھی۔
’’ہاں میں، میں ٹھیک ہوں‘‘۔
گفتگو جاری رہی۔ ’’کیا؟ آج کل کیا لکھ رہا ہوں؟ ایک پرتگالی لڑکی اور سیاہ فام کی داستان ۔ سیاہ فام کو ایک پرتگالی لڑکی سے بے پناہ محبت ہے اور وہ اسے پا بھی لیتا ہے، مگر وصل کی قربت ہی سے فراق کی شدت جنم لیتی ہے، جس کی کہانی میں لکھنا چاہتا ہوں۔ کیاکہا؟ وصل سے فراق کیسے؟ وہ یوں، لنڈا ڈئیر! کہ پرتگالی طبعاً قنوطی ہوتے ہیں اور سیاہ فام بنیادی طور پرخوش طبع اور رجائی۔ اسی لیے ان کے تمدن کی روح، اتنی مختلف ہے۔ یہی تمدنی اور نفسیاتی فاصلے ان کے درمیان بڑی ڈھٹائی سے حائل ہیں جن کااحساس اس وقت زیادہ شدت سے ابھرتا ہے، جب دونوں فریق ایک ہی چھت تلے زندگی بسر کرنا شروع کرتے ہیں اور ان کے جسمانی ملن سے روحانی بیراگ جنم لیتا ہے۔۔۔۔‘‘
’’کیا؟ ہاں۔ یہ ایک مسحور کن موضوع ہے‘‘۔
’’اچھا ۔ خدا حافظ۔ مجھے ابھی بہت سا کام کرنا ہے۔ پھر بات ہوگی، بائی۔۔۔‘‘
کچھ دنوں تک بہزاد کو ساتھ والے کمرے میں ہونے والی روز مرہ کی گفتگو سننے کا موقع نہ مل سکا یا شاید گفتگو ہوئی ہی نہ ہو۔ غالباً کہانی نگار کمرے میں موجود نہیں تھا یا پھر اتنا مصروف کہ اسے اپنی دوست لنڈا کو فون کرنے کی فرصت ہی نہ تھی۔ عموماً تخلیق کار جب کسی تخلیق کی زد میں ہوتا ہے تو تخلیقی عمل اسے شاذو نادر ہی معاشرتی میل جول اور رسمیات کی مہلت بخشتا ہے۔۔۔ یہ بھی ممکن تھا کہ وہ سلازار سے جاچکا ہو۔
کافی عرصے بعد ایک دن بہزاد کو کہانی نگار کی آواز پھر سنائی دی۔ وہ حسب معمول لنڈا سے محو گفتگو تھا اور اپنی تحریروں کا ذکر کرر ہا تھا۔
’’یس ۔ لنڈا ڈارلنگ! وہ پرتگالی اور سیاہ فام کی کہانی۔۔۔ ہاں مکمل ہوگئی۔۔۔‘‘ اور پھر بہزاد کو کھسیانی ہنسی کی آواز آئی۔
’’خیر۔ اس کا تذکرہ اب کیا۔ سنو، اس وقت میں نیویارک کے ٹی وی نیٹ ورک نمبر۲ کے لیے ایک سیریل لکھنے کی سوچ رہا ہوں۔ کیا؟۔۔۔ وہ کس قسم کاہوگا؟۔۔۔ وہ سینٹ ہلز بلیو کی طرز پر لکھا جائے گا۔ مرکزی خیال ؟۔۔۔۔ امریکی نوجوانوں میں ۱۹۶۰ء کے اردگرد جو تشخص کا بحران پیدا ہوا تھا اس کے سیاق و سباق پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا‘‘۔
پھر ذرا توقف سے کہانی نگار بولا ’’بس لنڈامیرے لیے دعا کرو کہ میں اس خیال کوخوبصورتی سے تحریر کر سکوں۔۔۔ تم ایسا کرو گی۔۔۔ یقینا۔۔۔ شکریہ مجھے خوش قسمتی کی انتہائی ضرورت ہے۔۔۔۔‘‘ اور فون بند ہوگیا۔
