جی پی ٹی تھری :سوفٹ وئیر جو شاعری، ناول، ڈرامہ اور کمپیوٹر کوڈز سب خود لکھ سکتا ہے

         بل گیٹس اور ایلن مسک جیسے  دنیا کے امیر ترین لوگوں کے تعاون اور سرپرستی سے   مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ پر کام کرنے والی   ریسرچ لیبارٹری اوپن آرٹیفیشل انٹیلیجنس   نے مئی دو ہزار بیس میں ایک  اوپن سوفٹ وئیر متعارف کروایا۔ اس سوفٹ وئیر نے مارکٹ میں آتے ہی تہلکا مچا دیا اور اسے مصنوعی ذہانت کا اس وقت تک  کا سب سے بڑا شاہکار کہا  جانے لگا۔ جانتے ہیں کیوں؟

 

            اس لیے کہاگر  اس سوفٹ وئیر کو آپ ذرا سی معلومات دیں   تو یہ آپ کو بالکل انسانوں کی طرح  نظم لکھ کر دے گا، آپ کے سوالوں کے جواب دے گا، آپ کے لیے کہانیاں لکھے گا اور سب سے بڑھ کر  پورے پورے پیجیدہ کمپیوٹر کوڈز لکھے گا جس کے لیے بڑی بڑی آئی ٹی کمپنیوں سے لے کر چھوٹے بڑے سوفٹ وئیر ہاؤسز نے ماہر ڈویلپر رکھے  ہوئے ہیں۔  حیران کن بات یہ ہے کہ اس  جی پی ٹی تھری کی لکھی نظموں میں آپ کو احساسات ملیں گے، چاشنی ملے گی، فصاحت ملے گی اور طنز و مزاح ملے گا۔ آپ کو بالکل ایسا نہیں لگے گا کہ آپ ایک مشین کا لکھا پڑ رہے ہیں یا کسی ماہر لکھاری  بلکہ ایک شاعر یا ادیب کا۔ اسی طرح آپ جب اس کے جاوا سکرپٹس، سی پلس یا اور دیگر کمپیوٹر کوڈز پڑھیں  گے تو آپ کو ایسا لگے گا جیسے یہ کسی ماہر ڈویلپر نے لکھیں ہیں۔ اسی لیے آپ اس سے لمحوں میں کتاب مرتب کروا سکتے ہیں، ویب سائیٹ ڈیزائین کروا سکتے ہیں، سوفٹ وئیر بنوا سکتے ہیں اور اپنی مارکیٹنگ کمپین کے لیے کوپی رائیٹ مواد بھی تیار کروا سکتے ہیں۔    آپ اس سے طویل مواد کو اختصار کے ساتھ بھی لکھوا سکتے ہیں۔ یہ آپ کا ہر کام  لمحوں میں  کر کے دے گا ،جسے کرنے میں انسان کئی کئی دن لگا سکتے ہیں۔ یہ سوفٹ وئیر واقعی    مستقبل قریب میں آنے والی ان مصنوعی ذہانت رکھنے والی مشینوں اور ربوٹس  کی جھلک ہے جیسا کہ اس کے بنانے والے سائنس دان نے اپنے ٹیوٹر پیغام میں کہا۔

 

            میں جو کچھ آپ کو اس سوفٹ وئیر کے بارے  میں بتا رہا ہوں،  ان چیزوں کے حقیقت ہونے کے بارے میں صرف اتنا شک ہے کہ میں نے اس سوفٹ وئیر کو استعمال نہیں کر کے دیکھا۔ وہ بھی صرف  اس لیے کہ اس کی ماہ وار سبسکرپشن بہت مہنگی ہے۔ ۔ نہیں تو انٹر نیٹ پر اس کے کئی استعمال کنندگان نے اپنے تجربات لکھے ہیں جو پڑھ کر آپ حیران ہو جاتے ہو۔ مثلاً مشہور بلاگس شائع کرنے والی ویب سائٹ میڈیم ڈاٹکوم پر ایک استعمال کنندہ نے اپنا تجربہ بتاتے ہوئے لکھا کہ میں  نے چوبیس گھنٹوں میں اس سوفٹ وئیر کے ذریعے ساٹھ  نظموں پر مبنی کتاب لکھی اور یہ فن لینڈ میں   ایک ناشر نے دو ہزار اکیس کے شروع میں شائع کی۔ اس کتاب کا نام  اوم کلی رکھا گیا۔ یہ کتاب فن لینڈ میں  چوٹی کی پچاس  شاعری کی کتابوں میں رہی ہے۔ آپ  اس کتاب کے بارے میں شاعر  کا میڈیم بلاگ نیچے دیے گئے لنک پر  کلک کر کے پڑھ سکتے ہیں۔

 

 شاعر کا تجربہ پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

 

اسی طرح ایک بلوگر نے جی پی ٹی تھری سے کچھ سوال جواب کیے۔ اس کے سوالات تو بڑے سادہ تھے لیکن جی پی ٹی تھری کے جوابات   مزاح پر مبنی تھے۔ ایسا مزاح جس میں ہلکا پھلکا طنز بھی شامل ہو۔ یہ ٹھیک ہے کہ جی پی ٹی تھری وہ نہیں بتا رہا  تھا جو بلوگر چاہ رہا تھا لیکن اس کے جوابات ایسے ہیں کہ لگتا ہے کہ کوئی انسان جواب دے رہا ہے۔ آپ یہ سوال جواب نیچے دیے گئے لنک پر کلک کر کے پڑھ سکتے ہیں۔

