ہم تو چاہت میں امیدوں کے پجاری ٹھہرے
ہم تو چاہت میں امیدوں کے پجاری ٹھہرے
وہ اسی دشت میں جذبات سے عاری ٹھہرے
تیرے وعدوں نے سر شام ہی دم توڑ دیا
جینے مرنے کے سبھی عہد جو بھاری ٹھہرے
راہ الفت میں بچھے پھول تمہاری قسمت
جو بھی درپیش ہو مشکل وہ ہماری ٹھہرے
اک جھلک مجھ کو ہے مطلوب زمانے والو
اس زیاں خانے کی ہر چیز تمہاری ٹھہرے