ہر وقت مرے سامنے اک جلوہ گری ہے

ہر وقت مرے سامنے اک جلوہ گری ہے
میں دیکھ نہ پاؤں تو مری کم نظری ہے


میں آنکھ جھپکتا ہوں تو منظر نہیں رہتا
اے حسن دل آویز عجب مختصری ہے


سوچوں تو یہاں کچھ بھی نہیں دیکھنے قابل
دیکھوں تو تری دنیا بڑی رنگ بھری ہے


دکھ درد یہاں آئیں تو واپس نہیں جاتے
یہ دل کوئی آسیب زدہ بارہ دری ہے


میں دشت میں آ کر بھی کہاں چین سے بیٹھا
یاں پر بھی وہی عشق وہی در بدری ہے


پیارے مرے الفاظ کو تو بار دگر دیکھ
یہ شعر نہیں نوحۂ بے بال و پری ہے


یہ فیض ملا عشق میں دریوزہ گری سے
سلطانی مرے نقش کف پا پہ دھری ہے


تحسینؔ مضامین غزل اور نکالو
یہ دور محبت کی مصیبت سے بری ہے