ابھی تک بہزاد کو کہانی نگار کی شکل و صورت دیکھنے کا موقع نہ ملا تھا، اگرچہ وہ اس کا او رلنڈا کا مکالمہ اکثر سنتا تھا۔ لیکن ایک دن اس نے کہانی نگار کودیکھ ہی لیا۔ وہ اپنے کمرے سے نکل رہاتھا، بہزاد کو اپنی طرف متوجہ پایا تو اس نے رسمی انداز میں مسکر اکر ’’ہائے ‘‘ کہا۔وہ ایک لانبے قد، چھریرے بدن، کریو کٹ بالوں والا سادہ لوح سینکی دکھائی دیتا تھا، جس نے ٹخنوں تک لمبا اوورکوٹ اور جاگر پہنے ہوئے تھے۔ اس دن کے بعد وہ اکثر اسے کوریڈور، لفٹ یاہوٹل کی ڈیوڑھی میں ملتا اور رسمی خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے موسم کا ذکر کرتے ہوئے، ہلکورے کھاتے ہوئے تیزی سے اس کے پاس سے گذر جاتا۔
کہانی نگار کا کمرہ بہزاد کے کمرے سے پہلے آتاتھا۔ اس لیے بہزاد کواپنے کمرے سے باہر جانے اور باہر سے اپنے کمرے کی طرف آنے کے لیے اس کے کمرے کے سامنے سے گذرناپڑتاتھا۔ وہ اکثر کہانی نگار کے کمرے کا دروازہ نیم وا تھا۔ تجسس نے اس کے پاؤں پکڑ لیے اوروہ بڑی دلچسپی سے کمرے کے اندر دیکھنے لگا۔ کہانی نگار مسلے ہوئے کاغذوں کے ڈھیر بیچ فرش پر آلتی پالتی مارے گھٹنے پر کہنی ٹکائے، ہتھیلی پر ٹھوڑی جمائے کسی گہری سوچ میں غرق، اپنی دھن میں مگن بیٹھا تھا۔ تھوڑی دیر بعد بہزاد کی ٹکٹکی نے اسے چونکا دیا۔ اس نے ادھ کھلے دروازے میں سے بہزاد کی طرف دیکھا۔ اسکی آنکھوں میں اداسی اور لبوں پر کھسیانی ہنسی تھی۔ اس سے پہلے کہ بہزاد رومی کے اس ڈھیر کاراز دریافت کرتاجس کے بیچوں بیچ وہ براجمان تھا، وہ خود ہی بولا۔۔۔ ’’دراصل میں کہانی لکھنے کی کوشش کررہاہوں‘‘۔
اس نے بڑی بے چارگی سے مچڑے ہوئے کاغذوں کے انبار کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’یہ عجیب واردات ہے کہ نازک سبک سوچیں الفاظ کے قالب میں ڈھل کر جب کاغذ پر سیاہ نقش کی صورت ابھرتی ہیں تو وہ بھدی ، بے ڈول اور بے معنی ہو جاتی ہیں۔ جذبے عریانی اظہار کے بعد کس قدر بے جان اور فرسودہ لگتے ہیں۔ خود مجھے ان کے جھوٹ کا یقین ہونے لگتا ہے۔۔۔۔ اور ایک بے تکے پن،عجیب شرمندگی اورخجالت کا احساس جیسے میں بھرے بازار بیچ، لوگوں ے ہجوم کے سامنے گرپڑاہوں اور کیچڑ سے لت پت ہو گیا ہوں۔۔۔ ایک احساس زوال مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیتاہے‘‘۔
’’اور لنڈا۔۔۔۔؟‘‘ بہزاد نے پوچھا۔
’’ہاں۔ لنڈا؟ ‘‘ کہانی نگار نے چونک کر اسے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے دوہرایا۔
یک دم بہزاد کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ اسے یاد نہ رہا تھا کہ احترام خلوت کے آداب کے پیش نظر اسے کہانی نگار اور لنڈا کی باتیں سننی نہیں چاہیے تھیں۔ لیکن کہانی نگار نے اپنی خلوت کے حق کی پامالی پر متوقع چڑچڑاہٹ کے بجائے عجیب گمبھیرتا سے جواب دیا ’’میرے کمرے میں توکوئی فون نہیں ہے‘‘۔
اس پر بہزاد بھونچکا سارہ گیا، کیونکہ کمرے میں نظرہر طرف دوڑانے پر اسے واقعی کہیں کوئی فون دکھائی نہ دیا۔
