گل کو بو بلبل کو نغمہ چاہئے

گل کو بو بلبل کو نغمہ چاہئے
اے دل مضطر تجھے کیا چاہئے


نیم شب میں ہو طلوع آفتاب
اے غم دل ایسا نغمہ چاہئے


یہ ستارے قطرۂ شبنم بنیں
سوز دل پر درد نالہ چاہئے


تو بہت اچھا ہے لیکن اے نگار
دل کو کچھ تجھ سے بھی اچھا چاہئے


میری ہستی کو عنایت کی نظر
خرمن دہقاں کو شعلہ چاہئے


رمز الفت ہے یہی اہل وفا
آئنہ دل کا شکستہ چاہئے


گیسوئے جاناں اگر سلجھا تو کیا
گیسوئے گیتی سنورنا چاہئے


زندگیٔ خضر کی حاجت نہیں
سر خوشی کا ایک لمحہ چاہئے


دل کی خواہش حاجت درویش ہے
تیرے در سے کچھ تو ملنا چاہئے


میں نسیم صبح ہوں مجھے سے حجاب
اے عروس لالہ ایسا چاہئے


تاجؔ ہے بندہ ترا حسن ازل
کیا بھلا اس سے بھی پردہ چاہئے