ہم نہیں عہد ملاقات سے ٹلنے والے
ہم نہیں عہد ملاقات سے ٹلنے والے
آج ہیں گیسوئے خم دار سنورنے والے
اب تری دید کی خاطر یہ مجھے لگتا ہے
تیرے عشاق ہیں آپس میں الجھنے والے
اک ستم یہ کہ ادب سے بھی لگن رکھتے ہیں
میری غزلوں کی پذیرائی پہ جلنے والے
میں نے چاہا تھا کروں بات کوئی میں لیکن
میرے احباب نہیں بات نگلنے والے
رینگ کر آئیں گے یہ میرے گریبان تلک
آستینوں میں نہیں ناگ یہ پلنے والے
جو ترا ساتھ نبھانے کی قسم کھاتے ہیں
وہ ترے یار ہیں وعدوں سے مکرنے والے