’’تو اس کا مطلب ہے۔۔۔۔‘‘ بہزاد نے افسردہ حیرت سے باقی جملہ ہوا میں لٹکتا چھوڑ دیا۔ اسے معصوم آنکھوں والے کہانی نگار پر بے حد رحم آیا۔ جو اتنا اکیلا تھا کہ اس بھرے شہر میں، ایک خیالی دوست سے نادیدہ فون پر پہروں باتیں کرتا تھا۔۔۔ اور اتنا بے بس تھا کہ لفظ اس کا ساتھ نہیں دیتے تھے۔ بہزاد کو ایک ناقابل فہم احساس ضیاع ہوا اور اس نے اداس شائستگی کے ساتھ کمرے کے کھلے دروازے کو بندکردیا۔
اگلے دن بہزاد کہانی نگار کے کمرے کے سامنے سے گذرا تو صفائی کرنے والی عورت کوکمرے کی صفائی کرتے اور مسلے ہوئے کاغذوں کاڈھیر پولی تھین بیگ میں ڈالتے ہوئے دیکھا۔ گھڑی بھر کو بہزاد کمرے کے کھلے دروازے کے سامنے ٹھٹک گیا۔ صفائی کرنے والی عورت نے سراٹھا کر اسے غور سے دیکھا پھر وہ جیسے اس کا عندیہ بھانپ گئی، کہنے لگی ’’وہ یہاں نہیں ہے۔ آج صبح سویرے اپنابل ادا کرنے کے بعد ہوٹل چھوڑ گیا ہے‘‘۔
’’کہاں گیا ہے؟‘‘ بہزاد کے منہ سے بے ساختہ یہ سوال نکلا۔ غالباً یہ سوال صفائی کرنے والی کو احمقانہ اور ناپسندیدہ لگا کیونکہ اس نے بڑی رکھائی سے جواب دیا ’’مجھے کیا معلوم‘‘۔
اس پر بہزاد کو خیال آیا کہ کسی کی نقل و حرکت سے دلچسپی رکھنایہاں کے آداب شائستگی کے خلاف تھا۔ نتیجتاً وہ خاموش ہو گیا اور کوریڈور میں لفٹ کی سمت چلنے لگا مگر اسے کہانی کار کی رخصتی سے ناقابل تشریح آزردگی ہو رہی تھی جیسے کوئی برسوں کا آشنا بچھڑ گیاہو۔
ایک رات بہزاد سونے کی ناکام کوشش کررہاتھا کہ اسے سڑک سے لڑائی جھگڑے کی آوازیں سنائی دیں۔ اس نے اٹھ کر کھڑکی سے نیچے جھانکا۔ رات کے اس پہر سڑک سنسان پڑی تھی۔ کھڑکی کے عین نیچے فٹ پاتھ پر بھی کوئی نہیں دکھائی دیتا تھا، پھر بہزاد کو خیال آیا کہ شاید آوازیں ہوٹل کی ڈیوڑھی سے آرہی تھیں، کیونکہ اس کا کمرہ ڈیوڑھی کے اوپر پہلی منزل پر واقع تھا اور کھڑکی عین صدر دروازے پر کھلتی تھی۔ اگرچہ صدر دروازے کے چھجے کی وجہ سے دروازے میں کھڑے لوگ نظر نہیں آتے تھے۔
اتنے میں آواز آئی ’’مجھے معلوم ہے کہ تم مجھ سے کیوں جلتے ہو‘‘۔ کسی نے سیٹی کی طرح چیختی ہوئی آواز میں کہا۔
’’وہ بھلاکیوں؟‘‘ دوسرے نے پھنکارتے ہوئے پوچھا۔
’’اس لیے کہ تم میرے رنگ سے جلتے ہو۔ یہ تمہارا کومپلکس ہے جو تم سے یہ سب کچھ کروا رہا ہے‘‘۔
’’اچھا۔ اور بھلا وہ کونسا رنگ ہے جس کی وجہ سے مجھے کومپلکس ہے‘‘۔ غصے سے دانت پیستے ہوئے دوسرا شخص بولا۔
اب بہزاد نے پہچان لیا تھا کہ یہ آواز ہوٹل کے حبشی کی تھی۔ ذہن پر ذرا زور دینے سے اس نے شناخت کرلی کہ پہلی آواز ایک مدقوق نشئی کی تھی، جس سے اکثر اس کی مڈبھیڑ زینے پر یا لفٹ میں ہوتی۔ یہ ایک منحنی پیلی آنکھوں، پیلے دانتوں والا میلا کچیلا سفیدفام تھا، جو اپنے یرقان زدہ وجودکے ساتھ آسیب کی طرح سلازار کے اردگرد منڈلاتا رہتا تھا۔
