ہر اک کو دوسرے سے عداوت ہے آج کل
ہر اک کو دوسرے سے عداوت ہے آج کل
کہرام زندگی کی علامت ہے آج کل
لب کھولنا ہی جرم بغاوت ہے آج کل
جیلوں میں بند شان خطابت ہے آج کل
سر پہ پہن کے نکلے ہیں دستار سب مگر
عزت کہاں کسی کی سلامت ہے آج کل
اندر کی ٹوٹ پھوٹ ہے بکھرا ہوا ہوں میں
مجھ کو بہت ہی اپنی ضرورت ہے آج کل
اپنی غرض سے ملتا ہے ملتا ہے جو کوئی
سچ پوچھئے تو کس کو محبت ہے آج کل
ہم نے پھر اپنی آس کے خیمے جلا دئے
در پیش ہم کو اک نئی ہجرت ہے آج کل
محفل بھی ان کی راس نہ آئی ہمیں وکیلؔ
بے کیف سی عجیب طبیعت ہے آج کل