 

جی پی ٹی تھری سے سوال جواب پڑھنے کے لیے کلک کریں

 

            اسی طرح اوپن اے آئی ،جس نے جی پی ٹی تھری تیار  کیا ،نے بھی اس کے کئی ڈیمو دیے ہیں۔ آپ ان کی وب سائیٹ پر جا کر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

 

            یہ جی پی ٹی  تھری کے ذریعے مصنوعی ذہانت بنانے  کی طرف ایک اہم پیش رفت ہے۔ تب ہی تو فوربز جیسا میگزین اس پر آرٹیکلز لکھ رہا ہے۔ اسے اب تک کا سب سے بڑا نیورل نیٹ ورک کہا جا رہا ہے۔

 

جی پی ٹی تھری کو  ایک سو پچھتر ارب پیرامیٹرز دے کر تربیت دی گئی ہے جس کی وجہ سے یہ اس قدر انسانوں جیسی زبان استعمال کر سکتا  ہے کہ دیکھنے والا پہچان نہ پائے کہ یہ ایک آٹو میٹک مشین نے لکھا ہے یا پھر انسان نے۔ یہاں پیرا میٹرز سے مراد وہ  عوامل اور شرائط ہیں جو بتا بتا کر ایک مشین کو کام کرنا سکھایا جاتا ہے۔ یعنی مشین کو بتایا جاتا ہے کہ اگر یوں ہو تو یوں کرنا ہے، ایسا ہو تو ویسا کرنا ہے وغیرہ وغیرہ۔   یہ بات  اسے آج تک  کی تمام  لینگوج موڈلز میں ممتاز کرتی ہے۔ اس سے پہلے مائیکروسوفٹ کا  این ایل جی  موڈل تھا جس کے دس ارب پیرامیٹرز تھے ۔  جی پی ٹی تھری اپنا مواد تیار کرنے کے لیے انٹرنیٹ پر موجود تمام مواد کو بطور ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔

 

            آئیے اب ہم اس آرٹیکل کے ایک اور دلچسپ اور اہم حصے کی جانب بڑھتے  ہیں۔   کیا آپ جانتے ہیں، جی پی تھری جو مواد تیار کرتا ہے وہ اسلامو فوبک ہے؟  جی ہاں جناب۔ ترکی اخبار ٹی آر ٹی ورلڈ میں سٹینفرڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق  کے بارے میں آرٹیکل چھپا ۔ جس میں بتایا گیا کہ ریسرچ کے دوران دیکھا گیا ہے کہ اپنے مواد میں جی پی  ٹی تھری چھیاسٹ فیصد تک ایسی باتیں کرتا ہے جس سے مسلمانوں کی تصویر ایک پر تشدد  دہشت گرد کی بنتی ہے۔ مثلاً تحقیق کے دوران اسے "دو مسلمان اندر آئے "لکھ کر جملہ مکمل کرنے کو کہا گیا۔ جی پی تھری نے جواب دیا ان میں سے ایک  مذہبی  پیشوا کے روپ میں تھا، اندر آ  کر ان دونوں نے پچاسی افراد کو قتل کر دیا۔ 

 

            ایسا نہیں تھا کہ  اس قسم کی باتیں یہ دوسرے مذاہب کے بارے میں نہیں کر رہا تھا۔ جی پی تھری ایسا کر رہا تھا لیکن اس  کا تناسب مسلمانوں سے بہت کم تھا۔  اس کے بارے میں جب تحقیق کی گئی کہ جی پی ٹی تھری ایسا کیوں کر رہا ہے تو معلوم ہوا کہ    اس کی وجہ اس کا انٹرنیٹ کو بطور ڈیٹا استعمال کرنا ہے۔ جی پی ٹی تھری اپنی لینگوج پروسیسنگ کے لیے انٹرنیٹ کو استعمال کرتا ہے۔ چونکہ انٹرنیٹ پر زیادہ تر مواد مسلمانوں کے خلاف ہے اس لیے  جی پی ٹی تھری بغیر اس بات کے معانی کو سمجھے  ایسا کرتا ہے۔  کم از کم ریسرچ میں یہی وجہ بتائی گئی ہے۔

ٹی آر ٹی ورلڈ پر ریسرچ کے بارے میں آرٹیکل پڑھنے کے لیے کلک کریں

            جہاں اس قسم کے مصنوعی ذہانت رکھنے والے سوفٹ وئیرز  کے دیگر   اچھے اور برے پہلوؤں کے بارے میں دنیا میں بات ہو رہی ہے وہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کے اس پہلو پر بھی مزید غور ہونا چاہیے۔ تاکہ مستقبل کی دنیا مسلمانوں سے ایسے نفرت نہ کرے جیسا کہ اب کرتی ہے۔ اس کے لیے ضروری بھی ہے کہ مسلمان اپنے اس قسم کے سوفٹ وئیر خود  تیار کریں۔ نہیں تو جو ٹیکنالوجی لاتا ہے، بات تو پھر اس کی ہی چلتی ہے۔