اتنے میں پھر آواز آئی ’’میرا رنگ سفید ہے اور تمہارا کالا۔ یہ ایک حقیقت ہے جسے تم جھٹلا نہیں سکتے، اور اسی لیے تم مجھ سے نفرت کرتے ہو‘‘۔
ان کے درمیان نسل در نسل پھلتی پھولتی ہوئی نفرت ان کی آوازوں میں امنڈآئی تھی۔
’’بکواس بند کرو ورنہ۔۔۔‘‘ غصے سے رندھی ہوئی آواز میں حبشی نے چلاتے اور غالباً نشئی کو گریبان سے پکڑتے ہوئے کہا۔
’’تم ایسا نہیں کر سکتے، کیونکہ میں نے کمرے کا ایک دن رات کا پورا کرایہ ادا کیا ہے۔۔۔ پورے اکیس ڈالر، اس لیے مجھے حق ہے کہ میں پورے چوبیس گھنٹے کمرے میں گذاروں‘‘۔ نشئی نے اپنے نحیف پھیپھڑوں کی پوری قوت سے چیخ کر کہا۔
جواب میں کچھ ایسی آوازیں آئیں جیسے ہاتھا پائی ہو رہی ہو۔ پھر قوی الجثہ حبشی نے اپنے آباؤ اجداد سے ورثے میں ملی ہوئی قدیم طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سفید فام نشئی کو اٹھا کر سڑک پر پٹخ دیا۔ وہ غالباً نشے کی ہذیانی سرمستی میں تھا سو سڑک پر لڑھک کر دوسرے کنارے کے فٹ پاتھ سے ٹکرایا اور گٹھری کی صورت وہیں ڈھیر ہورہا۔ شاید وہ اتنا بے سدھ تھا کہ اس میں اٹھنے کی ہمت نہ تھی اور رات کے اس پہر ٹریفک مفقود تھا۔ سو اس نے سوچا کہ اٹھ کر کیا کرنا ہے، رات یہیں بسر ہو جائے تو کیا مضائقہ ۔ مگر وہ آزاد کے فوجی کی طرح رات بھر باآواز بلند حبشی کو دھمکیاں دیتا رہا۔ جس سے بہزاد کوکافی بے آرامی ہوئی۔ البتہ یوں لگتا تھا کہ حبشی غصہ فرد ہونے کے بعد ان گیدڑ بھبکیوں کو نظر انداز کرکے گہری نیند سو گیا، کیونکہ اس کے فلک شگاف خراٹوں کی آواز بہزاد کو پہلی منزل پر صاف سنائی دے رہی تھی۔
اس واقعے کے کچھ دن بعد بہزاد ہوٹل سلازار کی طرف بوجھل ذہن اور تھکے قدموں سے آرہا تھا۔ دن بھر کی تھکاوٹ درد بن کر اس کے انگ انگ میں دھڑک رہی تھی۔ ہوٹل سلازار کی ڈیوڑھی میں داخل ہوتے ہی اس نے سوچا کہ وہ لفٹ سے اوپر جائے گا۔عموماً وہ لفٹ کا انتظار کئے بغیر زینے ہی سے اوپر چلا جاتا تھا۔ اس وقت اتفاقاً لفٹ موجود نہیں تھی نیچے ہی کھڑی تھی۔ اس کے اندر روشنی نہیں تھی۔ غالباً اندر کی لائٹس فیوز ہو گئی تھیں۔ یہ سوچتے ہوئے بہزاد لفٹ میں داخل ہو گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ منزل کا بٹن دباتا۔ لفٹ کا دروازہ کھٹاک سے بندہوگیا اور وہ خودبخود چلنے لگی۔
