گلشن میں ترے حسن کی جب بات چلی ہے

گلشن میں ترے حسن کی جب بات چلی ہے
ٹھہری ہے نظر گل پہ نہ غنچے پہ رکی ہے


رکھتی ہے جگر گرچہ وہ نازک سی کلی ہے
طوفانوں سے کھیلی ہے وہ کانٹوں میں پلی ہے


جو لب پہ نہ آ پائی وہ آنکھوں نے کہی ہے
آنکھیں بھی نہ کہہ پائیں جو وہ دل نے سنی ہے


آ کر ترے در پر مجھے احساس ہوا یہ
بھٹکی ہوئی کشتی مری ساحل سے لگی ہے


کتنے ہی چمن اجڑے ہوئے خاک نشیمن
کیا وقت کی آنکھوں میں کبھی آئی نمی ہے


ایک بوند کو ترسا کوئی ہے پی کے کوئی مست
میخانے کا ساقی ابھی انداز وہی ہے


دیکھا ہے حبیبؔ اس نے جو ایک بار کرم سے
ہر شے مجھے اب پیار سے ہی دیکھ رہی ہے