ہم اس کا نقش پا بھولے ہوئے ہیں
ہم اس کا نقش پا بھولے ہوئے ہیں
خدا وندا یہ کیا بھولے ہوئے ہیں
چلو پھر لوٹ جائیں اس طرف کو
جدھر کا راستہ بھولے ہوئے ہیں
اسے سوچیں تو یاد آتا ہے ہم کو
کہ ہم تو مدعا بھولے ہوئے ہیں
گھرے ہیں تنگناؤں میں کچھ ایسے
سمندر کی ہوا بھولے ہوئے ہیں
یہ ساحل پر ضرور اتریں گے اک دن
پرندے راستہ بھولے ہوئے ہیں
قسم ہم کو عطا شیریں لبوں کی
بیاں کا ذائقہ بھولے ہوئے ہیں