بہزاد نے دیکھا کہ لفٹ تیزی سے کسی منزل پر رکے بغیر اوپر چلی جارہی تھی۔ اس نے یکے بعد دیگرے مختلف منزلوں کے بٹن دبائے مگرلفٹ تھی کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ لفٹ کی تیزرفتاری بھی حیران کن تھی۔ پھر لفٹ آخری منزل پر جھٹکے سے ٹھہر گئی۔ ابھی بہزاد سنبھلنے بھی نہ پایا تھا کہ اس کی پشت سے کوئی چیز ٹکرائی۔ وہ تیزی سے پیچھے مڑا تا کہ معلوم کر سکے کہ وہ کس چیز سے ٹکرایا تھا۔ اسے اندھیرے میں کچھ سجھائی نہ دے رہا تھا۔ بدبو کا ایک بھبکا اٹھا اور ساتھ ہی دو استخوانی بازوؤں نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔ بہزاد نے بہتیری کوشش کی کہ اس بدبو دار وجود کی بانہوں سے نکل جائے مگران سوکھے ہوئے بازوؤں میں جنونی قوت تھی۔ ان کے آہنی چنگل سے فرار مشکل تھا۔ تھک ہار کے اس نے یہ کوشش ترک کر دی، لیکن وہ بہر صورت لفٹ میں لگے ایمرجنسی الارم تک پہنچنا چاہتا تھا جو اندھیرے میں اس سے چمٹے ہوئے جسم کی وجہ سے دشوار تھا کہ وہ ایمر جنسی الارم اور بہزاد کے بیچ حائل تھا۔
ایک دقت طلب جسمانی کرتب کے بعد وہ اس پرتعفن جسم کی بغل سے ایک ہاتھ نکالنے میں کامیاب ہوگیا اور اندھیرے میں ٹٹولتے ہوئے ایمرجنسی الارم کا سوئچ اون کر دیا۔ فوراًالارم چیخنے لگا اور اس کے ساتھ ایمرجنسی لائٹس جل گئیں۔ ان کی مدھم مدھم سی روشنی میں بہزاد نے دیکھا کہ وہ مدقوق نشئی اس سے لپٹا ہوا تھا جس کا کچھ دن پہلے حبشی مہماندار سے جھگڑا ہوتا تھا۔ نشئی کی آنکھیں بند تھیں اور سینے سے سانس کی کھڑکھڑاہٹ صاف سنائی دے رہی تھی۔ کسی وجہ سے اس کا جسم ٹھنڈا ہونے لگا تھا اور اس نے اپنا سر بہزاد کے سر پر ٹکا دیا تھا۔ بہزاد کو یوں محسوس ہورہا تھا کہ برف کے کسی بدبو دار تودے سے لپٹاہوا ہے۔ یہ ساری صورت حال اس کے لیے اذیت ناک تھی۔
تھوڑی دیر میں ہوٹل کا برازیلین منیجر زینے کے راستے اوپر آیا اور باہر سے بٹن دبا کر لفٹ کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی، مگر ناکام رہا۔ یوں لگتا تھا کہ وہ جام ہو گیا تھا۔ پھر اس کی آواز آئی ’’جوکوئی بھی اندر ہے، مت گھبرائے ہم نے لفٹ ٹھیک کرنے والے کو بلا بھیجا ہے‘‘۔
بہزاد نے جواب میں کہا ’’اچھا۔ مگر برائے مہربانی ذرا جلدی کریں‘‘۔
’’ہاں۔ ہاں۔ کوشش کریں گے‘‘۔
اس گفتگو کے بعد برازیلین منیجر زینے کے راستے نیچے چلا گیا۔
پھرجیسے وقت ٹھہر گیا۔ بہزاد کو یوں لگا جیسے صدیاں گذر گئیں۔ وہ ادھر ادھر کی سوچنے لگا۔۔۔۔بیکار باتیں۔ اس نے دنیا بھر کی باتیں سوچ ڈالیں، مگر عذاب کی ساعت تھی کہ ختم ہونے کو نہ آتی تھی۔۔۔ آہستہ آہستہ وہ خالی الذہن ہونے لگا۔ وقت قطرہ قطرہ رگ جاں پر گرنے لگا۔۔۔ ہرقطرے میں، ہر پل میں ایک نہ ختم ہونے والی اذیت پنہاں تھی۔ اس کا جسم دکھنے لگا، ٹانگیں شل ہونے لگیں۔ ہر مرتبہ اسے یو ں محسوس ہوتا کہ و ہ ابھی گرپڑے گا، کیونکہ اس میں کھڑا ہونے کی مزید سکت نہ تھی۔
