ہم اچھے مضامین کو غارت نہیں کرتے

ہم اچھے مضامین کو غارت نہیں کرتے
بچوں کی طرح ایسی شرارت نہیں کرتے


غزلوں کی تو ہر طرح سے کرتے ہیں حفاظت
بھولے سے بھی نظموں کی تجارت نہیں کرتے


ڈھہ جائے جو اک ریت کی دیوار کی صورت
تعمیر ہواؤں میں عمارت نہیں کرتے


سہہ لیتے ہیں دانستہ بھی حالات کے دھکے
لیکن شہ جابر کی سفارت نہیں کرتے


گزری جو صدی تیری تھی اب میری ہے میری
غالب سے یہ کہنے کی جسارت نہیں کرتے


اردو کے کچھ ایسے بھی سخنور ہیں جو ناشادؔ
اردو میں کلام اپنا عبارت نہیں کرتے