ہزار بچ کے نکلتے کہاں ٹھکانا تھا

ہزار بچ کے نکلتے کہاں ٹھکانا تھا
ہمیں لہو کے سمندر میں ڈوب جانا تھا


تبوک آج بھی آواز دے رہا ہے ہمیں
عروس موت کو بڑھ کر گلے لگانا تھا


ٹھٹھک کے آب رواں راستے بنا دیتا
تھے شہسوار ہمیں لوٹ کے نہ آنا تھا


وہ جس نے جست لگائی تھی گہرے پانی میں
اسی کے ہاتھ تہہ آب کا خزانہ تھا


فراز کوہ سے شاہین نے اڑان بھری
پروں میں آسماں منقار میں زمانہ تھا


اڑا رہے تھے ابھی ہم عدو کے پر پرزے
کھلی جو آنکھ تو سب خواب تھا فسانہ تھا