گزرا ہوا زمانہ پھر یاد آ رہا ہے

گزرا ہوا زمانہ پھر یاد آ رہا ہے
بھولا ہوا فسانہ پھر یاد آ رہا ہے


جو پھول بن گیا ہے ہونٹوں پر اس کے آ کر
وہ حرف محرمانہ پھر یاد آ رہا ہے


جس میں تھے چاند تارے محبوب تھے ہمارے
کیوں وہ نگار خانہ پھر یاد آ رہا ہے


وہ دو دلوں کو جس نے ہم راز کر دیا تھا
وہ راز دلبرانہ پھر یاد آ رہا ہے


جس کی بساط الٹ دی اے سوزؔ آسماں نے
کیوں وہ شراب خانہ پھر یاد آ رہا ہے