ہر سمت اڑی گرد مرے شہر گماں میں
ہر سمت اڑی گرد مرے شہر گماں میں
محصور تمنا ہے زمانے کے دھواں میں
سناٹے کا جو قصہ سنانے میں مگن ہے
رقصاں تھا کبھی شور اسی اجڑے مکاں میں
خوشیوں کو بدن پر جو لپیٹے ہوئے کل تھا
ہے آج شرابور وہی درد نہاں میں
معدوم ہوا گل کا نشاں صحن چمن سے
خوشبو ہے مگر اب بھی بسی باد رواں میں
ہر خواب کی تعبیر نظر آئی ہراساں
ناپید ہوا جوش جنوں مرد جواں میں
فردا کی گلی میں وہ بڑا کام کرے گی
اک ضد ہے کھلونے کی جو معصوم فغاں میں
گزری ہوئی ساعت کو پلٹنے میں لگا ہے
کچھ بات نظر آئی اسے کار زیاں میں
پر کیف ہوئی ساہنیؔ ہر سانس کی آہٹ
موہوم اشارہ جو ملا وقت گراں میں