اسی عذاب کے دوران اس کی نظر یکدم اس آئینے پر پڑی جو لفٹ میں چاروں طرف لگا ہوا تھا، اور آئینے کا ایک حصہ نشئی کی پشت پر بھی موجود تھا، جس میں اس کا چہرہ نظرآرہا تھا ، مگر ۔۔۔ کیا یہ اسی کا چہرہ تھا؟ کیا اس کے بال کنپٹیوں پر سے سفید تھے؟ کیا اس کے ماتھے اور آنکھوں کے نیچے لکیروں کا جال بچھ چکا تھا؟ کیا اس کے ہونٹوں کی دونوں اطراف دو بڑی سلوٹیں پہلے بھی موجود تھیں؟ ۔۔۔ نہیں۔۔۔ ایسا تونہ تھا۔۔۔۔ یا پھر شاید اس شہر میں آنے کے بعد یہ سب نشانیاں ظاہر ہوئی ہوں۔ اس شہرکے ظالم روزمرہ اور غم روز گار نے یہ سب کچھ دیکھنے کی مہلت ہی نہ دی ہو۔
ایک برقی جھٹکے سے بہزاد پر اس گھڑی ساری صورت حال کی مجہولیت یوں واضح ہوئی جیسے سورج سوا نیزے پر آگیا ہو۔ اور اس کی روشنی آنکھوں میں چبھنے لگی ہو، اس نے سوچا ’’یہ کتنا مضحکہ خیز ہے کہ وہ کروڑوں کے اس شہر میں ایک گھٹیا ہوٹل کی بوسیدہ لفٹ میں ایک نشئی کے پرتعفن وجود سے یوں بغلگیر ہے جیسے کوئی عاشق اپنی محبوبہ سے۔۔۔ اور نیچے سڑکوں پر ہجوم اسی طرح رواں ہے ۔ وال سٹریٹ میں لین دین اسی طرح زور وشور سے جاری ہے۔ یو این او میں دنیا بھر کے ڈپلومیٹس جانے کن مسائل پر ہنس ہنس کر ایک دوسرے کو ٹھگنے کی کوشش میں مصروف ہیں، ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ اسی طرح سر اٹھائے کھڑی ہے، فلک بوس مجسمہ آزادی اپنے ہاتھ میں مشعل لیے اپنی جگہ پر قائم ہے۔۔۔۔ اور کسی کو خبر تک نہیں کہ وہ ۔۔۔بہزاد۔۔۔ گھنٹوں سے تیسرے درجے کے ایک ہوٹل میں عمر رسیدہ لفٹ میں ایک مدقوق نشئی سے مجبوراً ہم آغوش ، جانے کونسا عذاب جھیل رہا ہے‘‘۔
انکشاف کی اس ساعت بہزاد نے آئینے میں دیکھا کہ ایک بھورا ٹھگنا، دیو قامت سفید فام اجنبی کے بدبو دار جسم سے خود چمٹا ہوا ہے۔ اسے اپنے آ پ سے گھن آنے لگی۔ اس نے سوچا ’’وہ یہاں اس شہر غدار، اس دیارغیر میں کیا کر رہا ہے جہاں کسی کو اس کے جینے مرنے کی نہ خبر ہے ، نہ پروا۔ یہ سرزمین جہاں اس کے آباؤ اجداد کے خون کا ایک قطرہ بھی مٹی میں جذب نہیں ہوا جہاں اس کی جڑیں نہیں ہیں، وہ یہاں کیاکررہا ہے؟ ان لوگوں کے درمیان جنہوں نے اسے گم گشتہ ماضی میں مدفون کر دیا ہے، وہ یہاں کیا کررہا ہے؟‘‘
۔۔۔۔ اور اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ واپس چلا جائے گا، اپنے وطن، اپنے گھر، اپنے عزیزوں کے درمیان۔
بیل فری میں نصب گھنٹی بج اٹھی۔ اس میں بسیراکرنے والے کبوتر غول در غول پھڑپھڑاتے ہوئے، اس کی چاروں کھڑکیوں سے طوفان کی طرح پھٹ پڑے۔ آسمان پل بھر کے لیے برف کے گالوں سے سفید ہوگیا۔۔۔ پھر بہزاد نے دیکھا کہ بہاء الدین زکریا کے مزار کے چراغ والے صحن میں کبوتر دانہ چگنے اتر آئے ہیں۔
غالباً لفٹ میں پیدا ہونے والانقص مستر ی نے رفع کر دیا تھا، اس کا جام دروازہ کھٹاک سے کھل گیا۔