ہر آنے جانے والے کا منہ دیکھتا رہا
ہر آنے جانے والے کا منہ دیکھتا رہا
میں رہ گزر پہ زیست کی تنہا کھڑا رہا
اس زندگی نے زخم دئے بارہا مگر
جانے ہر ایک زخم کو کیوں چومتا رہا
چھوڑا ہے آندھیوں نے نہ باقی نشان راہ
پھر بھی میں تیرا نقش قدم ڈھونڈھتا رہا
تنہا نہیں رہا ہوں میں تیرے فراق میں
دل پر تیرے ہی درد کا پہرا لگا رہا
دن کو تو سلسلے تھے غم روزگار کے
شب بھر ترے خیال کا تانتا لگا رہا
یاد حبیبؔ تھی کہ دھندھلکوں میں کھو گئی
دل میں سوائے خاک کے باقی بھی کیا رہا