ہر چند کہ غالب کے طرف دار بہت ہیں
ہر چند کہ غالب کے طرف دار بہت ہیں
لیکن یہ مرے دوست پر اسرار بہت ہیں
جمتی ہوئی دیکھی ہے ہتھیلی پہ بھی سرسوں
یہ لوگ زمانے کے تو فن کار بہت ہیں
شرمندۂ احساس نہ ہو گردش دوراں
بربادئ جاں کو تو مرے یار بہت ہیں
یہ عقل کہے راہ ملاقات نہیں ہے
دل ہم سے کہے اس برس آثار بہت ہیں
کچھ ان کے لیے ہاتھ اٹھا اور دعا کر
سرتاجؔ ترے ان دنوں بیمار بہت ہیں