ہاتھ پھیلائے تھے تم نے مجھ کو تنہا دیکھ کر
ہاتھ پھیلائے تھے تم نے مجھ کو تنہا دیکھ کر
اب خفا ہوتے ہو کیوں زخم تمنا دیکھ کر
چاندنی راتوں میں اکثر اس گلی کے موڑ پر
چونک اٹھتا ہے کوئی اپنا ہی سایہ دیکھ کر
یہ نظر کی تشنگی یہ سلسبیل حسن یار
جی سلگتا ہے لبوں کے پاس دریا دیکھ کر
یاد آ جاتا ہے نا سفتہ امیدوں کا مآل
ڈھلتے سایوں میں گلوں کا رنگ اڑتا دیکھ کر
تھے بہ فیض عشق ہم بھی یوسف بازار مصر
لوٹ کر جاتے کہاں شہر زلیخا دیکھ کر